شعر ہمارا مدرسہ اور میڈیا میں کیسے پہنچ گیا

ہر چینل پر بولنے والے بے تکان بولتے چلے جاتے ہیں۔ الٹا سیدھا غلط سلط بے تکان بولتے رہتے ہیں۔


Intezar Hussain January 31, 2013
[email protected]

مارنے والے کے ہاتھ پکڑے جا سکتے ہیں، بولنے والے کی زبان نہیں پکڑی جا سکتی۔ یہ ہم نے اس وقت کہا تھا جب کراچی آرٹ کونسل میں یہ بحث گرم تھی کہ ہمارے ٹی وی چینل اردو زبان کے ساتھ کیا سلوک یا بدسلوکی کر رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ یارو ذرا سوچو کہ اس وقت پاکستان میں کتنے ٹی وی چینل ہیں۔ اور ہر چینل پر بولنے والے بے تکان بولتے چلے جاتے ہیں۔ الٹا سیدھا غلط سلط بے تکان بولتے رہتے ہیں۔ تم کس کس کی زبان پکڑو گے۔

ہاں ایک مقام ایسا آتا ہے جب بولنے والے کا منہ نوچنے کو جی چاہتا ہے۔ اس وقت جب وہ شعر غلط پڑھتا ہے۔ بات یہ ہے کہ بحث کرتے ہوئے بولنے والے جب غلط سلط بولتے ہیں وہ خود اپنے ساتھ زیادتی کرتے ہیں اور ہم آپ یہ سوچ کر چپ ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے فعل کے خود ذمے دار ہیں۔ لیکن جب دوران بحث کوئی سیاستدان شعر غلط پڑھتا ہے تو وہ شعر خود فریاد کرتا نظر آتا ہے کہ اے صاحبان ذوق، انصاف کرو۔ میرے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ میں کیا تھا۔ بولنے والے نے مجھے کیا بنا دیا۔ میرا سارا حسن غارت ہو گیا۔ مگر ہم اس مقام پر بھی یہ سوچ کر چپ ہو جاتے ہیں کہ ہمارے سیاستدانوں پر سات خون معاف ہیں۔ ان سات خونوں کے ساتھ ایک خون شاعری کا بھی سہی۔ لیکن صاحب جب اخبار میں چھپنے والے کالموں میں شعر غلط لکھا نظر آئے تو اسے برداشت کرنے کے لیے کہاں سے جگر لائیں۔

بھول چوک میں کوئی لفظ ادھر سے ادھر ہو جائے تو یہ سوچ کر لکھنے والے کو معاف کیا جا سکتا ہے کہ آخر بندہ بشر ہے۔ بھول چوک سے بنا ہے۔ شعر نقل کرتے ہوئے تھوڑی بھول ہو گئی تو چلے جانے دو؎

جا چھوڑ دیا حافظ قرآن سمجھ کر

مگر غضب خدا کا استادوں کے شعر نقل کر رہے ہو اور پورا پورا مصرعہ غلط لکھ رہے ہو۔ اور ایک شعر کے ساتھ یہ ہو تو صبر کر لیں۔ ایک شعر غلط۔ دوسرا شعر نقل کیا وہ بھی غلط۔ غلط اور کس قدر غلط۔ لکھتے ہیں ؎

آ گئے وہ بت بغیر التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے

پہلے مصرعہ کا کیا حال کیا ہے۔ وزن سے بھی گر گیا اور مطلب بھی خبط ہو گیا۔ شعر یوں ہے؎

لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
دوسرا شعر ملاحظہ فرمائیے؎
آ عندلیب مل کر کریں آوہ و زاریاں
تو کہے کہ ہائے گل میں کہوں کہ ہائے دل

آتش کا کیا ظالم شعر تھا۔ ظالم نے اس کا کیا حال کیا ہے۔ خیر پہلے مصرعہ میں تو غلطی بس اتنی ہے کہ 'کے' کو 'کر' لکھ دیا۔ مگر اچھا شعر تو ایک شوشہ بھی غلط لگ جائے تو اس کے مزاج میں درہمی آ جاتی ہے۔ یہاں تو مصرعہ ہی وزن سے گر گیا۔ اور دوسرے مصرعے کا تو کچومر ہی نکل گیا۔ شعر یوں ہے؎

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار، میں چلائوں ہائے دل

ارے یہ تو حافظ کا مضمون تھا؎

بنال بلبل اگر بامنت سر یاریست
کے مادو عشق زاریم دکار مازاریست

آتش نے کس سلیقہ سے اسے وہاں سے مستعار لیا۔ کالم نگار نے اسے کس طرح ملیا میٹ کیا۔

لیجیے ہمیں اس وقت پروفیسر رفیع الدین ہاشمی یاد آ گئے۔ ارے ہمیں کب پتہ تھا کہ ہاشمی صاحب ہم جیسے لوگوں پر جو آئے دن علامہ اقبال کے شعر اپنی تحریروں میں نقل کرتے رہتے ہیں اس شاعر سے کیا سلوک کر رہے ہیں۔ ہم سے نقل کرتے ہوئے ایک شعر کے سلسلہ میں تھوڑی چوک ہو گئی۔ بس انھوں نے ہمیں دھڑ پکڑا۔ فون کیا کہ میں نے آپ کا نام بھی اپنے رجسٹر میں لکھ لیا ہے۔

''وہ کیسا رجسٹر ہے'' ہم نے پوچھا

کہا کہ ''یہ نقاد لوگ اپنے مقالات میں اقبال کے شعر مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے غلط سلط لکھتے رہتے ہیں۔ اور اس میں کیسے کیسے لوگ شامل ہیں مجنوں گورگھپوری، فراق گورگھپوری وغیرہ وغیرہ۔ اب آپ بھی ان مجرموں میں شامل ہو گئے۔''
ہم نے کہا کہ یہ تو آپ بہت ثواب کا کام کر رہے ہیں۔ ارے کوئی تو ہو جو ہماری شاعری کے ساتھ اس زیادتی کا نوٹس لے اور مجرموں کا احتساب کرے۔ غالب کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ آپ غالب کو بھی اپنی نگرانی میں لیں۔''
بولے کہ ''اقبال کی نگرانی میرے لیے بہت ہے۔ میں دو دو کی ڈیوٹی انجام نہیں دے سکتا۔''

تو صاحبو اقبال کے سلسلہ میں تو ایک محتسب موجود ہے۔ مگر دوسرے شاعروں کے کام کے ساتھ جو زیادتیاں ہو رہی ہیں انھیں گرفت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
ارے ہاں ابھی ہم نے اپنے پچھلے کسی کالم میں پاکستان کے لوگوں کی سادگی کا ذکر کرتے ہوئے غالب کا ایک شعر نقل کیا تھا۔

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک راہ رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

ایک دوست نے ہمیں ٹوکا۔ ارے یہاں غالب نے ''راہ رو نہیں' تیز رو لکھا ہے۔ ہم نے ماتھا پیٹ لیا۔ ہم سے چوک ہوئی۔ غالب نے تو پاکستانیوں کو صحیح ٹوکا تھا کہ جو شخص آ کر تیزی ترکی دکھاتا ہے اور لانگ مارچ کی دھمکی دیتا ہے یا خبردار کرتا ہے کہ میں ایسا طوفان اٹھائوں گا کہ یاد کرو گے بس اسے سادہ دل لوگ اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگتے ہیں۔ آخر میں پچھتاوا کہ ؎

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
ارے بندگان خدا' کب پہنچانو گے؟ کب عقل پکڑو گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں