در در ٹھوکر کھائے
غیر ملکی طالب علموں کے لیے فیس لگا دی گئی تھی کام کرتے ہوئے پڑھنا بھی مشکل تھا
SAN FRANCISCO:
ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی آپ بیتی ''در در ٹھوکر کھائے'' میں لکھا ہے کہ ''تاریخ میں دو قسم کے افراد رہے ہیں، ایک وہ جو معاشرے کی شرائط پر زندگی گزارتے ہیں، دوسرے وہ جو اپنی شرائط پر۔ مجھے معلوم نہیں ان میں سے کون صحیح ہے مگر میں نے اپنی شرائط پر زندگی گزاری۔''
ڈاکٹر صاحب کی زندگی کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا سبب بھی یہی نظر آتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''جو لوگ معاشرے کی روایات، اقدار اور اداروں سے بغاوت کرتے ہیں ان میں سچائی کا ایک جذبہ ہوتاہے۔ اس جذبے کا نشہ اس قدر زور آور ہوتا ہے کہ انسان ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ اس کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ اس کا کیا بنے گا۔ وہ صرف اپنے جذبے کا اظہار چاہتا ہے بالکل اسی طرح جیسے ایک فنکار اپنے تخلیقی جذبے کے نشے میں غربت و افلاس، ذلت و خواری اور الزام تراشی ہر چیز سے بے پرواہ ہوجاتا ہے۔ اسے نہ معاشرے کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ لوگوں کے احساسات کی۔ یہ جذبہ اس کی شخصیت کو ابھارتا ہے، اس میں اعتماد پیدا کرتا ہے اس کے سہارے وہ تکلیف و اذیت برداشت کرتا ہے۔''
اس کے ساتھ ڈاکٹر مبارک علی یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے لیے یہ سوال اہم رہا ہے کہ کیا زندگی میں حالات سے سمجھوتہ کرنا چاہیے یا ان سے لڑنا چاہیے۔ڈاکٹر مبارک علی راجستھان میں ٹونک میں پیدا ہوئے۔ 1952میں وہاں سے اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ حیدرآباد میں مقیم ہوئے۔ وہاں کی خوبصورت یادیں ان کے ذہن میں اب تک محفوظ ہیں جن میں پتنگ بازی، پدیوں اور بٹیروں کا پالنا شامل ہے۔ نصف صدی سے زیادہ گزر جانے کے بعد بھی جب رات کو آنکھیں بند کرکے لیٹتے ہیں تو سارا منظر سامنے آجاتا ہے۔
ٹونک سے حیدرآباد آنے کے بعد کم عمر مبارک علی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ کسی اسکول میں داخلے کا تھا، ان کے والد نے ان کی تعلیم میں کبھی دلچسپی ہی نہ لی تھی، اس لیے کسی اسکول کا سرٹیفکیٹ ان کے پاس نہ تھا، بمشکل ایک نجی اسکول میں پانچویں میں داخلہ ملا۔ ان کے گھر کے مالی حالات اچھے نہ تھے، میٹرک کرکے ملازمت کی اور ساتھ ہی سٹی کالج میں داخلہ لیا جہاں شام کو کلاسیں ہوتی تھیں۔ اس کالج میں انھیں مباحثوں میں شرکت کا موقع ملا۔
یہ حیدرآباد ہی نہیں ملک کے کئی شہروں میں جاکر مباحثوں میں شریک ہوتے۔ لکھتے ہیں ''مباحثے متواتر ہوتے تھے اس لیے بولنے کی خوب تربیت ہوئی اور فی البدیہہ تقریر کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں رہی۔'' مبارک علی نے یہاں کے اپنے ایک استاد جو تاریخ پڑھاتے، تفضل داؤد ان کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ ان کی منفرد شخصیت تھی۔کالج کے بعد سندھ یونیورسٹی میں جنرل ہسٹری میں ایم اے میں داخلہ لے لیا اور یہاں سے ان کے کیریئر کی ابتدا ہوئی۔ فکر اور سوچ میں تبدیلی آئی۔
جنرل ہسٹری کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر احمد بشیر تھے جو یہاں آنے سے پہلے کراچی یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ ان کی شخصیت نے مبارک علی پر کافی اثر ڈالا۔ وہ ایک لبرل ذہن کے مالک تھے، ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے۔ تاریخ میں ان کا نقطہ نظر سیکولر تھا۔ انھوں نے لندن یونیورسٹی سے اکبر کی مذہبی پالیسی پر پی ایچ ڈی کیا تھا۔ مبارک علی جب ایم اے کرکے اسی شعبے میں لیکچرر ہوئے تو ڈاکٹر احمد بشیر سے ان کی قربت اور بڑھ گئی۔
ڈاکٹر احمد بشیر ایک درویش صفت عالم تھے جن کی اصول پسندی بار بار ان کی راہ میں حائل ہوتی رہی۔ بھٹو صاحب نے برسر اقتدار آنے کے بعد جن لوگوں کو ملازمت سے نکالا تھا، ان میں ڈاکٹر صاحب بھی شامل تھے۔مبارک علی نے ایم اے میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی جس کے صلے میں وہ یونیورسٹی میں جونیئر لیکچرر ہوگئے۔ وہ لکھتے ہیں ''1963 سے 1970 کا زمانہ میرے لیے اہم رہا کہ میں نے اس دوران میں نہ صرف تاریخ پڑھی بلکہ ادب کا بھی مطالعہ کیا۔ تاریخ اور ادب کے اس مطالعے سے ہی مجھ میں تاریخ کا شعور پیدا ہوا۔'' اس دوران میں مبارک علی نے بیرونی تعلیم کے لیے کئی بار وظیفے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔
مصطفیٰ شاہ کی وائس چانسلری کے زمانے میں وظیفے دیے گئے اس وقت بھی انھیں نظرانداز کردیا گیا۔ چنانچہ انھوں نے انگلستان کی کچھ یونیورسٹیوں کو داخلے کے لیے لکھا۔ لندن میں کوئن میری یونیورسٹی میں ان کا داخلہ ہوگیا۔ برٹش کونسل ٹریول گرانٹ دینے کو آمادہ تھی مگر مصطفیٰ شاہ آڑے آگئے۔ بہرحال مبارک علی لندن پہنچ گئے۔ یہ اکتوبر کا مہینہ اور 1970 کا سال تھا۔لندن میں ڈاکٹر مبارک علی نے ڈیڑھ سال گزارا۔ فیکٹری میں، اسٹور میں، دو تین جگہ کام بھی کیا تاکہ اخراجات پورے ہوں۔ ان کا دل لندن میں لگ گیا تھا مگر ان کے لیے اہم سوال یہ تھا کہ اپنی تعلیم کیسے جاری رکھیں۔
غیر ملکی طالب علموں کے لیے فیس لگا دی گئی تھی، کام کرتے ہوئے پڑھنا بھی مشکل تھا۔ کسی نے بتایا کہ جرمنی میں ٹیوشن فیس نہیں ہے چنانچہ انھوں نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔ روہر یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا اور مبارک علی جرمنی پہنچ گئے۔
روہر یونیورسٹی بوخم میں تھی۔ وہاں انھوں نے مشرقی علوم کے پروفیسر بوسے کے ساتھ مغل دربار اور اس کی رسومات پر کام شروع کیا لیکن سب سے پہلے انھیں جرمن زبان کا امتحان پاس کرنا تھا۔ انھیں ایک ہاسٹل میں کمرہ مل گیا۔ اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک فیکٹری میں نوکری کی۔ پھر تاریخ کے پروفیسر ایولین سے انھیں یہ مدد ملی کی انھوں نے اپنے شعبے میں معاون کا کام دلادیا۔ اس کے ساتھ ہی دو وظیفے بھی مل گئے، ان کے مالی مسائل حل ہوگئے۔
ڈاکٹر مبارک علی تین سال باہر گزار کر والدین سے ملنے پاکستان آئے۔ اسی دوران میں ان کی شادی ہوگئی اور جب وہ ایک ماہ بعد واپس جرمنی گئے تو بیوی ساتھ تھیں، پھر بوخم میں پانچ سال کے قریب گزار کر جب ان کی وطن واپسی کا پروگرام بنا تو ان کے پاس ایک تو پی ایچ ڈی کی ڈگری تھی اور دو بیٹیاں جو یہاں جرمنی میں پیدا ہوئی تھیں۔حیدرآباد پہنچنے کے دوسرے دن یونیورسٹی گئے۔ انھیں ملازمت پر واپس آنے دیا گیا مگر بددلی کے ساتھ۔ حمیدہ کھوڑو ان دنوں ان کے شعبہ تاریخ کی سربراہ تھیں۔ کئی مہینے تنخواہ نہ ملی، وائس چانسلر صاحب نے معطل بھی کیا، ان پر مذہبی کتابیں جلا دینے کا الزام بھی لگا۔ یہ زمانہ ضیا الحق صاحب کی حکومت کا تھا۔
مبارک علی ایسوسی ایٹ پروفیسر بنے مگر آسانی سے نہیں۔ حمیدہ مستعفی ہوئیں تو پروفیسری بھی مل گئی۔ انھی دنوں انھوں نے کتابیں لکھیں، خود کتابت کی، تقسیم بھی کیں۔ ان کی کتابیں پسند کی گئیں اور ساتھ ہی متنازعہ بن گئیں۔ کچھ کتب فروشوں نے ''تاریخ اور شعور'' کو رکھنے سے انکار بھی کردیا۔ پھر سندھ یونیورسٹی میں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ڈاکٹر مبارک علی کے لیے یہاں رہنا مشکل ہوگیا اور وہ 1989 میں حیدرآباد چھوڑ کر لاہور جا بسے۔
لاہور میں ایک سال ایک پبلشنگ ادارے میں کام کیا اور پھر لاہور کے گوئٹے انسٹیٹیوٹ کی سربراہی مل گئی۔ چار سال سے زیادہ ڈائریکٹر رہے اور اس دوران بہت کچھ تلخ تجربے ہوئے۔ ڈاکٹر مبارک علی کو اس زمانے میں تین بار ہندوستان جانے کا موقع ملا مگر اپنے پرانے وطن ٹونک کا ویزا نہ مل سکا۔ لکھتے ہیں ''میں واپس کیوں ٹونک جا رہا تھا، میرا تو اب وہاں کوئی گھر نہیں، وہ گھر جو ہمارا تھا اب کسی اور کا ہوگا، پھر کس لیے؟ اپنے بچپن کی تلاش میں جو وہاں کی گلیوں، راستوں اور چوراہوں میں کھو گیا ہے۔''
ڈاکٹر مبارک علی اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ''مجھے اپنی ایک کمزوری کا زبردست احساس ہوتا ہے اور وہ ہے میری جذباتیت۔ میں نے جذبات میں آکر ہمیشہ ایسے فیصلے کیے ہیں جن کا مجھے نقصان ہوا۔ اگر میں جذبات پر قابو پالیتا اور ٹھنڈے دل سے حالات کا تجزیہ کرکے فیصلے کرتا تو شاید مجھے بہت سی مصیبتوں سے دوچار نہیں ہونا پڑتا۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا میری زندگی کامیاب رہی؟
اس بات کو میں پوری طرح سمجھتا ہوں کہ کامیابی کے معیار اور پیمانے ہر ایک کے لیے مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن کامیابی کے لیے ہمیشہ سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے یہ سوال میرے لیے اہم رہا ہے کہ کیا زندگی میں حالات سے سمجھوتہ کرنا چاہیے یا ان سے لڑنا چاہیے؟''ڈاکٹر صاحب سمجھتے ہیں کہ جو لوگ اپنی زندگیوں کو اصولوں پر قربان کردیتے ہیں ان میں سچائی کا ایک جذبہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی آپ بیتی ''در در ٹھوکر کھائے'' میں لکھا ہے کہ ''تاریخ میں دو قسم کے افراد رہے ہیں، ایک وہ جو معاشرے کی شرائط پر زندگی گزارتے ہیں، دوسرے وہ جو اپنی شرائط پر۔ مجھے معلوم نہیں ان میں سے کون صحیح ہے مگر میں نے اپنی شرائط پر زندگی گزاری۔''
ڈاکٹر صاحب کی زندگی کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا سبب بھی یہی نظر آتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''جو لوگ معاشرے کی روایات، اقدار اور اداروں سے بغاوت کرتے ہیں ان میں سچائی کا ایک جذبہ ہوتاہے۔ اس جذبے کا نشہ اس قدر زور آور ہوتا ہے کہ انسان ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ اس کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ اس کا کیا بنے گا۔ وہ صرف اپنے جذبے کا اظہار چاہتا ہے بالکل اسی طرح جیسے ایک فنکار اپنے تخلیقی جذبے کے نشے میں غربت و افلاس، ذلت و خواری اور الزام تراشی ہر چیز سے بے پرواہ ہوجاتا ہے۔ اسے نہ معاشرے کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ لوگوں کے احساسات کی۔ یہ جذبہ اس کی شخصیت کو ابھارتا ہے، اس میں اعتماد پیدا کرتا ہے اس کے سہارے وہ تکلیف و اذیت برداشت کرتا ہے۔''
اس کے ساتھ ڈاکٹر مبارک علی یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے لیے یہ سوال اہم رہا ہے کہ کیا زندگی میں حالات سے سمجھوتہ کرنا چاہیے یا ان سے لڑنا چاہیے۔ڈاکٹر مبارک علی راجستھان میں ٹونک میں پیدا ہوئے۔ 1952میں وہاں سے اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ حیدرآباد میں مقیم ہوئے۔ وہاں کی خوبصورت یادیں ان کے ذہن میں اب تک محفوظ ہیں جن میں پتنگ بازی، پدیوں اور بٹیروں کا پالنا شامل ہے۔ نصف صدی سے زیادہ گزر جانے کے بعد بھی جب رات کو آنکھیں بند کرکے لیٹتے ہیں تو سارا منظر سامنے آجاتا ہے۔
ٹونک سے حیدرآباد آنے کے بعد کم عمر مبارک علی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ کسی اسکول میں داخلے کا تھا، ان کے والد نے ان کی تعلیم میں کبھی دلچسپی ہی نہ لی تھی، اس لیے کسی اسکول کا سرٹیفکیٹ ان کے پاس نہ تھا، بمشکل ایک نجی اسکول میں پانچویں میں داخلہ ملا۔ ان کے گھر کے مالی حالات اچھے نہ تھے، میٹرک کرکے ملازمت کی اور ساتھ ہی سٹی کالج میں داخلہ لیا جہاں شام کو کلاسیں ہوتی تھیں۔ اس کالج میں انھیں مباحثوں میں شرکت کا موقع ملا۔
یہ حیدرآباد ہی نہیں ملک کے کئی شہروں میں جاکر مباحثوں میں شریک ہوتے۔ لکھتے ہیں ''مباحثے متواتر ہوتے تھے اس لیے بولنے کی خوب تربیت ہوئی اور فی البدیہہ تقریر کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں رہی۔'' مبارک علی نے یہاں کے اپنے ایک استاد جو تاریخ پڑھاتے، تفضل داؤد ان کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ ان کی منفرد شخصیت تھی۔کالج کے بعد سندھ یونیورسٹی میں جنرل ہسٹری میں ایم اے میں داخلہ لے لیا اور یہاں سے ان کے کیریئر کی ابتدا ہوئی۔ فکر اور سوچ میں تبدیلی آئی۔
جنرل ہسٹری کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر احمد بشیر تھے جو یہاں آنے سے پہلے کراچی یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ ان کی شخصیت نے مبارک علی پر کافی اثر ڈالا۔ وہ ایک لبرل ذہن کے مالک تھے، ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے۔ تاریخ میں ان کا نقطہ نظر سیکولر تھا۔ انھوں نے لندن یونیورسٹی سے اکبر کی مذہبی پالیسی پر پی ایچ ڈی کیا تھا۔ مبارک علی جب ایم اے کرکے اسی شعبے میں لیکچرر ہوئے تو ڈاکٹر احمد بشیر سے ان کی قربت اور بڑھ گئی۔
ڈاکٹر احمد بشیر ایک درویش صفت عالم تھے جن کی اصول پسندی بار بار ان کی راہ میں حائل ہوتی رہی۔ بھٹو صاحب نے برسر اقتدار آنے کے بعد جن لوگوں کو ملازمت سے نکالا تھا، ان میں ڈاکٹر صاحب بھی شامل تھے۔مبارک علی نے ایم اے میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی جس کے صلے میں وہ یونیورسٹی میں جونیئر لیکچرر ہوگئے۔ وہ لکھتے ہیں ''1963 سے 1970 کا زمانہ میرے لیے اہم رہا کہ میں نے اس دوران میں نہ صرف تاریخ پڑھی بلکہ ادب کا بھی مطالعہ کیا۔ تاریخ اور ادب کے اس مطالعے سے ہی مجھ میں تاریخ کا شعور پیدا ہوا۔'' اس دوران میں مبارک علی نے بیرونی تعلیم کے لیے کئی بار وظیفے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔
مصطفیٰ شاہ کی وائس چانسلری کے زمانے میں وظیفے دیے گئے اس وقت بھی انھیں نظرانداز کردیا گیا۔ چنانچہ انھوں نے انگلستان کی کچھ یونیورسٹیوں کو داخلے کے لیے لکھا۔ لندن میں کوئن میری یونیورسٹی میں ان کا داخلہ ہوگیا۔ برٹش کونسل ٹریول گرانٹ دینے کو آمادہ تھی مگر مصطفیٰ شاہ آڑے آگئے۔ بہرحال مبارک علی لندن پہنچ گئے۔ یہ اکتوبر کا مہینہ اور 1970 کا سال تھا۔لندن میں ڈاکٹر مبارک علی نے ڈیڑھ سال گزارا۔ فیکٹری میں، اسٹور میں، دو تین جگہ کام بھی کیا تاکہ اخراجات پورے ہوں۔ ان کا دل لندن میں لگ گیا تھا مگر ان کے لیے اہم سوال یہ تھا کہ اپنی تعلیم کیسے جاری رکھیں۔
غیر ملکی طالب علموں کے لیے فیس لگا دی گئی تھی، کام کرتے ہوئے پڑھنا بھی مشکل تھا۔ کسی نے بتایا کہ جرمنی میں ٹیوشن فیس نہیں ہے چنانچہ انھوں نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔ روہر یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا اور مبارک علی جرمنی پہنچ گئے۔
روہر یونیورسٹی بوخم میں تھی۔ وہاں انھوں نے مشرقی علوم کے پروفیسر بوسے کے ساتھ مغل دربار اور اس کی رسومات پر کام شروع کیا لیکن سب سے پہلے انھیں جرمن زبان کا امتحان پاس کرنا تھا۔ انھیں ایک ہاسٹل میں کمرہ مل گیا۔ اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک فیکٹری میں نوکری کی۔ پھر تاریخ کے پروفیسر ایولین سے انھیں یہ مدد ملی کی انھوں نے اپنے شعبے میں معاون کا کام دلادیا۔ اس کے ساتھ ہی دو وظیفے بھی مل گئے، ان کے مالی مسائل حل ہوگئے۔
ڈاکٹر مبارک علی تین سال باہر گزار کر والدین سے ملنے پاکستان آئے۔ اسی دوران میں ان کی شادی ہوگئی اور جب وہ ایک ماہ بعد واپس جرمنی گئے تو بیوی ساتھ تھیں، پھر بوخم میں پانچ سال کے قریب گزار کر جب ان کی وطن واپسی کا پروگرام بنا تو ان کے پاس ایک تو پی ایچ ڈی کی ڈگری تھی اور دو بیٹیاں جو یہاں جرمنی میں پیدا ہوئی تھیں۔حیدرآباد پہنچنے کے دوسرے دن یونیورسٹی گئے۔ انھیں ملازمت پر واپس آنے دیا گیا مگر بددلی کے ساتھ۔ حمیدہ کھوڑو ان دنوں ان کے شعبہ تاریخ کی سربراہ تھیں۔ کئی مہینے تنخواہ نہ ملی، وائس چانسلر صاحب نے معطل بھی کیا، ان پر مذہبی کتابیں جلا دینے کا الزام بھی لگا۔ یہ زمانہ ضیا الحق صاحب کی حکومت کا تھا۔
مبارک علی ایسوسی ایٹ پروفیسر بنے مگر آسانی سے نہیں۔ حمیدہ مستعفی ہوئیں تو پروفیسری بھی مل گئی۔ انھی دنوں انھوں نے کتابیں لکھیں، خود کتابت کی، تقسیم بھی کیں۔ ان کی کتابیں پسند کی گئیں اور ساتھ ہی متنازعہ بن گئیں۔ کچھ کتب فروشوں نے ''تاریخ اور شعور'' کو رکھنے سے انکار بھی کردیا۔ پھر سندھ یونیورسٹی میں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ڈاکٹر مبارک علی کے لیے یہاں رہنا مشکل ہوگیا اور وہ 1989 میں حیدرآباد چھوڑ کر لاہور جا بسے۔
لاہور میں ایک سال ایک پبلشنگ ادارے میں کام کیا اور پھر لاہور کے گوئٹے انسٹیٹیوٹ کی سربراہی مل گئی۔ چار سال سے زیادہ ڈائریکٹر رہے اور اس دوران بہت کچھ تلخ تجربے ہوئے۔ ڈاکٹر مبارک علی کو اس زمانے میں تین بار ہندوستان جانے کا موقع ملا مگر اپنے پرانے وطن ٹونک کا ویزا نہ مل سکا۔ لکھتے ہیں ''میں واپس کیوں ٹونک جا رہا تھا، میرا تو اب وہاں کوئی گھر نہیں، وہ گھر جو ہمارا تھا اب کسی اور کا ہوگا، پھر کس لیے؟ اپنے بچپن کی تلاش میں جو وہاں کی گلیوں، راستوں اور چوراہوں میں کھو گیا ہے۔''
ڈاکٹر مبارک علی اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ''مجھے اپنی ایک کمزوری کا زبردست احساس ہوتا ہے اور وہ ہے میری جذباتیت۔ میں نے جذبات میں آکر ہمیشہ ایسے فیصلے کیے ہیں جن کا مجھے نقصان ہوا۔ اگر میں جذبات پر قابو پالیتا اور ٹھنڈے دل سے حالات کا تجزیہ کرکے فیصلے کرتا تو شاید مجھے بہت سی مصیبتوں سے دوچار نہیں ہونا پڑتا۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا میری زندگی کامیاب رہی؟
اس بات کو میں پوری طرح سمجھتا ہوں کہ کامیابی کے معیار اور پیمانے ہر ایک کے لیے مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن کامیابی کے لیے ہمیشہ سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے یہ سوال میرے لیے اہم رہا ہے کہ کیا زندگی میں حالات سے سمجھوتہ کرنا چاہیے یا ان سے لڑنا چاہیے؟''ڈاکٹر صاحب سمجھتے ہیں کہ جو لوگ اپنی زندگیوں کو اصولوں پر قربان کردیتے ہیں ان میں سچائی کا ایک جذبہ ہوتا ہے۔