ہائے اس کا بستہ
رٹے کی چکی میں پس پس کر بچے کا دماغ تھک جاتا ہے پھر بھی اسے انگریزی نہیں آتی ہے۔
وہ پرائمری جماعت کا طالب علم بچہ ہے، اس کی عمر اور جسمانی قوت کے لحاظ سے اس کا بستہ بہت بھاری ہے جو اس کے نازک کندھوں پر نشان ڈال دیتا ہے اور کمر توڑنے والا ہوتا ہے۔ وہ اسے ہانپتے کانپتے اٹھاکر اسکول پہنچتا ہے اور اسی حالت میں اسکول سے گھر لوٹتا ہے۔ یہ بھاری بستہ اس کے لیے ذہنی اور جسمانی لحاظ سے تکلیف دہ ہے۔ اس کی عمر کا اگر کوئی بچہ مزدوری کرتا ہوا نظر آئے تو سب کو بڑا ترس آتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی جاگ اٹھتی ہیں۔ اخباروں میں خبریں بھی لگ جاتی ہیں، عالمی سطح پر اس کے حقوق کی بابت کانفرنسیں بھی منعقد ہوتی ہیں، بچوں کے عالمی دن بھی منائے جاتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے پوری دنیا اس کے مسائل حل کرنے کے لیے متحرک ہوگئی ہے مگر کسی کو اس کا بستہ چھوٹا اور آسان کرنے کی فکر نہیں ہے۔
یہ بھی آخر گوشت پوست کا انسان ہے اس کے سینے میں بھی بڑوں کی طرح ایک دھڑکتا دل ہے۔ آخر کب تک اس کے اس مسئلے پر صرف نظر کیا جاتا رہے گا؟ جب کہ طبی ماہرین نے بھی اس کے بھاری بستے کو اس کی عمر سے بڑا وزنی اور اس کی ذہنی و جسمانی صحت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ہسپانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ وزنی اسکول بیگ بچوں میں کمر درد کی تکلیف کا سبب بنتے ہیں، تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مسلسل وزنی بیگ اٹھانے کا عمل ان کی کمر کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے اس سے بچنے کے لیے اپنے وزن کے 10 فیصد سے کم وزنی بیگ اٹھانے سے کئی مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔
اسپین کے طبی ماہرین نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر کہا ہے کہ اسکول جانے والے بچوں کو اپنے وزن سے 10 فیصد کم اسکول بیگ اٹھانے چاہئیں۔ وہ بچے جو اپنے ذاتی وزن سے 10 فیصد زائد کا اسکول بیگ اٹھاتے ہیں انھیں کمر درد کی تکلیف ہوسکتی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسپین کے ماہرین نے 1403 طلباء پر تحقیق کی جن میں سے 12 سال سے 17 سال کی عمر کے 11 اسکولوں کے بچوں کو شامل کیا گیا۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ جن بچوں کے اسکول بیگ کا وزن ان کے اپنے وزن کے 10 فیصد سے زائد تھا ان میں سے 66 فیصد بچے کمر درد کی تکلیف میں مبتلا پائے گئے۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کو کمر درد کی زیادہ شکایت تھی۔ پھر بھی کوئی نہیں سنتا۔ تعلیمی میدان میں بڑے بڑے کارنامے انجام دینے والے اگر اس کے بستے کو چھوٹا اور آسان نہیں بناسکتے تو پھر اس کے پاس کیا دلیل ہے کہ جس کی بنیاد پر یہ ان کی صلاحیتوں کو تسلیم کرے گا؟
یہ جلی کٹی باتیں نہیں ہیں، پرائمری اسکول کا یہ معصوم بچہ تعلیمی پالیسی کا ستایا ہوا ہے۔ روزانہ ذہنی اذیت کا شکار یہ چھوٹا طالب علم روزانہ ان دانشوروں کی جان کو روتا ہے جو اس کی مشکل کو مانتے ہیں مگر حل نہیں کرتے۔ اپنے بستے کے بوجھ تلے دبے ہوئے بچے کی چیخیں واقعی کان دھرنے کے لائق نہیں۔ سچ یہ ہے کہ اس معصوم طالب علم کا بستہ بڑا ہونے میں اس کے لیے نصاب سازی کرنے والوں کی سطحی سوچ اور ذہنی مرعوبیت کا بڑا دخل ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے مسائل کی بابت لوگ گہرائی کے ساتھ سوچتے ہیں اور ان کے حل نکال لیتے ہیں مگر معصوم طالب علم کا بستہ چھوٹا کرنے کے لیے کسی کے پاس کوئی حل نہیں نظر آتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی کاروں، کوٹھیوں اور بنگلوں کو بڑی سرعت کے ساتھ بڑا کرنے والے بستے کو بھی اسی رو میں بہتے ہوئے بڑا کرنے میں مگن ہیں۔ معصوم طالب علم کا بستہ اب تک کتابوں کی غذا کھاکھا کر موٹا ہوتا جارہا ہے غالباً یہ موٹے دماغوں والے کی کارستانی ہے۔
کسی زمانے میں انگریزی چھٹی جماعت سے شروع ہوتی تھی اور چھٹی جماعت کا بچہ قدرے بڑا ہوتا ہے اور بستے کا جسمانی اور ذہنی بوجھ کس قدر آسانی سے اٹھاسکتا ہے۔ پہلے کم ازکم ایک انگریزی کی کتاب اور اس کے ساتھ چار کاپیوں کا بوجھ تھا۔ اب اس معصوم بچے کے بستے میں ایک انگریزی کی کتاب، ایک الفاظ معانی کی کاپی، ایک سبق کے آخر میں موجود مشقوں کے لیے اور ایک انگریزی خوشخطی کے لیے ہے جو کتابوں کے وزن اٹھانے کی بات ہے۔ ایک دفعہ اسکول جاتے ہوئے اور ایک دفعہ واپس آتے ہوئے انھیں اٹھانا پڑتا ہے۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں ہوسکتا کہ پرائمری کے اس معصوم طالب علم کو جتنی محنت اور جتنی توانائی دوسرے تمام مضامین پر خرچ کرنی پڑتی ہے اتنی ہی توانائی انگریزی کے مضمون پر خرچ ہوتی ہے۔
پھر بھی اسے انگریزی نہیں آتی ہے۔ رٹے کی چکی میں پس پس کر اس کا دماغ تھک جاتا ہے۔اس پر طرہ یہ کہ اس کی سائنس کو بھی اتنا پیچیدہ اور غیر فطری بنادیا گیا ہے کہ معصوم طالب علم اسکول سے بھاگنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بستہ ساز اسے پڑھنے نہیں دینا چاہتے۔ اخبارات میں کروڑوں روپے خرچ کرکے مہم چلائی جاتی ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کروائیں، مگر اسکول میں ایک غیر ملکی زبان اور غیر فطری سائنسی نصاب کا بوجھ ڈال کر معصوم طالب علم کی تمام دلچسپیوں کو ختم کررہے ہیں ان حالات میں ایک معصوم طالب علم کا اسکول میں کیسے دل لگ سکتا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ بستہ سازوں اور نصاب سازوں نے معصوم طالب علموں سے خاموش جنگ چھیڑ رکھی ہے اور ملک کے کروڑوں بچوں کو بطور بیگار اس جنگ میں سپاہی کے فرائض انجام دینے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔
خدارا! معصوم طالب علموں کے ماتھے پر پریشانیوں کی شکنوں میں چھپے ان کے دل کے درد کو محسوس کیا جائے، کیا یہ جبری مشقت نہیں جو ہر روز ان سے لی جاتی ہے؟ کیا یہ ان کا حق نہیں کہ ان کا بستہ ان کی عمر، جسمانی صحت اور ذہنی سطح کے مطابق ہو؟ کیا انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس مسئلے کو اپنے ایجنڈے میں شامل نہیں کرنا چاہیے؟ یہ وہ جواب طلب معصوم طالب علموں کے سوالات ہیں جن کے جواب تعلیم سازوں کو دینے ہیں۔ قارئین کرام! آپ کا کیا خیال ہے؟ اپنی رائے کا اظہار کریں تاکہ معصوم طالب علم بچوں کی صدا ارباب اختیارات تک بھرپور انداز میں پہنچ سکے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کار نیک کی جزا دینے والا ہے۔
یہ بھی آخر گوشت پوست کا انسان ہے اس کے سینے میں بھی بڑوں کی طرح ایک دھڑکتا دل ہے۔ آخر کب تک اس کے اس مسئلے پر صرف نظر کیا جاتا رہے گا؟ جب کہ طبی ماہرین نے بھی اس کے بھاری بستے کو اس کی عمر سے بڑا وزنی اور اس کی ذہنی و جسمانی صحت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ہسپانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ وزنی اسکول بیگ بچوں میں کمر درد کی تکلیف کا سبب بنتے ہیں، تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مسلسل وزنی بیگ اٹھانے کا عمل ان کی کمر کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے اس سے بچنے کے لیے اپنے وزن کے 10 فیصد سے کم وزنی بیگ اٹھانے سے کئی مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔
اسپین کے طبی ماہرین نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر کہا ہے کہ اسکول جانے والے بچوں کو اپنے وزن سے 10 فیصد کم اسکول بیگ اٹھانے چاہئیں۔ وہ بچے جو اپنے ذاتی وزن سے 10 فیصد زائد کا اسکول بیگ اٹھاتے ہیں انھیں کمر درد کی تکلیف ہوسکتی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسپین کے ماہرین نے 1403 طلباء پر تحقیق کی جن میں سے 12 سال سے 17 سال کی عمر کے 11 اسکولوں کے بچوں کو شامل کیا گیا۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ جن بچوں کے اسکول بیگ کا وزن ان کے اپنے وزن کے 10 فیصد سے زائد تھا ان میں سے 66 فیصد بچے کمر درد کی تکلیف میں مبتلا پائے گئے۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کو کمر درد کی زیادہ شکایت تھی۔ پھر بھی کوئی نہیں سنتا۔ تعلیمی میدان میں بڑے بڑے کارنامے انجام دینے والے اگر اس کے بستے کو چھوٹا اور آسان نہیں بناسکتے تو پھر اس کے پاس کیا دلیل ہے کہ جس کی بنیاد پر یہ ان کی صلاحیتوں کو تسلیم کرے گا؟
یہ جلی کٹی باتیں نہیں ہیں، پرائمری اسکول کا یہ معصوم بچہ تعلیمی پالیسی کا ستایا ہوا ہے۔ روزانہ ذہنی اذیت کا شکار یہ چھوٹا طالب علم روزانہ ان دانشوروں کی جان کو روتا ہے جو اس کی مشکل کو مانتے ہیں مگر حل نہیں کرتے۔ اپنے بستے کے بوجھ تلے دبے ہوئے بچے کی چیخیں واقعی کان دھرنے کے لائق نہیں۔ سچ یہ ہے کہ اس معصوم طالب علم کا بستہ بڑا ہونے میں اس کے لیے نصاب سازی کرنے والوں کی سطحی سوچ اور ذہنی مرعوبیت کا بڑا دخل ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے مسائل کی بابت لوگ گہرائی کے ساتھ سوچتے ہیں اور ان کے حل نکال لیتے ہیں مگر معصوم طالب علم کا بستہ چھوٹا کرنے کے لیے کسی کے پاس کوئی حل نہیں نظر آتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی کاروں، کوٹھیوں اور بنگلوں کو بڑی سرعت کے ساتھ بڑا کرنے والے بستے کو بھی اسی رو میں بہتے ہوئے بڑا کرنے میں مگن ہیں۔ معصوم طالب علم کا بستہ اب تک کتابوں کی غذا کھاکھا کر موٹا ہوتا جارہا ہے غالباً یہ موٹے دماغوں والے کی کارستانی ہے۔
کسی زمانے میں انگریزی چھٹی جماعت سے شروع ہوتی تھی اور چھٹی جماعت کا بچہ قدرے بڑا ہوتا ہے اور بستے کا جسمانی اور ذہنی بوجھ کس قدر آسانی سے اٹھاسکتا ہے۔ پہلے کم ازکم ایک انگریزی کی کتاب اور اس کے ساتھ چار کاپیوں کا بوجھ تھا۔ اب اس معصوم بچے کے بستے میں ایک انگریزی کی کتاب، ایک الفاظ معانی کی کاپی، ایک سبق کے آخر میں موجود مشقوں کے لیے اور ایک انگریزی خوشخطی کے لیے ہے جو کتابوں کے وزن اٹھانے کی بات ہے۔ ایک دفعہ اسکول جاتے ہوئے اور ایک دفعہ واپس آتے ہوئے انھیں اٹھانا پڑتا ہے۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں ہوسکتا کہ پرائمری کے اس معصوم طالب علم کو جتنی محنت اور جتنی توانائی دوسرے تمام مضامین پر خرچ کرنی پڑتی ہے اتنی ہی توانائی انگریزی کے مضمون پر خرچ ہوتی ہے۔
پھر بھی اسے انگریزی نہیں آتی ہے۔ رٹے کی چکی میں پس پس کر اس کا دماغ تھک جاتا ہے۔اس پر طرہ یہ کہ اس کی سائنس کو بھی اتنا پیچیدہ اور غیر فطری بنادیا گیا ہے کہ معصوم طالب علم اسکول سے بھاگنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بستہ ساز اسے پڑھنے نہیں دینا چاہتے۔ اخبارات میں کروڑوں روپے خرچ کرکے مہم چلائی جاتی ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کروائیں، مگر اسکول میں ایک غیر ملکی زبان اور غیر فطری سائنسی نصاب کا بوجھ ڈال کر معصوم طالب علم کی تمام دلچسپیوں کو ختم کررہے ہیں ان حالات میں ایک معصوم طالب علم کا اسکول میں کیسے دل لگ سکتا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ بستہ سازوں اور نصاب سازوں نے معصوم طالب علموں سے خاموش جنگ چھیڑ رکھی ہے اور ملک کے کروڑوں بچوں کو بطور بیگار اس جنگ میں سپاہی کے فرائض انجام دینے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔
خدارا! معصوم طالب علموں کے ماتھے پر پریشانیوں کی شکنوں میں چھپے ان کے دل کے درد کو محسوس کیا جائے، کیا یہ جبری مشقت نہیں جو ہر روز ان سے لی جاتی ہے؟ کیا یہ ان کا حق نہیں کہ ان کا بستہ ان کی عمر، جسمانی صحت اور ذہنی سطح کے مطابق ہو؟ کیا انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس مسئلے کو اپنے ایجنڈے میں شامل نہیں کرنا چاہیے؟ یہ وہ جواب طلب معصوم طالب علموں کے سوالات ہیں جن کے جواب تعلیم سازوں کو دینے ہیں۔ قارئین کرام! آپ کا کیا خیال ہے؟ اپنی رائے کا اظہار کریں تاکہ معصوم طالب علم بچوں کی صدا ارباب اختیارات تک بھرپور انداز میں پہنچ سکے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کار نیک کی جزا دینے والا ہے۔