شہادت امیر المومنین حضرت علیؓ
حیدرِ کرار کا طرزِ حیات ظلم، جبر، کفر اور نفاق کے لیے موت کا پیغام ہے
تاریخ اسلام شہادتوں سے بھری پڑی ہے لیکن جیسی شہادت کا منظر مسجد کوفہ نے خیر البشر محمد مصطفی ؐ کی محبوب ہستی حضرت علی ابن ابی طالبؓ کے سر اقدس پر ضرب لگنے کے بعد دیکھا، اس کی مثال تاریخ انسانیت پیش کرنے سے قاصر ہے۔ وہ علیؓ جو اپنی ولادت سے رسول ؐکی رحلت تک آزمائش کے ہر گھڑی، جنگ کے ہر میدان اور امور مملکت میں ہادی برحق ؐ محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہے۔ جس علیؓ کے عدل کے بارے میں حضرت عمرؓ نے گواہی دی کہ اگر علیؓ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔
حضرت علی ابن ابی طالبؓ کی زندگی اس بہترین زندگی کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے، جس کا تجربہ دنیائے بشریت آغاز حیات سے اب تک کرتی رہی ہے۔ یہ حیات طیبہ اس انسان کامل کی حیات ہے جو دنیائے انسانیت میں بندگی کا حقیقی مینار ہے، اور ان نایاب انسانوں میں سے ہیں جسے صفحۂ ارضی پر خلیفۃ اﷲ کا خطاب زیب دیتا ہے۔ یہ زندگی کس قدر جاذب پرکشش ہے جو دوستوں کو محبت کی بالا ترین حد اور دشمنوں کو ان سے دشمنی کی منتہیٰ تک پہنچا دیتی ہے۔ علیؓ وہ ذات ہے جن کے بارے میں پیغمبر اسلامؐ کا فرمان ذی شان ہے کہ اے علیؓ، تمہارے سلسلے میں دو طرح کے گروہ ہلاک ہوں گے، ایک وہ جو تم سے دوستی میں افراط و تفریط و زیادتی سے کام لے گا اور دوسرا گروہ وہ ہے جو تم سے بے انتہا دشمنی رکھے گا۔
علیؓ وہ وا حد ہستی ہیں جو بیت اﷲ میں تشریف لائے اور خانہ خدا میں سجدہ خالق کے دوران شہادت کی ضرب کھائی۔ اس وقت تک آنکھ نہ کھولی جب تک آنحضورؐ نے اپنی آغوش میں نہ لے لیا اور علیؓ کو اپنا لعاب دہن دیا اور یوں اپنی ولادت سے رسول ؐ کی رحلت تک آزمائش کے ہر گھڑی، جنگ کے ہر میدان اور امور مملکت میں علیؓ خیر البشر محمد مصطفی ﷺ کے ساتھ رہے۔
آپؓ کی پیشانی کبھی کسی بت کے سامنے نہیں جھکی، اسی لیے آپ کے نام کے ساتھ ''کرم اﷲ وجہ'' لکھا جاتا ہے۔ حضرت علی ابن ابی طالبؓ کے فضائل و کمالات کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا علیؓ کے لیے جتنے فضائل و مناقب ہیں اور کسی کے لیے نہیں۔
آپؓ نے امت میں سب سے پہلے رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ عبادت کا شرف حاصل کیا (سیرت حلبیہ) دعوت ذوی العشیرۃ میں رسولؐ کی تائید و نصرت کا اعلان کیا۔ شب ہجرت کفار مکہ کی پروا نہ کرتے ہوئے کمال جرات مندی کے ساتھ رسول ؐکے بستر پر سوئے۔ مواخات میں رسولؐ نے انہیں اپنا بھائی قرار دیا۔ اسلامی ریاست قائم ہونے کے بعد اس کے تحفظ میں بھی سب سے آگے رہے۔ بدر کے میدان میں کفار کے سرداروں کے غرور کو خاک میں ملایا۔ جنگ احد میں رسولؐ کے لیے سینہ سپر ہوگئے۔ رسول ؐ کے زخموں کا علاج کیا، جنگ خندق میں عمر ابن عبدود جیسے جری کو پچھاڑا۔ خیبر کے ناقابل تسخیر قلعہ کو تسخیر کرکے مرحب جیسے بہادر کو جہنم کی راہ دکھائی۔ علیؓ ہی نے فتح مکہ کے روز رسول ؐ کے کندھوں پر سوار ہوکر خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرکے بت شکن کا اعزاز حاصل کیا۔
سخی ایسے کہ رات بھر باغ میں مزدوری کرکے حاصل ہونے والی جو سے پکنے والی روٹیوں کو عین افطار کے وقت سوالی کو دے دیا اور تین دن ایسا ہی ہوتا رہا۔ رسول اکرم ﷺ علیؓ فاطمہؓ حسنؓ و حسینؓ تین دن بھوکے رہے۔ جس پر سورہ ہل اتی نازل ہوئی۔ (ریاض النضرۃ)
حضرت علیؓ کی زندگی کے اہم ترین نمونوں میں سے ایک آپ کا علم ہے۔ چناںچہ یہ بات زبان زد خاص و عام ہے کہ قرآن مجید اور فرمودات پیمبر ؐکے بعد علیؓ کے کلام سے بہتر کوئی کلام نہیں۔ اور کیوں نہ ہو رسولؐ نے فرمایا میں شہر علم ہوں، علیؓ اس کا دروازہ ہے۔ اور پیمبر ﷺ کو علیؓ پر اس قدر انحصار تھا کہ علیؓ کو حکم دیا اے علیؓ تم لوگوں کو وضو اور سنت کی تعلیم دو۔ (طبقات البریٰ)
خاتم الانبیا ﷺ نے ایک مقام پر ارشاد فرمایا ''علم قضا کو دس حصوں میں تقسیم کیا گیا نو حصے علیؓ کو اور ایک حصہ پوری دنیا میں تقسیم کیا گیا۔ (حلیۃ اولیا جلد اوّل صفحہ 66) یہی وجہ تھی کہ خلیفہ دوم حضرت عمر ابن خطابؓ اپنی خلافت کے دوران علی ابن ابی طالب کرم اﷲ وجہ سے مرجع و منبع علم سمجھتے ہوئے مشکل ترین امور میں ان سے مشاورت حاصل کرتے، اسی لیے کہا کہ خدا عمرؓ کو اس مشکل سے روبہ رو ہونے کے لیے باقی نہ رکھے جسے حل کرنے کے لیے علیؓ موجود نہ ہوں۔
(طبقات جلد 2 صفحہ339 / انساب الاشراف جلد1صفحہ 100)
خود علیؓ کا فرمان ہے کہ ہم اہل بیت اﷲ و رسول ﷺ کے پیغام سے سب سے زیادہ آگاہ ہیں۔ (طبقات الکبریٰ جلد6صفحہ240)۔ایک موقع پر فرمایا کہ جو میں نے رسول اﷲ ﷺ سے سنا، چاہے حدیث ہو یا کچھ اور، اسے فراموش نہیں کیا۔ (انساب الاشراف)
جناب علیؓ کا فرمان ہے کہ خدا کی قسم کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جس کے بارے میں مجھے علم نہ ہو کہ کہاں نازل ہوئی اور کس سلسلے میں نازل ہوئی۔
(انساب الاشراف جلد1صفحہ 99)۔
آپؓ نے فرمایا کہ میں اگر سورہ فاتحہ کی تفسیر لکھنا چاہوں تو 70 اونٹوں کے برابر ہو جائے۔ ( التراتیب الاداریہ جلد3صفحہ183)
علماء کے درمیان عہد قدیم سے یہ بات مشہور ہے کہ علیؓ کے علاوہ کسی اور میں سلونی قبل ان تفکدونی کہنے کی جرات نہ ہوئی۔
(جامع بیان العلم جلد1صفحہ 173)۔
علی ابن طالبؓ کا فرمان ہے کہ ''خدا کی قسم یہ پیوند دار جوتیاں میرے نزدیک تم جیسے لوگوں پر حکومت کرنے سے زیادہ بلند ہیں۔ مگر یہ کہ اس حکومت کے ذریعے کسی حق کو اس کی جگہ قائم کروں یا کسی امر باطل کو اکھاڑ پھینکوں''
اسلام کی یہ عظیم و نمایاں شخصیت جہان علم و فکر اور تاریخ بشری میں ہمیشہ باقی رہنے والی شجاعت، عفت، طہارت اور جرات و عدالت کی تاب ناک روشنی کا یہ آفتاب و ماہ تاب21 رمضان کو کوفہ میں غروب ہوگیا۔ مگر اس کے نظریات و فرمودات و ارشادات آغاز شہادت سے لے کر جب تک دنیا ہے، تب تک حیات انسانی کے مراحل اور راہوں میں جاری و ساری رہیں گے۔
آج بھی علیؓ کا طرز زندگی ظلم و بربریت اور کفر و نفاق کے لیے موت ہے۔ مسلم دنیا جو اس وقت مصائب و آلام میں گرفتار ہے، علی ؓ کی زندگی اختیار کرکے مصائب و آلام پر قابو پا سکتی ہے اور دنیائے شیطانی کو شکست سے دوچار کر سکتی ہے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ امت مسلمہ سیرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؓ پر چلتے ہوئے استعماری قوتوں کے مقابل خیبر شکن جرات کا مظاہرہ کرے۔ عدل و انصاف کی راہ اپنائے اور علم و حکمت کے ساتھ ٹوٹا ہوا رشتہ مضبوطی کے ساتھ جوڑنے کے لیے مدینۃ العلم محمد مصطفی ﷺ کے در پر اپنا سر جھکالے تو کوئی طاقت کلمہ توحید کے پرستاروں کو زیر کرنے میں کام یاب نہیں ہو سکے گی۔
حضرت علی ابن ابی طالبؓ کی زندگی اس بہترین زندگی کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے، جس کا تجربہ دنیائے بشریت آغاز حیات سے اب تک کرتی رہی ہے۔ یہ حیات طیبہ اس انسان کامل کی حیات ہے جو دنیائے انسانیت میں بندگی کا حقیقی مینار ہے، اور ان نایاب انسانوں میں سے ہیں جسے صفحۂ ارضی پر خلیفۃ اﷲ کا خطاب زیب دیتا ہے۔ یہ زندگی کس قدر جاذب پرکشش ہے جو دوستوں کو محبت کی بالا ترین حد اور دشمنوں کو ان سے دشمنی کی منتہیٰ تک پہنچا دیتی ہے۔ علیؓ وہ ذات ہے جن کے بارے میں پیغمبر اسلامؐ کا فرمان ذی شان ہے کہ اے علیؓ، تمہارے سلسلے میں دو طرح کے گروہ ہلاک ہوں گے، ایک وہ جو تم سے دوستی میں افراط و تفریط و زیادتی سے کام لے گا اور دوسرا گروہ وہ ہے جو تم سے بے انتہا دشمنی رکھے گا۔
علیؓ وہ وا حد ہستی ہیں جو بیت اﷲ میں تشریف لائے اور خانہ خدا میں سجدہ خالق کے دوران شہادت کی ضرب کھائی۔ اس وقت تک آنکھ نہ کھولی جب تک آنحضورؐ نے اپنی آغوش میں نہ لے لیا اور علیؓ کو اپنا لعاب دہن دیا اور یوں اپنی ولادت سے رسول ؐ کی رحلت تک آزمائش کے ہر گھڑی، جنگ کے ہر میدان اور امور مملکت میں علیؓ خیر البشر محمد مصطفی ﷺ کے ساتھ رہے۔
آپؓ کی پیشانی کبھی کسی بت کے سامنے نہیں جھکی، اسی لیے آپ کے نام کے ساتھ ''کرم اﷲ وجہ'' لکھا جاتا ہے۔ حضرت علی ابن ابی طالبؓ کے فضائل و کمالات کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا علیؓ کے لیے جتنے فضائل و مناقب ہیں اور کسی کے لیے نہیں۔
آپؓ نے امت میں سب سے پہلے رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ عبادت کا شرف حاصل کیا (سیرت حلبیہ) دعوت ذوی العشیرۃ میں رسولؐ کی تائید و نصرت کا اعلان کیا۔ شب ہجرت کفار مکہ کی پروا نہ کرتے ہوئے کمال جرات مندی کے ساتھ رسول ؐکے بستر پر سوئے۔ مواخات میں رسولؐ نے انہیں اپنا بھائی قرار دیا۔ اسلامی ریاست قائم ہونے کے بعد اس کے تحفظ میں بھی سب سے آگے رہے۔ بدر کے میدان میں کفار کے سرداروں کے غرور کو خاک میں ملایا۔ جنگ احد میں رسولؐ کے لیے سینہ سپر ہوگئے۔ رسول ؐ کے زخموں کا علاج کیا، جنگ خندق میں عمر ابن عبدود جیسے جری کو پچھاڑا۔ خیبر کے ناقابل تسخیر قلعہ کو تسخیر کرکے مرحب جیسے بہادر کو جہنم کی راہ دکھائی۔ علیؓ ہی نے فتح مکہ کے روز رسول ؐ کے کندھوں پر سوار ہوکر خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرکے بت شکن کا اعزاز حاصل کیا۔
سخی ایسے کہ رات بھر باغ میں مزدوری کرکے حاصل ہونے والی جو سے پکنے والی روٹیوں کو عین افطار کے وقت سوالی کو دے دیا اور تین دن ایسا ہی ہوتا رہا۔ رسول اکرم ﷺ علیؓ فاطمہؓ حسنؓ و حسینؓ تین دن بھوکے رہے۔ جس پر سورہ ہل اتی نازل ہوئی۔ (ریاض النضرۃ)
حضرت علیؓ کی زندگی کے اہم ترین نمونوں میں سے ایک آپ کا علم ہے۔ چناںچہ یہ بات زبان زد خاص و عام ہے کہ قرآن مجید اور فرمودات پیمبر ؐکے بعد علیؓ کے کلام سے بہتر کوئی کلام نہیں۔ اور کیوں نہ ہو رسولؐ نے فرمایا میں شہر علم ہوں، علیؓ اس کا دروازہ ہے۔ اور پیمبر ﷺ کو علیؓ پر اس قدر انحصار تھا کہ علیؓ کو حکم دیا اے علیؓ تم لوگوں کو وضو اور سنت کی تعلیم دو۔ (طبقات البریٰ)
خاتم الانبیا ﷺ نے ایک مقام پر ارشاد فرمایا ''علم قضا کو دس حصوں میں تقسیم کیا گیا نو حصے علیؓ کو اور ایک حصہ پوری دنیا میں تقسیم کیا گیا۔ (حلیۃ اولیا جلد اوّل صفحہ 66) یہی وجہ تھی کہ خلیفہ دوم حضرت عمر ابن خطابؓ اپنی خلافت کے دوران علی ابن ابی طالب کرم اﷲ وجہ سے مرجع و منبع علم سمجھتے ہوئے مشکل ترین امور میں ان سے مشاورت حاصل کرتے، اسی لیے کہا کہ خدا عمرؓ کو اس مشکل سے روبہ رو ہونے کے لیے باقی نہ رکھے جسے حل کرنے کے لیے علیؓ موجود نہ ہوں۔
(طبقات جلد 2 صفحہ339 / انساب الاشراف جلد1صفحہ 100)
خود علیؓ کا فرمان ہے کہ ہم اہل بیت اﷲ و رسول ﷺ کے پیغام سے سب سے زیادہ آگاہ ہیں۔ (طبقات الکبریٰ جلد6صفحہ240)۔ایک موقع پر فرمایا کہ جو میں نے رسول اﷲ ﷺ سے سنا، چاہے حدیث ہو یا کچھ اور، اسے فراموش نہیں کیا۔ (انساب الاشراف)
جناب علیؓ کا فرمان ہے کہ خدا کی قسم کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جس کے بارے میں مجھے علم نہ ہو کہ کہاں نازل ہوئی اور کس سلسلے میں نازل ہوئی۔
(انساب الاشراف جلد1صفحہ 99)۔
آپؓ نے فرمایا کہ میں اگر سورہ فاتحہ کی تفسیر لکھنا چاہوں تو 70 اونٹوں کے برابر ہو جائے۔ ( التراتیب الاداریہ جلد3صفحہ183)
علماء کے درمیان عہد قدیم سے یہ بات مشہور ہے کہ علیؓ کے علاوہ کسی اور میں سلونی قبل ان تفکدونی کہنے کی جرات نہ ہوئی۔
(جامع بیان العلم جلد1صفحہ 173)۔
علی ابن طالبؓ کا فرمان ہے کہ ''خدا کی قسم یہ پیوند دار جوتیاں میرے نزدیک تم جیسے لوگوں پر حکومت کرنے سے زیادہ بلند ہیں۔ مگر یہ کہ اس حکومت کے ذریعے کسی حق کو اس کی جگہ قائم کروں یا کسی امر باطل کو اکھاڑ پھینکوں''
اسلام کی یہ عظیم و نمایاں شخصیت جہان علم و فکر اور تاریخ بشری میں ہمیشہ باقی رہنے والی شجاعت، عفت، طہارت اور جرات و عدالت کی تاب ناک روشنی کا یہ آفتاب و ماہ تاب21 رمضان کو کوفہ میں غروب ہوگیا۔ مگر اس کے نظریات و فرمودات و ارشادات آغاز شہادت سے لے کر جب تک دنیا ہے، تب تک حیات انسانی کے مراحل اور راہوں میں جاری و ساری رہیں گے۔
آج بھی علیؓ کا طرز زندگی ظلم و بربریت اور کفر و نفاق کے لیے موت ہے۔ مسلم دنیا جو اس وقت مصائب و آلام میں گرفتار ہے، علی ؓ کی زندگی اختیار کرکے مصائب و آلام پر قابو پا سکتی ہے اور دنیائے شیطانی کو شکست سے دوچار کر سکتی ہے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ امت مسلمہ سیرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؓ پر چلتے ہوئے استعماری قوتوں کے مقابل خیبر شکن جرات کا مظاہرہ کرے۔ عدل و انصاف کی راہ اپنائے اور علم و حکمت کے ساتھ ٹوٹا ہوا رشتہ مضبوطی کے ساتھ جوڑنے کے لیے مدینۃ العلم محمد مصطفی ﷺ کے در پر اپنا سر جھکالے تو کوئی طاقت کلمہ توحید کے پرستاروں کو زیر کرنے میں کام یاب نہیں ہو سکے گی۔