درآمدی اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے کا فیصلہ
بجٹ پیش کرتے ہوئے حکومت نے بلند بانگ دعوے کیے تھے
اخباری اطلاع کے مطابق وفاقی حکومت نے چار سو سے زائد درآمدی پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا ۔ وزارت خزانہ نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیرصدارت ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ان اشیا پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح میں پانچ فیصد اضافہ کی اصولی منظوری دے دی گئی ہے ، آئندہ ہفتے باقاعدہ طور پر نوٹیفکیشن جاری ہونے کا امکان ہے جس سے ایف بی آر کو آیندہ مالی سال کے دوران سترہ سے بیس ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہو گا۔
ملک کا معاشی نظام چلانے کے لیے تشکیل دیا گیا بجٹ اعدادوشمار کا ایسا گنجلک اور پیچیدہ گراف ہے جو چند مخصوص طبقے کے سوا عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہوتا ہے۔ عام آدمی کو اعلیٰ سطح پر ہونے والے معاشی فیصلوں' ملکی اور غیرملکی اداروں سے قرضوں کے لین دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا' وہ تو صرف اتنا جانتا ہے کہ حکومتی فیصلوں سے اس کے گھریلو بجٹ میں کیا تبدیلی آئی اور اس کی زندگی میں کتنی معاشی ترقی ہوئی ' اگر روز مرہ کی اشیا مہنگی ہو جائیں اور عام آدمی کی آمدن کا گراف نیچے اور اخراجات کا اوپر چلا جائے تو اس کے نزدیک حکومت کا تشکیل دیا گیا بجٹ ناکام اور عوام دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔
بجٹ پیش کرتے ہوئے حکومت نے بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ وہ عوامی بجٹ پیش کر رہی ہے جس سے مہنگائی نہیں ہو گی اور عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئے گی۔ اب وفاقی حکومت نے آلو، دیگر سبزیوں اور سبزیوں کے مکسچر، پیک شُدہ دہی، مکھن، پنیر، شہد، چاکلیٹ، زنانہ مردانہ و بچگانہ سوٹ و گارمنٹس ،سُرخی پاوڈر سمیت دیگر کاسمیٹکس، واٹر ڈسپنسر، درآمدی مشروبات، تازہ و خشک پھلوں و میوہ جات، آڑو' ناشپاتی' چیریز' پائن ایپل' اسٹرابری سمیت دیگر پھل' آئس کریم' بیکنگ پائوڈر' بسکٹ' شیونگ کریم' کارن فلیکس' مکرونی' پاستہ' چیونگم' جوتے، بریف کیس سمیت جن چار سو سے زائد درآمدی اشیاء مہنگی کرنے کا فیصلہ کیا ہے' اس سے مہنگائی کا جو طوفان آئے گا اس کا اندازہ تو شاید حکمران طبقے کو نہ ہو مگر عام آدمی جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پستا چلا جا رہا ہے مزید مشکلات کا شکار ہوجائے گا۔
حکمرانوں کے لیے تو یہ خوشی کی بات ہے کہ وہ روز مرہ اشیا پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ کرکے سترہ سے بیس ارب اضافی ریونیو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن عام آدمی کے لیے کیا مسائل پیدا ہوں گے اس کا شاید انھیں اندازہ نہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوصف پاکستان آلو سمیت روز مرہ کی سبزیاں اور پھل درآمد کر رہا ہے' یہ امر حکومت کی ناکام زرعی پالیسی پر دلالت کرتا ہے۔
رہائشی کالونیوں کے نام پر ایک طاقتور مافیا سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر زرخیز زرعی زمینوں کو ختم کرتا چلا جا رہا ہے' دوسری طرف پانی اور توانائی کا بڑھتا ہوا بحران زرعی پیداوار پر اثر انداز ہو رہا ہے' زرعی مداخل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں' ناقص اور غیرمعیاری بیج'جعلی زرعی ادویات اور ناقص کھادوں نے بھی زرعی پیداوار کو متاثر کیا ہے جس کا اثر کسانوں کی معاشی زندگی پر پڑا ہے۔
کسانوں کے بار بار احتجاج کے باوجود حکومت نے زرعی پالیسی میں موجود اسقام کو دور کرنے کی قطعی کوشش نہیں کی' زرعی پالیسیاں جاگیرداروں اور ایک مخصوص طبقے کے مفادات کو سامنے رکھ کر تشکیل دی گئیں۔ توانائی کے بحران اور آئے روز ٹیکسوں میں اضافے کے باعث صنعتی پیداوار بھی متاثر ہوئی بالخصوص ٹیکسٹائل اور اسٹیل انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچا۔ صنعتی میدان میں غلط پالیسیوں کے باعث پاکستان غیرملکی منڈیوں میں بھی ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا اور ان منڈیوں پر چین' بھارت' بنگلہ دیش اور دیگر ممالک نے قبضہ کر لیا۔
حکومت ریونیو بڑھانے کے لیے روز مرہ کی اشیا پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی میں تو اضافہ کر دیتی ہے مگر اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے آمادہ نہیں ہوتی۔ عوامی حلقوں کے مطابق حکمران طبقہ' بااثر سیاستدان اور جاگیردار تمام حکومتی مراعات سے فیض یاب ہوتے ہیں مگر وہ ٹیکس ادا کرنے کے لیے قطعی آمادہ نہیں ہوتے لہٰذا ٹیکسوں میں اضافے کا اثر عام آدمی پر پڑتا ہے۔
بہتر ہے کہ بجٹ خسارے پر قابو پانے اور مالیاتی استحکام کے لیے حکومت روز مرہ اشیا پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح میں اضافے کے بجائے بااثر افراد اور اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لے کر آئے اس سے اس کے ریونیو میں خود بخود اضافہ ہو جائے گا۔ صنعتی ترقی کے لیے لازم ہے کہ ٹیکسوں کی شرح میں کمی کی جائے' ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ صنعتی پیداوار اور ترقی کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ بنتا ہے۔
ملک کا معاشی نظام چلانے کے لیے تشکیل دیا گیا بجٹ اعدادوشمار کا ایسا گنجلک اور پیچیدہ گراف ہے جو چند مخصوص طبقے کے سوا عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہوتا ہے۔ عام آدمی کو اعلیٰ سطح پر ہونے والے معاشی فیصلوں' ملکی اور غیرملکی اداروں سے قرضوں کے لین دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا' وہ تو صرف اتنا جانتا ہے کہ حکومتی فیصلوں سے اس کے گھریلو بجٹ میں کیا تبدیلی آئی اور اس کی زندگی میں کتنی معاشی ترقی ہوئی ' اگر روز مرہ کی اشیا مہنگی ہو جائیں اور عام آدمی کی آمدن کا گراف نیچے اور اخراجات کا اوپر چلا جائے تو اس کے نزدیک حکومت کا تشکیل دیا گیا بجٹ ناکام اور عوام دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔
بجٹ پیش کرتے ہوئے حکومت نے بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ وہ عوامی بجٹ پیش کر رہی ہے جس سے مہنگائی نہیں ہو گی اور عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئے گی۔ اب وفاقی حکومت نے آلو، دیگر سبزیوں اور سبزیوں کے مکسچر، پیک شُدہ دہی، مکھن، پنیر، شہد، چاکلیٹ، زنانہ مردانہ و بچگانہ سوٹ و گارمنٹس ،سُرخی پاوڈر سمیت دیگر کاسمیٹکس، واٹر ڈسپنسر، درآمدی مشروبات، تازہ و خشک پھلوں و میوہ جات، آڑو' ناشپاتی' چیریز' پائن ایپل' اسٹرابری سمیت دیگر پھل' آئس کریم' بیکنگ پائوڈر' بسکٹ' شیونگ کریم' کارن فلیکس' مکرونی' پاستہ' چیونگم' جوتے، بریف کیس سمیت جن چار سو سے زائد درآمدی اشیاء مہنگی کرنے کا فیصلہ کیا ہے' اس سے مہنگائی کا جو طوفان آئے گا اس کا اندازہ تو شاید حکمران طبقے کو نہ ہو مگر عام آدمی جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پستا چلا جا رہا ہے مزید مشکلات کا شکار ہوجائے گا۔
حکمرانوں کے لیے تو یہ خوشی کی بات ہے کہ وہ روز مرہ اشیا پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ کرکے سترہ سے بیس ارب اضافی ریونیو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن عام آدمی کے لیے کیا مسائل پیدا ہوں گے اس کا شاید انھیں اندازہ نہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوصف پاکستان آلو سمیت روز مرہ کی سبزیاں اور پھل درآمد کر رہا ہے' یہ امر حکومت کی ناکام زرعی پالیسی پر دلالت کرتا ہے۔
رہائشی کالونیوں کے نام پر ایک طاقتور مافیا سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر زرخیز زرعی زمینوں کو ختم کرتا چلا جا رہا ہے' دوسری طرف پانی اور توانائی کا بڑھتا ہوا بحران زرعی پیداوار پر اثر انداز ہو رہا ہے' زرعی مداخل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں' ناقص اور غیرمعیاری بیج'جعلی زرعی ادویات اور ناقص کھادوں نے بھی زرعی پیداوار کو متاثر کیا ہے جس کا اثر کسانوں کی معاشی زندگی پر پڑا ہے۔
کسانوں کے بار بار احتجاج کے باوجود حکومت نے زرعی پالیسی میں موجود اسقام کو دور کرنے کی قطعی کوشش نہیں کی' زرعی پالیسیاں جاگیرداروں اور ایک مخصوص طبقے کے مفادات کو سامنے رکھ کر تشکیل دی گئیں۔ توانائی کے بحران اور آئے روز ٹیکسوں میں اضافے کے باعث صنعتی پیداوار بھی متاثر ہوئی بالخصوص ٹیکسٹائل اور اسٹیل انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچا۔ صنعتی میدان میں غلط پالیسیوں کے باعث پاکستان غیرملکی منڈیوں میں بھی ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا اور ان منڈیوں پر چین' بھارت' بنگلہ دیش اور دیگر ممالک نے قبضہ کر لیا۔
حکومت ریونیو بڑھانے کے لیے روز مرہ کی اشیا پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی میں تو اضافہ کر دیتی ہے مگر اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے آمادہ نہیں ہوتی۔ عوامی حلقوں کے مطابق حکمران طبقہ' بااثر سیاستدان اور جاگیردار تمام حکومتی مراعات سے فیض یاب ہوتے ہیں مگر وہ ٹیکس ادا کرنے کے لیے قطعی آمادہ نہیں ہوتے لہٰذا ٹیکسوں میں اضافے کا اثر عام آدمی پر پڑتا ہے۔
بہتر ہے کہ بجٹ خسارے پر قابو پانے اور مالیاتی استحکام کے لیے حکومت روز مرہ اشیا پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح میں اضافے کے بجائے بااثر افراد اور اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لے کر آئے اس سے اس کے ریونیو میں خود بخود اضافہ ہو جائے گا۔ صنعتی ترقی کے لیے لازم ہے کہ ٹیکسوں کی شرح میں کمی کی جائے' ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ صنعتی پیداوار اور ترقی کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ بنتا ہے۔