ہائر ایجوکیشن کمیشن کی تحلیل

ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام ایک کارنامے سے کم نہیں جس نے ڈاکٹر عطا الرحمٰن کی زیر نگرانی ترقی کی منازل طے کی ہیں۔


Anis Baqar January 31, 2013
[email protected]

موجودہ حکومت جو اپنی مدت تقریباً ختم کرنے کو ہے اپنی روانگی سے قبل ہائر ایجوکیشن کمیشن کو وزارت تعلیم کے زیر اثر کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، ہائر ایجوکیشن کمیشن کی تحلیل کرنے کا اصل فائدہ اسمبلی کے ان نام نہاد ممبران کو ہو گا جو مختلف مکاتب اور جامعات کے نام سے جعلی ڈگری کے بل بوتے پر حکمراں بنے ہوئے ہیں۔ مشرف حکومت اور جمہوری حکومت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ معیشت کا پہیہ رواں تھا۔ قتل و غارت گری جس طرح کراچی شہر میں خیمہ زن ہے نہ تھی، روپے کی قوت خرید فعال تھی یا یوں کہیے کہ جو چیز آج 100 روپے کی ہے وہ 60 یا 65 کی تھی۔ پرویز مشرف کے بیشتر ساتھی آج کی جمہوری حکومت کے ستون ہیں اگر معاملات کو مزید غور سے دیکھا جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جمہوری حکومت غیر ممالک میں ہونے والی سودے بازی، جس میں سابق صدر پرویز مشرف اور نام نہاد جمہوری نمایندوں کی ڈیل کا نتیجہ ہے جس کو جمہوری جدوجہد کہا جا رہا ہے۔

پرویز مشرف کے دور کے دو ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو جمہوریت کے زوال اور بدامنی کی وسعت کے ذمے دار ہیں جن میں لال مسجد اور اکبر بگٹی کے واقعات ہیں، مگر ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام ایک کارنامے سے کم نہیں ہے جس نے ڈاکٹر عطا الرحمٰن کی زیر نگرانی اپنی ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ پاکستان میں اس 65 برس کی تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں کہ جس کی پیروی بھارت کرے مگر ہائیر ایجوکیشن کمیشن واحد ادارہ ہے جس کی ڈگر پر بھارت ایسا ہی ادارہ تعمیر کرنے کا قصد رکھتا ہے جو ڈگریوں کی تصدیق کے علاوہ میرٹ کی بنیاد پر اسکالر شپ وغیرہ کے فیصلے کرے۔ یہ بھی اسی کے ہاتھ میں ہیں بقول ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کے حکومت نے اس ادارے کو تحلیل کرنے کے لیے اس مرحلہ وار ختم کرنا اس لیے سود مند سمجھا کہ ہائر ایجوکیشن کے پاس 44 ارب کی رقم کا بجٹ اور پھر یونیورسٹی اور کالجز کی زمینیں ہیں جو بلڈرز ٹائیکون کو فروخت کی جائیں گی اس خطیر رقم پر بھلا حکومتی اداروں کی نگاہ کیونکر چوک سکتی ہے۔

جمہوری حکومت کا المیہ یہ ہے کہ وہ عوام کی رقم لوٹ کر اپنے مخصوص من پسند لوگوں کا ٹولہ جمع کر رہے ہیں تا کہ یہ ٹولہ مسلسل انتخابات، مظاہروں میں ان کی حمایت کرتا رہے۔ کوئی لیپ ٹاپ تقسیم کر رہا ہے، کوئی انکم سپورٹ پروگرام میں مصروف ہے۔ در حقیقت یہ رقم مختلف قسم کے ٹیکس لگا کر اسمبلی کے ممبران کے ترقیاتی فنڈ میں دی جا رہی ہے اور اس پر شور یہ ہے کہ یہ عوامی ترقیاتی فنڈ ہے، نہ صاف پانی ہے، نہ سیوریج، نہ کھیل کے میدان، نہ تعلیمی ادارے ۔ یہ عوامی فنڈ اب ان کے انتخابات کی مد میں خرچ ہوں گے جن کی رقم لگ بھگ 50 کروڑ فی ممبر کے لگ بھگ ہے۔ ایک غریب ملک کا ہے یہ انوکھا مستقبل، روپیہ خرچ کرنے، غریب کو لوٹنے اور ملک میں قتل و غارت کی آزادی ، یہ ہے جمہوریت کی نئی مثال جس سے پاکستان گزر رہا ہے اگر یہ رقم صرف بجلی، گیس کی سبسڈی پر لگا دی جائے تو ملک کی مصنوعات کی قیمت 50 فیصد تک کم ہو سکتی ہے اور ان کی ایکسپورٹ میں 100 فیصد اضافی منافع کمایا جا سکتا ہے جس سے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے اور عام لوگوں کو صنعتی ترقی کی بنیاد پر روزگار مہیا ہو سکتا ہے۔

مگر ہم تنزلی کی اندھیر نگری کی جانب رواں ہیں جہاں سے واپسی کے راستے مسدود ہوتے جا رہے ہیں۔ شرم کا مقام ہے بنگلہ دیش کی معیشت ہم کو پیچھے چھوڑ گئی اور ہم لٹھم لٹھا کرنے میں مصروف ہیں ٹیکسٹائل کے ہزاروں یونٹ ملک میں بند ہیں، مگر ملکی معیشت پر نگاہ نہیں کسی کی، کیونکہ یہ نیم خواندہ لوگ ہیں جو پیسہ بنانے میں مہارت رکھتے ہیں بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری حکومت غیر ملکی ایجنڈے پر کار فرما ہے، خواہ وہ صوبائی حکومت ہو یا مرکزی حکومت، ملکی مفادات کا کسی کو خیال نہیں، کسی کو یہ فکر نہیں کہ ملکی بورڈز آف سیکنڈری ایجوکیشن اور جامعات کا کیا حال ہونے والا ہے، بورڈ آفس کے حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ اب A لیول اور O لیول، بتدریج عروج کی جانب ہے، ہائر ایجوکیشن کمیشن اگر تحلیل ہوتا ہے جس کو تمام اسمبلی کے ممبران پرامید ہیں کہ یک جان ہو کر ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے دراصل نقصان اس عام طالب علم کا ہو گا جو پڑھنا چاہتا ہے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی جستجو میں ہے ملک کو کچھ دینا چاہتا ہے اور ملک سے کچھ لینا چاہتا ہے۔

مادر وطن کا نام بھی روشن کرنا چاہتا ہے۔ اسکالر شپ لینا چاہتا ہے اور دنیا کے مقابل پاکستان کو لانا چاہتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے، پاکستان کے ہر شعبہ زندگی میں نمبر دو افراد کی زیادتی ہوتی جا رہی ہے، تعلیم کا بھی یہی حال ہے۔ ہائر ایجوکیشن کو کوئی بچا نہیں سکتا ماسوائے طلبا تنظیمیں اور اساتذہ کا اتحاد، بصورت دیگر طالع آزما حکومتی نمایندے جس میں حزب اختلاف بھی پیش پیش ہو گی کیونکہ وہ بھی جعلی ڈگریوں سے پوری طرح مستفید ہوں گے اگر طلبا تنظیمیں آپس میں یونہی دست و گریباں رہیں تو پھر خصوصیت سے پڑھنے والے غریب، متوسط اور اعلیٰ طبقات کے لوگ بھی متاثر ہوں گے خاص طور سے سائنسی علوم سے متعلق طلبا کو زبردست نقصان ہو گا۔ کیونکہ مغربی ممالک جانے والے طلبا کی ڈگریاں مزید مشکوک ہو جائیں گی ابھی تو ایم ایس سی پاس طلبا کو امریکا میں جا کر مزید دو برس پڑھنا ہوتا ہے وہ اس سے بھی رہ جائیں گے، کیونکہ ایچ ایس سی کو پھر بھی بیرونی دنیا میں اہمیت حاصل ہے اور ان کی تصدیق شدہ ڈگریاں قبول کی جاتی ہیں البتہ نہ پڑھنے والے جعلی ڈگریوں والے لوگوں کا اس سے کافی فائدہ ہو گا اس کے علاوہ ملک کا معیار تعلیم جو پستی کی طرف گامزن ہے۔

اس کو مزید انحطاط کا سامنا کرنا پڑے گا مجھے اس وقت ایوب خان کے عہد کے وہ دن یاد آرہے ہیں جب دس سالہ جشن منایا جا رہا تھا اس وقت 14اکتوبر1968ء کو آدم جی سائنس کالج میں این ایس ایف نے آل پارٹیز اسٹوڈنٹس کانفرنس بلائی تھی جس میں طلبا کی تمام تنظیمیں شامل ہوئی تھیں، بشمول اسلامی جمعیت طلبا اور طلبا مسائل پر یکجا ہو کر تحریک چلائی گئی اور نہ صرف مطالبات تسلیم ہوئے بلکہ حکومت بھی جاتی رہی، مگر آج ملکی حالات پر سیاسی پارٹیوں کی مفاد پرستی غالب ہے، دھڑے بندیاں ہیں البتہ اگر تحریک مضبوط ہوئی تو پارٹیوں کا موقف بھی تبدیل ہو سکتا ہے کیونکہ مقبول تحریکیں اور جائز جدوجہد خود اپنے اندر قوت رکھتی ہے اب جب کہ الیکشن کے دن قریب ہیں یہ حکومتی کھیل کسی بھی بڑی تحریک کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اس بات کی تصدیق علامہ القادری کے لانگ مارچ سے ہوتی ہے کیونکہ تھوڑا بہت ملکی خلفشار انتخابات کی راہ روک سکتا ہے جس کو کوئی بھی حاکم اور مراعات یافتہ برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حزب اختلاف کی قوتیں دھرنے کے بعد اسلام آباد میں دھرنے کی کوشش کر رہی تھیں مگر اب کوئی خبر نہیں آ رہی، اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو بدنظمی کا احتمال جو خود ان کے گلے پڑ سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ کہیں یہ کئی جماعتوں کا دھرنا القادری کے دھرنے سے چھوٹا نہ ہو لہٰذا ہائر ایجوکیشن کے خاتمے کا عمل خود حکومت کے لیے زبردست پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔ تحریک کا بہترین وقت ضرور ہے مگر 1970ء میں طلبا تحریک میں طالبات کی شرکت یکساں تھی اور اعلیٰ تعلیم میں لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد مساوی تھی مگر آج لڑکیاں 70 فیصد اور لڑکے 30 فیصد ہیں ایسی صورت میں ایچ ایس سی کی تحریک کو خون جگر دینا ہو گا جو ہر تحریک کا جزو لاینفک ہے۔ انگریزی کی ایک کہاوت ہے کسی امتحان کو پاس کرنا اس وقت ہی ممکن ہے کہ امتحان سے گزرا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں