دو قومی نظریے کا احیاء
آپ پاکستانی ہیں یا بھارتی اور اب آپ ہندو‘ مسلمان سکھ یا عیسائی نہیں رہے‘ مذہبی اعتبار سے نہیں بلکہ دوسرے اعتبار سے۔
مظفر بیگ کشمیر کے سمجھدار لوگوں میں شامل ہیں لیکن مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ انھوں نے 1947ء میں تقسیم کے موقع پر ہونے والی قتل و غارت کا حوالہ کیوں دیا۔ وہ بی جے پی کی طرف سے وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے کے استعفے کے مطالبے سے پیدا ہونے والے تنازعے کا ذکر کر رہے تھے۔ شنڈے نے کہا تھا کہ آر ایس ایس اور بی جے پی دونوں نے ہندو دہشت گردوں کی تربیت کے لیے کیمپ قائم کر رکھے ہیں۔ دوسری طرف ایک پاکستانی وکیل نے ٹیلی ویژن چینل پر ایک بھارتی مسلمان کو کہا کہ وہ تو ہندوئوں سے بھی بدتر ہے کیونکہ اس نے آئی ایس آئی پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام عاید کیا ہے۔ مشہور بھارتی اداکار شاہ رخ خان نے کہا ہے کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
میرے نام ایک ای میل میسج میں کراچی کے ایک خاصے پڑھے لکھے مسلمان نے کہا ہے، ہمیں اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ کوئی پرابلم نہیں ہے، اس کے باوجود کہ ہمارے مسلمان بھائیوں کو گجرات میں صرف اس بنا پر قتل کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ ایک بھارتی قیدی کو پاکستانی جیل میں ہلاک کردیا گیا اور بھارتی لوگوں کے خلاف ریمارکس بھی دیے گئے۔ گویا یہ وہی صورتحال ہے جس سے ہندوئوں اور مسلمانوں میں باہمی نفرت کی عکاسی ہوتی ہے۔ برطانوی حکمرانوں کی رخصتی کے وقت تقسیم کو اس مسئلہ کا حل تصور کیا گیا تھا لیکن یہ مسئلہ اب بھی قائم ہے۔ تقسیم کے بعد دونوں قوموں کے تعلقات اور زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔ اب یہ مسئلہ نہ صرف یہ کہ ہندو مسلم کا ہے بلکہ بھارت اور پاکستان کا بھی ہے۔
میں تقسیم کا گواہ ہوں۔ یہ علیحدگی دو ملکوں کے مابین ایک سمجھوتے کے تحت ہوئی تھی جس کی بنیاد مذہب تھا۔ اب اس سے زیادہ بے معنی اور کوئی بحث نہیں ہو سکتی کہ برصغیر کی تقسیم کا ذمے دار کون تھا۔ گزشتہ چھ عشروں سے جو واقعات ایک تسلسل کے ساتھ وقوع پذیر ہو رہے ہیں اس قسم کی مشق محض ایک نصابی سوال کے طور پر کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ 1940ء کی دہائی تک ہندو مسلم اختلافات اس حد تک بڑھ چکے تھے کہ تقسیم ناگزیر ہو گئی تھی۔
مظفر بیگ کا تقسیم کو یاد کرانا ایک ڈر کو اجاگر کرنا ہے۔ یہ بات اچھی طرح جانتے ہوئے کہ ایک اور تقسیم خارج از امکان ہے۔ میں مانتا ہوں بھارت کی سماجی سیاست اتنی سیکولر نہیں جتنی کہ ہمارے آباؤ اجداد چاہتے تھے یا جس کی انھیں توقع تھی۔ ہندوئوں کو احساس ہے کہ وہ اکثریت میں ہیں جب کہ مسلمان ایک اقلیت کے طور پر ایک کمپلیکس (یا نفسیاتی الجھائو) کا شکار ہیں لیکن بھارت پاکستان سے کہیں بہتر ہے کہ جس کے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ ریاست کے امور سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ انھوں نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ بھارتی مسلمانوں کا پاکستان کو خیال رکھنا پڑے گا۔
لہٰذا کراچی کا دانشور پان اسلام ازم کا پرچار کر رہا ہے، جب وہ کہتا ہے کہ ہمارے مسلمان بھائی مارے جا رہے ہیں۔ مسلمان سرحد کے دوسری طرف بھارتی ہیں اور اس طرف پاکستانی۔ جناح صاحب نے تقسیم کے بعد جو الفاظ کہے تھے وہ یہ ہیں: آپ پاکستانی ہیں یا بھارتی اور اب آپ ہندو' مسلمان سکھ یا عیسائی نہیں رہے' مذہبی اعتبار سے نہیں بلکہ دوسرے اعتبار سے۔ گویا انھوں نے دو قومی نظریے کو وہیں' اسی وقت ختم کر دیا تھا۔
ریاست گجرات میں جو کچھ ہوا وہ شرمناک ہے اور ملک کے سیکولر چہرہ پر بدنما داغ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گجرات کا وزیراعلیٰ نریندر مودی پورے بھارت میں اچھوت بن کر رہ گیا ہے۔ مسلمان گجرات میں ہوں' مغربی بنگال میں یا کسی بھی اور ریاست میں وہ بھارتی شہری ہیں اور قانون کے سامنے برابر ہیں۔ بعض انتہا پسند عناصر یا ریاستیں جن کی انتظامیہ کمزور ہے ان کو اپنے ناروا طرز عمل سے کمتر شہری نہیں بنا سکتیں۔ یہ درست ہے کہ ان کی پسماندگی باعث تشویش ہے جس کا ذکر سچر کمیشن نے بھی کیا ہے لیکن یہ رپورٹ چھ سال گزرنے کے باوجود نافذ العمل نہیں کی گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ مظفر بیگ اور ان دیگر افراد کا جن کا میں نے ذکر کیا ہے ان کے ذہن سے ابھی تک دو قومی نظریہ نکل نہیں سکا۔ مذہب قومیت کا تعین نہیں کرتا۔ مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی اور بنگلہ دیش کی آزادی نے دو قومی نظریے کو غلط ثابت کر دیا۔ یہ حقیقت کہ دونوں مسلمان تھے لیکن جب مشرقی پاکستان میں رہنے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا تو پھر انھیں علیحدہ ہونے سے روکا نہیں جا سکا۔
جب کشمیری خود کو ایک قوم کہتے ہیں تو وہ دراصل برادری کو قومیت سمجھنے کی غلطی کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ یا بھارتی قوم کا حصہ ہوں گے یا پاکستانی قوم کا، اگر اقوام متحدہ کی قرار داد پر عمل درآمد ہو جائے تو۔ ان کی آزاد حیثیت نہ بھارت کے لیے قابل قبول ہے اور نہ ہی پاکستان کے لیے قابل قبول ہو گی کیونکہ مجھے ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ تیس چالیس لاکھ لوگ جو چاروں طرف سے خشکی میں گھرے ہوئے خطے میں رہ رہے ہوں، ایک آزاد مملکت بن سکتے ہیں۔
حقیقت میں یہ سوال بہت بڑا ہے۔ ہندو مسلم صدیوں تک آپس میں ساتھ ساتھ رہتے رہے ہیں لیکن انھوں نے کبھی بھی ایک دوسرے کے خلاف اس انداز میں دشمنی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کے دور حکمرانی میں بھی دونوں مل کر شہنشائوں کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ اصل ولن برطانوی حکمران ثابت ہوئے۔ انھوں نے فرقہ وارانہ طریق انتخاب اور مسلمانوں کے لیے نشستیں مخصوص کر کے بھارتی سیاست کے جسم میں علیحدگی کا زہر داخل کر دیا، جو مسلسل پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ آزادی کے کچھ عرصے بعد ایسا لگتا تھا جیسے ہم نے اس وائرس سے نجات پا لی ہے۔
مسلمانوں نے رضا کارانہ طور پر نشستیں مخصوص کرانا ترک کر دیا، بلکہ جب آئین ساز اسمبلی مسلمانوں کے لیے آئین میں کوئی ایسی شق شامل کرنا چاہتی تھی تب بھی مسلمانوں نے انکار کر دیا۔ اس وقت ان کو قطعاً یہ احساس نہیں تھا کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جائے گا۔ لیکن بعد ازاں اس حد تک انتہا ہو چکی تھی کہ سچر کمیشن کو یہ کہنا پڑا کہ مسلمانوں کے ساتھ تو دلتوں سے بھی زیادہ برُا سلوک کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے لیے فوری تشویش کا پہلو یہ ہے کہ ہندوئوں کے ایک انتہا پسند گروپ نے دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔
جب کہ ہندو کمیونٹی اجتماعی طور پر ہلاکتوں اور بم دھماکوں کا شبہ مسلمانوں پر کر رہی ہے۔ اس کمیونٹی کے کم عمر نوجوانوں کو پولیس دہشت گرد کہہ کر اٹھا لیتی ہے اور وہ سالہا سال جیل میں پڑے رہتے ہیں تاآنکہ عدالتیں انھیں بیگناہ قرار دے کر بری کر دیں۔ ٹھیک ہے ان کی بیگناہی ثابت ہو جاتی ہے مگر ان کی جوانی کا بہترین حصہ حراست میں ضایع ہو گیا اور اس ظلم پر کسی کا احتساب نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی پولیس والے کو کسی ناجائز حراست پر کوئی سزا ملی ہے۔اب اس ساری صورتحال میں جو سب سے زیادہ تشویش کا پہلو ہے، وہ شاہ رخ خان کا بیان ہے کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔
وہ ایسا شخص نہیں جو مبالغے سے کام لے یا اپنی طرف سے کوئی بات گھڑ لے۔ حافظ سعید نے اس بیان کو ایکسپلائٹ کیا ہے اور اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے شاہ رخ کو پاکستان میں خوش آمدید کہا ہے۔ بے شک یہ پیشکش بے معنی ہے تاہم بھارت اپنی سیکولر اسناد میں ناکام ہو گیا ہے اور اس وقت تک ناکام رہے گا جب تک شاہ رخ بھی خود کو اتنا محفوظ نہ محسوس کرے جتنا ہندو کرتے ہیں۔ مجھے تو ایسی صورتحال میں دو قومی نظریے کا احیاء ہوتا نظر آتا ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)