پاک امریکا تعلقات کا تاریخی پس منظر آخری حصہ

امریکی وزیر خارجہ کو یہ یقین دہانی کرانا ہو گی کہ سویلین حکومت کو اس کی فوجی اسٹیبلشمنٹ پر بالادستی حاصل ہے

ayazbabar@gmail.com

چنانچہ1991اور2001 کے درمیان پاکستان کو امریکا سے فوجی اور مالی امداد کا بہائو رُک گیا۔پاکستان کی جانب سے1998 میں جوہری دھماکے اور1999 میںنواز شریف کی منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد پاکستان پر پابندیاں مزید سخت کر دی گئیں۔

جب القاعدہ کی جانب سے ورلڈ ٹریڈ ٹاورزکو اڑایا گیا تو امریکا نے پاکستان کو اس کے سوا کوئی آپشن نہ دیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہو جائے۔ اس سے پہلے امریکا کے ساتھ جو بھی مراسم تھے ان کی نوعیت دو بالغوں کے درمیان بالرضا تعلقات جیسی تھی جسے پاکستان کی تائید بھی حاصل تھی لیکن 9/11کے بعدکی شادی جبراً تھی۔امریکی صدر نے واضح کر دیا تھا کہ 'آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف ہیں' اور پاکستان نے القاعدہ کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیاجو مسلم ممالک کے لیے خطرہ تھی

مگر پاکستان طالبان حکومت کے خلاف جانے پر تیار نہیں تھا اس لیے پاکستان میں طالبان کو ایک محفوظ پناہ گا ہ ملی ۔پاکستان نے امریکا کی حمایت کا فیصلہ تو کیا لیکن امریکا ہمارے کردار کے بارے میں مشکوک رہا۔ پچھلے دس سالوں کے دوران امریکا کے ساتھ بداعتمادی کے تعلقات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جناح سے شروع ہو کر جنرل ضیاء تک ،پاکستان نے سوویت یونین اور سوشلسٹ قوتوں کے خلاف کام کرنے کا اپنا وعدہ پورا کیا

مگر 9/11 کے دھچکے کے بعد امریکی یہ مطالبہ کرتے رہے کہ پاکستان عسکریت پسند اسلامی قوتوں کے خلاف لڑے،جن کی پرورش اسٹیبلشمنٹ نے کی تھی۔امریکی اور پاکستانی عوام ان جہادی قوتوں کو مصیبت سمجھتے ہیں مگر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لیے افغان طالبان اورلشکرِ طیبہ جیسی تنظیمیں اثاثہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سلامتی کے معاملات کبھی متوازن نہیں ہونگے۔

امریکا نے ایک بار پھر مالی اور فوجی امداد بحال کر دی اور 2002سے2012 تک پاکستان کو اندازاً23.6بلین امریکی ڈالر دیے۔اس رقم میں سے 15.82بلین ڈالرفوجی اور 7.77بلین ڈالر اقتصادی امداد کی مد میں ملے۔ اقتصادی معاملات کی ذمے دار وزارت کے ذرایع کا کہنا ہے کہ اس میں سے8.8بلین ڈالر کی رقم امداد نہیں تھی کیونکہ یہ کولیشن سپورٹ فنڈ(CSF)کے تحت ملے تھے چنانچہ اس رقم کو 23.6 بلین ڈالر کے کل میزان میں سے منہا کر لینا چاہیے۔ اس طرح اصل امداد 14.8بلین ڈالر رہ جاتی ہے۔اس کے علاوہ امریکی کانگریس کی رپورٹ کے مطابق یہ تمام رقم ادا بھی نہیں کی گئی۔


کیری لوگر بل کے تحت امریکا نے اعلان کیا کہ اگلے پانچ سالوں کے لیے فوجی اور اقتصادی امداد کی مد میں سالانہ ڈیڑھ ڈیڑھ بلین ڈالرکے مساوی رقم دی جائے گی۔پاکستانی فوج نے بل میں شامل اُس شق کا بہت بُرا منایاجس میں کہا گیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کو یہ یقین دہانی کرانا ہو گی کہ سویلین حکومت کو اس کی فوجی اسٹیبلشمنٹ پر بالادستی حاصل ہے۔ پاکستان کا آئین بھی اس کی ضمانت دیتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر مبینہ 'میمو' پر عدالتی کمیشن یہ کہے گا کہ حسین حقانی نے یہ میمو صدر زرداری کے کہنے پر لکھا تھا تو اس کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ منتخب حکومت کا اپنی فوج پر کنٹرول نہیں ہے۔اس کے نتیجے میں امریکی فوجی امداد رک سکتی ہے۔اب اگر امریکی کانگریس کے اعدادشمار کو مان لیا جائے تو1948 سے اب تک پاکستان کو 30بلین ڈالر کی امداد ملی ہے۔اس میں سے 23بلین ڈالر سے زیادہ کی امداد پچھلے10سالوں میں مختص کی گئی جب امریکا نے احمقانہ حرکت کرتے ہوئے افغانستان کو میدان جنگ بنا دیا۔

''گزشتہ60سال کے دوران پاکستان کو امریکی امداد میں کافی کمی بیشی ہوتی رہی ہے تاہم 9/11کی وجہ سے پاکستان کے لیے امداد تواتر کے ساتھ بڑھی ہے کیونکہ بش اور اوباما دونوں کی انتظامیہ نے افغانستان اور جنوبی ایشیا میں دہشت گردی پر قابو پانے کی کوششوں اور استحکام کے فروغ کے لیے پاکستان کو امریکا کا اہم اتحادی قرار دیا...بہت سے مبصرین حکومت پاکستان کی جانب سے احتساب اور اصلاح کے فقدان کو آج تک اس امداد کے فوائد کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں اور اس بارے میں سوال کرتے ہیں۔مزید برآںامریکی امداد سے اگر کوئی اچھا تاثر پیدا بھی ہوتا ہے تو پاکستانی عوام میں پائے جانے والے امریکا مخالف جذبات اسے ختم کر دیتے ہیں''

(امریکی کانگریس رپورٹ: پاکستان: امریکا مالی امداد ، کانگریشنل ریسرچ سروس اپریل2012)

ایک امریکی رپورٹ کے مطابق81فیصد عوام اپنے ملک کے بارے 'ناموافق' خیالات رکھتے ہیں۔بیشتر پاکستانی غیر یقینی میں مبتلا ہیں کہ ہم کس کی جنگ لڑ رہے ہیں؟اس بارے میں زبردست پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ پاکستان کو 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس کے ساتھ ہی یہ لوگ اس جنگ کو لڑنے کے لیے بھاری معاوضے کا کہتے ہیں۔اب اگر یہ جنگ کسی جائز مقصد کے لیے نہیں لڑی جا رہی اور اس کا پاکستان پر اثر بھی نہیں پڑے گا تو پھر ہم امریکا پر یہ الزام کیوں عائد کرتے ہیں کہ وہ مناسب قیمت نہیں دے رہا؟ذہنی طور سے الجھے ہوئے یہ انتہا پسند قوم پرست بھول جاتے ہیں کہ جلد یا بدیر پاکستان کوجہادی تنظیم کو سمیٹنا ہو گا۔

اسے طالبان کی حمایت جاری نہیں رکھنی چاہیے تھی جنھوں نے مال ملنے کے بعداسامہ کا ساتھ دیا اور پاکستان کی اس درخوست کو ماننے سے انکار کردیا کہ اسے افغانستان سے نکال دیا جائے کیونکہ وہ بین الاقوامی دہشت گردی میں ملوث ہے۔ القاعدہ سے متاثر جہادی گروپ پاکستان میں طالبان طرز کی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔درست پالیسی کا فیصلہ اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک ہمارا ذہن اس بارے میں واضح نہیں ہوتا کہ جہادی انتہا پسند گروپوں کے ساتھ لڑنا پاکستانی عوام کے اپنے مفاد میں ہے۔ورنہ تیار رہنا چاہیے کہ ایک جمہوری اور ترقی پسند پاکستان کی بجائے ہمیں قرون وسطیٰ کے قبائلی ثقافتی اور سیاسی نظام میں واپس دھکیل دیا جائے۔
Load Next Story