معرکہ بدر ایک عظیم الشان کامیابی
آج بھی امت مسلمہ کفار کے درمیان گھر چکی ہے کفار طرح طرح کے مظالم کر رہے ہیں
ماہ رمضان کے مبارک اور مقدس مہینے 2 ہجری میں غزوہ بدر میں مسلمانوں کو عظیم الشان کامیابی نصیب ہوئی جس نے تاریخ کا رخ بدل دیا، مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی، جن میں 60 مہاجرین اور باقی انصار تھے جب کہ قریش کا لشکر جس میں ایک ہزار پیدل سپاہ اور سو سوار تھے، عتبہ بن ربیعہ کی قیادت میں مدینہ پہنچا اور خاص خاص جگہوں پر قبضہ کرلیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے بڑھ کر ایک چشمہ پر خیمہ زن ہوئے اور رات بھر دعا کرتے رہے کہ خدایا تونے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے، اسے پورا کر، اگر آج یہ تیرے چند بندے مٹ گئے تو پھر تیرا کوئی نام لیوا نہ ہوگا، استغراق کا یہ عالم تھا کہ چادر شانہ مبارک سے گر گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گریہ و زاری میں مشغول تھے، حضرت ابو بکر صدیقؓ نے چادر کو شانہ مبارک پر درست کیا، اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مٹھی کنکریاں دست مبارک میں اٹھائیں اور پڑھ کر دم کیا اور پھر قریش کی سمت ان چھوٹے چھوٹے سنگ ریزوں کو اچھال دیا، کوئی کافر ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں میں وہ نہ گری ہوں کفار آنکھیں ملنے لگے اور جنگ کا نقشہ بدل گیا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں غزوہ بدر کے بارے میں فرمایا ہے۔ ترجمہ: جنگ کا رنگ آناً فاناً بدل گیا اور مسلمانوں کی فتح یقینی ہوگئی۔ قریش کے بڑے بڑے نامور سردار مارے گئے باقی بے شمار دشمنان اسلام کو گرفتار کرلیا گیا۔ یہ کفار اور دین کے دشمن وہ اہم لوگ تھے جن سے مسلمانوں کی رشتے داریاں تھیں، لیکن دین کی سربلندی کے لیے صحابہ کرام اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کوئی حیثیت نہیں تھی۔
یقیناً یہ بڑی آزمائش کا وقت تھا۔ جب صدق و کذب سامنے آنے والا تھا اور پھر دوران جنگ دونوں فوجیں آمنے سامنے آئیں تو مسلمانوں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ ان کے اپنے بزرگ اور ان کے دل کے ٹکڑے ان کی اولاد کی شکل میں مقابلے کے لیے آمنے سامنے آگئے ہیں لیکن اسلام سے لازوال رشتے اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت نے ان رشتوں کو یکسر فراموش کردیا تھا، چنانچہ میدان بدر میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کی تلوار اپنے لخت جگر عبدالرحمن کے مقابلے میں بے نیام ہوئی، حضرت عمرؓ کی تلوار اپنے ماموں کے خون میں رنگ گئی، حذیفہؓ کو اپنے والد عتبہ کے مقابلے میں آنا پڑا، پہلے فرداً فرداً اور بعد میں دونوں فوجیں آمنے سامنے آگئیں۔
اسلام کے بدترین دشمن ابو جہل کو دو انصاری نوجوان معوذؓ اور عفراؓ نے قتل کیا۔ ابو جہل کے قتل کے بعد قریش میں بد دلی پھیل گئی اور ان کے حوصلے پست ہوگئے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابو جہل کے قتل کا علم نہ تھا جب آپ ﷺ نے صحابہ سے دریافت کیا تو جواب میں وہ ابو جہل کا سر اٹھا لائے۔
رسول پاک ﷺ نے سر کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ امت کا فرعون ہے اور جب مسلمان کافروں پر غالب آگئے اور مسلمانوں کی کامیابی سورج کو شرمانے لگی اور چاند سے زیادہ تابناک ہوگئی کہ آج تک معرکہ بدر کی فتح امت مسلمہ کے لیے ایک پیغام بن کر دلوں کو شاد اور ایمان کو استحکام بخشتی ہے کہ جب مسلمانوں میں اتحاد جذبہ ایمانی اور اللہ کے حکم کی تعمیل یعنی جہاد کرنے کا جوش و جذبہ ہو تو بڑی سے بڑی طاقت چند لمحوں میں مٹی کا ڈھیر بن جاتی ہے۔
غزوہ بدر کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ سب سے پہلا غزوہ ہے جو کفار و مسلمانوں کے درمیان ہوا اور عظیم الشان کامیابی مسلمانوں کے حصے میں آئی اس بے مثال کامیابی سے اسلام کی حالت میں ایک بہت بڑا تغیر رونما ہوا، سورہ انفعال میں تفصیل کے ساتھ اور دوسرے مقامات پر اجمالی طور پر اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا ہے اور اس فتح کو مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑی فتح قرار دیا ہے۔
معرکہ بدر کے پیش آنے کی وجہ یہ تھی کہ ہجرت کے سترہویں مہینے میں قریش کی نقل و حرکت کی تحقیق کے لیے آپ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن جحش کو بارہ آدمیوں کے ساتھ روانہ فرمایا، روانگی کے وقت آپ ﷺ نے ایک تحریر دی جس میں ہدایت تھی کہ نخلہ چلے جاؤ جو طائف اور مکہ کے درمیان میں ہے۔ جب یہ نخلہ پہنچے تو رجب کی آخری تاریخ تھی۔ شام کے وقت قریش کا ایک قافلہ آیا جس کے اونٹوں پر کھجور اور مال تجارت تھا اصحاب رسول ﷺ نے مشورہ کیا کہ انھیں اگر چھوڑا جائے تو مکہ جاکر ہماری موجودگی کی خبر دیں گے اور اگر لڑتے ہیں تو یہ ماہ حرام ہے لہٰذا باہم مشورے سے یہ طے پایا کہ لڑ کر خطرے سے نجات حاصل کرلی جائے لہٰذا ایسا ہی کیا گیا۔
اس واقعے کے بعد قریش کی دشمنی مزید بڑھ گئی اور انھوں نے جنگ کی تیاریاں زور شور سے شروع کردیں۔ اس خبر نے اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کو تشویش میں مبتلا کردیا لہٰذا آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا، مہاجرین نے مکمل طور پر جان و مال قربان کرنے کی یقین دہانی کرائی، انصار کا حال بھی جدا نہیں تھا۔ قبیلہ خزرج کے رئیس سعد بن عبادہؓ نے انصار کی طرف سے عرض کیا کہ ہم ہر لحاظ سے آپ کے ساتھ ہیں، اگر آپ سمندر میں کودنے کا حکم دیں گے ہم کود جائیں گے۔ ہم حضرت موسیٰؑ کی قوم کی طرح نہیں ہیں جس نے موسیٰ سے کہا تھا کہ تم اور تمہارا رب جاکر لڑو، ہم یہاں بیٹھے ہیں۔
حضرت مقدادؓ کی یہ تقریر حضورﷺ کے لیے تقویت کا باعث تھی۔ مسلمانوں کے اتحاد اور نبی پاکﷺ کی حکمت عملی اور باہمی مشاورت ساتھ میں اللہ پاک کی مدد نے مسلمانوں کو عظیم کامیابی سے ہمکنار کیا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد آپ ﷺ نے کافروں کی نعشوں کو دیکھتے ہوئے فرمایا: ''تم لوگ اپنے نبیؐ کے کیسے برے رشتے دار تھے، تم نے ہمیں جھٹلایا دوسروں نے تصدیق کی، تم نے ہمیں ذلیل کیا، دوسروں نے مدد کی، تم لوگوں نے ہمیں ہمارے وطن سے نکالا اور دوسروں نے پناہ دی۔''
اس جنگ میں 22 مسلمان شہید ہوئے اور مسلح کفار کے ستر جنگجو مارے گئے بقیہ جان بچا کر بھاگ نکلے لیکن پھر ستر کو قید کرلیا گیا اور ان کے ساتھ بے حد نرمی کا سلوک کیا گیا۔ کچھ کو فدیہ لے کر چھوڑا گیا اور جن کے پاس مال و زر نہیں تھا ان سے کہا گیا کہ انصار کے لڑکوں کو لکھنا سکھادیں یہی ان کا فدیہ ہوگا اور کچھ قیدی ایسے بھی تھے جن سے ان کی کسی نہ کسی خوبی کی بنا پر فدیہ نہیں لیا گیا۔
غزوہ بدر کو غزوہ بدرالقتال بھی کہا جاتا ہے یہ غزوہ دوسرے غزوات اور سرایا کے بعد مسلمانوں اور کفار کے درمیان بڑا اہم ہے۔ اس کی وجہ کفار کو اسلام اور مسلمانوں کی اہمیت کا اندازہ بخوبی ہوچکا تھا وہ جانتے تھے کہ اب مسلمانوں کو دبانا آسان نہیں ہوگا اسی وجہ سے اسے یوم الفرقان بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس دن کفر اور اسلام کا فرق نمایاں ہوچکا تھا۔
آج بھی امت مسلمہ کفار کے درمیان گھر چکی ہے کفار طرح طرح کے مظالم کر رہے ہیں لیکن امت مسلمہ اپنے بھائیوں کو تڑپتا، سسکتا دیکھ کر خاموش اور اپنی دنیا میں مگن ہے، انھیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ اللہ رب العزت نے انھیں سب سے اعلیٰ جذبے جہاد اور ایمان کی دولت سے مالا مال کیا ہے، خزانے اور مال و دولت کی کمی نہیں ہے لیکن افسوس یہ دولت پیسہ اپنے ان دشمنوں پر خرچ کیا جا رہا ہے جو امت مسلمہ کی بنیادوں کو کمزور کر چکے ہیں۔ جنگ بدر کا واقعہ ایک سبق ہے کہ 313 مسلمان جن کے پاس جنگی ہتھیار اور سواریوں تک کا معقول انتظام نہ تھا لیکن اتحاد اور جذبہ ایمانی تھا جس نے اپنے سے بڑی طاقت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔