دشمنی کے بھیانک سائے

مودی نے اس تنظیم کے اجلاس سے چند دن قبل روس کا جو دورہ کیا تھا لگتا ہے وہ اسی سلسلے کی کڑی تھا

usmandamohi@yahoo.com

خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم میں مکمل رکن کی حیثیت سے شامل کرلیا گیا۔ ویسے وسطی ایشیائی ممالک، روس اور چین کا پڑوسی ہوتے ہوئے اورخطے میں ایک اہم ملک کی حیثیت سے پاکستان کا اس تنظیم کا مستقل رکن بننا فطری تقاضا بھی تھا مگر بھارت جو پاکستان کو تنہائی کا شکار کرنے کا خواب دیکھتا رہتا ہے ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان اس اہم تنظیم کا رکن بنے مگر بھارت نے پاکستان کو تنہا کرنے کی اپنی مذموم کوششوں میں ہمیشہ ہی منہ کی کھائی ہے۔

آزادی کے بعد سے ہی پاکستان کے پڑوسیوں سمیت دنیا کے بیشتر ممالک سے سفارتی تعلقات قائم ہیں اور وہ ہمیشہ سے ہی نہایت خوشگوار ہونے کے ساتھ ساتھ باہمی مفادات کے بین الاقوامی اصولوں پر استوار ہیں۔ بھارت کی تو شروع دن سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ اول تو کسی طرح پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے یا پھر یہ ایک ناکام اور تنہا ریاست کی حیثیت سے قائم رہے اور وہ خود دنیا کا اہم ملک قرار پائے اور آگے جا کر سپر پاورکا درجہ حاصل کرلے۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی اس کی اس خواہش میں قیام پاکستان کی دشمنی تو شامل ہے ہی ساتھ ہی کشمیریوں کی آزادی کی حمایت کرنے کا انتقام بھی بدرجہا اتم موجود ہے۔

پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم میں مستقل رکنیت کا جواعزاز حاصل ہوا ہے اس کے لیے ہمیں یقینا چین کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس کی ہی وجہ سے ہمیں یہ سرخروئی حاصل ہوئی ہے ورنہ بھارت تو پاکستان کی حیثیت اس تنظیم کے ایک مبصر ملک تک محدود دیکھنا چاہتا تھا۔ بھارت چونکہ روس سے خصوصی تعلقات رکھنے کا دعویدار ہے چنانچہ مودی نے پاکستان کی مستقل رکنیت روکنے کے لیے صدر پوتن پر ضرور پورا زور لگایا ہوگا۔

مودی نے اس تنظیم کے اجلاس سے چند دن قبل روس کا جو دورہ کیا تھا لگتا ہے وہ اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ مودی نے اپنے اس دورے میں پوتن کو اوباما کی طرح پٹانے کی پوری کوشش کی ہوگی اور لگتا ہے وہ اس عزم کے ساتھ وہاں سے واپس آئے تھے کہ پاکستان کے مستقل رکن بننے کے فیصلے کو پوتن ضرور رکوا دیں گے۔

جب آستانہ میں تنظیم کا اجلاس شروع ہوا مودی اور ان کا وفد اس آس میں تھے کہ پاکستان کی مستقل رکنیت کو روک دیا جائے گا اور صرف بھارت کے تنظیم کا مستقل بننے کا اعلان کیا جائے گا مگر جب قازقستان کے صدر نور سلطان نذر بایوف نے بھارت کے ساتھ پاکستان کے بھی مستقل رکن بننے کا اعلان کیا تو مودی اور ان کے وفد کے ارکان کے چہرے زرد پڑ گئے تھے ان کے چہروں پر مایوسی کے آثار بالکل واضح تھے جنھیں ٹی وی پر بھی صاف طور پر دیکھا جاسکتا تھا۔

آستانہ میں اپنے مقاصد میں ناکامی کے بعد اپنے ٹی وی چینلز پر یہ خبر چلوائی گئی کہ اجلاس کے بعد رکن ممالک کے تمام صدور نے ایک دوسرے سے ملاقاتیں کیں مگر چینی صدر نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا تھا گوکہ یہ جھوٹ اور لغو خبر تھی مگر پاکستان دشمنی میں بھارتی حکومت اور وہاں کے ٹی وی چینلز پر حد سے گزر سکتے ہیں۔ دنیا میں شاید ہی کسی ملک میں وہاں کے پرائیویٹ ٹی وی چینلز حکومت کے اشاروں پر چلتے ہوں مگر بھارت میں ایسا ہو رہا ہے۔ وہاں کے ٹی وی چینلز پاکستان دشمنی میں اپنی حکومت سے بھی دو ہاتھ آگے نظر آتے ہیں۔

پاکستان کے خلاف جھوٹی اور شرانگیز خبریں نشر کرنا ان ٹی وی چینلزکا روز کا معمول ہے۔ وہاں کے پرنٹ میڈیا کا بھی ایسا ہی حال ہے جب کہ پاکستان میں ہرگز ایسا نہیں ہے۔ یہاں ٹی وی چینلز اور اخبار جمہوری حکومتوں کے سب سے بڑے نقاد رہے ہیں بلکہ حزب اختلاف سے بھی دو ہاتھ آگے۔


اس وقت بھی یہ حال ہے کہ ہر ٹی وی چینل حکومت کے خلاف خبر دینے اور حکومت مخالف مذاکرے منعقد کرنے میں آزاد ہے ۔چند دن قبل ہی مودی حکومت کے خلاف خبر چلانے پر بھارت کے معروف ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی کی نشریات ایک دن کے لیے بند کردی گئی تھیں۔ اس چینل کی نشریات بند کیے جانے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اس نے کشمیریوں پر بھارتی فوج کی بربریت کی بھولے سے فلم دکھادی تھی۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کی ایک تازہ پاکستان مخالف خطرناک خبر اس وقت بھی دنیا میں گردش کر رہی ہے کہ پاکستان نے قطر میں اپنے 20 ہزار فوجی تعینات کردیے ہیں۔ اس خبر کے ذریعے سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں پاکستان کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ پاکستانی وزارت خارجہ نے جلد ہی اس خبرکی پرزور انداز میں تردید کردی ہے۔ دراصل اس بے بنیاد اور بد نیتی پر مبنی خبر کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد میں دراڑیں ڈالی جائیں اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سے پاکستان کے خوش گوار تعلقات کو نقصان پہنچایا جائے۔

اس من گھڑت جھوٹی خبر کے ساتھ یہ خبر بھی پھیلائی گئی کہ قطرکی سلامتی اور تحفظ کی خاطر وہاں بھیجے گئے فوجیوں سے متعلق ایک بل پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے جب کہ اسمبلی میں سرے سے ایسا کوئی بل پیش نہیں کیا گیا البتہ وہاں ایک متفقہ قرارداد ضرور منظور کی گئی ہے جس کے ذریعے پاکستانی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ قطر اور سعودی عرب کی چپقلش سے خود کو دور رکھے اور ان دونوں ممالک میں مفاہمت کرانے کے لیے کوششیں شروع کردے۔

میاں نواز شریف کا حالیہ سعودی عرب کا مختصر دورہ اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ پاکستان سعودی عرب اور ایران تنازعے میں بھی غیر جانبدار رہنے کا اعلان کرچکا ہے۔ دراصل پاکستان امت مسلمہ کے اتحاد کا داعی ہے۔ وہ دشمنوں کی مسلمان ممالک کے باہمی رشتوں کو توڑنے کی سازشوں کو ناکام بنانے کا ہمیشہ سے عزم رکھتا ہے۔

بھارت اگرچہ پاکستان کی شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت پر سخت برہم ہے مگر خود اس کی رکنیت روس کی مرہون منت ہے۔ اسے روس کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے اس کی لاج رکھ لی ورنہ چین سے تو اس کے تعلقات برسوں سے خراب ہیں ادھر روس سے بھی اب اس کے پہلے جیسے تعلقات نہیں رہ گئے ہیں۔ جب سے بھارت مغرب کے بے حد قریب ہوگیا ہے اور ان کے اسلحے کا سب سے بڑا خریدار بن گیا ہے اس کا روس سے رشتہ کمزور ہوگیا ہے۔

ایک وقت تھا جب روس پاکستان سے تعلقات قائم کرنے کا سوچ تک نہیں سکتا تھا کیونکہ بھارت اس کے اعصاب پر سوار تھا اس وقت بھارت روس کے اسلحے کی ایک بڑی مارکیٹ تھا۔ بنگلہ دیش کے بننے تک روس کے بھارت سے بہت قریبی تعلقات قائم تھے اس کے بعد بھارت کی دوغلی پالیسی نے اسے بدظن کردیا تھا اب روس کی پاکستان کے بارے میں اپنی ایک پالیسی ہے۔ اب شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت روس اور پاکستان میں لازمی قربتیں بڑھیں گی ایک دوسرے کے ساتھ تجارت، معیشت، توانائی، تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور سیاحت کے علاوہ دفاعی شعبے میں بھی تعاون کے لیے باب کھلیں گے۔

خطے میں امن سلامتی اور ترقی کو یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات اٹھائے جائیں گے اور ظاہر ہے کہ اس کے مسئلہ کشمیر پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ بھارت کے اس تنظیم کے رکن بننے کے بعد بعض مبصرین کے ذہن میں اس کی بابت کچھ شکوک و شبہات جنم لینے لگے ہیں کہ اس نے جس طرح سارک تنظیم کو پاکستان دشمنی میں تباہ و برباد کر ڈالا ہے وہ کہیں اس تنظیم کو بھی پاکستان دشمنی کا شاخسانہ نہ بنادے چنانچہ اس تنظیم کے اہم ارکان یعنی روس اور چین کو چاہیے کہ وہ بھارت کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں تاکہ یہ تنظیم اپنے منشور کے مطابق بغیر کسی رکاوٹ کے پھل پھول سکے اور خطے کے عوام کے لیے مژدہ جانفزا ثابت ہوسکے۔
Load Next Story