تینوں وکٹیں گرگئیں
دو قومی نظریے کو شاہ رخ کے بیان نے ایک بار پھر زندہ کردیا ہے اور یوں تینوں گاندھیوں کی تینوں وکٹیں گرگئیں۔
شاہ رخ خان کے ایک بیان نے گاندھی کے سیکولر ازم کو شکست دے دی۔ بھارت کے مشہور اداکار کی بات نے جناح کے دو قومی نظریے کو ہندو پاک سرحد پر کامیابی دلادی۔ بھارت میں اس کے شہریوں کا کلمہ گو ہونا جرم بن چکا ہے۔انڈین مسلمانوں کو ملک کا وفادار نہ سمجھنا کرم چند گاندھی کے بیانات کی دھجیاں اڑانے کو کافی ہے۔ صف اول کے اداکار نے ہندو لڑکی سے شادی کی اور بچوں کے نام ایسے رکھے جو نہ مسلمانوں کے سے تھے اور نہ ہندوؤں کے سے۔ اس اعلیٰ ظرفی کے باوجود بھارتی ہندوؤں کی تنگ نظری نے اندرا گاندھی کی روح کو بے چین کردیا ہوگا۔ 71 میں دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبونے والی نہرو کی بیٹی کو آج کے ہندوستان کو دیکھنا چاہیے۔ آج اس کی روح تڑپ چکی ہوگی کہ بھارتی نام نہاد سیکولرازم دو قومی نظریے سے شکست کھاگیا۔
اگر تمام ہندوستانی ایک قوم ہوتے تو شاہ رخ کو اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ کنگ خان کے خلاف ریلیاں نکالنے والے انتہا پسند ہندوؤں نے ثابت کردیا کہ چالیس کے عشرے میں پاکستان کے لیے چلائی جانے والی تحریک درست تھی۔ ہاتھی جیسا حجم اور چوہے جتنا دل رکھنے والے ہندوؤں نے ثابت کردیا کہ ان کے نظریے کو دو قومی نظریے نے کلین بولڈ کردیا ہے۔ کرم چند گاندھی، اندرا گاندھی اور سونیا گاندھی کی تینوں وکٹیں جناح کے خیالات نے اڑا دی ہیں۔اگر ہم ایک ہوتے تو یہ بیان بھارت کے قومی دن پر دنیا بھر کے اخبارات میں شایع نہ ہوتا۔ بھارت کے صف اول کے اداکار کو ملک چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالنا بھارت کے سیکولرازم کے چہرے کو بے نقاب کرنے کو کافی ہے۔ آریان اور سوھانا کے باپ نے اپنے خاندان کے جنگ آزادی میں حصہ لینے کا جواب دیا۔ سب کچھ بے کار جانے کے باوجود شاہ رخ کے بیان نے تینوں گاندھیوں کی وکٹیں گرا دی ہیں۔
کنگ خان کے اس بیان نے قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد کو حق پر مبنی قرار دینے کا ایک اور ثبوت فراہم کردیا ہے۔ پچیس سال تک ہندوؤں کے ساتھ آزادی کی جدوجہد کرنے والے جناح نے ہندوؤں کو قریب سے دیکھا تھا۔ ہر حال میں ساتھ رہنے کی کوشش کے باوجود جناح کو قائد اعظم بننے پر مجبور کردیا گیا۔ شاہ رخ کا یہ بیان پاکستان کے ترقی پسندوں اور بھارت کے حامیوں کے منہ پر تھپڑ ہے۔ ''سرحدی گاندھی '' کے پیروکاروں کو اپنے خیالات پر پھر سوچ بچار کرنی چاہیے۔
ابوالکلام آزاد کے الفاظ کی سچائی کو ان ہی کے ہم وطن نے جھوٹا قرار دے دیا ہے۔جدید بھارتی شہری اور گاندھی کے پیروکاروں یعنی آزاد اور شاہ رخ کے خیالات کے تضاد نے سیکولرازم کے تضاد کو نمایاں کردیا ہے۔ گئو ماتا کے دو ٹکڑے نہ کرنے والے گاندھی کا دیش آج مسلمانوں کو اچھوت بنائے ہوئے ہے۔ اسی لیے مسلمانوں نے سوچا کہ اس خطرناک غار سے دس میں سے سات لوگ نکل سکتے ہیں تو نکل جائیں۔ دس کے دس کے پھنسے رہنے سے کچھ لوگوں کا گھٹن کے معاشرے سے دور نکل جانا بہتر ہے۔ آج ہم تین گاندھیوں کے بیانات کا تجزیہ کریں گے اور دکھائیں گے کہ جناح کے خیالات نے کس طرح ایک گیند پر تین وکٹیں گرادیں۔ کرم چند، اندرا اور سونیا کی وکٹیں۔
1869 میں پیدا ہونے والے گاندھی واحد بڑے لیڈر تھے جو قائد اعظم سے عمر میں بڑے تھے، ساؤتھ افریقہ میں احتجاجی تحریک چلانے والے کرم چند گاندھی نے برصغیر میں اسی انداز کو متعارف کروایا۔ ان سے قبل کانگریس اور لیگ کے لیڈر آئینی طور پر اور بغیر احتجاج کے آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ گاندھی کے اس انداز نے انھیں مقبولیت کے بام عروج پر پہنچادیا۔ ''بھارت چھوڑو'' والی تحریک میں کانگریس اپنی طاقت و مقبولیت کے عروج پر تھی اور انگریز کمزور تر پوزیشن پر تھے۔ ہٹلر کی تباہ کاریوں نے تاج برطانیہ کو تھکادیا تھا۔ اس کے باوجود کانگریس کی یہ تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی۔ آزادی، آئینی جدوجہد کے سبب ہی ملی۔ گاندھی کی احتجاجی جنگ اور سبھاش چندر بوس کی اسلحے سے لڑائی ناکامی سے دوچار ہوئیں۔
گویا اس دور میں بھی قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں کے اندازے درست ثابت ہوئے۔ آج شاہ رخ کے اس بیان نے بھی مسلم لیگ کے دو قومی نظریے کو توانائی بخشی ہے۔ یہ طے کردیا کہ خدائے واحدہ لاشریک کو ماننے والے اور بتوں کی پوجا کرنے والے الگ الگ اقوام بھی گائے کی پوجا کرنے والے اور اسے حلال جانور سمجھ کر توانائی پانے والے الگ الگ قوم ہیں۔ محمود وایاز کی ایک صف اور برہمن اور شودر کی جدائیاں ہندو مسلم قوموں کو جدا کرتی ہیں۔ ہندو پانی اور مسلم پانی کی آوازیں جو بس اسٹینڈز اور ریلوے اسٹیشنوں پر لگائی جاتی تھیں، وہ انھیں الگ الگ سمت لے جا رہی تھیں۔ اس بات کو نہ ماننے والے نہرو، پٹیل جیسے ہندوؤں یا آزاد اور بعض مسلمان مذہبی وسیاسی رہنمائوں کے خیالات، آج شاہ رخ کے بیان نے ان کے نظریے کو شکست سے دوچار کردیا ہے۔
ایک بھارتی مسلمان کے بیان نے سرحد کے دونوں پار رہنے والوں کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ اس بیان نے جناح کو کامیاب اور گاندھی کو ناکام قرار دلوایا ہے۔ گاندھی ہندوؤں کے لیے کامیاب قرار پا سکتے ہیں لیکن برصغیر کے مسلمانوں نے ہزار سالہ تاریخ میں کسی ایک لیڈر پر اتفاق کیا تو وہ قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ آج ان کے نظریے کی سچائی نے پاکستان کو مستحکم کرنے پر اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ ثابت کیا ہے کہ ہم جب ایک پلیٹ میں ہندو کے ساتھ کھانا نہ کھا سکتے تھے تو ایک ساتھ کس طرح برابری کی بنیاد پر رہ سکتے تھے؟
اندرا گاندھی کی سن 71 میں کہی گئی بات کی بیلز بھی اڑگئی ہیں۔ جناح کے نظریے کوخلیج بنگال میں ڈبونے والوں کا سیکولرازم ممبئی کی فلم نگری کے ایک بیان سے ہچکولے کھاکر ڈوب چکا ہے۔ ہزار سال کی غلامی اور پھر قیام پاکستان کا بدلہ لینے والی اندرا گاندھی کے خیالات کو ان کے ہم مذہبوں کی تنگ نظری نے ڈبودیا۔ مسلمانوں کے لیے جدید انڈیا کو قابل قبول بنانے والے اپنی کوششوں میں ناکام ہوچکے ہیں۔ قائد اعظم اور آزاد نے ایک نہیں دو پاکستان کا بننا کہا تھا۔ وہ پلان جسے لیگ نے قبول کرلیا تھا۔ اس طرح نہ کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوتا، نہ جنگیں ہوتیں اور نہ آبادیوں کی ہجرت۔ یہ قائد اور ان کے ساتھیوں کی دور اندیشی تھی۔ اسے نہ مان کر گاندھی کی ٹیم مجرم قرار پاتی ہے۔ آج ہندوستان کا تین حصوں میں تقسیم ہونا انگریزوں اور لیگیوں کی دور اندیشی اور کانگریسیوں کی سطحی ذہنیت کا غماز ہے۔ سیف علی خان اور شبانہ اعظمی جیسے بڑے مشہور اور خوشحال بھارتی مسلمان شہریوں کا ممبئی میں جائیداد نہ خرید سکنا کیا ہے؟ یہ اندراگاندھی اور ان کے خاندان کی دوسری وکٹ ہے۔ جو دو قومی نظریے نے اڑادی ہے۔
سونیا گاندھی چلی تھیں اپنی فلم نگری کے ذریعے پاکستانیوں کے ذہنوں کو فتح کرنے، وہ ہماری مسلم ثقافت اور پاکستانی کلچر کو شکست دینے کے دعوے کر رہی تھیں۔ ان کی اپنی فلموں نے ان کے نوجوانوں کے ذہنوں میں تلاطم پیدا کردیا۔ ان کے نوجوان جنسی بھیڑیئے بن چکے ہیں۔ گھر سے باہر نکلنے والی یا گھر کے اندر رہنے والی ہر ہندوستانی ناری اپنے ہم وطن درندے کی درندگی کے خطرے سے دوچار ہے۔ جس اسلحے سے دوسروں کو زیر کرنے چلی تھیں وہ اب خود انھیں زخمی کر رہا ہے۔ انڈین فلم انڈسٹری وہ ہاتھی بن چکا ہے جو پلٹ کر اپنی ہی فوج کو کچل رہا ہے۔ مئی 2000ء میں راقم نے لکھا تھا کہ ہماری مسلم ثقافت اور پاکستانی کلچر اتنا مضبوط ہے جسے چند انڈین چینلز اور چند ارتعاشی لہریں بہاکر نہیں لے جاسکتیں۔
ہم مذہبی طور پر اتنے کمزور نہیں کہ چند فلمیں ان میں دراڑیں ڈال دیں۔ اذان، نماز، روزہ اور زکوٰۃ اسے زندہ رکھتے ہیں تو حج اور قربانی اس میں چار چاند لگاتے ہیں۔ کوئی کرکٹ و ہاکی میچ یا پاک بھارت جنگ ہمارے جذبہ حب الوطنی کو مضبوط کرتی ہے تو کوئی سیلاب و زلزلہ ہمیں یکجا کردیتا ہے۔ وقتی طور پر ہی سہی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ہزار سال گزرنے پر بھی ہماری مسلمانیت توانا ہے۔ ساڑھے بارہ سال کے انتظار کے بعد سونیا گاندھی کا شکست آمیز بیان ہماری تحریک آزادی کے رہنماؤں کی سچائی ہے۔ جناح کے خیالات نے کرم چند گاندھی، اندرا گاندھی اور سونیا گاندھی کی بیلز اڑا دی ہیں۔ قائد اعظم کے دو قومی نظریے کو شاہ رخ کے بیان نے ایک بار پھر زندہ کردیا ہے اور یوں تینوں گاندھیوں کی تینوں وکٹیں گرگئیں۔
اگر تمام ہندوستانی ایک قوم ہوتے تو شاہ رخ کو اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ کنگ خان کے خلاف ریلیاں نکالنے والے انتہا پسند ہندوؤں نے ثابت کردیا کہ چالیس کے عشرے میں پاکستان کے لیے چلائی جانے والی تحریک درست تھی۔ ہاتھی جیسا حجم اور چوہے جتنا دل رکھنے والے ہندوؤں نے ثابت کردیا کہ ان کے نظریے کو دو قومی نظریے نے کلین بولڈ کردیا ہے۔ کرم چند گاندھی، اندرا گاندھی اور سونیا گاندھی کی تینوں وکٹیں جناح کے خیالات نے اڑا دی ہیں۔اگر ہم ایک ہوتے تو یہ بیان بھارت کے قومی دن پر دنیا بھر کے اخبارات میں شایع نہ ہوتا۔ بھارت کے صف اول کے اداکار کو ملک چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالنا بھارت کے سیکولرازم کے چہرے کو بے نقاب کرنے کو کافی ہے۔ آریان اور سوھانا کے باپ نے اپنے خاندان کے جنگ آزادی میں حصہ لینے کا جواب دیا۔ سب کچھ بے کار جانے کے باوجود شاہ رخ کے بیان نے تینوں گاندھیوں کی وکٹیں گرا دی ہیں۔
کنگ خان کے اس بیان نے قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد کو حق پر مبنی قرار دینے کا ایک اور ثبوت فراہم کردیا ہے۔ پچیس سال تک ہندوؤں کے ساتھ آزادی کی جدوجہد کرنے والے جناح نے ہندوؤں کو قریب سے دیکھا تھا۔ ہر حال میں ساتھ رہنے کی کوشش کے باوجود جناح کو قائد اعظم بننے پر مجبور کردیا گیا۔ شاہ رخ کا یہ بیان پاکستان کے ترقی پسندوں اور بھارت کے حامیوں کے منہ پر تھپڑ ہے۔ ''سرحدی گاندھی '' کے پیروکاروں کو اپنے خیالات پر پھر سوچ بچار کرنی چاہیے۔
ابوالکلام آزاد کے الفاظ کی سچائی کو ان ہی کے ہم وطن نے جھوٹا قرار دے دیا ہے۔جدید بھارتی شہری اور گاندھی کے پیروکاروں یعنی آزاد اور شاہ رخ کے خیالات کے تضاد نے سیکولرازم کے تضاد کو نمایاں کردیا ہے۔ گئو ماتا کے دو ٹکڑے نہ کرنے والے گاندھی کا دیش آج مسلمانوں کو اچھوت بنائے ہوئے ہے۔ اسی لیے مسلمانوں نے سوچا کہ اس خطرناک غار سے دس میں سے سات لوگ نکل سکتے ہیں تو نکل جائیں۔ دس کے دس کے پھنسے رہنے سے کچھ لوگوں کا گھٹن کے معاشرے سے دور نکل جانا بہتر ہے۔ آج ہم تین گاندھیوں کے بیانات کا تجزیہ کریں گے اور دکھائیں گے کہ جناح کے خیالات نے کس طرح ایک گیند پر تین وکٹیں گرادیں۔ کرم چند، اندرا اور سونیا کی وکٹیں۔
1869 میں پیدا ہونے والے گاندھی واحد بڑے لیڈر تھے جو قائد اعظم سے عمر میں بڑے تھے، ساؤتھ افریقہ میں احتجاجی تحریک چلانے والے کرم چند گاندھی نے برصغیر میں اسی انداز کو متعارف کروایا۔ ان سے قبل کانگریس اور لیگ کے لیڈر آئینی طور پر اور بغیر احتجاج کے آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ گاندھی کے اس انداز نے انھیں مقبولیت کے بام عروج پر پہنچادیا۔ ''بھارت چھوڑو'' والی تحریک میں کانگریس اپنی طاقت و مقبولیت کے عروج پر تھی اور انگریز کمزور تر پوزیشن پر تھے۔ ہٹلر کی تباہ کاریوں نے تاج برطانیہ کو تھکادیا تھا۔ اس کے باوجود کانگریس کی یہ تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی۔ آزادی، آئینی جدوجہد کے سبب ہی ملی۔ گاندھی کی احتجاجی جنگ اور سبھاش چندر بوس کی اسلحے سے لڑائی ناکامی سے دوچار ہوئیں۔
گویا اس دور میں بھی قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں کے اندازے درست ثابت ہوئے۔ آج شاہ رخ کے اس بیان نے بھی مسلم لیگ کے دو قومی نظریے کو توانائی بخشی ہے۔ یہ طے کردیا کہ خدائے واحدہ لاشریک کو ماننے والے اور بتوں کی پوجا کرنے والے الگ الگ اقوام بھی گائے کی پوجا کرنے والے اور اسے حلال جانور سمجھ کر توانائی پانے والے الگ الگ قوم ہیں۔ محمود وایاز کی ایک صف اور برہمن اور شودر کی جدائیاں ہندو مسلم قوموں کو جدا کرتی ہیں۔ ہندو پانی اور مسلم پانی کی آوازیں جو بس اسٹینڈز اور ریلوے اسٹیشنوں پر لگائی جاتی تھیں، وہ انھیں الگ الگ سمت لے جا رہی تھیں۔ اس بات کو نہ ماننے والے نہرو، پٹیل جیسے ہندوؤں یا آزاد اور بعض مسلمان مذہبی وسیاسی رہنمائوں کے خیالات، آج شاہ رخ کے بیان نے ان کے نظریے کو شکست سے دوچار کردیا ہے۔
ایک بھارتی مسلمان کے بیان نے سرحد کے دونوں پار رہنے والوں کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ اس بیان نے جناح کو کامیاب اور گاندھی کو ناکام قرار دلوایا ہے۔ گاندھی ہندوؤں کے لیے کامیاب قرار پا سکتے ہیں لیکن برصغیر کے مسلمانوں نے ہزار سالہ تاریخ میں کسی ایک لیڈر پر اتفاق کیا تو وہ قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ آج ان کے نظریے کی سچائی نے پاکستان کو مستحکم کرنے پر اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ ثابت کیا ہے کہ ہم جب ایک پلیٹ میں ہندو کے ساتھ کھانا نہ کھا سکتے تھے تو ایک ساتھ کس طرح برابری کی بنیاد پر رہ سکتے تھے؟
اندرا گاندھی کی سن 71 میں کہی گئی بات کی بیلز بھی اڑگئی ہیں۔ جناح کے نظریے کوخلیج بنگال میں ڈبونے والوں کا سیکولرازم ممبئی کی فلم نگری کے ایک بیان سے ہچکولے کھاکر ڈوب چکا ہے۔ ہزار سال کی غلامی اور پھر قیام پاکستان کا بدلہ لینے والی اندرا گاندھی کے خیالات کو ان کے ہم مذہبوں کی تنگ نظری نے ڈبودیا۔ مسلمانوں کے لیے جدید انڈیا کو قابل قبول بنانے والے اپنی کوششوں میں ناکام ہوچکے ہیں۔ قائد اعظم اور آزاد نے ایک نہیں دو پاکستان کا بننا کہا تھا۔ وہ پلان جسے لیگ نے قبول کرلیا تھا۔ اس طرح نہ کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوتا، نہ جنگیں ہوتیں اور نہ آبادیوں کی ہجرت۔ یہ قائد اور ان کے ساتھیوں کی دور اندیشی تھی۔ اسے نہ مان کر گاندھی کی ٹیم مجرم قرار پاتی ہے۔ آج ہندوستان کا تین حصوں میں تقسیم ہونا انگریزوں اور لیگیوں کی دور اندیشی اور کانگریسیوں کی سطحی ذہنیت کا غماز ہے۔ سیف علی خان اور شبانہ اعظمی جیسے بڑے مشہور اور خوشحال بھارتی مسلمان شہریوں کا ممبئی میں جائیداد نہ خرید سکنا کیا ہے؟ یہ اندراگاندھی اور ان کے خاندان کی دوسری وکٹ ہے۔ جو دو قومی نظریے نے اڑادی ہے۔
سونیا گاندھی چلی تھیں اپنی فلم نگری کے ذریعے پاکستانیوں کے ذہنوں کو فتح کرنے، وہ ہماری مسلم ثقافت اور پاکستانی کلچر کو شکست دینے کے دعوے کر رہی تھیں۔ ان کی اپنی فلموں نے ان کے نوجوانوں کے ذہنوں میں تلاطم پیدا کردیا۔ ان کے نوجوان جنسی بھیڑیئے بن چکے ہیں۔ گھر سے باہر نکلنے والی یا گھر کے اندر رہنے والی ہر ہندوستانی ناری اپنے ہم وطن درندے کی درندگی کے خطرے سے دوچار ہے۔ جس اسلحے سے دوسروں کو زیر کرنے چلی تھیں وہ اب خود انھیں زخمی کر رہا ہے۔ انڈین فلم انڈسٹری وہ ہاتھی بن چکا ہے جو پلٹ کر اپنی ہی فوج کو کچل رہا ہے۔ مئی 2000ء میں راقم نے لکھا تھا کہ ہماری مسلم ثقافت اور پاکستانی کلچر اتنا مضبوط ہے جسے چند انڈین چینلز اور چند ارتعاشی لہریں بہاکر نہیں لے جاسکتیں۔
ہم مذہبی طور پر اتنے کمزور نہیں کہ چند فلمیں ان میں دراڑیں ڈال دیں۔ اذان، نماز، روزہ اور زکوٰۃ اسے زندہ رکھتے ہیں تو حج اور قربانی اس میں چار چاند لگاتے ہیں۔ کوئی کرکٹ و ہاکی میچ یا پاک بھارت جنگ ہمارے جذبہ حب الوطنی کو مضبوط کرتی ہے تو کوئی سیلاب و زلزلہ ہمیں یکجا کردیتا ہے۔ وقتی طور پر ہی سہی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ہزار سال گزرنے پر بھی ہماری مسلمانیت توانا ہے۔ ساڑھے بارہ سال کے انتظار کے بعد سونیا گاندھی کا شکست آمیز بیان ہماری تحریک آزادی کے رہنماؤں کی سچائی ہے۔ جناح کے خیالات نے کرم چند گاندھی، اندرا گاندھی اور سونیا گاندھی کی بیلز اڑا دی ہیں۔ قائد اعظم کے دو قومی نظریے کو شاہ رخ کے بیان نے ایک بار پھر زندہ کردیا ہے اور یوں تینوں گاندھیوں کی تینوں وکٹیں گرگئیں۔