میں اور مسرور انور پہلا حصہ
اس کے قلم میں بڑی روانی تھی پھر یوں ہوا کہ ریڈیو کراچی سے الگ سے کمرشل پروگرام پیش کرنے کی سمری بنائی گئی
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اور مسرور انور دونوں گورنمنٹ ٹیکنیکل ہائی اسکول جیکب لائن میں پڑھتے تھے۔ میرا نام سید یونس علی تھا میں ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا اور مسرور انور کا نام انور علی تھا اور وہ نویں جماعت میں تھا۔ انور علی اسکول کے میگزین کا ایڈیٹر تھا جب میں آٹھویں جماعت میں آیا تو میں نے بھی اسکول میگزین کے لیے پہلی بار ایک نظم لکھی پہلے اپنی کلاس کے چند دوستوں کو سنائی وہ بولے یار! یہ نظم تم اسکول میگزین کے لیے انور علی کو دے دو، میگزین میں یہ نظم چھپے گی تو مزا آئے گا کیونکہ وہ نظم ہی کچھ ایسی تھی۔ وہ نظم جتنی مجھے یاد ہے وہ قارئین کی دلچسپی کے لیے درج کر رہا ہوں:
میرے مولا میرے ٹیچر کو تو اندھا کردے
کیونکہ ہر بات مری دیکھ لیا کرتا ہے
اگر اندھا نہیں کرتا تو ٹنٹا کردے
کیونکہ لکڑی سے مجھے پیٹ دیا کرتا ہے
اگر ٹنٹا نہیں کرتا ہے تو لنگڑا کردے
کیونکہ ٹھوکر سے کبھی مار دیا کرتا ہے
تو اگر ایسا نہیں کرتا ہے ویسا کردے
جس سے ٹیچر کی نگاہوں میں میری عزت ہو
دور کردے جو کمی مجھ میں ہے میرے مولا
مجھ کو ٹیچر کی نگاہوں میں تو اچھا کردے
علم کی روشنی سے تو مجھے اعلیٰ کردے
اس نظم کو جب میں انور علی کو میگزین میں چھپنے کی غرض سے دے رہا تھا تو دل میں کچھ ڈر بھی محسوس ہو رہا تھا۔ میں نے انور علی سے کہا، کیا یہ نظم میگزین میں چھپ سکتی ہے۔ انور علی نے وہ نظم پڑھی پھر میری طرف غور سے دیکھا۔ مجھے ایک جھرجھری سی آئی میں نے کہا، چلو کوئی بات نہیں انور بھائی! یہ نظم مجھے واپس کردو، یہ سن کر انور علی نے مسکراتے ہوئے کہا ، تم تو چھپے رستم ہو، نظم بھی کہہ دی ٹیچر پہ چوٹ بھی کردی اور آخری دو اشعار لکھ کر دامن بھی بچا گئے۔ میں یہ نظم میگزین میں ضرور شایع کروں گا ، پھر وہ نظم اسکول میگزین میں چھپی تھی اور کسی ٹیچر نے بھی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا تھا پھر جب میں نویں کلاس میں آیا تو اسکول میگزین کے شعبہ ادارت میں مجھے بھی شامل کرلیا گیا تھا۔ اس طرح انورعلی کی حوصلہ افزائی سے میرے شعری سفر کا آغاز ہوا تھا۔ جب اسکول میں دسویں کلاس کو نویں کلاس نے الوداعی پارٹی دی تھی تو انور علی کی دوستی کی وجہ سے میں نے بھی شرکت کی تھی۔ وہاں میں نے پہلی بار ایک غزل پڑھی تھی جس کے دو اشعار اب بھی مجھے یاد ہیں۔
نفرت ہے مجھ کو اس طرح انگلش حساب سے
زاہد کو جس طرح سے ہے نفرت شراب سے
شاخوں پہ تھوڑی دیر تمہاری ہے زندگی
کانٹوں نے مسکرا کے کہا ہر گلاب سے
انور علی میٹرک کے بعد نیشنل کالج چلا گیا تھا اور میں میٹرک کرنے کے بعد اسلامیہ کالج میں آگیا تھا۔ پھر جب ہم دونوں کی کافی عرصے بعد کراچی ریڈیو اسٹیشن پر ملاقات ہوئی تو انور علی، مسرور انور ہوگیا تھا اور میں سید یونس علی سے یونس ہمدم بن چکا تھا۔
میں نوجوانوں کے پروگرام ''جواں فکر'' اور بزم طلبا کے پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا۔ مسرور انور ریڈیو کے لیے مختلف قسم کے پروگرام لکھا کرتا تھا اور شعر و شاعری میں بھی اس کاکافی عمل دخل تھا۔ ان دنوں 14 اگست اور 23 مارچ کے مواقع پر جید اور مشہور شاعروں کے مشاعروں کی محفلوں کے ساتھ ریڈیو سے نئی نسل کے نوجوان شاعروں کے بھی الگ سے پروگرام ہوتے تھے اور ''جواں فکر'' پروگرام میں کالجوں کے طلبا اور طالبات کے درمیان شعر و شاعری کے مقابلے بھی ہوا کرتے تھے اور خاص طور پر ''بزم طلبا'' پروگرام کی تو بڑی دھوم تھی جب کہ سینئر پروڈیوسر شجیع صاحب اور یاور مہدی کی کاوشوں کو بڑا دخل تھا۔ اور پھر ''بزم طلبا'' پروگرام ہی سے شہرت پاکر کئی نوجوان لائم لائٹ میں آئے تھے اور پھر بطور ریڈیو پروڈیوسر انھوں نے بڑا نام پیدا کیا۔ ان دنوں ریڈیو سے فلمی گیتوں کے پروگرام بھی پیش کیے جاتے تھے اور مسرور انور بہت سے فلمی پروگراموں کے اسکرپٹ بھی لکھا کرتا تھا۔
اس کے قلم میں بڑی روانی تھی پھر یوں ہوا کہ ریڈیو کراچی سے الگ سے کمرشل پروگرام پیش کرنے کی سمری بنائی گئی۔ وہ منظور ہوگئی اور چند ماہ بعد کراچی سے کمرشل سروس کا آغاز کردیا گیا۔ شروع شروع میں تو اس کا دفتر بندر روڈ والی بلڈنگ میں تھا مگر پھر کام کے پھیلاؤ کی وجہ سے کمرشل سروس کے لیے الگ دفتر بنادیا گیا تھا اور نیا دفتر انکل سریا ہاسپٹل والی گلی میں ایک چار منزلہ بلڈنگ میں بنایا گیا تھا۔ اب مسرور انور بھی کمرشل سروس کی نئی بلڈنگ کے دفتر ہی میں ملتا تھا۔ کمرشل سروس کا پہلا اناؤنسر قربان جیلانی تھا اور قربان جیلانی کے ساتھ ابتدا میں ثریا شہاب ہوتی تھیں پھر کئی خاتون اناؤنسر آتی اور جاتی رہیں مگر قربان جیلانی اپنی خوبصورت آواز کے ساتھ کمرشل سروس میں اپنا کردار ادا کرتا رہا۔ کمرشل پروگرام بہت زیادہ مقبول ہوچکا تھا اور سارے پاکستان سے ہزاروں سننے والوں کے خطوط کمرشل پروگرام کی پسندیدگی پر آتے تھے اور ان خطوط کو بعض اوقات بوریوں میں بھر کر ضایع کردیا جاتا تھا۔
خطوط لکھنے والوں کی دیوانگی بھی دیدنی ہوتی تھی۔ بے شمار خطوط بڑے ڈیزائن کے ساتھ گوٹا کناری کے ساتھ اور مختلف رنگوں میں لکھے جاتے تھے اور حیرت کی بات ایک یہ بھی تھی کہ انھی خطوط میں بعض خط خون کے قطروں کے ساتھ اور خون سے لکھی تحریروں کے ساتھ بھی ہوتے تھے اور پروگرام پسند کرنے والوں کی محبت کی یہ انتہا ہوتی تھی اور پھول تو تقریباً تمام خطوں ہی کی زینت ہوا کرتے تھے میں اکثر قربان جیلانی اور مسرور انور سے ملنے کمرشل سروس جاتا تھا تو قربان جیلانی مجھے بھی بعض خطوط جو سجے ہوئے اور دلچسپ ہوتے دکھاتا تھا اور میں بھی ان خطوں کی تحریر پڑھ کر بڑا حیران ہوتا تھا کہ کچھ لوگ فلمی گیتوں اور فلمی پروگراموں کے اتنے بھی دیوانے ہوتے ہیں۔
ایک دن مسرور انور نے مجھ سے کہا یار! آج دوپہر کا کھانا ہم سب مل کر کھائیں گے اس دوران قربان جیلانی نے وجہ بتاتے ہوئے کہا ارے بھئی! آج مسرور انور بہت خوش ہے آج اس کی ملاقات ہمارے اداکار بھائی ابراہیم نفیس نے فلمساز اقبال شہزاد سے کرائی ہے اور اس ملاقات میں بحیثیت شاعر موسیقار دیبو بھٹہ جارچاریہ نے بھی مسرور انور کو یقین دلایا ہے کہ وہ کراچی میں بنائی جانے والی فلم ''بنجارن'' میں مسرور انور سے بھی نغمات لکھوائیں گے۔ میں نے یہ سن کر مسرور انور کو دیکھا اور پھر گرم جوشی کے ساتھ اس سے گلے لگ کر کہا یار مسرور انور! اس خبر سے مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ میرا ایک اسکول فیلو اور میرا سینئر شاعر دوست اب فلمی دنیا میں بھی اپنی شاعری کی دھومیں مچائے گا۔ ریڈیو پر صداکار ابراہیم نفیس سے مسرور انور کی بڑی اچھی دوستی تھی ۔
ابراہیم نفیس ان دنوں ریڈیو صداکار سے فلموں کے اداکار بھی بن چکے تھے اور کراچی کی کئی فلموں میں اپنی اداکاری اور صلاحیتوں کے جوہر دکھا چکے تھے۔ ابراہیم نفیس ہی نے فلمساز اقبال شہزاد سے مسرور انور کو بطور شاعر متعارف کرایا تھا کیونکہ ابراہیم نفیس اقبال شہزاد کی فلم ''بنجارن'' میں کام کر رہے تھے۔ فلم ''بنجارن'' کے موسیقار دیبو بھٹہ چاریہ تھے جو ان دنوں ریڈیو پاکستان کراچی کے موسیقی کے پروگراموں سے بھی وابستہ تھے۔ مسرور انور کی دیبو صاحب سے بھی بڑی اچھی دوستی ہوگئی تھی۔ اور موسیقار دیبو نے بھی مسرور انور کے لیے فلمی گیت لکھنے کے لیے راستہ ہموار کیا تھا۔ اس طرح مسرور انور نے فلم ''بنجارن'' کے لیے جو دو ابتدائی گیت لکھے وہ ایک گلوکارہ آئرین پروین کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا جس کے بول تھے:
ماسٹر جی مجھے چھبق پڑھا دو
اور دوسرا گیت مسعود رانا نے گایا تھا جس کے بول تھے:
تیری جوانی اف رے توبہ
فلم ''بنجارن'' میں نیلو اور کمال مرکزی کردار میں تھے فلم اچھی چلی تھی اور اس طرح مسرور انور بھی بحیثیت نغمہ نگار، اپنی پہلی ہی فلم سے خوب چمک گیا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: پچھلے کالم میں نغمہ ''دل دل پاکستان'' کے شاعر شعیب منصور نہیں نثار ناسک تھے۔
میرے مولا میرے ٹیچر کو تو اندھا کردے
کیونکہ ہر بات مری دیکھ لیا کرتا ہے
اگر اندھا نہیں کرتا تو ٹنٹا کردے
کیونکہ لکڑی سے مجھے پیٹ دیا کرتا ہے
اگر ٹنٹا نہیں کرتا ہے تو لنگڑا کردے
کیونکہ ٹھوکر سے کبھی مار دیا کرتا ہے
تو اگر ایسا نہیں کرتا ہے ویسا کردے
جس سے ٹیچر کی نگاہوں میں میری عزت ہو
دور کردے جو کمی مجھ میں ہے میرے مولا
مجھ کو ٹیچر کی نگاہوں میں تو اچھا کردے
علم کی روشنی سے تو مجھے اعلیٰ کردے
اس نظم کو جب میں انور علی کو میگزین میں چھپنے کی غرض سے دے رہا تھا تو دل میں کچھ ڈر بھی محسوس ہو رہا تھا۔ میں نے انور علی سے کہا، کیا یہ نظم میگزین میں چھپ سکتی ہے۔ انور علی نے وہ نظم پڑھی پھر میری طرف غور سے دیکھا۔ مجھے ایک جھرجھری سی آئی میں نے کہا، چلو کوئی بات نہیں انور بھائی! یہ نظم مجھے واپس کردو، یہ سن کر انور علی نے مسکراتے ہوئے کہا ، تم تو چھپے رستم ہو، نظم بھی کہہ دی ٹیچر پہ چوٹ بھی کردی اور آخری دو اشعار لکھ کر دامن بھی بچا گئے۔ میں یہ نظم میگزین میں ضرور شایع کروں گا ، پھر وہ نظم اسکول میگزین میں چھپی تھی اور کسی ٹیچر نے بھی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا تھا پھر جب میں نویں کلاس میں آیا تو اسکول میگزین کے شعبہ ادارت میں مجھے بھی شامل کرلیا گیا تھا۔ اس طرح انورعلی کی حوصلہ افزائی سے میرے شعری سفر کا آغاز ہوا تھا۔ جب اسکول میں دسویں کلاس کو نویں کلاس نے الوداعی پارٹی دی تھی تو انور علی کی دوستی کی وجہ سے میں نے بھی شرکت کی تھی۔ وہاں میں نے پہلی بار ایک غزل پڑھی تھی جس کے دو اشعار اب بھی مجھے یاد ہیں۔
نفرت ہے مجھ کو اس طرح انگلش حساب سے
زاہد کو جس طرح سے ہے نفرت شراب سے
شاخوں پہ تھوڑی دیر تمہاری ہے زندگی
کانٹوں نے مسکرا کے کہا ہر گلاب سے
انور علی میٹرک کے بعد نیشنل کالج چلا گیا تھا اور میں میٹرک کرنے کے بعد اسلامیہ کالج میں آگیا تھا۔ پھر جب ہم دونوں کی کافی عرصے بعد کراچی ریڈیو اسٹیشن پر ملاقات ہوئی تو انور علی، مسرور انور ہوگیا تھا اور میں سید یونس علی سے یونس ہمدم بن چکا تھا۔
میں نوجوانوں کے پروگرام ''جواں فکر'' اور بزم طلبا کے پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا۔ مسرور انور ریڈیو کے لیے مختلف قسم کے پروگرام لکھا کرتا تھا اور شعر و شاعری میں بھی اس کاکافی عمل دخل تھا۔ ان دنوں 14 اگست اور 23 مارچ کے مواقع پر جید اور مشہور شاعروں کے مشاعروں کی محفلوں کے ساتھ ریڈیو سے نئی نسل کے نوجوان شاعروں کے بھی الگ سے پروگرام ہوتے تھے اور ''جواں فکر'' پروگرام میں کالجوں کے طلبا اور طالبات کے درمیان شعر و شاعری کے مقابلے بھی ہوا کرتے تھے اور خاص طور پر ''بزم طلبا'' پروگرام کی تو بڑی دھوم تھی جب کہ سینئر پروڈیوسر شجیع صاحب اور یاور مہدی کی کاوشوں کو بڑا دخل تھا۔ اور پھر ''بزم طلبا'' پروگرام ہی سے شہرت پاکر کئی نوجوان لائم لائٹ میں آئے تھے اور پھر بطور ریڈیو پروڈیوسر انھوں نے بڑا نام پیدا کیا۔ ان دنوں ریڈیو سے فلمی گیتوں کے پروگرام بھی پیش کیے جاتے تھے اور مسرور انور بہت سے فلمی پروگراموں کے اسکرپٹ بھی لکھا کرتا تھا۔
اس کے قلم میں بڑی روانی تھی پھر یوں ہوا کہ ریڈیو کراچی سے الگ سے کمرشل پروگرام پیش کرنے کی سمری بنائی گئی۔ وہ منظور ہوگئی اور چند ماہ بعد کراچی سے کمرشل سروس کا آغاز کردیا گیا۔ شروع شروع میں تو اس کا دفتر بندر روڈ والی بلڈنگ میں تھا مگر پھر کام کے پھیلاؤ کی وجہ سے کمرشل سروس کے لیے الگ دفتر بنادیا گیا تھا اور نیا دفتر انکل سریا ہاسپٹل والی گلی میں ایک چار منزلہ بلڈنگ میں بنایا گیا تھا۔ اب مسرور انور بھی کمرشل سروس کی نئی بلڈنگ کے دفتر ہی میں ملتا تھا۔ کمرشل سروس کا پہلا اناؤنسر قربان جیلانی تھا اور قربان جیلانی کے ساتھ ابتدا میں ثریا شہاب ہوتی تھیں پھر کئی خاتون اناؤنسر آتی اور جاتی رہیں مگر قربان جیلانی اپنی خوبصورت آواز کے ساتھ کمرشل سروس میں اپنا کردار ادا کرتا رہا۔ کمرشل پروگرام بہت زیادہ مقبول ہوچکا تھا اور سارے پاکستان سے ہزاروں سننے والوں کے خطوط کمرشل پروگرام کی پسندیدگی پر آتے تھے اور ان خطوط کو بعض اوقات بوریوں میں بھر کر ضایع کردیا جاتا تھا۔
خطوط لکھنے والوں کی دیوانگی بھی دیدنی ہوتی تھی۔ بے شمار خطوط بڑے ڈیزائن کے ساتھ گوٹا کناری کے ساتھ اور مختلف رنگوں میں لکھے جاتے تھے اور حیرت کی بات ایک یہ بھی تھی کہ انھی خطوط میں بعض خط خون کے قطروں کے ساتھ اور خون سے لکھی تحریروں کے ساتھ بھی ہوتے تھے اور پروگرام پسند کرنے والوں کی محبت کی یہ انتہا ہوتی تھی اور پھول تو تقریباً تمام خطوں ہی کی زینت ہوا کرتے تھے میں اکثر قربان جیلانی اور مسرور انور سے ملنے کمرشل سروس جاتا تھا تو قربان جیلانی مجھے بھی بعض خطوط جو سجے ہوئے اور دلچسپ ہوتے دکھاتا تھا اور میں بھی ان خطوں کی تحریر پڑھ کر بڑا حیران ہوتا تھا کہ کچھ لوگ فلمی گیتوں اور فلمی پروگراموں کے اتنے بھی دیوانے ہوتے ہیں۔
ایک دن مسرور انور نے مجھ سے کہا یار! آج دوپہر کا کھانا ہم سب مل کر کھائیں گے اس دوران قربان جیلانی نے وجہ بتاتے ہوئے کہا ارے بھئی! آج مسرور انور بہت خوش ہے آج اس کی ملاقات ہمارے اداکار بھائی ابراہیم نفیس نے فلمساز اقبال شہزاد سے کرائی ہے اور اس ملاقات میں بحیثیت شاعر موسیقار دیبو بھٹہ جارچاریہ نے بھی مسرور انور کو یقین دلایا ہے کہ وہ کراچی میں بنائی جانے والی فلم ''بنجارن'' میں مسرور انور سے بھی نغمات لکھوائیں گے۔ میں نے یہ سن کر مسرور انور کو دیکھا اور پھر گرم جوشی کے ساتھ اس سے گلے لگ کر کہا یار مسرور انور! اس خبر سے مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ میرا ایک اسکول فیلو اور میرا سینئر شاعر دوست اب فلمی دنیا میں بھی اپنی شاعری کی دھومیں مچائے گا۔ ریڈیو پر صداکار ابراہیم نفیس سے مسرور انور کی بڑی اچھی دوستی تھی ۔
ابراہیم نفیس ان دنوں ریڈیو صداکار سے فلموں کے اداکار بھی بن چکے تھے اور کراچی کی کئی فلموں میں اپنی اداکاری اور صلاحیتوں کے جوہر دکھا چکے تھے۔ ابراہیم نفیس ہی نے فلمساز اقبال شہزاد سے مسرور انور کو بطور شاعر متعارف کرایا تھا کیونکہ ابراہیم نفیس اقبال شہزاد کی فلم ''بنجارن'' میں کام کر رہے تھے۔ فلم ''بنجارن'' کے موسیقار دیبو بھٹہ چاریہ تھے جو ان دنوں ریڈیو پاکستان کراچی کے موسیقی کے پروگراموں سے بھی وابستہ تھے۔ مسرور انور کی دیبو صاحب سے بھی بڑی اچھی دوستی ہوگئی تھی۔ اور موسیقار دیبو نے بھی مسرور انور کے لیے فلمی گیت لکھنے کے لیے راستہ ہموار کیا تھا۔ اس طرح مسرور انور نے فلم ''بنجارن'' کے لیے جو دو ابتدائی گیت لکھے وہ ایک گلوکارہ آئرین پروین کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا جس کے بول تھے:
ماسٹر جی مجھے چھبق پڑھا دو
اور دوسرا گیت مسعود رانا نے گایا تھا جس کے بول تھے:
تیری جوانی اف رے توبہ
فلم ''بنجارن'' میں نیلو اور کمال مرکزی کردار میں تھے فلم اچھی چلی تھی اور اس طرح مسرور انور بھی بحیثیت نغمہ نگار، اپنی پہلی ہی فلم سے خوب چمک گیا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: پچھلے کالم میں نغمہ ''دل دل پاکستان'' کے شاعر شعیب منصور نہیں نثار ناسک تھے۔