جمہوری اداروں میں ٹکرائو…

یہ ادارے دریا کے دو کناروں کی طرح ہیں جو کبھی ملتے نہیں، نہ...

جبار جعفر

اصولوں پر دنیا قائم ہے اورکاروبارِ زندگی کی رونق بھی۔ ان پر آنکھ بند کرکے عمل پیرا ہونے میں ہی عافیت ہے، کیونکہ اصول سالہا سال کے ''ناکام تجربات کا نچوڑ ہوتے ہیں۔''

پارلیمانی نظام میں TRICHOTOMY OF POWER کے ذریعے تین آزاد، خودمختار، یکساں پاور رکھنے والے ادارے تشکیل پاتے ہیں مثلاً (1) مقننّہ، (2) عدلیہ ، (3) انتظامیہ ۔ جن کے فرائض جدا جدا لیکن مقصد ایک ہوتا ہے، یعنی آئین کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی۔ اگر ممبران اسمبلی میں قانون کی حکمرانی کے بجائے قانون سازوں کی حکمرانی کی تمنّا جاگ اٹھے تو پھر ''کون بنے گا سپرمین؟'' کا کھیل شروع ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ آج کل چل رہا ہے۔ سابق وزیراعظم کے بیان کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے۔

''آئین سپریم ہے مگر آئین بنانے والی پارلیمنٹ ہے، جو سمجھتے ہیں کہ وہ بالادست ادارہ نہیں تو ان کی غلط فہمی جلد دور ہوجائے گی۔''

بے شک آئین ہی سپریم ہے لیکن موجودہ اسمبلی آئین ساز نہیں بلکہ قانون ساز اسمبلی ہے جو آئین کی رہنمائی میں اپنے فرائض انجام دے سکتی ہے، لیکن آئین و قانون کی تشریح نہیں کرسکتی جب کہ عدلیہ تشریح کرسکتی ہے لیکن قانون سازی نہیں کر سکتی۔ 1973 کا متفقہ آئین اس وقت کی آئین ساز اسمبلی نے بنایا تھا جس کے وزیراعظم مسٹر بھٹو تھے جو PPP کے چیئرمین بھی تھے (جن کی عظمت کے لیے 1973 کا آئین ہی کافی ہے) لیکن وہ فانی انسان تھے، بدقسمتی سے پھانسی چڑھ گئے۔اگر وہ آئین کے خالق ہوتے تو ان کی شہادت کے بعد 1973 کا آئین تو یتیم ہوچکا ہوتا کیونکہ آئین سپریم تھا اس لیے وہ جب تک پاکستان قائم ہے زندہ رہے گا اور ان کا نام بھی۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا آج کا ممبر اسمبلی 39 سال قبل بنائے گئے آئین کی بہتر تشریح کرسکتا ہے یا مقننّہ کے متوازی Trichotomy of power کے تحت تشکیل دیا ہوا یکساں پاور/ اتھارٹی رکھنے والا مستقل ادارہ ''عدلیہ'' جن کو فرض، پیشہ ورانہ صلاحیت، قابلیت، تجربہ آئین و قانون کی غیر جذباتی تشریح کے قابل بناتا ہے۔ یہ بحث بھی لاحاصل ہے کہ آئین و قانون کا ''خالق'' سپریم ہوتا ہے کیونکہ آئین و قانون بنایا جاتا، تشکیل دیا جاتا ہے، تالیف و ترتیب دیا جاتا ہے، ''تخلیق'' نہیں کیا جاتا۔ ممبران پارلیمنٹ 5-4 سال کے لیے منتخب ہو کر آتے ہیں، عوام کی امنگوں کے مطابق قانون سازی کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں

لیکن ان کا بنایا قانون قوم کی امانت بن جاتا ہے جس کی محافظ عدلیہ ہوتی ہے۔ قانون کی حکمرانی کے لیے تعاون کی ایک بہترین مثال یہ ہے کہ امریکا میں 200 سال سے زیادہ عرصے سے امریکی سپریم کورٹ کانگریس کے منظور کردہ قوانین کی معقولیت اور جواز کا تعین کرتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ کانگریس اس کو انا کا مسئلہ نہیں سمجھتی بلکہ بل پاس ہونے سے پہلے ہی سپریم کورٹ کو پکچر میں رکھتی ہے، تاکہ بعد میں خفت نہ اٹھانی پڑے۔ اگر قانون ساز ممبران اسمبلی ہی اس کے خالق ہونے کی وجہ سے سپریم ہیں تو پھر غیرآئینی قانون کو کالعدم قرار دینے اور نااہلی کے مرتکب ممبرانِ اسمبلی کو گھر بھیجنے والوں کو کیا کہا جائے؟ اس لیے یہ بحث ہی غیر دانشمندانہ ہے۔ اگر کوئی آئینی حدود اور قانونی دائرہ کار کی ''باریکی'' کو سمجھنا چاہے تو مندرجہ ذیل اقتباس ہی کافی ہے۔


عدالتی نظر ثانی پر گفتگو کرتے ہوئے بھارتی جسٹس گنگولی وضاحت کرتے ہیں کہ ''بھارتی آئین باب سوم شق 13 (2) میں درج ہے کہ حکومت کوئی ایسا قانون نہیں بناسکتی جو شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ کالعدم قرار پائے گا (اس کو کالعدم قرار دینے کی) حکومت کے پاس طاقت نہیں ہے اور نہ پارلیمنٹ اپنے ہی بنائے ہوئے (آئین سے متصادم) قانون کو کالعدم کرسکتی ہے مگر صرف سپریم کورٹ ہی ہے جو اسے غیر قانونی قرار دے سکتی ہے۔'' چنانچہ بھارت میں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی متعدد آئینی ترامیم تک کو منسوخ کردیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قرار دیتے ہیں کہ ''آئین سے متصادم اقدامات کو اعلیٰ عدلیہ ختم کرتی رہی ہے لہٰذا یہ آئین ہی ہے جس پر عمل کرتا ہے جس کی حفاظت کرتا ہے، جس کی پیروی کرتا ہے۔ آئین ججوں کی بنائی ہوئی دستاویز نہیں ہے، 18 کروڑ عوام کی منشا کا مظہر ہے... یہ تصور ہی غلط ہے کہ عوامی نمایندے ہی عوام کی منشا کے بلاشرکت غیرے ترجمان ہیں'' (یعنی عدلیہ اپنی برتری کا نہیں آئین کی برتری کا دعویٰ کررہی ہے۔

جس کو 1973 کی آئین ساز اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا جس کے لیے وزیراعظم پیپلز پارٹی کے بانی اور چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو تھے اور جو ملک اور قوم کے مفاد کو پیش نظر رکھ کر تیار کیا گیا تھا جب کہ آج کی پیپلز پارٹی کے قانون ساز ممبران اسمبلی جب خود آئین کی زد میں آرہے ہیں تو اپنے آپ کو بچانے کے لیے آئین اور قانون کی من مانی تشریحات و تاویلات پیش کی جارہی ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ادارے دریا کے دو کناروں کی طرح ہیں جو کبھی ملتے نہیں، نہ علیحدہ ہوسکتے ہیں کیونکہ دونوں کی منزل ایک ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی ثابت ہوا کہ آئین و قانون کی تشریحات کے لیے ایک علیحدہ آزاد و خودمختار ادارہ ''عدلیہ'' تشکیل دینے کا اصول عملی طور پر کتنا درست اور کارآمد ہے۔

اس وقت ملک کو جمہوری اداروں کے ٹکرائو کی نہیں بلکہ دنیا میں رائج جمہوری اصولوں کے مطابق آزادانہ، غیرجانبدارانہ، منصفانہ، دھاندلی سے پاک شفاف انتخابات کی ضرورت ہے تاکہ پارلیمنٹ میں عوام سے تعلق رکھنے والے نہ کہ ''اشرافیہ سے تعلق رکھنے ''عوامی'' نمایندے نظر آئیں۔ کیسے؟ پہلے ملک میں رائج اشرافیائی طریقۂ انتخاب پر ایک نظر۔

جعلی ووٹ ملا کر ہمارے ہاں 7.40 ٹرن آئوٹ ہوتا ہے اور ''اکثریت'' 7.60 گھروں میں چھٹی مناتی ہے یا پکنک پر نکل جاتی ہے۔ پولنگ اسٹیشن کا رخ نہیں کرتے پھر بھی انتخابات کالعدم نہیں ہوتے۔ 7.40 اقلیتی ووٹوں کی کئی امیدواروں کے درمیان بندر بانٹ ہوتی ہے۔ ان میں جس کے ووٹ زیادہ وہ کامیاب قرار پاتا ہے۔ عموماً 12-10 فیصد ووٹ لینے والا کامیاب ہوجاتا ہے اور 100 فیصد ووٹروں کا ہر دلعزیز نمایندہ بن جاتا ہے اور جو نہ مانے ان کو آنکھیں دکھاتا ہے۔

شفاف انتخابات میں اکثریت کا مطلب کل ووٹوں کا کم از کم 51 فیصد ہوتا ہے۔ اگر پہلے مرحلے میں 51 فیصد سے کم فیصد ہو تو دوسرے مرحلے میں اوّل و دوم آنیوالے امیدوار کے درمیان مقابلہ کرایا جاتا ہے اور اکثریتی ووٹ پر فیصلہ ہوتا ہے جب کہ ٹرن آئوٹ کم از کم 90% ہو، اس طرح ہمارے ہر دل عزیز نمایندے کو 100 فیصد ووٹروں سے رابطہ کرنا پڑیگا اور ان کے تلخ و ترش سوالات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ مثلاً وہ پوچھ سکتے ہیں (1) امیروں کی جمہوریت (پارلیمانی انتخابات) کو کیوں ووٹ دیں جو غریبوں کی جمہوریت (بلدیاتی انتخابات) کی دشمن ہے (2) جب منتخب بلدیاتی نمایندوں کے سروں پر غیر منتخب کمشنر ہو سکتا ہے تو منتخب پارلیمنٹرین پر غیر منتخب جنرل کیوں نہیں بیٹھ سکتا؟

(3) جب اپنی تنخواہوں اور دیگر مراعات کے وقت حکومتی اور حکومت مخالف ارکان ایک ہوجاتے ہیں تو ملک و قوم کے مسائل پر کیوں نہیں ہوتے؟ (4) سنا ہے ہمارے آقائوں کے باورچی خانے کا خرچ لاکھوں میں ہے۔ کھانے میں کیا پکتا ہے؟ یورو کڑھائی یا ڈالر فرائی؟ دینار مصالحہ یا درہم گھٹالا؟ تب کہیں جا کر جمہوریت کی خرابیاں جمہوریت کے تسلسل سے ٹھیک ہوں گی۔

پاکستانی قوم کو اگر اپنی 65 سالہ اجتماعی حماقتوں اور منافقتوں کا کفارہ ادا کرنا ہے تو یہ آخری موقع ہے کہ ملاوٹ سے پاک شفاف انتخابات اپنے وقت پر ہوجائیں کیونکہ چار سال سے جمہوریت کا پریشر ککر تپش کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ اگر مثبت تبدیلی آئی تو ''سیٹی'' بجے گی۔ ورنہ ایسا دھماکا ہو گا کہ ہر شخص چھت کی طرف دوڑے گا۔ اذان دینے کے لیے۔ اﷲ اکبر...!
Load Next Story