شام پر اسرائیلی جنگی طیاروں کی بمباری
آخر ’او آئی سی‘ یعنی آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کے وجود کا مقصد کیا ہے؟
عالمی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی جنگی طیاروں نے شام کے فوجی تحقیقاتی مرکز پربمباری کی ہے۔ اس حملے میں متعدد ہلاکتیں ہونے کی اطلاعات ہیں۔۔ جب کہ مغربی سفارتکاروں کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی طیاروں نے لبنان کی سرحد کے قریب ایک ٹرک کو نشانہ بنایا ہے جو مبینہ طور پر حزب اللہ کے لیے طیارہ شکن میزائل لے کر جا رہا تھا۔ ادھر شام کے لیے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی مندوب لخدر براہیمی نے سلامتی کونسل کو خبر دار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام سب کی آنکھوں کے سامنے تباہ ہو رہا ہے اور آہستہ آہستہ ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہے اور اس سانحے کا کوئی اختتام نظر نہیں آ رہا۔ یہ ایسا وقت ہے کہ سلامتی کونسل شامی بحران کے خاتمے کے لیے فوری ایکشن لے۔ حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ اب صرف بین الاقوامی برادری ہی کوئی مدد کر سکتی ہے۔
لخدر براہیمی نے سلامتی کونسل کے 15 ارکان پر مشتمل اجلاس کو بند کمرے میں دو گھنٹے تک بریفنگ دی۔ بعدازاں میڈیا کے نمایندوں کو بتایا کہ امریکی صدر اوباما نے شامی عوام کے لیے امداد کی مد میں مزید ساڑھے پندرہ کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔ کونسل سے اپنے خطاب میں امریکی صدر نے بشار الاسد حکومت پر عوام کا قتل عام کرنے کا الزام لگایا جب کہ لخدر براہیمی کا کہنا تھا کہ شام میں تباہی پورے خطے کو ایک ایسی صورتحال میں دھکیل رہی ہے جو انتہائی خوفناک ہے۔ واضح رہے سلامتی کونسل کا موجودہ صدر پاکستان ہے اور کونسل کے اجلاس کی صدارت پاکستان کے سفیر مسعود خان کر رہے تھے۔
انھوں نے بھی بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو کی اور بتایا کہ سلامتی کونسل کے اراکین کو شام کی صورتحال پر مفصل بریفنگ دیدی گئی ہے لہٰذا اب بحران کے خاتمے اور اس کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے کچھ نہ کچھ فوری طور پر کرنا ہو گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایک طرف بین الاقوامی برادری شام کے مسئلہ پر تبادلہ خیال کر رہی ہے دوسری طرف اسرائیل کو اتنی شہ حاصل ہو گئی ہے کہ وہ شام کی سرحدوں کے اندر اپنے جنگی طیاروں سے بمباری کر سکے اور عذر یہ پیش کرے کہ اس نے حزب اللہ کے لیے جانے والے میزائلوں کو تباہ کیا ہے۔ تباہ کیے جانے والے میزائلوں کو اینٹی ایئر کرافٹ میزائل کہا گیا ہے یعنی وہ میزائل جو دشمن کے ہوائی حملے کو ناکام بنانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسرائیل بے شک بمباری کرتا رہے۔
اس کے خلاف طیارہ شکن میزائل نہ استعمال کیا جائے۔ دوسری طرف اس بات کی بھی سمجھ نہیں آتی کہ آخر 'او آئی سی' یعنی آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کے وجود کا مقصد کیا ہے؟ شام چونکہ عرب ممالک کی ذیل میں آتا ہے لہٰذا عرب لیگ نے بھی اسی شخصیت پر اپنی نمایندگی کی ذمے داری سونپ دی ہے جو بنیادی طور پر اقوام متحدہ کا نمایندہ ہے یعنی لخدر براہیمی۔ لیکن کیا یہ وہی صاحب نہیں جو افغانستان میں اپنی سفارتکاری میں ناکامی کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں؟ شام کی حالت زار کے بارے میں ان کی تشویش تو نظر آتی ہے مگر وہ اس گمبھیر مسئلے کو کس طور حل کرانا چاہتے ہیں، اس پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی۔ ایک بات جو واضح ہے وہ یہ ہے کہ مغربی طاقتیں مشرق وسطیٰ کے اس نقشے میں اپنے مطلب کی کچھ اور تبدیلیاں لانا چاہتی ہیں جو انھوں نے سو سال پہلے اس ریگستانی خطے کی تقسیم کے لیے بنایا تھا جس کی ریت کے نیچے سیال سونے کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔
لخدر براہیمی نے سلامتی کونسل کے 15 ارکان پر مشتمل اجلاس کو بند کمرے میں دو گھنٹے تک بریفنگ دی۔ بعدازاں میڈیا کے نمایندوں کو بتایا کہ امریکی صدر اوباما نے شامی عوام کے لیے امداد کی مد میں مزید ساڑھے پندرہ کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔ کونسل سے اپنے خطاب میں امریکی صدر نے بشار الاسد حکومت پر عوام کا قتل عام کرنے کا الزام لگایا جب کہ لخدر براہیمی کا کہنا تھا کہ شام میں تباہی پورے خطے کو ایک ایسی صورتحال میں دھکیل رہی ہے جو انتہائی خوفناک ہے۔ واضح رہے سلامتی کونسل کا موجودہ صدر پاکستان ہے اور کونسل کے اجلاس کی صدارت پاکستان کے سفیر مسعود خان کر رہے تھے۔
انھوں نے بھی بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو کی اور بتایا کہ سلامتی کونسل کے اراکین کو شام کی صورتحال پر مفصل بریفنگ دیدی گئی ہے لہٰذا اب بحران کے خاتمے اور اس کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے کچھ نہ کچھ فوری طور پر کرنا ہو گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایک طرف بین الاقوامی برادری شام کے مسئلہ پر تبادلہ خیال کر رہی ہے دوسری طرف اسرائیل کو اتنی شہ حاصل ہو گئی ہے کہ وہ شام کی سرحدوں کے اندر اپنے جنگی طیاروں سے بمباری کر سکے اور عذر یہ پیش کرے کہ اس نے حزب اللہ کے لیے جانے والے میزائلوں کو تباہ کیا ہے۔ تباہ کیے جانے والے میزائلوں کو اینٹی ایئر کرافٹ میزائل کہا گیا ہے یعنی وہ میزائل جو دشمن کے ہوائی حملے کو ناکام بنانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسرائیل بے شک بمباری کرتا رہے۔
اس کے خلاف طیارہ شکن میزائل نہ استعمال کیا جائے۔ دوسری طرف اس بات کی بھی سمجھ نہیں آتی کہ آخر 'او آئی سی' یعنی آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کے وجود کا مقصد کیا ہے؟ شام چونکہ عرب ممالک کی ذیل میں آتا ہے لہٰذا عرب لیگ نے بھی اسی شخصیت پر اپنی نمایندگی کی ذمے داری سونپ دی ہے جو بنیادی طور پر اقوام متحدہ کا نمایندہ ہے یعنی لخدر براہیمی۔ لیکن کیا یہ وہی صاحب نہیں جو افغانستان میں اپنی سفارتکاری میں ناکامی کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں؟ شام کی حالت زار کے بارے میں ان کی تشویش تو نظر آتی ہے مگر وہ اس گمبھیر مسئلے کو کس طور حل کرانا چاہتے ہیں، اس پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی۔ ایک بات جو واضح ہے وہ یہ ہے کہ مغربی طاقتیں مشرق وسطیٰ کے اس نقشے میں اپنے مطلب کی کچھ اور تبدیلیاں لانا چاہتی ہیں جو انھوں نے سو سال پہلے اس ریگستانی خطے کی تقسیم کے لیے بنایا تھا جس کی ریت کے نیچے سیال سونے کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔