تمام اداروں نے جے آئی ٹی کے الزامات مسترد کر دیئے اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل نے جے آئی ٹی کو درپیش مشکلات کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرا دیا


ویب ڈیسک June 16, 2017
لگتا ہے جے آئی ٹی نے زیادہ وقت ٹاک شوز دیکھنے میں گزارا اور سوشل میڈیا کی بھی بھرپور مانیٹرنگ کی گئی، اٹارنی جنرل۔ فوٹو: فائل

اٹارنی جنرل آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے حکم پر پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کو درپیش مشکلات پر عدالت میں اپنا جواب جمع کرا دیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا ہے کہ تمام اداروں نے جے آئی ٹی کے الزامات کو مسترد کیا ہے، لگتا ہے جے آئی ٹی نے زیادہ وقت ٹاک شوز دیکھنے میں گزارا اور سوشل میڈیا کی بھی بھرپور مانیٹرنگ کی گئی۔ اٹارجی جنرل کے جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ نیب کے مطابق عرفان نعیم منگی کو شوکاز نوٹس بدنیتی پر مبنی نہیں جبکہ آئی بی نے بھی بلال رسول اور ان کی اہلیہ کی فیس بک اکاؤنٹ ہیک کرنے کی تردید کی ہے۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان اشترعلی اوصاف نے پاناما لیکس معاملہ کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کی درخواست پر تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا ہے جس میں عدالت کو بتایا گیا کہ تمام اداروں نے جے آئی ٹی کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سپریم کورٹ میں جمع کروایا گیا جواب چار صفحات پر مشتمل ہے جس کے ساتھ تمام اداروں کی طرف سے اٹارنی جنرل آفس کو بھجوائے گئے جوابات بھی منسلک ہیں۔



اٹارنی جنرل کے جواب میں کہا گیا کہ قومی احتساب بیورو نیب کے مطابق عرفان نعیم منگی کو شوکاز نوٹس بدنیتی پر مبنی نہیں کیونکہ نیب کے مطابق نوٹس دیگر 77 افسران جو بھی جاری کئے گئے ہیں جب کہ ایف بی آر کے مطابق کم سے کم وقت میں جے آئی ٹی کو ریکارڈ فراہم کیا گیا اور ایف بی آر نے اپنے جواب میں کہا کہ جے آئی ٹی کے مراسلے 8، 25، 29 مئی اور 8 جون کو موصول ہوئے۔ جے آئی ٹی نے 8 مئی کوچھ افراد کی 1985 کے بعد کی انکم، ویلتھ ٹیکس ریٹرن مانگی جس پر 2 افراد کا 1985 سے اب تک کا ریکارڈ 7 دن میں فراہم کر دیا جب کہ باقی 4 افراد نے اس مدت کے بعد سے ٹیکس ریٹرن فائل کیں ، ان کا ریکارڈ بعد کے سالوں سے فراہم کیا گیا۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی نے25مئی کومزید 10 افراد کا ریکارڈ مانگا تو ان 10 افراد کا ریکارڈ 5 دن کے اندر فراہم کر دیا گیا۔

اٹارنی جنرل کو بتایا گیا کہ جے آئی ٹی نے 29مئی کو 6افراد کا ریکارڈ دوبارہ بھجوانے کی ہدایت کی جس پر 6 افراد کا ریکارڈ 3 دن کے اندر دوبارہ بھجوا دیا گیا ،ایف بی آر کے جواب میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی نے8 جون کو مزید ایک شخص کا ریکارڈ مانگا اور 8 جون کو 1974سے بعد کا ٹیکس ریکارڈ دینے کی ہدایت کی گئی یہ ریکارڈ جے آئی ٹی تک پہنچا دیا گیا۔ ایف بی آر کے مطابق جے آئی ٹی نے ریکارڈ مختلف اوقات میں مانگا اس لئے ٹکڑوں میں فراہم کیا گیا تاہم کچھ ریکارڈ ایف بی آر میں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے پیش نہ کیا جا سکا۔ ایف بی آر نے کہا ہے کہ بعض ادوار میں انفرادی طور پر ویلتھ ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کا قانون ہی نہیں تھا اس لئے ان ادوار میں کچھ افراد بطور ٹیکس دہندہ رجسٹرڈ ہی نہیں تھے، بعض افراد نے کچھ سالوں میں ریٹرن فائل نہیں کیں ۔ایف بی آر کے مطابق 2001 کے بعد ویلتھ ٹیکس کا قانون ہی ختم ہوگیا اور ادارہ پہلے دن سے جے آئی ٹی سے مکمل تعاون کر رہا ہے۔



سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا کہ قانون کے تحت ٹیکس دہندگان صرف 6 سال کا ریکارڈ رکھنے کے پابند ہیں جب کہ ایف بی آر نے ذیلی دفاتر کو کئی مرتبہ پرانا ریکارڈ تلف کرنے کی ہدایت کی ہے تاہم ایف بی آر نے جے آئی ٹی کوجواب میں یہ نکتہ نہیں اٹھایا اور ادارے نے پرانا ریکارڈ تلاش کرنے کیلئے خصوصی افسران نامزد کئے، سینئر کمشنر نے خود جا کر جے آئی ٹی کو ریکارڈ پیش کیا،ایف بی آر کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایف بی آر سے متعلق موقف درست نہیں۔

اٹارنی جنرل نےعدالت کو بتایا کہ وزارت قانون نے بھی پاناما لیکس کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے الزامات مسترد کردیئے ہیں۔ وزارت قانون کے مطابق عدالتی احکامات پر دو دن میں عملدرآمد کر دیا تھا، نیب آرڈیننس 1999کے سیکشن 21کے تحت جے آئی ٹی کے چیئرمین کو اختیارات دینے کے حوالے سے معاملہ میں نوٹیفیکیشن کے اجرا میں تاخیر کے حوالے سے لگائے گئے الزام کی سختی سے تردید کی جاتی ہے، جس میں کہا گیا کہ وزارت دفاع کی طرف سے تاخیر کی گئی حقیقت یہ ہے کہ نوٹیفیکیشن کے اجرا کے حوالے سے سپریم کورٹ کا حکم ملنے کے بعد دو روز میں عمل کیا گیا۔ 15 مئی کا عدالتی حکم اٹارنی جنرل نے16مئی کو وزارت قانون کو پہنچایا کیوں کہ نوٹیفیکیشن وفاقی حکومت نے جاری کرنا تھا، معاملے کی فوری نوعیت کے باعث سرکیولیشن کے ذریعے سمری 17مئی کو کابینہ کی منظور کیلئے بھجوائی گئی۔ وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد 18 مئی کو نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا اس نوٹیفکیشن کی کاپیاں چیئرمین جے آئی ٹی، رجسٹرار سپریم کورٹ، اٹارنی جنرل اور سیکرٹری داخلہ کو بھجوائی گئیں۔



چیئرمین جے آئی ٹی نے 18مئی کو نوٹیفیکیشن وصول کرنے کے بعد وزارت قانون سے درخواست کی کہ نوٹیفیکیشن تمام متعلقہ لوگوں کو بھجوایا جائے۔ بیان کے مطابق جے آئی ٹی کا 18 مئی کا خط اسی روز وزارت داخلہ وخارجہ کوبھجوایا گیا، وزارت قانون نے خط پرکوئی تاخیر نہیں کی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ تفصیلات ثابت کرتی ہیں کہ وزارت قانون و انصاف نے اپنے ذمہ تمام امورکے حوالے سے تمام ممکن اقدامات جلد از جلد اٹھائے اس لئے جے آئی ٹی کی طرف سے لگائے گئے تمام الزامات غیر منصفانہ ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ انٹیلی جنس بیورو( آئی بی) نے بھی جے آئی ٹی کے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بلال رسول اور ان کی اہلیہ کے فیس بک اکائونٹ ہیک نہیں کیے گئے۔

اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں عدالت کو بتایا گیا ہے کہ ایس ای سی پی کے مطابق تمام ریکارڈ بروقت فراہم کیا گیااور جے آئی ٹی کا ریکارڈ میں ٹمپرنگ کا الزام بھی مسترد کیا گیا، سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی کے الزامات حقائق کے منافی ہیں۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم آفس نے موقف اپنایا ہے کہ جے آئی ٹی ثبوت فراہم کرے،جے آئی ٹی کی طرف سے گواہان کی مانیٹرنگ اور فون ٹیپنگ آئین وقانون کی خلاف ورزی ہے۔



دوسری جانب اٹارنی جنرل نے اپنے جواب میں مزید کہا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس نے سمن لیک نہیں کیے، یہ کام خود جے آئی ٹی کا ہوگا،جب کہ پارٹی رہنما نہال ہاشمی کو دھمکی آمیز تقریر پر پارٹی سے نکال دیا گیا، جواب میں عدالت کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ عدالتی احکامات پر من و عن عمل کیا جائے گا تاہم عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ عدالت جے آئی ٹی کو شفافیت اور فئیر پلے کا حکم دے، کیونکہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جے آئی ٹی نے زیادہ وقت ٹاک شوز دیکھنے میں گزارا اور سوشل میڈیا کی بھی بھرپور مانیٹرنگ کی گئی ہے۔اٹارنی جنرل آفس نے تمام اداروں کی جانب سے بھجوائے گئے جوابات کی نقول بھی عدالت عظمی میں جمع کرائی گئی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں