آم برآمد پر فارن ایئر لائنز کا منافع پاکستانی آمدن سے بھی زیادہ
قومی ایئرلائن کی عدم دلچسپی کے باعث ایکسپورٹرفارن ایئرلائنزکوزیادہ کرائے دینے پر مجبور
پاکستان سے آم کی برآمدات پاکستانی ایکسپورٹرز سے زیادہ غیرملکی فضائی کمپنیوں کے لیے منافع بخش بن چکی ہے۔
موثر حکمت عملی کے فقدان اور تکنیکی سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کے بجائے غیرملکی فضائی کمپنیاں پاکستان سے برآمد ہونے والے آم سے کروڑوں روپے کا ریونیو کما رہی ہیں۔ پاکستانی ایکسپورٹرز غیرملکی فضائی کمپنیوں کو غیرضروری شرائط پر من مانے فریٹ ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
رواں سیزن فضائی راستے سے پاکستانی آم 80 سے 85روپے فی کلو قیمت پر ایکسپورٹ کیا جارہا ہے جس پر غیرملکی فضائی کمپنیاں اوسطاً 130روپے فی کلو فریٹ وصول کررہی ہیں۔ اس طرح ایکسپورٹرز اور قومی خزانے کو ہونے والی آمدن سے زیادہ ریونیو غیرملکی فضائی کمپنیاں حاصل کررہی ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ سیزن کے دوران فضائی راستے سے 32ہزار ٹن آم برآمد کیاگیا جس پر فضائی کمپنیوں کو فریٹ کی مد میں40ملین ڈالر کا ریونیو اداکیاگیا۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمدکے مطابق پاکستان سے رواں سیزن ایک لاکھ ٹن آم کی برآمد کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس میں سے 25فیصد آم فضائی راستے سے برآمد کیا جائے گا جس پر 130روپے فی کلو اوسط ریونیو کے حساب سے پاکستانی ایکسپورٹرز فضائی کمپنیوں کو 30ملین ڈالر کا ریونیو ادا کریں گی۔
وحید احمد نے بتایا کہ فضائی راستے سے آم کی برآمد کا حجم 25ہزار ٹن ہے جس میں سے نصف آم برطانیہ اور یورپی ملکوں کو ایکسپورٹ کیا جاتا ہے جبکہ خلیجی ریاستیں پاکستانی آم کی دوسری بڑی مارکیٹ ہیں پی آئی اے یورپ، برطانیہ اور خلیجی ملکوں میں آپریٹ کرتی ہے اور فضائی راستے سے برآمد ہونے والے آم کی فریٹ کا 80فیصد ریونیو حاصل کرسکتی ہے تاہم موثر حکمت عملی کے فقدان اور کارگو کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے پی آئی اے کے بجائے غیرملکی ایئرلائنز فائدہ اٹھارہی ہیں۔ فضائی راستے سے ایکسپورٹ میں فریٹ کی لاگت آم کی قیمت سے دگنی ہونے کی وجہ سے ایکسپورٹرز 3سے 5فیصد کے محدود مارجن پر کام کرہے ہیں۔ پی آئی اے کے ذریعے مناسب فریٹ پر براہ راست پروازوں کے ذریعے لاگت میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
موثر حکمت عملی کے فقدان اور تکنیکی سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کے بجائے غیرملکی فضائی کمپنیاں پاکستان سے برآمد ہونے والے آم سے کروڑوں روپے کا ریونیو کما رہی ہیں۔ پاکستانی ایکسپورٹرز غیرملکی فضائی کمپنیوں کو غیرضروری شرائط پر من مانے فریٹ ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
رواں سیزن فضائی راستے سے پاکستانی آم 80 سے 85روپے فی کلو قیمت پر ایکسپورٹ کیا جارہا ہے جس پر غیرملکی فضائی کمپنیاں اوسطاً 130روپے فی کلو فریٹ وصول کررہی ہیں۔ اس طرح ایکسپورٹرز اور قومی خزانے کو ہونے والی آمدن سے زیادہ ریونیو غیرملکی فضائی کمپنیاں حاصل کررہی ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ سیزن کے دوران فضائی راستے سے 32ہزار ٹن آم برآمد کیاگیا جس پر فضائی کمپنیوں کو فریٹ کی مد میں40ملین ڈالر کا ریونیو اداکیاگیا۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمدکے مطابق پاکستان سے رواں سیزن ایک لاکھ ٹن آم کی برآمد کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس میں سے 25فیصد آم فضائی راستے سے برآمد کیا جائے گا جس پر 130روپے فی کلو اوسط ریونیو کے حساب سے پاکستانی ایکسپورٹرز فضائی کمپنیوں کو 30ملین ڈالر کا ریونیو ادا کریں گی۔
وحید احمد نے بتایا کہ فضائی راستے سے آم کی برآمد کا حجم 25ہزار ٹن ہے جس میں سے نصف آم برطانیہ اور یورپی ملکوں کو ایکسپورٹ کیا جاتا ہے جبکہ خلیجی ریاستیں پاکستانی آم کی دوسری بڑی مارکیٹ ہیں پی آئی اے یورپ، برطانیہ اور خلیجی ملکوں میں آپریٹ کرتی ہے اور فضائی راستے سے برآمد ہونے والے آم کی فریٹ کا 80فیصد ریونیو حاصل کرسکتی ہے تاہم موثر حکمت عملی کے فقدان اور کارگو کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے پی آئی اے کے بجائے غیرملکی ایئرلائنز فائدہ اٹھارہی ہیں۔ فضائی راستے سے ایکسپورٹ میں فریٹ کی لاگت آم کی قیمت سے دگنی ہونے کی وجہ سے ایکسپورٹرز 3سے 5فیصد کے محدود مارجن پر کام کرہے ہیں۔ پی آئی اے کے ذریعے مناسب فریٹ پر براہ راست پروازوں کے ذریعے لاگت میں کمی لائی جاسکتی ہے۔