گمشدہ عکس

ردعمل اور نتائج میں کہیں کہیں جزوی اختلاف کی گنجائش تو نکل کر سکتی ہے


Amjad Islam Amjad June 18, 2017
[email protected]

فیس بک سے ملنے والی معلومات کی تصدیق اپنی جگہ پر ایک مسئلہ ضرور ہے کہ بعض لوگوں نے اسے کھیل تماشا اور اپنے ذاتی یا گروہی تعصبات کی آماجگاہ بنا رکھا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس پر پوسٹ ہونے والا بہت سا مواد صحیح، چشم کشا اور معلوماتی بھی ہوتا ہے اور اگر آپ اعداد و شمار کے چکر میں پڑے بغیر صرف مسئلے کی نوعیت اور اہمیت پر نگاہ رکھیں تو یہاں نئے سوالوں کے ساتھ ساتھ کئی پرانے سوالات کے جواب یا ان سے متعلق نئی اور بہت غور طلب معلومات بھی ملتی ہیں۔

میرے دوست مسعود علی خاں نے چند دن قبل قطر اور سعودی عرب کے حالیہ جھگڑے کے پس منظر میں کچھ ایسی معلومات فراہم کیں جو صرف امت مسلمہ کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے لیے ایسے سنگین انکشافات کا درجہ رکھتی ہیں جو دنیا بھر کے زیر دستوں کا سانجھا اور اجتماعی مسئلہ ہے۔ ابھی میں اس پر کچھ لکھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو ہی رہا تھا کہ ان کی لگائی ہوئی ایک اور پوسٹ سامنے آ گئے جس نے معاملے کی وسعت، گہرائی اور اہمیت کو ایک ایسا رنگ دیا جس سے آنکھیں چرانے کا مطلب اس کبوتر کا رویہ اختیار کرنا ہے جس پر بلی چھپٹنے کے لیے بالکل تیار کھڑی ہے۔ بات کچھ یوں شروع ہوتی ہے۔

مسلم دنیا کے بارے میں چند غور طلب حقائق

افغانستان۔ تباہ

عراق۔ تباہ

لیبیا۔ تباہ

پاکستان۔ تباہ

شام۔ تباہ

صومالیہ۔ تباہ

یمن۔ تباہ

سوڈان۔ تباہی کے عمل سے دوچار

اور کم و بیش یہی صورتحال مراکش، تیونس، مغربی افریقہ کے مسلمان ممالک، مصر، ایران اور اب قطر کی ہے جب کہ گزشتہ 20 برس میں تقریباً بیس لاکھ مسلمان مختلف حوالوں سے موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں اور تقریباً چھ کروڑ جلا وطنی، بے گھری کے عذاب سے گزر رہے ہیں۔ تقریباً دو ارب مسلمان آبادی کا 43% تعلیم سے محروم ہے اور 60% لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور اس ہمہ گیر تباہی کے آشوب میں لاکھوں لوگ اپنے خوابوں، گھروں اور جینے کی امید اور خواہش سے محروم ہو کر ایک بے معنی زندگی گزار رہے ہیں جب کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود مسلمان دنیا کے دانشوروں، لیڈروں اور مفکرین کے محبوب مسائل کچھ اس طرح کے ہیں۔

(1 مسلمان مردوں کے لیے تین طلاقوں کا مسئلہ۔ (2 کیا چاند کو ننگی آنکھ سے دیکھنا ضروری ہے یا اس کے لیے رب کریم کے تخلیق کردہ نظام قمری کو بنیاد بنایا جائے۔ (3 کیا عورت امامت کر سکتی ہے۔ (4 غیر مسلموں کو مسجد میں داخلے کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں۔ (5 کیا غیر مسلم کو قرآن مجید دینا جائز ہے؟ (6 کیا ایام حیض کے دوران عورت مسجد میں آ اور بیٹھ سکتی ہے؟ (7 حجاب کے اندر سے مسلمان عورت کے کس قدر بال دکھائی دینے چاہئیں؟ (8 افطار کے وقت کتنی کھجوریں کھانی چاہئیں۔ (9 تراویح کی رکاتیں آٹھ ہیں یا بیس؟ (10 شیعہ کو کافر کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ (11 سنی کو کافر کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ (12 جس شخص کا عقیدہ اور فرقہ ہم سے مختلف ہو اسے مرتد کیسے قرار دیا جائے؟ (13 جو قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ نہیں پڑھ سکتے ان کے اسلام کا درجہ کیا ہے؟ (14 افطار پارٹی میں کھانے کی آئٹمز کی تعداد کتنی ہونی چاہیے؟ (15 مسلمان دنیا میں افطار پارٹیوں کی شان و شوکت کیا ہونی چاہیے؟

اس ساری صورتحال پر جو ردعمل دیا گیا ہے وہ کچھ یوں ہے۔

اسلامی دنیا کے سارے لیڈروں، سیاستدانوں، سفارتکاروں، فوجی اور مذہبی قائدین کے لیے یہ شرم اور ڈوب مرنے کا مقام ہے اور اس فہرست میں تمام فرقے سنی، شیعہ، وہابی، بریلوی، دیوبندی، سلفی وغیرہ وغیرہ ایک ہی صف میں ہیں۔

اور خلاصہ تحریر کچھ یوں ہے کہ

''یہ محض کوئی اتفاقی واقعہ نہیں کہ تقریباً ہر باصلاحیت اور ترقی کے قابل مسلمان ملک کو اندرونی اور بیرونی تضادات اور مداخلت کے ذریعے نیست و نابود کر دیا گیا ہے اور ان میں انتشار پیدا کر کے ان پر حکومت اور ان کے وسائل پر قبضے کا ایک ایسا پروگرام بنایا گیا ہے جو شاید انسانی تاریخ میں سیاسی اقتدار کو اپنی گرفت میں رکھنے کی سب سے کامیاب پالیسی ہے جس کے لیے کسی بیرونی شیطان کی ضرورت نہیں کہ اصل شیطان اندر ہوتا ہے۔''

اس پس منظر میں قطر کی موجودہ صورتحال اس امر کی شاہد ہے کہ کس طرح دنیا میں سب سے زیادہ فی کس آمدنی رکھنے والے ملک کو اس کے اپنے ہی ہم مذہبوں کے ذریعے دیوار سے لگایا جاتا ہے اور سب اس تماشے کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود خاموش ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ اگلی باری کسی کی بھی ہو سکتی ہے۔ ش۔ش۔ش

اب ان معلومات، حقائق، ردعمل اور نتائج میں کہیں کہیں جزوی اختلاف کی گنجائش تو نکل کر سکتی ہے مگر امر واقعہ یہی ہے کہ اس وقت ہم دنیا کو ان ہی دھندلے آئینوں کی معرفت دیکھ رہے ہیں۔ 44 برس پہلے کی لکھی ہوئی ایک نظم جس کا عنوان ہے ''گمشدہ عکس''!

کون ہیں جو مٹھیاں اپنی

کھوٹے سکوں سے بھرے لائے ہیں؟

آنکھ کے بے وقار دامن میں

کون ہیں یہ جو لے کے آئے ہیں؟

بے ثمر خواب، بے ہنر آنسو

بے جہت پاؤں، مضمحل بازو

اک ارب لوگ ہیں کہ سائے ہیں؟

کون ہیں یہ جو رات دن اپنی گمشدہ بستیوں کے ملبے سے

بے عمل خواہش اٹھاتے ہیں؟

کون ہیں یہ جو چیونٹیوں کی طرح

ٹوٹی قبروں میں گھر بناتے ہیں؟

کون ہیں یہ جو میرے چار طرف

چلتے پھرتے ہیں، آتے جاتے ہیں

میں نے دیکھا تو جتنے چہرے تھے

ہو بہو نین نقش میرے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔