اٹارنی جنرل کی فیئر پلے کی استدعا
سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل دی جانے والی جے آئی ٹی بلاشبہ ان دنوں میڈیا پر چھائی ہوئی ہے
سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل دی جانے والی جے آئی ٹی بلاشبہ ان دنوں میڈیا پر چھائی ہوئی ہے، اس کی طرف سے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں پاناما لیکس کیس کے حوالے سے وقت کے حکمران اور ان کے اہل خانہ کے خلاف تحقیقاتی عمل جاری ہے۔
اسے عدالت عظمیٰ کی ہدایت کے مطابق 60 دن کے اندر اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرانی ہے ، وزیراعظم نواز شریف ، ان کے دونوں بیٹے حسین نواز اور حسن نواز پیش ہو چکے، ہفتہ کو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے، چند اورکو طلبی کے نوٹس جاری ہونگے، تاہم جے آئی ٹی کی جانب سے تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے اور بعض اداروں پر ریکارڈز میں ٹیمپرنگ کی شکایت اور تحقیقات کی مدت میں توسیع کی درخواست کے بعد دیکھنا ہوگا کہ جے آئی ٹی کو توسیع ملتی ہے یا عدلیہ اسے معینہ میعاد میں تحقیقات مکمل کرنے کا پابند بناتی ہے، لیکن احتساب کے اس نقطہ آغاز سے ملکی سیاست اور برسراقتدار طبقات سمیت اشرافیائی طرز حکومت کے ایوانوں میں زیر زمیں ارتعاش دیدنی ہے ، الزامات اور جوابی الزامات سے سیاسی ماحول خاصا گرم ہے۔
جمعہ کو وزیراعظم کے ترجمان مصدق ملک نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف نے خود کو احتساب کے لیے پیش کر کے مثال قائم کی لیکن جے آئی ٹی کے رویئے سے تعصب اور جانبداری کی بو آتی ہے، یہ بات انھوں نے اسلام آباد میں مسلم لیگ(ن) کے رہنما دانیال عزیز اور عمران گورایہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کہی۔ ترجمان وزیراعظم نے مزید کہا کہ سب کو پتہ ہے کہ وزیراعظم کا نام پاناما دستاویزات میں نہیں ہے لیکن پھر انھوں نے خود کو تین نسلوں کے حساب کے لیے پیش کیا اور یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے، دانیال عزیز کا کہنا تھا کہ عمران خان عدالتوں میں پیش ہوں، عدالتوں، الیکشن کمیشن، انسداد دہشتگردی عدالت اور ریاست کی رٹ کا مذاق مت اڑائیں، ادھر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے پاناما لیکس معاملہ کی تحقیقات کرنیوالی جے آئی ٹی کی درخواست پر تحریر ی جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا ہے جس میں عدالت کو بتایا گیا ہے کہ تمام اداروں نے جے آئی ٹی کے الزامات کو مستردکیا ہے، جواب 4 صفحات پر مشتمل ہے جب کہ تمام اداروں کی طرف سے اٹارنی جنرل آفس کو بھجوائے گئے جوابات بھی ساتھ منسلک کیے گئے ہیں۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم آفس نے موقف اپنایا ہے کہ جے آئی ٹی ثبوت فراہم کرے، جے آئی ٹی کی طرف سے گواہان کی مانیٹرنگ اور فون ٹیپ کرنا آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے، اٹارنی جنرل آفس کے جواب میں عدالت کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایس ای سی پی کے مطابق تمام ریکارڈ بروقت فراہم کیا گیا اور جے آئی ٹی کا ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کا الزام بھی مسترد کیا گیا ہے جب کہ سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی کے الزامات حقائق کے منافی ہیں، عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ عدالت جے آئی ٹی کو شفافیت اور فیئر پلے کا حکم دے کیونکہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جے آئی ٹی نے زیادہ وقت ٹاک شوز دیکھنے میں گزارا اور سوشل میڈیا کی بھی بھرپور مانیٹرنگ کی گئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاناما لیکس کیس کے تناظر میں جے آئی ٹی کی حتمی تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کی جائے گی اور فیصلہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے آئے گا جس کے اثرات و نتائج کس قدر ہمہ گیر و دور رس ہوں گے ، ملک کے سیاسی مستقبل اور اشرافیائی طرز سیاست میں قلب ماہیت کی کیا صورت بنے گی اس پر رائے زنی مناسب نہیں، عدالتی معاملات پر سنجیدہ گفتگو اور رد عمل ہی سے جمہوری اور تہذیبی رویئے کا اظہار ہوتا ہے، کوئی مانے یا نہ مانے ملک کی آئندہ سیاسی تقدیر و تشکیل جے آئی ٹی کی شفاف ، غیر جانبدارانہ اور بلا امتیاز و تعصب تحقیقات سے مشروط ہے۔
اسپین کی نام نہاد احتسابی عدالتوں کے ظالمانہ کلیسائی سیاق وسباق اور فیصلے ہماری عدلیہ کے حد ادراک میں لازماً ہونگے، اس لیے جے آئی ٹی کے ارکان کو سیاست دانوں ، قانونی ماہرین کی شکایات اور میڈیا کی جائز اور تعمیری تنقید کا ادراک کرتے ہوئے تحقیقات کو توقع سے زیادہ شفافیت عطا کرنی چاہیے کہ یہ اہم اور نازک ترین مرحلہ ہے۔ جے آئی ٹی اپنے آئندہ کے تحقیقاتی عمل میں اس مشہور مقولہ پر صاد کرے کہ ''میں احتساب پر مامور ہوں، کبھی غصہ نہیں کرتا''۔
دوسری حقیقت یہ کہ ہماری عدلیہ پہلی بار نظریہ ضرورت کے تاریخ ساز بندھن سے آزاد نظر آتی ہے، اسے پاکستانی سیاست کے ماضی ، اس کے فرسودہ ڈھنگ اور اشرافیائی کلچر میں انصاف کے قتل کی وارداتوں کا سب سے زیادہ ادراک ہوگا، عدالت عظمیٰ کو اس حقیقت کا بھی علم ہوگا کہ ملک جمہوریت اور صرف جمہوریت کے تسلسل سے قائم رہ سکتا ، ایسا ہمہ گیر انصاف ہو جس سے قوم کو پتا چلے کہ طالع آزمائی اور کرپٹ سیاست دانوں کے دن گنے جا چکے، موجودہ عدلیہ اس کا تشخص دباؤسے آزاد ادارہ انصاف کا ہے ، ایسا انصاف جو احتساب اور انصاف کے درمیان فرق کو بلڈوز کرنے کے خدشہ کو دور کردے، کوئی یہ گلہ نہ کرے کہ گردن صرف ہماری پھنسی۔
اسے عدالت عظمیٰ کی ہدایت کے مطابق 60 دن کے اندر اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرانی ہے ، وزیراعظم نواز شریف ، ان کے دونوں بیٹے حسین نواز اور حسن نواز پیش ہو چکے، ہفتہ کو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے، چند اورکو طلبی کے نوٹس جاری ہونگے، تاہم جے آئی ٹی کی جانب سے تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے اور بعض اداروں پر ریکارڈز میں ٹیمپرنگ کی شکایت اور تحقیقات کی مدت میں توسیع کی درخواست کے بعد دیکھنا ہوگا کہ جے آئی ٹی کو توسیع ملتی ہے یا عدلیہ اسے معینہ میعاد میں تحقیقات مکمل کرنے کا پابند بناتی ہے، لیکن احتساب کے اس نقطہ آغاز سے ملکی سیاست اور برسراقتدار طبقات سمیت اشرافیائی طرز حکومت کے ایوانوں میں زیر زمیں ارتعاش دیدنی ہے ، الزامات اور جوابی الزامات سے سیاسی ماحول خاصا گرم ہے۔
جمعہ کو وزیراعظم کے ترجمان مصدق ملک نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف نے خود کو احتساب کے لیے پیش کر کے مثال قائم کی لیکن جے آئی ٹی کے رویئے سے تعصب اور جانبداری کی بو آتی ہے، یہ بات انھوں نے اسلام آباد میں مسلم لیگ(ن) کے رہنما دانیال عزیز اور عمران گورایہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کہی۔ ترجمان وزیراعظم نے مزید کہا کہ سب کو پتہ ہے کہ وزیراعظم کا نام پاناما دستاویزات میں نہیں ہے لیکن پھر انھوں نے خود کو تین نسلوں کے حساب کے لیے پیش کیا اور یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے، دانیال عزیز کا کہنا تھا کہ عمران خان عدالتوں میں پیش ہوں، عدالتوں، الیکشن کمیشن، انسداد دہشتگردی عدالت اور ریاست کی رٹ کا مذاق مت اڑائیں، ادھر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے پاناما لیکس معاملہ کی تحقیقات کرنیوالی جے آئی ٹی کی درخواست پر تحریر ی جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا ہے جس میں عدالت کو بتایا گیا ہے کہ تمام اداروں نے جے آئی ٹی کے الزامات کو مستردکیا ہے، جواب 4 صفحات پر مشتمل ہے جب کہ تمام اداروں کی طرف سے اٹارنی جنرل آفس کو بھجوائے گئے جوابات بھی ساتھ منسلک کیے گئے ہیں۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم آفس نے موقف اپنایا ہے کہ جے آئی ٹی ثبوت فراہم کرے، جے آئی ٹی کی طرف سے گواہان کی مانیٹرنگ اور فون ٹیپ کرنا آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے، اٹارنی جنرل آفس کے جواب میں عدالت کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایس ای سی پی کے مطابق تمام ریکارڈ بروقت فراہم کیا گیا اور جے آئی ٹی کا ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کا الزام بھی مسترد کیا گیا ہے جب کہ سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی کے الزامات حقائق کے منافی ہیں، عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ عدالت جے آئی ٹی کو شفافیت اور فیئر پلے کا حکم دے کیونکہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جے آئی ٹی نے زیادہ وقت ٹاک شوز دیکھنے میں گزارا اور سوشل میڈیا کی بھی بھرپور مانیٹرنگ کی گئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاناما لیکس کیس کے تناظر میں جے آئی ٹی کی حتمی تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کی جائے گی اور فیصلہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے آئے گا جس کے اثرات و نتائج کس قدر ہمہ گیر و دور رس ہوں گے ، ملک کے سیاسی مستقبل اور اشرافیائی طرز سیاست میں قلب ماہیت کی کیا صورت بنے گی اس پر رائے زنی مناسب نہیں، عدالتی معاملات پر سنجیدہ گفتگو اور رد عمل ہی سے جمہوری اور تہذیبی رویئے کا اظہار ہوتا ہے، کوئی مانے یا نہ مانے ملک کی آئندہ سیاسی تقدیر و تشکیل جے آئی ٹی کی شفاف ، غیر جانبدارانہ اور بلا امتیاز و تعصب تحقیقات سے مشروط ہے۔
اسپین کی نام نہاد احتسابی عدالتوں کے ظالمانہ کلیسائی سیاق وسباق اور فیصلے ہماری عدلیہ کے حد ادراک میں لازماً ہونگے، اس لیے جے آئی ٹی کے ارکان کو سیاست دانوں ، قانونی ماہرین کی شکایات اور میڈیا کی جائز اور تعمیری تنقید کا ادراک کرتے ہوئے تحقیقات کو توقع سے زیادہ شفافیت عطا کرنی چاہیے کہ یہ اہم اور نازک ترین مرحلہ ہے۔ جے آئی ٹی اپنے آئندہ کے تحقیقاتی عمل میں اس مشہور مقولہ پر صاد کرے کہ ''میں احتساب پر مامور ہوں، کبھی غصہ نہیں کرتا''۔
دوسری حقیقت یہ کہ ہماری عدلیہ پہلی بار نظریہ ضرورت کے تاریخ ساز بندھن سے آزاد نظر آتی ہے، اسے پاکستانی سیاست کے ماضی ، اس کے فرسودہ ڈھنگ اور اشرافیائی کلچر میں انصاف کے قتل کی وارداتوں کا سب سے زیادہ ادراک ہوگا، عدالت عظمیٰ کو اس حقیقت کا بھی علم ہوگا کہ ملک جمہوریت اور صرف جمہوریت کے تسلسل سے قائم رہ سکتا ، ایسا ہمہ گیر انصاف ہو جس سے قوم کو پتا چلے کہ طالع آزمائی اور کرپٹ سیاست دانوں کے دن گنے جا چکے، موجودہ عدلیہ اس کا تشخص دباؤسے آزاد ادارہ انصاف کا ہے ، ایسا انصاف جو احتساب اور انصاف کے درمیان فرق کو بلڈوز کرنے کے خدشہ کو دور کردے، کوئی یہ گلہ نہ کرے کہ گردن صرف ہماری پھنسی۔