کارپوریٹ اختیارات کا غلط استعمال
بورڈ کا اجلاس ایک متعین مدت کے بعد ہوتا ہے جس میں تجاویز کی توثیق کی جاتی ہے
سیاست دان، سرکاری حکام، عدلیہ سمیت دیگر سطحوں پر احتساب کی ضرورت ہے، لیکن اکثر ایسا نہیں ہوپاتا۔ وزیر اعظم کی پاناماگیٹ معاملے میں جے آئی ٹی کے سامنے پیشی، عدلیہ کی جانب سے حکمرانوں کو قانون کا پابند کرنے کے عزم کا واضح اظہار ہے۔ جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں حکومتی اداروں کی جانب سے تحقیقات میں عدم تعاون، ریکارڈ میں تبدیلی یا تحریف اور تاخیری حربے استعمال کرنے کی شکایت کی ہے۔ اگرچہ آپ کسی غیر آئینی راستے سے وزیر اعظم کی برطرفی کے شدید ترین مخالف ہی کیوں نہ ہوں، لیکن جوں جوں جے آئی ٹی تحقیقات آگے بڑھ رہی ہیں، ''تذبذب'' میں اضافہ ضرور ہورہا ہے۔عدالت اور جے آئی ٹی کے خلاف مہم ان حلقوں کے موقف کو جواز فراہمی کرنے کے مترادف ہے، جو سمجھتے ہیں کہ ریاستی ادارے حکمران خاندان کو تحفظ دینے کے لیے استعمال نہ ہوں اس لیے یہ تحقیقات ایک نگران حکومت کی موجودگی میں ہونی چاہییں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف گورننس ایک بہترین ادارہ ہے جہاں موجودہ اور مستقبل میں کسی ادارے کے بورڈ آف گورننس کے ارکان بننے والوں کو بڑے مسائل حل کرنے کے لیے انتظامی اور فیصلہ سازی سے متعلق تعلیم دی جاتی ہے۔ اپنے ادارے میں مالی احتساب، نگرانی اور معاشی طور پر استحکام کے لیے نظام وضح کرنا کسی بھی ادارے بورڈ ممبران کی ذمے داریوں میں شامل ہوتا ہے۔ کسی ادارے کے بورڈ کو اپنی ذمے داریاں معروضیت، دیانت اور اپنی اہلیت و قابلیت کے بھرپور استعمال کے ساتھ ادا کرنی ہوتی ہیں۔
پی آئی سی جی کی بہترین کاوشوں کے باوجود پاکستان کے مالیاتی اداروں میں بدعنوانی اور بدانتظامی موجود ہے۔ کارپوریٹ پاور کا غلط استعمال کرکے ٹیکس چوری، رشوت ستانی، خورد برد، غلط بیانی اور کھاتوں میں ردّوبدل جیسی سرگرمیاں جاری ہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں یا متعلقہ ادارے بھی اس ''وائٹ کالر کرائم'' کے مرتکب افراد کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لاتے۔ کسی بھی ادارے کے بورڈ کا ممبر اپنے فرائض سے پہلو تہی کرے اور اس سے کمپنی کو کوئی نقصان پہنچے تو اس کی ذمے داری اس ممبر پر بھی عاید ہوتی ہے۔
بورڈ کا اجلاس ایک متعین مدت کے بعد ہوتا ہے جس میں تجاویز کی توثیق کی جاتی ہے۔ کام کے دباؤ کے اعتبار سے بہت کم ہی وقت میسر ہوتا ہے۔ انتظامیہ کے آمدنی و اخراجات کی شرح کے اعتبار سے غیر مساوی اخراجات کی (کمیٹی کی نگرانی کے ذریعے) روک تھام بورڈ ارکان پر لازم ہے۔ پانچ سے دس فی صد تک تو قابل قبول ہے لیکن جہاں اوسط ہی پچیس فی صد تک پہنچ چکی ہو تو کیا کیا جائے؟ کسی بھی مالی ادارے کا سی ای او ادارے پر اثر انداز ہونے کے لیے اپنے قابل اعتماد دوستوں کو کھلی چھٹی دیتا ہے تو ایسے افراد کو وائٹ کالر کرائم میں شریک ہونے کے باعث جیل بھیج دینا چاہیے۔
ایک معروف امریکی کمپنی کے سی ای او نے ایگزیکیوٹیوز کی ایسے ٹیم بنائی جس نے حساب کتاب میں ہیر پھیر کرکے کئی ناکام معاہدوں اور منصوبوں کے گوشواروں میں بھی اربوں روپوں کا فائدہ ظاہر کیا۔ ان ایگزیکیوٹیوز نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سامنے گمراہ کن اعداد و شمار رکھے۔ فنکاری دکھانے والوں میں سے اکثر کو غبن کے جرم میں سزا بھگتنی پڑی۔ اس ''تخلیقی فریب کاری'' کے نتیجے میں آڈیٹ کے شعبے کی ایک بین الاقوامی غیر معمولی کمپنی کی بقا کا سوال پیدا ہوگیا۔ کیا کبھی پاکستان میں کسی آڈیٹ فرم یا اس شعبے سے متعلقہ افراد کے خلاف ایسی کوئی کارروائی کی گئی؟
ملک بھر میں مٹھی بھر افراد ہی ایسے ہیں جنھیں 1999ء سے 2002ء کے مابین نیب کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے سہولت کاروں کے ساتھ مل کر کمرشل بینکوں کے قومیائے جانے کے عمل میں اپنے اثرورسوخ کا استعمال کر کے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔
بینکوں میں ایماندار افراد کی بڑی تعداد بھی کبھی جبر تو کبھی معاشی اور ذاتی مفاد کے باعث خلاف ضابطہ سرگرمیوں میں ملوث ہوئی۔
بعض بینکاروں نے ''اوپر کا اشارہ'' ملتے ہی کھلی چھٹی سے خوب فائدہ اٹھایا۔
ایک نامور اور اپنے کام میں مہارت کی شہرت رکھنے والی آڈٹ فرم کس طرح فریب کاری کی ان کارروائیوں پر آمادہ ہوجاتی ہے؟بینک میں غبن ہوتے ہیں لیکن ان کا سراغ اسی وقت نہیں لگ پاتا جب آڈٹ فرم بھی اس میں ملوث نہ ہوجائے۔
بد دیانت بینکر اب نان بینکنگ ٹرانزیکشنز کے ذریعے مال بناتے ہیں۔ تفریح، سفر، انتظامات، اشتہاری اخراجات، دھوکا دہی کی اسکیم، بیروں ملک پرُتعیش قیام جیسی مدات میں ہونے والے اخراجات کو ''دیگر'' کے خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ان سرگرمیوں اور کارستانیوں سے چشم پوشی کرنے والی آڈٹ فرم بھی وائٹ کالر کرائم کی مرتکب ہوتی ہے۔
مالیاتی امور میں احتساب کے لیے نیب کے فنانشل کرائمز انویسٹی گیشن ونگ(ایف سی آئی ڈبلیو) کو نیب کے اندر ہی انتظامی طور پر آزاد حیثیت میں فعال کرنے کی ضرورت ہے۔
''کریڈٹ کنٹرول'' وار ''ریکوری'' وسیع تجربہ رکھنے والے ریٹائرڈ بینکرز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لیکن ان میں سے کئی کریئر آگے بڑھانے کی آس میں ہوتے ہیں۔ اس لیے اصول یہ بنایا جائے کہ کسی بھی حاضر سروس بینکار کو ایف سی آئی ڈبلیو میں ملازمت نہ دی جائے۔ اچھی ساکھ اور شفاف ماضی رکھنے والے بینکار ہی اس میں شامل کیے جائیں۔
بددیانت عموماً ''کلائنٹ پیٹرن'' تعلقات کی وجہ سے بچ نکل جاتے ہیں۔
ایک مالیاتی ادارے کے سی ای او کو تین ماہ کے اندر اندر مستعفی ہونے کے لیے کہا گیا، یہ وقت ''ذاتی مسائل'' حل کرنے کے لیے دیا گیا تھا۔ تین ماہ کی مہلت حاصل ہونے کے بعد اس نے اپنے تعلقات استعمال کرکے ایک انتہائی اہم تعیناتی حاصل کرلی۔
کسی بھی بااختیار کے لیے، کارپوریٹ ذمے داریوں کا غلط استعمال کرنے والوں کو، بے نقاب کرنا سب سے بڑی آزمائش ہے۔ چاہے ایسے کرنے والوں کے ذاتی مفاد ہوں یا درپردہ کچھ اور مقاصد ہوں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف گورننس ایک بہترین ادارہ ہے جہاں موجودہ اور مستقبل میں کسی ادارے کے بورڈ آف گورننس کے ارکان بننے والوں کو بڑے مسائل حل کرنے کے لیے انتظامی اور فیصلہ سازی سے متعلق تعلیم دی جاتی ہے۔ اپنے ادارے میں مالی احتساب، نگرانی اور معاشی طور پر استحکام کے لیے نظام وضح کرنا کسی بھی ادارے بورڈ ممبران کی ذمے داریوں میں شامل ہوتا ہے۔ کسی ادارے کے بورڈ کو اپنی ذمے داریاں معروضیت، دیانت اور اپنی اہلیت و قابلیت کے بھرپور استعمال کے ساتھ ادا کرنی ہوتی ہیں۔
پی آئی سی جی کی بہترین کاوشوں کے باوجود پاکستان کے مالیاتی اداروں میں بدعنوانی اور بدانتظامی موجود ہے۔ کارپوریٹ پاور کا غلط استعمال کرکے ٹیکس چوری، رشوت ستانی، خورد برد، غلط بیانی اور کھاتوں میں ردّوبدل جیسی سرگرمیاں جاری ہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں یا متعلقہ ادارے بھی اس ''وائٹ کالر کرائم'' کے مرتکب افراد کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لاتے۔ کسی بھی ادارے کے بورڈ کا ممبر اپنے فرائض سے پہلو تہی کرے اور اس سے کمپنی کو کوئی نقصان پہنچے تو اس کی ذمے داری اس ممبر پر بھی عاید ہوتی ہے۔
بورڈ کا اجلاس ایک متعین مدت کے بعد ہوتا ہے جس میں تجاویز کی توثیق کی جاتی ہے۔ کام کے دباؤ کے اعتبار سے بہت کم ہی وقت میسر ہوتا ہے۔ انتظامیہ کے آمدنی و اخراجات کی شرح کے اعتبار سے غیر مساوی اخراجات کی (کمیٹی کی نگرانی کے ذریعے) روک تھام بورڈ ارکان پر لازم ہے۔ پانچ سے دس فی صد تک تو قابل قبول ہے لیکن جہاں اوسط ہی پچیس فی صد تک پہنچ چکی ہو تو کیا کیا جائے؟ کسی بھی مالی ادارے کا سی ای او ادارے پر اثر انداز ہونے کے لیے اپنے قابل اعتماد دوستوں کو کھلی چھٹی دیتا ہے تو ایسے افراد کو وائٹ کالر کرائم میں شریک ہونے کے باعث جیل بھیج دینا چاہیے۔
ایک معروف امریکی کمپنی کے سی ای او نے ایگزیکیوٹیوز کی ایسے ٹیم بنائی جس نے حساب کتاب میں ہیر پھیر کرکے کئی ناکام معاہدوں اور منصوبوں کے گوشواروں میں بھی اربوں روپوں کا فائدہ ظاہر کیا۔ ان ایگزیکیوٹیوز نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سامنے گمراہ کن اعداد و شمار رکھے۔ فنکاری دکھانے والوں میں سے اکثر کو غبن کے جرم میں سزا بھگتنی پڑی۔ اس ''تخلیقی فریب کاری'' کے نتیجے میں آڈیٹ کے شعبے کی ایک بین الاقوامی غیر معمولی کمپنی کی بقا کا سوال پیدا ہوگیا۔ کیا کبھی پاکستان میں کسی آڈیٹ فرم یا اس شعبے سے متعلقہ افراد کے خلاف ایسی کوئی کارروائی کی گئی؟
ملک بھر میں مٹھی بھر افراد ہی ایسے ہیں جنھیں 1999ء سے 2002ء کے مابین نیب کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے سہولت کاروں کے ساتھ مل کر کمرشل بینکوں کے قومیائے جانے کے عمل میں اپنے اثرورسوخ کا استعمال کر کے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔
بینکوں میں ایماندار افراد کی بڑی تعداد بھی کبھی جبر تو کبھی معاشی اور ذاتی مفاد کے باعث خلاف ضابطہ سرگرمیوں میں ملوث ہوئی۔
بعض بینکاروں نے ''اوپر کا اشارہ'' ملتے ہی کھلی چھٹی سے خوب فائدہ اٹھایا۔
ایک نامور اور اپنے کام میں مہارت کی شہرت رکھنے والی آڈٹ فرم کس طرح فریب کاری کی ان کارروائیوں پر آمادہ ہوجاتی ہے؟بینک میں غبن ہوتے ہیں لیکن ان کا سراغ اسی وقت نہیں لگ پاتا جب آڈٹ فرم بھی اس میں ملوث نہ ہوجائے۔
بد دیانت بینکر اب نان بینکنگ ٹرانزیکشنز کے ذریعے مال بناتے ہیں۔ تفریح، سفر، انتظامات، اشتہاری اخراجات، دھوکا دہی کی اسکیم، بیروں ملک پرُتعیش قیام جیسی مدات میں ہونے والے اخراجات کو ''دیگر'' کے خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ان سرگرمیوں اور کارستانیوں سے چشم پوشی کرنے والی آڈٹ فرم بھی وائٹ کالر کرائم کی مرتکب ہوتی ہے۔
مالیاتی امور میں احتساب کے لیے نیب کے فنانشل کرائمز انویسٹی گیشن ونگ(ایف سی آئی ڈبلیو) کو نیب کے اندر ہی انتظامی طور پر آزاد حیثیت میں فعال کرنے کی ضرورت ہے۔
''کریڈٹ کنٹرول'' وار ''ریکوری'' وسیع تجربہ رکھنے والے ریٹائرڈ بینکرز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لیکن ان میں سے کئی کریئر آگے بڑھانے کی آس میں ہوتے ہیں۔ اس لیے اصول یہ بنایا جائے کہ کسی بھی حاضر سروس بینکار کو ایف سی آئی ڈبلیو میں ملازمت نہ دی جائے۔ اچھی ساکھ اور شفاف ماضی رکھنے والے بینکار ہی اس میں شامل کیے جائیں۔
بددیانت عموماً ''کلائنٹ پیٹرن'' تعلقات کی وجہ سے بچ نکل جاتے ہیں۔
ایک مالیاتی ادارے کے سی ای او کو تین ماہ کے اندر اندر مستعفی ہونے کے لیے کہا گیا، یہ وقت ''ذاتی مسائل'' حل کرنے کے لیے دیا گیا تھا۔ تین ماہ کی مہلت حاصل ہونے کے بعد اس نے اپنے تعلقات استعمال کرکے ایک انتہائی اہم تعیناتی حاصل کرلی۔
کسی بھی بااختیار کے لیے، کارپوریٹ ذمے داریوں کا غلط استعمال کرنے والوں کو، بے نقاب کرنا سب سے بڑی آزمائش ہے۔ چاہے ایسے کرنے والوں کے ذاتی مفاد ہوں یا درپردہ کچھ اور مقاصد ہوں۔