عظیم پشاور کی سنہری یادیں
ابراہیم ضیا نے اس کتاب میں ان تمام موسیقاروں، اداکاروں اور اداکاراؤں کا ذکر تفصیل سے کیا ہے
KUALA LUMPUR:
آج کا پشاور کل کا پروشاپور ایک شاندار تاریخ کا امین ہے۔ اس شہر کے گرد و نواح میں بودھ استوپا اور چٹانوں پر کندہ اشوک کے فرامین بکھرے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر زمانے کے ستم سہہ رہے ہیں اور آہستہ آہستہ مٹی میں مل رہے ہیں۔ یہ وہ شہر ہے جہاں بودھوں کی حکومت اور ان کا اثرو رسوخ رہا ہے۔ پشاور اور اس کے آس پاس کے علاقے گندھارا تہذیب کی شاندار کہانی سناتے ہیں۔ یہ تاریخی اور تہذیبی اعتبار سے برصغیر کا ایک ایسا شہر ہے جس کی نظیر ذرا مشکل سے ملتی ہے۔
اس کی مٹی کی تاثیر ایسی ہے جس نے یہاں کے لوگوں کو فنون لطیفہ کے عشق میں گرفتار کیا۔ 2013ء میں جب ہندوستانی سینما کی ایک صدی مکمل ہوئی تو بہت سی کتابیں سامنے آئیں۔ پشاور کے محمد ابراہیم ضیا کا دل بے قرار ہوگیا اور انھوں نے اس ایک صدی کے دوران پشاور سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کی زندگی کو مرتب کیا اور اس کتاب کو ''پشاور کے فنکار'' کا عنوان دیا۔ یہ کتاب پشاور سے کولکتہ اور ممبئی تک ایک پل بناتی ہے۔ یہ عشق اور امن کا پل ہے جس پر سے محبت کے قافلے گزرتے رہے ہیں۔
563 صفحوں کی یہ کتاب پشاور میں جدید تھیٹر کے ذکر سے شروع ہوتی ہے اور برصغیر کی پہلی خاموش اور پھر پہلی بولتی فلم کے بارے میں ہمیں بتاتی ہوئی سارے برصغیر کی سیر کراتی ہے۔ اس میں ہندو مسلم پارسی اور عیسائی فنکار ہیں جنھوں نے کروڑوں لوگوں کی آنکھوں میں خواب رکھے اور بد ترین بھک مری اور غربت کے دنوں میں بھی لوگوں کو جینے کا حوصلہ دیا۔
اکثر مجھے خیال آتا ہے کہ اگر 'مدر انڈیا' 'کابلی والا' 'ہم لوگ' 'بیجو باورا' اور 'آن' ایسی خواب دکھاتی ہوئی، عشق کو اور انسان کو سربلند دکھا تی ہوئی فلمیں نہ ہوتیں تو ہمارا غریب رکشا اور تانگہ چلانے والا، فیکٹریوں میں محنت و مشقت کرتا ہوا مزدور، دلالوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی عورتیں جینے کا حوصلہ کہاں سے لاتیں۔
ابراہیم ضیا نے اس کتاب میں ان تمام موسیقاروں، اداکاروں اور اداکاراؤں کا ذکر تفصیل سے کیا ہے جو پشاور کی گلیوں سے اٹھے اور سارے ہندوستان کی فلم انڈسٹری پر چھاگئے۔ ان میں دلیپ کمار، راج کپور، مدھوبالا، اے کے ہنگل، اچلاسچدیو، ناصر خان، پریم ناتھ، ونود کھنہ، انیل کپور اور شاہ رخ خان کے علاوہ دوسرے بہت سے نام ہیں۔
یہ ہزاروں ہزار فلمیں جن میں پشاور سے ممبئی، دلی اور کولکتہ تک کے فن کاروں نے کام کیا، انھوں نے ان بے شمار فلموں کو ہمارا تہذیبی، تاریخی اور سماجی سرمایہ بنادیا۔ یہ کتاب دادا بھائی پھالکے کے ذکر سے شروع ہوئی ہے جنھوں نے ہندوستان کی پہلی خاموش فلم ''راجہ ہریش چندر'' بنائی تھی۔ ضیا اس کے بعد بولتی ہوئی پہلی ہندوستانی فلم 'عالم آرا' کا ذکر کرتے ہیں۔
ہندوستانی فلمی صنعت کا پہلا دور 1913ء سے شروع ہو کر 1931ء کے بعد تک جاری رہا، یہ خاموش فلموں کا دور تھا۔ جس فلم نے برصغیر کی فلمی تاریخ کا سرنامہ رقم کیا، وہ دادا بھائی پھالکے کی پہلی خاموش فیچر فلم ''راجہ ہریش چندر'' تھی۔ 21 اپریل 1913ء کو ''راجہ ہریش چندر'' کا ممبئی کے اولمپیا سینما میں تعارفی شو پیش ہوا۔ جس میں پریس کے نمائندوں، نامور شخصیات اور کاروباری اداروں کے سربراہوں کو مدعو کیا گیا۔ اس فلم کی کمرشل نمائش 3 مئی 1913ء کو ممبئی کے کارونیشن تھیٹر میں ہوئی۔
وہ 14 مارچ 1931ء کو ممبئی کے ناولٹی سینما میں ریلیز ہونے والی برصغیر کی پہلی بولتی فلم ''عالم آرا'' کا ذکر کرتے ہیں جس میں کام کرنے والے زیادہ تر مسلمان تھے اور اس کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس میں کام کرنے والے تینوں اہم اداکار پرتھوی راج، ڈبلیو ایم خان اور محبوب خان کا خمیر پشاور کی مٹی سے اٹھا تھا۔ پشاور کے بائیسکوپ کب اور کہاں تعمیر ہوئے، وہ اس کی تفصیل بھی بتاتے ہیں۔ یہ پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد کے دن تھے جب قصہ خوانی بازار میں پہلا بائیسکوب قائم ہوا۔ اس بائیسکوپ میں اس زمانے کی بہت سی خاموش فلمیں دکھائی گئیں۔
وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ آغا جی اے گل نے ''فردوس سینما'' بنایا جو 1945ء میں تعمیر ہونا شروع ہوا اور قیام پاکستان کے بعد مکمل ہوا۔ یہ ایک شاندار سینما تھا جس میں دلیپ کمار اور میڈم نورجہاں کی فلم ''جگنو'' ریلیز ہوئی تھی اور اس نے ریکارڈ برنس کیا تھا۔ وہ ''روٹی'' فلم کا ذکر بہ طور خاص کرتے ہیں جس میں پشاور کے بزرگ اداکار اشرف خان نے دیوانے پروفیسر کا ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا۔ یہ فلم بنگال کے قحط کے بارے میں تھی اور اس قدر پُر اثر تھی کہ لوگ زار زار روتے تھے اور ان کے دلوں میں بغاوت کا خیال جنم لیتا تھا، اسی لیے انگریز حکومت نے اس پر پابندی لگا دی تھی۔
مدھو بالا ہماری سلور اسکرین کا ایک ایسا ستارہ تھی جس کے بارے میں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ 'خوش درخشید ولے شعلۂ مستعجل بود' اس نے صرف 36 برس کی عمر پائی لیکن اس مختصر زندگی میں کروڑوں انسانوں کے دلوں پر حکومت کی۔ وہ پشاور کے ضلع مردان کی تحصیل صوابی کے عطاء اللہ خان یوسف زئی کے یہاں دلی میں پیدا ہوئی۔ اس کی مادری زبان پشتو تھی۔
اردو بولنا اور پڑھنا اس نے دلی کے ایک اسکول سے سیکھا۔ ساری زندگی اردو فلموں میں کام کیا لیکن پشتو ثقافت سے مدھو بالا کو جتنی محبت تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1962ء میں اس نے بہ طور فلم ساز ایک فلم 'پٹھان' بنائی جس کے ہدایت کار اس کے والد عطا اللہ خان تھے۔ فلم 'محل' میں اس کی اداکاری نے اسے شہرت کے بام عروج پر پہنچادیا اور پورے برصغیر میں اس فلم کا گانا 'آئے گا، آئے گا، آئے گا، آنے والا' گونجنے لگا۔ دلیپ کمار اور مدھو بالا دونوں ہی پشاور سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ دونوں فلموں میں ساتھ آئے تو دیکھنے والے اس فلمی جوڑے کے عاشق ہوگئے۔
کے آصف کی فلم 'مغل اعظم' جو لگ بھگ دس برس میں مکمل ہوئی اس کے دوران مدھو بالا اور دلیپ کمار کے درمیان شعلۂ عشق بھڑکا اور مدھو بالا کو خاکستر کرگیا۔ 'مغل اعظم' جنھوں نے دیکھی ہے، جنھوں نے اس کے گانے سنے ہیں، مدھو بالا کا رقص دیکھا ہے، وہ آج بھی 'مغل اعظم' کی 'انار کلی' کے المیے پر تڑپتے ہیں۔ یہ المیہ صرف فلم کی انار کلی کا نہیں تھا، یہ مدھو بالا کی ذاتی زندگی کا بھی المیہ تھا۔ وہ دلیپ کمار پر فریفتہ تھی لیکن اس کے والد سونے کی اس چڑیا کو کسی اور کے سپرد نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ دلربا اور دلدار ہیروئین جسے ابھی بہت دنوں زندہ رہنا تھا، وہ 36 برس کی عمر میں سونے کے اس پنجرے سے پرواز کرگئی جس کی تیلیاں اس نے خود اپنی دولت سے بنائی تھیں۔
مدھو بالا کی المناک زندگی ختم ہونے کے بعد بھی ایک المیہ رہی۔ اسے سانتا کروز کے مسلم قبرستان میں دفن کیا گیا، چاہنے والوں نے اس کا سنگ مرمر کا مقبرہ بنوایا لیکن قبرستان کے متولی اتنے سنگ دل تھے کہ انھوں نے قبرستان میں نئی قبروں کی جگہ نکالنے کے لیے اس کے مقبرے پر کدال چلوادی۔ شاید یہ اس نفرت کا اظہار تھا جو ان کے دل میں 'مدھو بالا' کے لیے تھی۔
ایک مسلمان عورت جو پیدا ہوئی تو ممتاز جہاں تھی اور سانس کی ڈوری ٹوٹی تو ساری دنیا میں 'مدھو بالا' کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔ انھیں شاید یاد نہیں رہا کہ زندگی کے آخری برسوں میں مدھو بالا نے جب کشور کمار سے شادی کی تو پہلی اور آخری شرط یہ تھی کہ وہ مسلمان ہوجائے۔ کشور کمار اس کی خاطر مسلمان بھی ہوا لیکن افسوس کہ اس شادی کا انجام المناک ہوا۔
وہ ہمیں لالہ سدھیر، آغا طالش، ششی کپور، فردوس جمال، انیل کپور، شاہ رخ خان کی فلمی زندگی کی تفصیل بتاتے ہیں۔ ایک صدی کے دوران جو فلمیں بنیں اور ان میں پشاور کے فنکاروں نے جو کردار ادا کیا اس کی نادر تصویریں بھی ضیا نے تلاش بسیار کے بعد شامل کردی ہیں۔پاکستان ہی نہیں برصغیر کے مشہور شاعر قتیل شفائی کو بہت محبت سے یاد کیا گیا ہے۔ قتیل بھی پشاور کے تھے۔
پہلے ادبی پرچوں اور مشاعروں کے لیے غزلیں کہتے تھے، پھر فلمی شاعر ہوئے تو ان کے گیتوں کی ہر طرف دھوم مچ گئی۔ آج بھی جب ان کا یہ گیت ریڈیو یا ٹیلی وژن سے نشر ہوتا ہے تو لوگ چلتے چلتے رک جاتے ہیں۔ یہ گیت مشہور و معروف گائیکہ اقبال بانو نے گایا تھا۔ 'الفت کی نئی منزل کو چلا تو بانہیں ڈال کے بانھوں میں... دل توڑنے والے دیکھ کے چل... ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔'
ابراہیم ضیا نے پشاور سے تعلق رکھنے والے جن فن کاروں کا احاطہ کیا ہے، ان سب کا ذکر یہاں ممکن نہیں لیکن اس کتاب پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ پشاور نے فلم اور موسیقی کی دنیا کو کتنے بڑے نام دیے۔ آج پشاور اور اس کے گردونواح میں انتہا پسندی اور دہشتگردی کی جو لہر ہمیں خون کے آنسو بہانے پر مجبور کرتی ہے وہ یقینا ایک وقتی معاملہ ہے۔ پرانا پشاور دوبارہ زندہ زندہ ہونے والا ہے۔
آج کا پشاور کل کا پروشاپور ایک شاندار تاریخ کا امین ہے۔ اس شہر کے گرد و نواح میں بودھ استوپا اور چٹانوں پر کندہ اشوک کے فرامین بکھرے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر زمانے کے ستم سہہ رہے ہیں اور آہستہ آہستہ مٹی میں مل رہے ہیں۔ یہ وہ شہر ہے جہاں بودھوں کی حکومت اور ان کا اثرو رسوخ رہا ہے۔ پشاور اور اس کے آس پاس کے علاقے گندھارا تہذیب کی شاندار کہانی سناتے ہیں۔ یہ تاریخی اور تہذیبی اعتبار سے برصغیر کا ایک ایسا شہر ہے جس کی نظیر ذرا مشکل سے ملتی ہے۔
اس کی مٹی کی تاثیر ایسی ہے جس نے یہاں کے لوگوں کو فنون لطیفہ کے عشق میں گرفتار کیا۔ 2013ء میں جب ہندوستانی سینما کی ایک صدی مکمل ہوئی تو بہت سی کتابیں سامنے آئیں۔ پشاور کے محمد ابراہیم ضیا کا دل بے قرار ہوگیا اور انھوں نے اس ایک صدی کے دوران پشاور سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کی زندگی کو مرتب کیا اور اس کتاب کو ''پشاور کے فنکار'' کا عنوان دیا۔ یہ کتاب پشاور سے کولکتہ اور ممبئی تک ایک پل بناتی ہے۔ یہ عشق اور امن کا پل ہے جس پر سے محبت کے قافلے گزرتے رہے ہیں۔
563 صفحوں کی یہ کتاب پشاور میں جدید تھیٹر کے ذکر سے شروع ہوتی ہے اور برصغیر کی پہلی خاموش اور پھر پہلی بولتی فلم کے بارے میں ہمیں بتاتی ہوئی سارے برصغیر کی سیر کراتی ہے۔ اس میں ہندو مسلم پارسی اور عیسائی فنکار ہیں جنھوں نے کروڑوں لوگوں کی آنکھوں میں خواب رکھے اور بد ترین بھک مری اور غربت کے دنوں میں بھی لوگوں کو جینے کا حوصلہ دیا۔
اکثر مجھے خیال آتا ہے کہ اگر 'مدر انڈیا' 'کابلی والا' 'ہم لوگ' 'بیجو باورا' اور 'آن' ایسی خواب دکھاتی ہوئی، عشق کو اور انسان کو سربلند دکھا تی ہوئی فلمیں نہ ہوتیں تو ہمارا غریب رکشا اور تانگہ چلانے والا، فیکٹریوں میں محنت و مشقت کرتا ہوا مزدور، دلالوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی عورتیں جینے کا حوصلہ کہاں سے لاتیں۔
ابراہیم ضیا نے اس کتاب میں ان تمام موسیقاروں، اداکاروں اور اداکاراؤں کا ذکر تفصیل سے کیا ہے جو پشاور کی گلیوں سے اٹھے اور سارے ہندوستان کی فلم انڈسٹری پر چھاگئے۔ ان میں دلیپ کمار، راج کپور، مدھوبالا، اے کے ہنگل، اچلاسچدیو، ناصر خان، پریم ناتھ، ونود کھنہ، انیل کپور اور شاہ رخ خان کے علاوہ دوسرے بہت سے نام ہیں۔
یہ ہزاروں ہزار فلمیں جن میں پشاور سے ممبئی، دلی اور کولکتہ تک کے فن کاروں نے کام کیا، انھوں نے ان بے شمار فلموں کو ہمارا تہذیبی، تاریخی اور سماجی سرمایہ بنادیا۔ یہ کتاب دادا بھائی پھالکے کے ذکر سے شروع ہوئی ہے جنھوں نے ہندوستان کی پہلی خاموش فلم ''راجہ ہریش چندر'' بنائی تھی۔ ضیا اس کے بعد بولتی ہوئی پہلی ہندوستانی فلم 'عالم آرا' کا ذکر کرتے ہیں۔
ہندوستانی فلمی صنعت کا پہلا دور 1913ء سے شروع ہو کر 1931ء کے بعد تک جاری رہا، یہ خاموش فلموں کا دور تھا۔ جس فلم نے برصغیر کی فلمی تاریخ کا سرنامہ رقم کیا، وہ دادا بھائی پھالکے کی پہلی خاموش فیچر فلم ''راجہ ہریش چندر'' تھی۔ 21 اپریل 1913ء کو ''راجہ ہریش چندر'' کا ممبئی کے اولمپیا سینما میں تعارفی شو پیش ہوا۔ جس میں پریس کے نمائندوں، نامور شخصیات اور کاروباری اداروں کے سربراہوں کو مدعو کیا گیا۔ اس فلم کی کمرشل نمائش 3 مئی 1913ء کو ممبئی کے کارونیشن تھیٹر میں ہوئی۔
وہ 14 مارچ 1931ء کو ممبئی کے ناولٹی سینما میں ریلیز ہونے والی برصغیر کی پہلی بولتی فلم ''عالم آرا'' کا ذکر کرتے ہیں جس میں کام کرنے والے زیادہ تر مسلمان تھے اور اس کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس میں کام کرنے والے تینوں اہم اداکار پرتھوی راج، ڈبلیو ایم خان اور محبوب خان کا خمیر پشاور کی مٹی سے اٹھا تھا۔ پشاور کے بائیسکوپ کب اور کہاں تعمیر ہوئے، وہ اس کی تفصیل بھی بتاتے ہیں۔ یہ پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد کے دن تھے جب قصہ خوانی بازار میں پہلا بائیسکوب قائم ہوا۔ اس بائیسکوپ میں اس زمانے کی بہت سی خاموش فلمیں دکھائی گئیں۔
وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ آغا جی اے گل نے ''فردوس سینما'' بنایا جو 1945ء میں تعمیر ہونا شروع ہوا اور قیام پاکستان کے بعد مکمل ہوا۔ یہ ایک شاندار سینما تھا جس میں دلیپ کمار اور میڈم نورجہاں کی فلم ''جگنو'' ریلیز ہوئی تھی اور اس نے ریکارڈ برنس کیا تھا۔ وہ ''روٹی'' فلم کا ذکر بہ طور خاص کرتے ہیں جس میں پشاور کے بزرگ اداکار اشرف خان نے دیوانے پروفیسر کا ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا۔ یہ فلم بنگال کے قحط کے بارے میں تھی اور اس قدر پُر اثر تھی کہ لوگ زار زار روتے تھے اور ان کے دلوں میں بغاوت کا خیال جنم لیتا تھا، اسی لیے انگریز حکومت نے اس پر پابندی لگا دی تھی۔
مدھو بالا ہماری سلور اسکرین کا ایک ایسا ستارہ تھی جس کے بارے میں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ 'خوش درخشید ولے شعلۂ مستعجل بود' اس نے صرف 36 برس کی عمر پائی لیکن اس مختصر زندگی میں کروڑوں انسانوں کے دلوں پر حکومت کی۔ وہ پشاور کے ضلع مردان کی تحصیل صوابی کے عطاء اللہ خان یوسف زئی کے یہاں دلی میں پیدا ہوئی۔ اس کی مادری زبان پشتو تھی۔
اردو بولنا اور پڑھنا اس نے دلی کے ایک اسکول سے سیکھا۔ ساری زندگی اردو فلموں میں کام کیا لیکن پشتو ثقافت سے مدھو بالا کو جتنی محبت تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1962ء میں اس نے بہ طور فلم ساز ایک فلم 'پٹھان' بنائی جس کے ہدایت کار اس کے والد عطا اللہ خان تھے۔ فلم 'محل' میں اس کی اداکاری نے اسے شہرت کے بام عروج پر پہنچادیا اور پورے برصغیر میں اس فلم کا گانا 'آئے گا، آئے گا، آئے گا، آنے والا' گونجنے لگا۔ دلیپ کمار اور مدھو بالا دونوں ہی پشاور سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ دونوں فلموں میں ساتھ آئے تو دیکھنے والے اس فلمی جوڑے کے عاشق ہوگئے۔
کے آصف کی فلم 'مغل اعظم' جو لگ بھگ دس برس میں مکمل ہوئی اس کے دوران مدھو بالا اور دلیپ کمار کے درمیان شعلۂ عشق بھڑکا اور مدھو بالا کو خاکستر کرگیا۔ 'مغل اعظم' جنھوں نے دیکھی ہے، جنھوں نے اس کے گانے سنے ہیں، مدھو بالا کا رقص دیکھا ہے، وہ آج بھی 'مغل اعظم' کی 'انار کلی' کے المیے پر تڑپتے ہیں۔ یہ المیہ صرف فلم کی انار کلی کا نہیں تھا، یہ مدھو بالا کی ذاتی زندگی کا بھی المیہ تھا۔ وہ دلیپ کمار پر فریفتہ تھی لیکن اس کے والد سونے کی اس چڑیا کو کسی اور کے سپرد نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ دلربا اور دلدار ہیروئین جسے ابھی بہت دنوں زندہ رہنا تھا، وہ 36 برس کی عمر میں سونے کے اس پنجرے سے پرواز کرگئی جس کی تیلیاں اس نے خود اپنی دولت سے بنائی تھیں۔
مدھو بالا کی المناک زندگی ختم ہونے کے بعد بھی ایک المیہ رہی۔ اسے سانتا کروز کے مسلم قبرستان میں دفن کیا گیا، چاہنے والوں نے اس کا سنگ مرمر کا مقبرہ بنوایا لیکن قبرستان کے متولی اتنے سنگ دل تھے کہ انھوں نے قبرستان میں نئی قبروں کی جگہ نکالنے کے لیے اس کے مقبرے پر کدال چلوادی۔ شاید یہ اس نفرت کا اظہار تھا جو ان کے دل میں 'مدھو بالا' کے لیے تھی۔
ایک مسلمان عورت جو پیدا ہوئی تو ممتاز جہاں تھی اور سانس کی ڈوری ٹوٹی تو ساری دنیا میں 'مدھو بالا' کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔ انھیں شاید یاد نہیں رہا کہ زندگی کے آخری برسوں میں مدھو بالا نے جب کشور کمار سے شادی کی تو پہلی اور آخری شرط یہ تھی کہ وہ مسلمان ہوجائے۔ کشور کمار اس کی خاطر مسلمان بھی ہوا لیکن افسوس کہ اس شادی کا انجام المناک ہوا۔
وہ ہمیں لالہ سدھیر، آغا طالش، ششی کپور، فردوس جمال، انیل کپور، شاہ رخ خان کی فلمی زندگی کی تفصیل بتاتے ہیں۔ ایک صدی کے دوران جو فلمیں بنیں اور ان میں پشاور کے فنکاروں نے جو کردار ادا کیا اس کی نادر تصویریں بھی ضیا نے تلاش بسیار کے بعد شامل کردی ہیں۔پاکستان ہی نہیں برصغیر کے مشہور شاعر قتیل شفائی کو بہت محبت سے یاد کیا گیا ہے۔ قتیل بھی پشاور کے تھے۔
پہلے ادبی پرچوں اور مشاعروں کے لیے غزلیں کہتے تھے، پھر فلمی شاعر ہوئے تو ان کے گیتوں کی ہر طرف دھوم مچ گئی۔ آج بھی جب ان کا یہ گیت ریڈیو یا ٹیلی وژن سے نشر ہوتا ہے تو لوگ چلتے چلتے رک جاتے ہیں۔ یہ گیت مشہور و معروف گائیکہ اقبال بانو نے گایا تھا۔ 'الفت کی نئی منزل کو چلا تو بانہیں ڈال کے بانھوں میں... دل توڑنے والے دیکھ کے چل... ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔'
ابراہیم ضیا نے پشاور سے تعلق رکھنے والے جن فن کاروں کا احاطہ کیا ہے، ان سب کا ذکر یہاں ممکن نہیں لیکن اس کتاب پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ پشاور نے فلم اور موسیقی کی دنیا کو کتنے بڑے نام دیے۔ آج پشاور اور اس کے گردونواح میں انتہا پسندی اور دہشتگردی کی جو لہر ہمیں خون کے آنسو بہانے پر مجبور کرتی ہے وہ یقینا ایک وقتی معاملہ ہے۔ پرانا پشاور دوبارہ زندہ زندہ ہونے والا ہے۔