شینگ نُو

چین کا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ سیکڑوں نہیں ہزاروں برس قدیم روایات کا امین ہے


Shaikh Jabir August 02, 2012
[email protected]

FALLUJA: '' شینگ نُو '' کا طعنہ چین کی غیر شادی شدہ، پڑھی لکھی، برسرِ روزگار شہری خواتین کے لیے سوہانِ روح بن چکا ہے۔ اس ایک لفظ نے چین کی ترقی کے نمایاں ترین مظہر اور اہم ترین عامل یعنی کارپوریٹ خواتین کی کامیاب زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے۔یہ خواتین highly educated، highly paid اورhighly independent ہوتی ہیں لیکن Foreign Policy میں شایع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق یہ انتہائی کامیاب خواتین نہایت شدّت سے ایک عدد شوہر کی تلاش میں ہیں۔

چین نے گزشتہ نصف صدی میں بعض اعتبار سے مثالی ترقی کی ہے۔ حقوقِ نسواں اور آزادی نسواں کے حوالے سے بھی چین نے مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر چین میں 1949 میں اسکول جانے والی لڑکیوں کی تعداد 20 فیصد تھی جو حالیہ برسوں میں 96 فیصد سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ 1950 میں چینی خواتین گھر کی آمدنی میں بہ مشکل 20 فیصد کی حصہ دار تھیں جو 1990 میں 40 فیصد سے بڑھتا ہوا 2009 میں 50 فیصد تک آپہنچا ہے۔ آج خواتین چین کی '' ورک فورس'' کا 44 فی صد حصّہ ہیں۔ چین کی خواتین اپنی ہم عصر دیگر خواتین مثلاً امریکی خواتین کے مقابلے میں زیادہ فعال، مستعد اور پرجوش نظر آتی ہیں۔

'' ورک ــ لائف پالیسی نیویارک '' کے مطابق چین کی کالج کی طالبات امریکی کالج کی طالبات کی نسبت دو تہائی زیادہ فعال ہیں۔ یہ ہی سبب ہے کہ آپ کو چین کی اعلیٰ کارپوریٹ ملازمتوں پر 75 فی صد تک خواتین نظر آئیں گی۔ امریکا میں یہ ہی تعداد کارپوریٹ سطح پر اس کا نصف ہے۔ چین کی 10 میں سے 8 کمپنیوں میں خواتین سینئیر مینجمنٹ کا حصہ ہیں۔

جب کہ یورپی یونین میں یہ تعداد چین کی نسبت نصف اور امریکا میں محض دو تہائی ہے۔ Grant Thornton International کے مطابق چین کی 31 فی صد خواتین ٹاپ ایگزیکٹیو ہیں۔ امریکا میں یہ تعداد 20 فی صد ہے۔ لطف یہ کہ ایسا صرف کارپوریٹ ہی کی سطح پر نہیں ہے، چین کی پارلیمنٹ میںبھی خواتین زیادہ تعداد میں نظر آتی ہیں۔ امریکی کانگریس کی نسبت چین کی پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد 21.3 فی صد زیادہ ہے۔

یہ مقام اور مرتبہ چین کی خواتین کو شدید محنت، جدوجہد اور خاندانی نظام کی قیمت پر نصیب ہوا ہے۔ اس تمام تر تعلیم اور ترقی کے نتیجے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چین کا معاشرہ کارپوریٹ کلچر کی پروردہ ان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور highly paid خواتین کو معاشرے میں عزت و رفعت کے بلند ترین سنگھاسن پر براجمان کرتا لیکن یا حسرت! انھوں نے ایسی خواتین کو '' شینگ ُنو '' کے ذلت آمیز لقب سے نوازنا اور پکارنا شروع کر دیا۔

چین کا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ سیکڑوں نہیں ہزاروں برس قدیم روایات کا امین ہے۔ اسے محض چند دہائیوں کی ترقی سے تبدیل نہیں کیا جاسکا۔ آج بھی نصف سے زائد چین کے خواتین و حضرات اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ عورت کا اصل مقام گھر ہے۔ اسے شمع محفل نہیں چراغ خانہ ہونا چاہیے۔ آل چائنا وومن فیڈریشن ACWF کے ایک سروے میں مندرجہ بالا رائے سامنے آئی۔ مزید یہ کہ ایک اور سوال کے جواب میں ایک تہائی سے زیادہ جواب دینے والوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ مرد پیدائشی طور پر عورت کے مقابلے میں معاشی سرگرمی کا زیادہ اہل ہے۔

شاید یہ قدیمی روایات ہیں یا کنفیوشس کی تعلیمات کا گہرا اثرکہ تمام تر ترقی آزادی اور جدیدیت کے باوجود چین میں غیر شادی شدہ زندگی اور جرائم میں ایک خاص تعلق سمجھا جاتا ہے۔ چین میں پہلی شادی کے لیے عورت اور مرد کی عمر کا تناسب دنیا بھر میں سب سے کم یعنی مرد اوسطاً 23.8 برس اور عورت 22.1 برس۔ اب یہاں ایک قباحت یہ ہوئی کہ حکومت کی بہبودِ آبادی کی عاجلانہ اور جاہلانہ پالیسی کے نتیجے میں چین میں مرد و زن کا فطری تناسب شدت سے متاثر ہوا اور معاشرے میں مردوں کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھتی چلی گئی۔

دوسری جانب نام نہاد تعلیم اور ترقّی نے خواتین کو آزادی اور معیارِ زندگی بلند کرنے کا ایسا جھانسا دیا کہ وہ کارپوریشنز کے منافع میں اضافے کے سوا دین و دنیا کے کسی کام کی نہیں رہ گئیں۔ روایات پرست معاشرہ یہ تبدیلی ہضم نہیں کرسکا۔ اب وہاں ہو یہ رہا ہے کہ ایک خاتون خواہ وہ کتنی ہی لائق فائق، highly paid کیوں نہ ہو اگر زیادہ سے زیادہ 30 برس کی عمر تک گھر نہ بسا پائے تو معاشرہ اسے '' شینگ نُو '' کے تحقیر آمیز لقب سے نواز کر اس کا جینا دو بھر کردیتا ہے۔ تمام تر محنت اور ترقی کے بعد ہاتھ آنے والی یہ وہ ذلت ہے جس پر کئی چینی خواتین خودکشی کو ترجیح دیتی ہیں۔

یہ صرف چین ہی کا مسئلہ نہیں قدیم روایات کے حامل معاشروں میں ایسا دیکھنے میں آرہا ہے۔ معروف جریدے '' اکنامسٹ '' نے گزشتہ برس جاپان، تائیوان، سنگاپور وغیرہ کے حوالے سے ایسی ایک رپورٹ شایع کی تھی اور خاصے چشم کشا اعداد و شمار پیش کیے تھے۔

خود اگر ہم اپنے ملک پاکستان کا جائزہ لیں تو یہاں بھی ایسا ہی ہے۔ ملٹی نیشنل کارپوریشنز میں اچھے عہدوں پر فائز خواتین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے، سہاگ کے جوڑے کے انتظار میں جن کے سروں میں چاندی اتر آئی ہے ۔ ایک نجی جائزے میں یہ سامنے آیا کہ پاکستان کی بڑی بڑی یونیورسٹیز کی خواتین اساتذہ سینئر پروفیسر ہوگئی ہیں لیکن رشتے نہیں ملتے۔ کئی معروف، مایہ ناز ڈاکٹر ہیں لیکن اچھے بر کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ کیا یہ سب بھی '' شینگ نُو '' ہیں؟

سوال یہ ہے کہ کیا خواتین کی تعلیم، آزادی، مساوات اور ترقی کا یہ سفر '' کلموہی'' سے شروع ہو کر '' شینگ نُو '' ہی پر ختم ہونا تھا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں