نواز شریف کا خاندان کے کاروبار سے تعلق ہے یانہیں تحقیقات شروع
وزیراعظم ماضی یا حال میں آف شورکمپنی کے مالک رہے ہیں یا نہیں، اس کی بھی تحقیقات شروع
پاناما لیکس کیس کی تحقیقات کیلیے قائم جے آئی ٹی نے وزیراعظم نواز شریف کے شریف خاندان کے ساتھ کاروبار لین دین میں تعلق ہونے یانہ ہونے کے حوالے سے حتمی تحقیقات شروع کردی ہے۔
اہم ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جے آئی ٹی وزیراعظم نواز شریف کے بیان کی روشنی میں تحقیقات کررہی ہے کہ ان کا شریف خاندان کے کاروباری معاملات سے بلاواسطہ یا بالواسطہ کوئی تعلق ہے یانہیں؟ ۔وزیراعظم کی پاکستان یا بیرون ممالک میں کتنی جائیداد ہیں یا نہیں ؟۔وزیراعظم شریف خاندان کے ماضی یا حال میں پاکستان سمیت خلیجی ممالک یا کسی اور ملک میں میں موجود کاروبار یا جائیداد سے منسلک ہیں یا نہیں ؟۔
جے آئی ٹی اس بات کی بھی تفتیش کررہی ہے کہ وزیراعظم کا پاناما لیکس کیس کے مالی امور سے کوئی تعلق بنتا ہے یا نہیں ؟۔وزیراعظم ماضی یا حال میں کسی آف شور کمپنی کے مالک رہے ہیں یا نہیں؟ ۔جے آئی ٹی وزیراعظم کے ذرائع آمدنی اورٹیکس گوشواروں کی تفصیلات سے متعلق بھی جانچ پڑتال کررہی ہے۔
اس تحقیقات کی روشنی میں وزیراعظم کی جانب سے جے آئی ٹی کو دیے گئے بیان اور مالی امور سے متعلق ریکارڈ کے درست یا غلط ہونے کا حتمی تعین کیا جائے گا۔ وزیراعظم کے مالی امور سے متعلق جے آئی ٹی تمام اداروں سے ریکارڈ کو چیک کرے گی اور اپنی حتمی رپورٹ مرتب کرے گی ۔اس رپورٹ میں جے آئی ٹی کی جانب سے تعین کیا جائے گا کہ وزیراعظم نے جو مالی اثاثے ظاہر کیے ہیںان کی قانونی حیثیت کیا ہے ؟۔آیا وزیراعظم نواز شریف کا پانامہ لیکس کیس سے کوئی تعلق ہے یا نہیں ؟۔
جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں عدالت وزیراعظم کے مستقبل کے حوالے سے قانون کے مطابق فیصلہ دے گی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے جے آئی ٹی کے سامنے اطمینان بخش طریقے تمام سوالات کے جوابات دیے ۔ اگر ضرورت پڑی تو جے آئی ٹی سپریم کورٹ سے باضابطہ اجازت ملنے کے بعد قطر روانہ ہوگی۔اس حوالے سے قانون کے مطابق وزارت خارجہ سمیت دیگر متعلقہ اداروں اور قطری حکومت کا تعاون حاصل کیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر جے آئی ٹی قطری شہزادہ حمدبن جاسم بن جبارالثانی کا بیان کرنے ان کے ملک نہ گئی تو پھر خط کی قانونی حیثیت کا فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی ۔جے آئی ٹی کی کوشش ہے کہ قطری شہزادے پاکستان آکر اپنا بیان ریکارڈ کرائیں۔جے آئی ٹی کو اگر ضرورت پڑی تووہ وزیراعظم ،ان کے صاحبزادوں اور شریف خاندان کے دیگر افراد کو دوبارہ سمن جاری کرکے طلب کرکے مذید معلومات حاصل کرسکتی ہے۔ اگر مقررہ وقت میں کام مکمل نہ ہوا تو جے آئی ٹی اپنی تحقیقات کو مکمل کرنے کیلیے مذید15سے 30روز کی اضافی مدت طلب کرنے کیلیے سپریم کورٹ میں نئی درخواست دائر کرسکتی ہے۔
ادھر لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اپنا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد اپنی قانونی ٹیم سے دوبارہ مشاورت کررہے ہیں اور اگر وزیراعظم کو جے آئی ٹی کی تفتیش پر ممکنہ طور کوئی تحفظات ہوئے تو ان کی ٹیم اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی۔
اہم ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جے آئی ٹی وزیراعظم نواز شریف کے بیان کی روشنی میں تحقیقات کررہی ہے کہ ان کا شریف خاندان کے کاروباری معاملات سے بلاواسطہ یا بالواسطہ کوئی تعلق ہے یانہیں؟ ۔وزیراعظم کی پاکستان یا بیرون ممالک میں کتنی جائیداد ہیں یا نہیں ؟۔وزیراعظم شریف خاندان کے ماضی یا حال میں پاکستان سمیت خلیجی ممالک یا کسی اور ملک میں میں موجود کاروبار یا جائیداد سے منسلک ہیں یا نہیں ؟۔
جے آئی ٹی اس بات کی بھی تفتیش کررہی ہے کہ وزیراعظم کا پاناما لیکس کیس کے مالی امور سے کوئی تعلق بنتا ہے یا نہیں ؟۔وزیراعظم ماضی یا حال میں کسی آف شور کمپنی کے مالک رہے ہیں یا نہیں؟ ۔جے آئی ٹی وزیراعظم کے ذرائع آمدنی اورٹیکس گوشواروں کی تفصیلات سے متعلق بھی جانچ پڑتال کررہی ہے۔
اس تحقیقات کی روشنی میں وزیراعظم کی جانب سے جے آئی ٹی کو دیے گئے بیان اور مالی امور سے متعلق ریکارڈ کے درست یا غلط ہونے کا حتمی تعین کیا جائے گا۔ وزیراعظم کے مالی امور سے متعلق جے آئی ٹی تمام اداروں سے ریکارڈ کو چیک کرے گی اور اپنی حتمی رپورٹ مرتب کرے گی ۔اس رپورٹ میں جے آئی ٹی کی جانب سے تعین کیا جائے گا کہ وزیراعظم نے جو مالی اثاثے ظاہر کیے ہیںان کی قانونی حیثیت کیا ہے ؟۔آیا وزیراعظم نواز شریف کا پانامہ لیکس کیس سے کوئی تعلق ہے یا نہیں ؟۔
جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں عدالت وزیراعظم کے مستقبل کے حوالے سے قانون کے مطابق فیصلہ دے گی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے جے آئی ٹی کے سامنے اطمینان بخش طریقے تمام سوالات کے جوابات دیے ۔ اگر ضرورت پڑی تو جے آئی ٹی سپریم کورٹ سے باضابطہ اجازت ملنے کے بعد قطر روانہ ہوگی۔اس حوالے سے قانون کے مطابق وزارت خارجہ سمیت دیگر متعلقہ اداروں اور قطری حکومت کا تعاون حاصل کیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر جے آئی ٹی قطری شہزادہ حمدبن جاسم بن جبارالثانی کا بیان کرنے ان کے ملک نہ گئی تو پھر خط کی قانونی حیثیت کا فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی ۔جے آئی ٹی کی کوشش ہے کہ قطری شہزادے پاکستان آکر اپنا بیان ریکارڈ کرائیں۔جے آئی ٹی کو اگر ضرورت پڑی تووہ وزیراعظم ،ان کے صاحبزادوں اور شریف خاندان کے دیگر افراد کو دوبارہ سمن جاری کرکے طلب کرکے مذید معلومات حاصل کرسکتی ہے۔ اگر مقررہ وقت میں کام مکمل نہ ہوا تو جے آئی ٹی اپنی تحقیقات کو مکمل کرنے کیلیے مذید15سے 30روز کی اضافی مدت طلب کرنے کیلیے سپریم کورٹ میں نئی درخواست دائر کرسکتی ہے۔
ادھر لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اپنا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد اپنی قانونی ٹیم سے دوبارہ مشاورت کررہے ہیں اور اگر وزیراعظم کو جے آئی ٹی کی تفتیش پر ممکنہ طور کوئی تحفظات ہوئے تو ان کی ٹیم اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی۔