نبی اکرمﷺ کا عفو و درگذر
ظلم میں نے کیا ہے کرم آپ فرما دیجیے، میں وعدہ کرتا ہوں آج کے بعد آپ کو کبھی ایذا نہ دوں گا۔
اسلام محض عقائد اور عبادات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ معمولاتِ زندگی کو اَحسن طریق سے انجام دینے کے اصول، سماجی تعلقات اور رشتوں کے مابین توازن قائم رکھنے کا راستہ بھی بتاتا ہے۔
اس ضمن میں رسول اللہﷺ نے ہمیں معاملات کی بہترین تعلیم دی ہے۔ موجودہ دور میں ہمیں ناانصافی، عدم برداشت اور بے رحمی کا سامنا ہے، جسے ختم کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں نبی اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ کے بعض واقعات ہمارے لیے قیامت تک روشن مثال ہیں۔ رسول کریمؐ نے ہمیں آپس میں رعایت کرنے، بدلہ نہ لینے اور عفوودرگزر کا درس دیا ہے۔ دراصل انسان کی فطرت میں برہمی، ناراضی اور خفگی جیسے جذبات کے دخل سے انکار ممکن نہیں اور اس کا ان سے مغلوب ہونا بھی عام بات ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ زندگی کے سفر میں افراد کے درمیان بعض معاملات پر ناچاقی، رنجش پیدا ہوسکتی ہے، لیکن پیغمبر اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہم معاشرے کو انتشار اور افراتفری سے پاک کر سکتے ہیں۔ یہاں ہم رسول کریمؐ کی زندگی سے چند ایسے واقعات نقل کر رہے ہیں، جن سے عفوودرگزر کرنے کا سبق ملتا ہے۔
اسلامی تعلیمات اور سنت پر مبنی مختلف کتب میں کلدہ نامی ایک کافر کا ذکر ملتا ہے جس کے پاس لوہے کا ایک ہتھیار تھا جو اونٹ کے سر کی مانند تھا اور کلدہ اس ہتھیار سے اپنے دشمن کو شکست دیتا تھا۔ ایک بار ابو جہل نے اسے (معاذ اللہ) رحمت عالم ؐ کے قتل پر اُکساتے ہوئے کہا کہ ''اگر تو یہ کام کردے تو تجھے نہ صرف منہ مانگا انعام دوں گا بلکہ اپنی بیٹی سے تیری شادی بھی کردوں گا۔ کلدہ راضی ہو گیا اور موقع کی تاک میں رہنے لگا۔ ایک بار اسے سرکارؐ نظر آ گئے تو وہ آپؐ کے تعاقب میں لگ گیا اور موقع پا کر اللہ کے محبوبؐ کے چہرہ انور پر وار کر دیا۔ آپؐ زخمی ہو گئے اور چہرے سے خون بہنے لگا، لیکن وار کرنے والا اب حیران و ششدر کھڑا تھا اور دوسرا وار کرنے کے لیے اپنے اندر طاقت نہیں پاتا تھا۔ نبی اکرم ؐنے اس کی حالت دیکھی تو فرمایا، اب میں تمھارے ساتھ کیا سلوک کروں؟ اس نے عرض کی ''ظلم میں نے کیا ہے کرم آپ فرما دیجیے، میں وعدہ کرتا ہوں آج کے بعد آپؐ کو کبھی ایذا نہ دوں گا۔'' رحمت عالمؐ نے اس سنگ دل حملہ آور کو معاف فرما دیا اور اسے وہاں سے جانے بھی دیا۔ (جامع المعجزات)
اس واقعے سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہمارے پیارے نبیؐ کو کوئی کتنی ہی ایذا پہنچائے آپؐ اپنے نفس کی خاطر انتقام نہیں لیتے بلکہ در گزر سے کام لیتے ہیں۔ یہ آپ ؐ کا حُسنِ اخلاق ہی تو تھا کہ جس کی وجہ سے اسلام پھیلا۔ آپ ؐنے ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ تبلیغ اسلام کی۔ دین کی راہ میں ہمارے پیارے نبیؐ کے صبروتحمل کے واقعات سے کُتب مالا مال ہیں۔ تبلیغ حق کے مقدس کام میں ہمارے مشفق و مہربان نبیؐ کو جن جن نا مساعد حالات سے دو چار ہونا پڑا وہ کون نہیں جانتا؟
ذرا طائف کے اس قیامت خیز منظر کو تصور میں لائیے جب امت کی خیر خواہی کے جذبے سے سرشار ہو کر سرکار عالی وقار، امت کے غم خوارؐ نے سرداران طائف کو جمع کر کے پیغام حق دیا اور اس پر ان نادانوں نے نبی اکرمؐ کو جِھڑکیاں دیں اور پھر نہ صرف اسی پر اکتفا کیا بلکہ طائف کے غنڈوں اور بد معاشوں کو سرکار نامدارؐ کے پیچھے لگا دیا جنھوں نے پیارے نبیؐ پر پتھرائو شروع کر دیا۔ نبی اکرم ؐ کا جسد مبارک خون میں نہا گیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اگر آپؐ حکم فرمائیں تو دونوں طرف کے پہاڑوں کو آپس میں ملا دوں تاکہ یہ ساری قوم اس میں کچل کر ہلاک ہو جائے۔ رحمت للعالمین ؐنے جواباً ارشاد فرمایا، ''میں اللہ کی ذات پاک سے پُر امید ہوں کہ اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو ان کی اولاد میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ عزوجل کی عبادت کریں گے'' اور پھر دنیا نے دیکھا کہ طائف میں بھی اسلام کا نور بالآخر پھیل گیا۔
دو جہاں کے تاجدار، سرکاردوعالمؐ کے انداز پر قربان جائیے۔ کوئی کتنا ہی تُرش روئی سے پیش آتا مگر آپ ﷺ مسکراتے ہی رہتے۔ کوئی کیسا ہی سخت لہجہ اختیار کرتا مگر آپ ﷺ نرمی اور مہربانی سے اس کا دل موہ لیتے۔ حضرت زید بن سعنہؓ جو پہلے ایک یہودی عالم تھے، انہوں نے سرکار مدینہ ﷺ سے کھجوروں کا سودا کیا۔ معاہدے کے مطابق کھجوریں دینے کی مدت میں ابھی دو دن باقی تھے کہ انہوں نے بھرے مجمع میں حضورؐ کا دامن اقدس پکڑ کر انتہائی تلخ و تُرش لہجے میں آپ ؐسے کھجوروں کا مطالبہ کر دیا۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر فاروقؓ کو جلال آ گیا اور کہا، اے خدا کے دشمن! اگر رسول خدا ﷺ کا ادب مانع نہ ہوتا تو میں ابھی ابھی تیری گردن تلوار سے اڑا دیتا۔ یہ سُن کر نبی اکرم ؐنے کمال انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا، ''اے عمرؓ! تم یہ کیا کہہ رہے ہو۔ تمہیں چاہیے کہ مجھے ادائے حق کی ترغیب دے کر اور اس کو نرمی کے ساتھ تقاضا کرنے کی ہدایت کر کے ہم دونوں کی مدد کرو'' پھر نبی اکرم ؐنے حکم دیا، اے عمرؓ اس کو اس کے حق کے برابر کجھوریں دے دو، اور کچھ زیادہ بھی دے دو۔ حضرت عمرؓ نے کجھوریں دے دیں تو زید بن سعنہ نے کہا، اے عمر میرے حق سے زیادہ کیوں دے رہے ہو؟ آپؓ نے فرمایا ''چوںکہ میں تجھ پر غضب ناک ہوا تھا اور اس سے تجھے خوف محسوس ہوا تھا، اس لیے نبی اکرمؐ نے تیری دل جوئی کے لیے زیادہ کھجوریں دینے کا حکم دیا ہے۔''
یہ سن کر زید بن سعنہ نے اپنے مذکورہ فعل کی حقیقت بتائی اور عمرؓ سے کہا، '' میں نے تورات میں نبی آخرالزماں کی جتنی نشانیاں پڑھی تھیں، انھیں نبی اکرم ؐمیں موجود پایا، مگر دو اور نشانیوں کے بارے میں مجھے امتحان کرنا باقی تھا۔ ایک یہ کہ نبی آخر الزمان ؐ کا حلم (یعنی نرمی) جہل (یعنی جہالت) پر غالب رہے گا اور دوسرا یہ کہ جس قدر زیادہ ان کے ساتھ جہل کا برتائو کیا جائے گا اسی قدر ان کا حلم (یعنی نرمی) بڑھتا جائے گا۔ لہذا اس ترکیب سے میں نے ان دونوں نشانیوں کو بھی آپؐ میں دیکھ لیا۔'' پھر آپ بارگاہ مصطفویؐ میں حاضر ہوئے اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔
اس ضمن میں رسول اللہﷺ نے ہمیں معاملات کی بہترین تعلیم دی ہے۔ موجودہ دور میں ہمیں ناانصافی، عدم برداشت اور بے رحمی کا سامنا ہے، جسے ختم کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں نبی اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ کے بعض واقعات ہمارے لیے قیامت تک روشن مثال ہیں۔ رسول کریمؐ نے ہمیں آپس میں رعایت کرنے، بدلہ نہ لینے اور عفوودرگزر کا درس دیا ہے۔ دراصل انسان کی فطرت میں برہمی، ناراضی اور خفگی جیسے جذبات کے دخل سے انکار ممکن نہیں اور اس کا ان سے مغلوب ہونا بھی عام بات ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ زندگی کے سفر میں افراد کے درمیان بعض معاملات پر ناچاقی، رنجش پیدا ہوسکتی ہے، لیکن پیغمبر اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہم معاشرے کو انتشار اور افراتفری سے پاک کر سکتے ہیں۔ یہاں ہم رسول کریمؐ کی زندگی سے چند ایسے واقعات نقل کر رہے ہیں، جن سے عفوودرگزر کرنے کا سبق ملتا ہے۔
اسلامی تعلیمات اور سنت پر مبنی مختلف کتب میں کلدہ نامی ایک کافر کا ذکر ملتا ہے جس کے پاس لوہے کا ایک ہتھیار تھا جو اونٹ کے سر کی مانند تھا اور کلدہ اس ہتھیار سے اپنے دشمن کو شکست دیتا تھا۔ ایک بار ابو جہل نے اسے (معاذ اللہ) رحمت عالم ؐ کے قتل پر اُکساتے ہوئے کہا کہ ''اگر تو یہ کام کردے تو تجھے نہ صرف منہ مانگا انعام دوں گا بلکہ اپنی بیٹی سے تیری شادی بھی کردوں گا۔ کلدہ راضی ہو گیا اور موقع کی تاک میں رہنے لگا۔ ایک بار اسے سرکارؐ نظر آ گئے تو وہ آپؐ کے تعاقب میں لگ گیا اور موقع پا کر اللہ کے محبوبؐ کے چہرہ انور پر وار کر دیا۔ آپؐ زخمی ہو گئے اور چہرے سے خون بہنے لگا، لیکن وار کرنے والا اب حیران و ششدر کھڑا تھا اور دوسرا وار کرنے کے لیے اپنے اندر طاقت نہیں پاتا تھا۔ نبی اکرم ؐنے اس کی حالت دیکھی تو فرمایا، اب میں تمھارے ساتھ کیا سلوک کروں؟ اس نے عرض کی ''ظلم میں نے کیا ہے کرم آپ فرما دیجیے، میں وعدہ کرتا ہوں آج کے بعد آپؐ کو کبھی ایذا نہ دوں گا۔'' رحمت عالمؐ نے اس سنگ دل حملہ آور کو معاف فرما دیا اور اسے وہاں سے جانے بھی دیا۔ (جامع المعجزات)
اس واقعے سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہمارے پیارے نبیؐ کو کوئی کتنی ہی ایذا پہنچائے آپؐ اپنے نفس کی خاطر انتقام نہیں لیتے بلکہ در گزر سے کام لیتے ہیں۔ یہ آپ ؐ کا حُسنِ اخلاق ہی تو تھا کہ جس کی وجہ سے اسلام پھیلا۔ آپ ؐنے ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ تبلیغ اسلام کی۔ دین کی راہ میں ہمارے پیارے نبیؐ کے صبروتحمل کے واقعات سے کُتب مالا مال ہیں۔ تبلیغ حق کے مقدس کام میں ہمارے مشفق و مہربان نبیؐ کو جن جن نا مساعد حالات سے دو چار ہونا پڑا وہ کون نہیں جانتا؟
ذرا طائف کے اس قیامت خیز منظر کو تصور میں لائیے جب امت کی خیر خواہی کے جذبے سے سرشار ہو کر سرکار عالی وقار، امت کے غم خوارؐ نے سرداران طائف کو جمع کر کے پیغام حق دیا اور اس پر ان نادانوں نے نبی اکرمؐ کو جِھڑکیاں دیں اور پھر نہ صرف اسی پر اکتفا کیا بلکہ طائف کے غنڈوں اور بد معاشوں کو سرکار نامدارؐ کے پیچھے لگا دیا جنھوں نے پیارے نبیؐ پر پتھرائو شروع کر دیا۔ نبی اکرم ؐ کا جسد مبارک خون میں نہا گیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اگر آپؐ حکم فرمائیں تو دونوں طرف کے پہاڑوں کو آپس میں ملا دوں تاکہ یہ ساری قوم اس میں کچل کر ہلاک ہو جائے۔ رحمت للعالمین ؐنے جواباً ارشاد فرمایا، ''میں اللہ کی ذات پاک سے پُر امید ہوں کہ اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو ان کی اولاد میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ عزوجل کی عبادت کریں گے'' اور پھر دنیا نے دیکھا کہ طائف میں بھی اسلام کا نور بالآخر پھیل گیا۔
دو جہاں کے تاجدار، سرکاردوعالمؐ کے انداز پر قربان جائیے۔ کوئی کتنا ہی تُرش روئی سے پیش آتا مگر آپ ﷺ مسکراتے ہی رہتے۔ کوئی کیسا ہی سخت لہجہ اختیار کرتا مگر آپ ﷺ نرمی اور مہربانی سے اس کا دل موہ لیتے۔ حضرت زید بن سعنہؓ جو پہلے ایک یہودی عالم تھے، انہوں نے سرکار مدینہ ﷺ سے کھجوروں کا سودا کیا۔ معاہدے کے مطابق کھجوریں دینے کی مدت میں ابھی دو دن باقی تھے کہ انہوں نے بھرے مجمع میں حضورؐ کا دامن اقدس پکڑ کر انتہائی تلخ و تُرش لہجے میں آپ ؐسے کھجوروں کا مطالبہ کر دیا۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر فاروقؓ کو جلال آ گیا اور کہا، اے خدا کے دشمن! اگر رسول خدا ﷺ کا ادب مانع نہ ہوتا تو میں ابھی ابھی تیری گردن تلوار سے اڑا دیتا۔ یہ سُن کر نبی اکرم ؐنے کمال انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا، ''اے عمرؓ! تم یہ کیا کہہ رہے ہو۔ تمہیں چاہیے کہ مجھے ادائے حق کی ترغیب دے کر اور اس کو نرمی کے ساتھ تقاضا کرنے کی ہدایت کر کے ہم دونوں کی مدد کرو'' پھر نبی اکرم ؐنے حکم دیا، اے عمرؓ اس کو اس کے حق کے برابر کجھوریں دے دو، اور کچھ زیادہ بھی دے دو۔ حضرت عمرؓ نے کجھوریں دے دیں تو زید بن سعنہ نے کہا، اے عمر میرے حق سے زیادہ کیوں دے رہے ہو؟ آپؓ نے فرمایا ''چوںکہ میں تجھ پر غضب ناک ہوا تھا اور اس سے تجھے خوف محسوس ہوا تھا، اس لیے نبی اکرمؐ نے تیری دل جوئی کے لیے زیادہ کھجوریں دینے کا حکم دیا ہے۔''
یہ سن کر زید بن سعنہ نے اپنے مذکورہ فعل کی حقیقت بتائی اور عمرؓ سے کہا، '' میں نے تورات میں نبی آخرالزماں کی جتنی نشانیاں پڑھی تھیں، انھیں نبی اکرم ؐمیں موجود پایا، مگر دو اور نشانیوں کے بارے میں مجھے امتحان کرنا باقی تھا۔ ایک یہ کہ نبی آخر الزمان ؐ کا حلم (یعنی نرمی) جہل (یعنی جہالت) پر غالب رہے گا اور دوسرا یہ کہ جس قدر زیادہ ان کے ساتھ جہل کا برتائو کیا جائے گا اسی قدر ان کا حلم (یعنی نرمی) بڑھتا جائے گا۔ لہذا اس ترکیب سے میں نے ان دونوں نشانیوں کو بھی آپؐ میں دیکھ لیا۔'' پھر آپ بارگاہ مصطفویؐ میں حاضر ہوئے اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔