خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری
آواز کی دنیا کے حوالے سے ریڈیو عام طور پر فنکاروں کی تربیت کا پہلا انسٹی ٹیوٹ یا میڈیم کہلاتا ہے
میڈیکل سائنس کے مطابق انسانی دماغ سے ایک درجن نسیں نکلتی ہیں جو مختلف افعال انجام دیتی ہیں اور ان میں ساتویں نس کان اور آٹھویں حلق کی نالی سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ ان نسوں کو حلق اور کان کی مختلف بیماریاں متاثر کرتی ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات لقوہ یا فالج ہوجاتا ہے جسے زبان کا فالج بھی کہا جاتا ہے اور اس حملے سے متاثرہ اکثریت ہکلا کر، تتلا کر بات کرتی ہے اور بات کرتے ہوئے بے تحاشا منہ سے لعاب خارج ہوتا ہے جب کہ بیشتر لوگ فالج کے اس حملے سے مکمل طور پر قوت گویائی سے محروم ہوجاتے ہیں اور یوں وہ زندگی جو بظاہر نعمتوں، آسائشوں اور سہولتوں سے معمور نظر آتی ہے بے کیف اور جامد ہوکر رہ جاتی ہے۔
ایک زمانے میں دنیا پر حکومت کرنے والے بادشاہ بھی آج کے عام کروڑ پتی انسانوں کی آسائشوں کا تصور نہیں کرسکتے تھے یہ ہے اس دور کی سچائی۔ جی ہاں علاج معالجے کے نام پر خون چوسنے والی جونکیں اور مختلف جڑی بوٹیاں ہی علاج سمجھی جاتی تھیں۔ تیمور جیسے فاتح سالار اور بادشاہ کی ٹانگ میں لنگ اس لیے آگیا تھا کہ اسے اپنے دور میں علاج کی سہولت فراہم نہ تھی جو طبیب یا حکماں تھے وہ اپنی سی کوشش کرکے بیٹھ گئے لیکن بادشاہ ٹھیک نہ ہوسکا۔ شاید اس لیے بھی کہ جو وسائل اب میسر ہیں پہلے ایسے نہ تھے جو آج کے بااختیار انسان کو حاصل ہیں۔ تاہم وسائل مہیا ہوکر بھی اگر شفا نہ ہو تو اسے خدا کی مرضی سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے۔
آئن اسٹائن کا مشہور قول ہے کہ ''اگر کوئی غیر مرئی قوت مجھ سے میری تمام صلاحیتیں اور قوت لے لے اور مجھے صرف ایک صلاحیت رکھنے کی اجازت ہو تو میں بلا جھجک بولنے (خطابت کی قوت) دیے جانے کی درخواست کروں گا کیونکہ میں اس سے کھوئی ہوئی تمام صلاحیتیں اور قوتیں واپس حاصل کرلوں گا۔''
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آواز بلاشبہ کسی بھی انسانی وجود کی بے حد اہم چیز اور لوگوں کی توجہ مبذول کرنے کی واحد وجہ اور ضرورت ہوتی ہے۔ خطاب (بولنے کی صلاحیت) ناموری کا شارٹ کٹ ہوتی ہے، اس سے شہرت ملتی ہے اور بولنے واولے کے قد کاٹھ یا پرسنیلٹی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس شخص میں یہ خوبی ہو تو اس میں پائی جانے والی خوبیوں سے بھی بڑھ کر اس کی تعریف کی جاتی ہے۔
انڈ و پاک کے تھیٹر، ریڈیو، ٹیلی وژن اور فلم پر لاتعداد لوگ ایسے ملتے ہیں جن کی آواز ان کے فنی کیریئر کو بنانے اور اسے بعدازاں جلا بخشنے میں بے حد کام آئی۔ پرتھوی راج کپور، دلیپ کمار، امیتابھ بچن، رضامراد، امریش پوری کی آوازوں کو سماعتوں میں لائیں یا محمد رفیع، کشور کمار، مکیش یا لتا منگیشکر کو سن لیں۔ شکیل احمد، انور بہزاد، قربان جیلانی، ایس ایم سلیم، محمود علی، قاضی واجد، حسن شہید مرزا، نیلوفر علیم، عرش منیر، منی باجی، ظہور احمد، طلعت حسین، افضال احمد، علاؤ الدین، آغا طالش، کمال ایرانی، محمد علی، حبیب، وحید مراد، غلام محی الدین، اظہار قاضی، زیبا، رانی، شمیم آرا، بہار، صبیحہ خانم، نیر سلطانہ، درپن، سنتوش کمار، بابرا شریف اور شبنم کی آوازوں کو جانچیں یا پھر مہدی حسن، نور جہاں، نسیم بیگم، ناہید اختر، احمد رشدی، رونا لیلیٰ، مسعود رانا، مہناز، ریشماں، غلام علی، نصرت فتح علی خاں اور راحت فتح علی خاں وغیرہ کی آوازوں کو ذہن و دل سے سوچیں تو پتا چلتا ہے کہ ان کی آوازیں کس قدر دلنشیں اور لازوال ثابت ہوئیں۔
آواز کی دنیا کے حوالے سے ریڈیو عام طور پر فنکاروں کی تربیت کا پہلا انسٹی ٹیوٹ یا میڈیم کہلاتا ہے، ریڈیو انسانوں کے اندر آواز کی نکھار کو اور بہتر انداز سے پالش کرکے پیش کرنے میں اپنا ٹھوس کردار ادا کرتا چلا آیا ہے۔ ریڈیو پاکستان کے زیڈ اے بخاری، آغا ناصر، اطہر وقار عظیم اور عظیم سرور وغیرہ شعبہ آہنگ کے اساتذہ میں شمار قطار کیے جاتے ہیں۔
آواز کے حوالے سے ایک بات اور اپنی جگہ مسلم ہے کہ قدرت نے آواز اور شکل کو ہی انسانی شناخت کی پہلی اور سب سے بڑی پہچان قرار دی ہے اور یہ بھی غلط نہیں ہے کہ انسانی جسم کے ہر عضو یا چیز کی اپنی اپنی جگہ یکساں اہمیت ہے اور اس کے بغیر انسان ادھورا یا نامکمل کہلاتا ہے اور انسانی وجود میں اکثر پارٹس ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک کسی تکلیف کا شکار ہوجائے تو اس کے اثرات پورے جسم پر مرتب ہوتے ہیں اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ کسی عارضے میں مبتلا ہونے کے بعد زندگی کس قدر بے کیف اور بسا اوقات کس قدر اجیرن بن کر رہ جاتی ہے۔
برصغیر کے لیجنڈری اداکار دلیپ کمار کی طرف نگاہ کریں وہ گزشتہ پانچ چھ سالوں سے قوت گویائی سے محروم ہوچکے ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ کئی دیگر جسمانی عارضوں میں بھی مبتلا ہیں۔ وہ شخص جو کبھی اپنی آنکھ کی ایک جنبش سے سیکڑوں مطالب ادا کردیا کرتا تھا آج اپنے گرد و پیش خالی خالی نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں، ان کی حالت زار دیکھ کر دکھ اور زمانے کی بے ثباتی کا شدید احساس ہوتا ہے۔ برصغیر ہی کے لیجنڈری گلوکار مہدی حسن بھی کم و بیش دلیپ کمارکی صورتحال سے دوچار رہ کر اللہ کو پیارے ہوگئے۔
مہدی حسن پر فالج کا شدید حملہ ہوا تھا جس نے ان کے پورے وجود کے ساتھ ساتھ ان کی زبان پر بھی ہمیشہ کے لیے تالے لگا دیے تھے صرف سن سکتے تھے ایک لفظ ادا کرنے سے قاصر تھے۔ تقاریب میں آتے اور زار و قطار روتے رہتے تھے۔ اللہ اکبر! یہ منظر بھی دیکھنا تقدیر میں لکھا گیا تھا ان کی کہ اپنے دور یا وقت کی لازوال، سنہری اور بہترین کھرج والی آواز۔ کہاں ان کی ماضی کی خوش گفتاری بلکہ نرم و گرم یکساں گفتاری کہ :
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
اور کہاں یہ معذوری اور لاچاری۔ دلیپ کمار اور مہدی حسن کی کیفیت سے ہمارے ایک اور بہترین فنکار افضال احمد بھی عرصہ چار پانچ سالوں سے دوچار ہیں۔ افضال احمد کے بہترین صداکار اور بہترین اداکار ہونے میں کبھی دو رائے نہیں ہوسکتی لیکن قدرت کی رضا کے ہاتھوں وہ بھی زندگی کے ولولوں سے خالی اور آٹش دان میں بجھتی ہوئی آگ کی مانند ہوچکے ہیں وگرنہ چشم عبرت نے ان کی زبان و آواز کا طنطنہ، دبدبہ، ان کی فصاحت و بلاغت، طویل لائنیں (مکالموں کی) انتہائی مہارت، نزاکت، جوش و خروش، گھن گرج (جیسی بھی سچویشن ہوتی) میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوسکتا۔ بلاشبہ وہ اپنی طرز کے موجود بھی تھے اور خاتم بھی۔ لمبے عرصے سے گوشہ گمنامی میں ہیں مگر ان کی طرف سے شکوہ حالات سننے یا پڑھنے میں نہ آیا۔ انھیں دیکھ کر بھی بے ثباتی عالم کی تصویر نگاہوں میں گھوم جاتی ہے کہ:
خموش گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری
دلیپ کمار ہوں یا مہدی حسن یا پھر افضال احمد شاید قدرت یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ جس فصاحت و بلاغت یا آواز کی رعنائی پر حضرت انسان ناز کرتا ہے وہ اس کا کمال نہیں کسی اور کی عطا ہے، وہ جب چاہے جس طوطیٔ خوش نوا کو چاہے منقار زیر پر کرسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو بالخصوص ویسے بھی عجیب آپا دھاپی کا عالم ہے۔ دوسروں کے مسائل، مصائب، ان کی خدمات، کارکردگی یا ہنر پر نظر ڈالنے تک کا وقت کسی کے پاس نہیں ہے۔
دراصل ہم انسان تو اس وقت جینا شروع کرتے ہیں جب ہم اپنی موت کا دن معلوم کرلیتے ہیں۔ ہمیں اس وقت پتا چلتا ہے کہ ہم جسے زندگی سمجھتے ہیں وہ دراصل مرے ہوئے بے جان دن ہوتے ہیں اور ہم جسے موت سمجھتے ہیں وہ زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ ہم ایسے بدقسمت لوگ ہیں جن کے پاس زندہ لوگوں کے لیے دس منٹ نہیں ہیں لیکن ہم مردوں کے لیے ایک ہفتے تک رو سکتے ہیں۔ ہمارے ارباب اختیار عوام سے محبت کا اظہار کرنے کے لیے اس کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ افسوس ہم زندہ انسانوں کو دس روپے کی روٹی نہیں دے سکتے لیکن اسے ہزاروں کا کفن دے دیتے ہیں۔
ایک زمانے میں دنیا پر حکومت کرنے والے بادشاہ بھی آج کے عام کروڑ پتی انسانوں کی آسائشوں کا تصور نہیں کرسکتے تھے یہ ہے اس دور کی سچائی۔ جی ہاں علاج معالجے کے نام پر خون چوسنے والی جونکیں اور مختلف جڑی بوٹیاں ہی علاج سمجھی جاتی تھیں۔ تیمور جیسے فاتح سالار اور بادشاہ کی ٹانگ میں لنگ اس لیے آگیا تھا کہ اسے اپنے دور میں علاج کی سہولت فراہم نہ تھی جو طبیب یا حکماں تھے وہ اپنی سی کوشش کرکے بیٹھ گئے لیکن بادشاہ ٹھیک نہ ہوسکا۔ شاید اس لیے بھی کہ جو وسائل اب میسر ہیں پہلے ایسے نہ تھے جو آج کے بااختیار انسان کو حاصل ہیں۔ تاہم وسائل مہیا ہوکر بھی اگر شفا نہ ہو تو اسے خدا کی مرضی سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے۔
آئن اسٹائن کا مشہور قول ہے کہ ''اگر کوئی غیر مرئی قوت مجھ سے میری تمام صلاحیتیں اور قوت لے لے اور مجھے صرف ایک صلاحیت رکھنے کی اجازت ہو تو میں بلا جھجک بولنے (خطابت کی قوت) دیے جانے کی درخواست کروں گا کیونکہ میں اس سے کھوئی ہوئی تمام صلاحیتیں اور قوتیں واپس حاصل کرلوں گا۔''
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آواز بلاشبہ کسی بھی انسانی وجود کی بے حد اہم چیز اور لوگوں کی توجہ مبذول کرنے کی واحد وجہ اور ضرورت ہوتی ہے۔ خطاب (بولنے کی صلاحیت) ناموری کا شارٹ کٹ ہوتی ہے، اس سے شہرت ملتی ہے اور بولنے واولے کے قد کاٹھ یا پرسنیلٹی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس شخص میں یہ خوبی ہو تو اس میں پائی جانے والی خوبیوں سے بھی بڑھ کر اس کی تعریف کی جاتی ہے۔
انڈ و پاک کے تھیٹر، ریڈیو، ٹیلی وژن اور فلم پر لاتعداد لوگ ایسے ملتے ہیں جن کی آواز ان کے فنی کیریئر کو بنانے اور اسے بعدازاں جلا بخشنے میں بے حد کام آئی۔ پرتھوی راج کپور، دلیپ کمار، امیتابھ بچن، رضامراد، امریش پوری کی آوازوں کو سماعتوں میں لائیں یا محمد رفیع، کشور کمار، مکیش یا لتا منگیشکر کو سن لیں۔ شکیل احمد، انور بہزاد، قربان جیلانی، ایس ایم سلیم، محمود علی، قاضی واجد، حسن شہید مرزا، نیلوفر علیم، عرش منیر، منی باجی، ظہور احمد، طلعت حسین، افضال احمد، علاؤ الدین، آغا طالش، کمال ایرانی، محمد علی، حبیب، وحید مراد، غلام محی الدین، اظہار قاضی، زیبا، رانی، شمیم آرا، بہار، صبیحہ خانم، نیر سلطانہ، درپن، سنتوش کمار، بابرا شریف اور شبنم کی آوازوں کو جانچیں یا پھر مہدی حسن، نور جہاں، نسیم بیگم، ناہید اختر، احمد رشدی، رونا لیلیٰ، مسعود رانا، مہناز، ریشماں، غلام علی، نصرت فتح علی خاں اور راحت فتح علی خاں وغیرہ کی آوازوں کو ذہن و دل سے سوچیں تو پتا چلتا ہے کہ ان کی آوازیں کس قدر دلنشیں اور لازوال ثابت ہوئیں۔
آواز کی دنیا کے حوالے سے ریڈیو عام طور پر فنکاروں کی تربیت کا پہلا انسٹی ٹیوٹ یا میڈیم کہلاتا ہے، ریڈیو انسانوں کے اندر آواز کی نکھار کو اور بہتر انداز سے پالش کرکے پیش کرنے میں اپنا ٹھوس کردار ادا کرتا چلا آیا ہے۔ ریڈیو پاکستان کے زیڈ اے بخاری، آغا ناصر، اطہر وقار عظیم اور عظیم سرور وغیرہ شعبہ آہنگ کے اساتذہ میں شمار قطار کیے جاتے ہیں۔
آواز کے حوالے سے ایک بات اور اپنی جگہ مسلم ہے کہ قدرت نے آواز اور شکل کو ہی انسانی شناخت کی پہلی اور سب سے بڑی پہچان قرار دی ہے اور یہ بھی غلط نہیں ہے کہ انسانی جسم کے ہر عضو یا چیز کی اپنی اپنی جگہ یکساں اہمیت ہے اور اس کے بغیر انسان ادھورا یا نامکمل کہلاتا ہے اور انسانی وجود میں اکثر پارٹس ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک کسی تکلیف کا شکار ہوجائے تو اس کے اثرات پورے جسم پر مرتب ہوتے ہیں اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ کسی عارضے میں مبتلا ہونے کے بعد زندگی کس قدر بے کیف اور بسا اوقات کس قدر اجیرن بن کر رہ جاتی ہے۔
برصغیر کے لیجنڈری اداکار دلیپ کمار کی طرف نگاہ کریں وہ گزشتہ پانچ چھ سالوں سے قوت گویائی سے محروم ہوچکے ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ کئی دیگر جسمانی عارضوں میں بھی مبتلا ہیں۔ وہ شخص جو کبھی اپنی آنکھ کی ایک جنبش سے سیکڑوں مطالب ادا کردیا کرتا تھا آج اپنے گرد و پیش خالی خالی نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں، ان کی حالت زار دیکھ کر دکھ اور زمانے کی بے ثباتی کا شدید احساس ہوتا ہے۔ برصغیر ہی کے لیجنڈری گلوکار مہدی حسن بھی کم و بیش دلیپ کمارکی صورتحال سے دوچار رہ کر اللہ کو پیارے ہوگئے۔
مہدی حسن پر فالج کا شدید حملہ ہوا تھا جس نے ان کے پورے وجود کے ساتھ ساتھ ان کی زبان پر بھی ہمیشہ کے لیے تالے لگا دیے تھے صرف سن سکتے تھے ایک لفظ ادا کرنے سے قاصر تھے۔ تقاریب میں آتے اور زار و قطار روتے رہتے تھے۔ اللہ اکبر! یہ منظر بھی دیکھنا تقدیر میں لکھا گیا تھا ان کی کہ اپنے دور یا وقت کی لازوال، سنہری اور بہترین کھرج والی آواز۔ کہاں ان کی ماضی کی خوش گفتاری بلکہ نرم و گرم یکساں گفتاری کہ :
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
اور کہاں یہ معذوری اور لاچاری۔ دلیپ کمار اور مہدی حسن کی کیفیت سے ہمارے ایک اور بہترین فنکار افضال احمد بھی عرصہ چار پانچ سالوں سے دوچار ہیں۔ افضال احمد کے بہترین صداکار اور بہترین اداکار ہونے میں کبھی دو رائے نہیں ہوسکتی لیکن قدرت کی رضا کے ہاتھوں وہ بھی زندگی کے ولولوں سے خالی اور آٹش دان میں بجھتی ہوئی آگ کی مانند ہوچکے ہیں وگرنہ چشم عبرت نے ان کی زبان و آواز کا طنطنہ، دبدبہ، ان کی فصاحت و بلاغت، طویل لائنیں (مکالموں کی) انتہائی مہارت، نزاکت، جوش و خروش، گھن گرج (جیسی بھی سچویشن ہوتی) میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوسکتا۔ بلاشبہ وہ اپنی طرز کے موجود بھی تھے اور خاتم بھی۔ لمبے عرصے سے گوشہ گمنامی میں ہیں مگر ان کی طرف سے شکوہ حالات سننے یا پڑھنے میں نہ آیا۔ انھیں دیکھ کر بھی بے ثباتی عالم کی تصویر نگاہوں میں گھوم جاتی ہے کہ:
خموش گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری
دلیپ کمار ہوں یا مہدی حسن یا پھر افضال احمد شاید قدرت یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ جس فصاحت و بلاغت یا آواز کی رعنائی پر حضرت انسان ناز کرتا ہے وہ اس کا کمال نہیں کسی اور کی عطا ہے، وہ جب چاہے جس طوطیٔ خوش نوا کو چاہے منقار زیر پر کرسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو بالخصوص ویسے بھی عجیب آپا دھاپی کا عالم ہے۔ دوسروں کے مسائل، مصائب، ان کی خدمات، کارکردگی یا ہنر پر نظر ڈالنے تک کا وقت کسی کے پاس نہیں ہے۔
دراصل ہم انسان تو اس وقت جینا شروع کرتے ہیں جب ہم اپنی موت کا دن معلوم کرلیتے ہیں۔ ہمیں اس وقت پتا چلتا ہے کہ ہم جسے زندگی سمجھتے ہیں وہ دراصل مرے ہوئے بے جان دن ہوتے ہیں اور ہم جسے موت سمجھتے ہیں وہ زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ ہم ایسے بدقسمت لوگ ہیں جن کے پاس زندہ لوگوں کے لیے دس منٹ نہیں ہیں لیکن ہم مردوں کے لیے ایک ہفتے تک رو سکتے ہیں۔ ہمارے ارباب اختیار عوام سے محبت کا اظہار کرنے کے لیے اس کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ افسوس ہم زندہ انسانوں کو دس روپے کی روٹی نہیں دے سکتے لیکن اسے ہزاروں کا کفن دے دیتے ہیں۔