اعتکاف کی فضیلت
اپنے گھر میں محلے میں اور مسجد میں ارد گرد دیکھیے کیا کچھ ہو رہا ہے
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا '' جو لوگ رمضان کے روزے، ایمان و احتساب کے ساتھ رکھیں گے ان کے پچھلے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔'' اسی طرح رمضان کی راتوں میں تراویح و تہجد پڑھیں گے شب قدر میں نوافل کا اہتمام کریں گے اس نیت سے کہ ہم سے جو بھی خطا ہوئی ہے اللہ تعالیٰ ہمارے سارے گناہ معاف فرمادے اور ایمان و احتساب کے ساتھ عبادت کریں تو اللہ تعالیٰ ہمارے سارے پچھلے گناہ معاف فرما دیں گے۔ جس نے رمضان کے آخری عشرے میں دس دن کا اعتکاف کیا تو وہ اعتکاف مثل دو حج اور دو عمروں کا ہوگا (یعنی اس کے برابر ثواب ملے گا)۔
اسلام میں ایمان اور احتساب کی بہت اہمیت ہے لیکن آج کل کے دور میں ایمان تک کی بات تو لوگ سمجھ لیتے ہیں پر احتساب سے کتراتے ہیں اس لیے کہ جس چیک اینڈ بیلنس کو ہم پر ہمارے رب کی جانب سے لاگو کیا گیا ہے اس میں ہمیں بہت کچھ نقصان کا خیال رہتا ہے مثلاً تول میں ذرا ہاتھ رکھ دیں تو کچھ مال تو بچ جائے گا لیکن برکت کے معاملے میں غور ہی نہیں کرتے۔ خراب مال چھپا کر بیچ دیتے ہیں کہ نفع تو مل گیا لیکن جس بڑے خسارے کا انتظام اپنے لیے کر لیا ہے وہ فی الحال تو نظر ہی نہیں آتا، لوگوں کو بڑے بڑے لیکچر تو دے دیتے ہیں لیکن جب احتساب کی تلوار ہمارے اپنے گلے تک پہنچتی ہے تو کترا کر راستہ بدل لیتے ہیں یہاں تک کہ مادیت کے جس دور میں ہم سانس لے رہے ہیں وہاں عبادت تک میں دکھاوا شامل ہوچکا ہے یعنی ظاہری طور پر اس طرح کا بہروپ بھریں کہ لوگ معزز اور ایمان والا سمجھ کر اعتبار کرنے لگیں اور پھر یہی اعتبار بھربھری مٹی کی مانند بکھر جائے تو کیا ہوا؟ کام تو نکل گیا ناں۔ گویا سب کچھ بس اس نظر آنے والی دنیا کے لیے کرتے چلے جا رہے ہیں۔
رمضان کی آخری راتیں جب اعتکاف کے لیے لوگ تیاریاں کرتے ہیں کیسا روح پرور منظر دکھائی دیتا ہے۔ اس کے لیے مسلمانوں کو کیا عمل اختیار کرنا چاہیے، نیک اور اچھی باتیں کرنا اور درود شریف پڑھنا، قرآن شریف کی تلاوت کرنا، علوم دینیہ کا پڑھنا، وعظ و نصیحت کرنا، نماز پنجگانہ والی مسجد میں اعتکاف کرنا، ان سب باتوں کو اختیار کرنا بظاہر تو مشکل نہیں ہے لیکن عمل کرنے کے لیے بھی جگر چاہیے۔ دس دن کا اعتکاف سنت ہے اور اس سے کم کا نفل ہے۔
اعتکاف اللہ رب العزت سے قربت کا ایک طریقہ ہے کہ جب مسلمان صرف اپنے رب کی عبادت کرے اور اس کے لیے وہ اپنے گھر والوں، عزیز و اقارب سے کٹ کر خلوت میں یہ عمل کرتا ہے ذرا سوچیے کہ یہ کس قدر خالص عبادت ہے کہ جس میں دنیاداری سے کٹ کر پورے خشوع و خضوع سے اپنے رب کی جانب راغب ہو، ہمارے پیارے نبی اکرمؐ نے جس انداز سے اعتکاف کیا وہ مثال ہمارے سامنے ہے لیکن آج کل اعتکاف کو سنت رسولؐ کی طرح کرنے والے کتنے دل والے ہیں۔
وہ رات دو ڈھائی بجے باہر آکر کرکٹ کھیلتے ہیں اس طرح محلے والوں کی نیند خراب ہوتی ہے اور دوسرے اعتکاف والے لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں زور زور سے باتیں کرتے ہیں ان کو ذرا سمجھائیے میں تو سمجھا سمجھا کر رہ گیا پر وہ میری سنتے ہی نہیں۔
اجی حضرت! میں کیا سمجھاؤں، جب وہ آپ کی نہیں سنتے تو میری کیا سنیں گے۔
یہ گفتگو گلی محلے کے لونڈوں لپاڑوں کے لیے نہیں ہو رہی بلکہ ان نوجوان لڑکوں کے لیے ہو رہی ہے جو اعتکاف میں پچھلے برس بیٹھے تھے، ان کے گھر والے بہت خوش تھے کہ بیٹا اس قدر عبادت گزار ہے کہ مسجد میں جاکر اعتکاف میں بیٹھا ہے، لیکن درحقیقت یہ اس کا اعتکاف کم اور پکنک پارٹی زیادہ تھی۔ نمازیوں کی توجہ، گھر والوں کی محبت و شفقت، مزے مزے کے پکوان اور بہت کچھ۔ ذرا بور ہوتے تو خوش گپیوں کا دور اور پھر کرکٹ کا جنون تو سر چڑھ کر بولتا ہے، پورے دس دن لکڑی کے اس بلے اور چھوٹی سی گیند سے دور رہنا اتنا آسان تو نہیں ہے لہٰذا استاد ترکیب تو نکل ہی آتی ہے اور یوں نائٹ میچ بھی چلتا رہتا ہے۔
''آپ نہیں جانتے بھائی جی! وہ اعتکاف میں کیا کچھ کرتے ہیں سب لڑکے جمع ہوکر پچھلے صحن میں بیٹھ جاتے ہیں اور زور زور سے باتیں کرتے ہیں سامنے سے سارے فلیٹ والے دیکھتے ہیں، ایک دوسرے کے جھروکوں میں مداخلت کرنا گویا تفریح ہے بور ہوجاتے ہیں تو موج مستی یاد آتی ہے ایک دوسرے کی برائیاں، چغلی کھانا تو کوئی بات ہی نہیں۔''
ایک بڑی مسجد میں اعتکاف میں بیٹھنے والے ایک نوجوان نے چند برسوں پہلے اپنے ساتھ اعتکاف میں بیٹھنے والوں کا حال اس طرح سنایا تھا لیکن مسجد والے ذرا سمجھ دار تھے انھوں نے خود ہی ان سب کا احتساب کچھ اس طرح سے کیا کہ چھوٹی عمر کے لڑکوں پر پابندی لگادی کہ وہ عبادت سے زیادہ موج مستی پر توجہ دیتے ہیں اور ان کے اس طرح کرنے سے دوسرے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
اپنے گھر میں محلے میں اور مسجد میں ارد گرد دیکھیے کیا کچھ ہو رہا ہے عبادت میں بھی مادیت کے رنگ کو شامل کرنے کے خلاف ہم کیا کر سکتے ہیں اور کچھ نہیں تو دل سے تو احتجاج کرسکتے ہیں ویسے بھی دل میں کیا ہے یہ تو وہی جانتے ہیں کہ جن کی ساری دنیا ہے اور حقیقت تو یہی ہے کہ جس قدر وسعت ان کے معاف کردینے میں ہے، اس کا تصور ہی ہمارے لیے حیران کن ہے کہ ہمیں تو ذرا ذرا سی سرزنش پر دوسروں کی گردنیں پکڑنے کا شوق ہے پر ہم سب کی گردنوں پر کس کا ہاتھ ہے ان کے بارے میں تو غور کریں اور پھر اعتکاف کے عمل کی سوچئے۔
اسلام میں ایمان اور احتساب کی بہت اہمیت ہے لیکن آج کل کے دور میں ایمان تک کی بات تو لوگ سمجھ لیتے ہیں پر احتساب سے کتراتے ہیں اس لیے کہ جس چیک اینڈ بیلنس کو ہم پر ہمارے رب کی جانب سے لاگو کیا گیا ہے اس میں ہمیں بہت کچھ نقصان کا خیال رہتا ہے مثلاً تول میں ذرا ہاتھ رکھ دیں تو کچھ مال تو بچ جائے گا لیکن برکت کے معاملے میں غور ہی نہیں کرتے۔ خراب مال چھپا کر بیچ دیتے ہیں کہ نفع تو مل گیا لیکن جس بڑے خسارے کا انتظام اپنے لیے کر لیا ہے وہ فی الحال تو نظر ہی نہیں آتا، لوگوں کو بڑے بڑے لیکچر تو دے دیتے ہیں لیکن جب احتساب کی تلوار ہمارے اپنے گلے تک پہنچتی ہے تو کترا کر راستہ بدل لیتے ہیں یہاں تک کہ مادیت کے جس دور میں ہم سانس لے رہے ہیں وہاں عبادت تک میں دکھاوا شامل ہوچکا ہے یعنی ظاہری طور پر اس طرح کا بہروپ بھریں کہ لوگ معزز اور ایمان والا سمجھ کر اعتبار کرنے لگیں اور پھر یہی اعتبار بھربھری مٹی کی مانند بکھر جائے تو کیا ہوا؟ کام تو نکل گیا ناں۔ گویا سب کچھ بس اس نظر آنے والی دنیا کے لیے کرتے چلے جا رہے ہیں۔
رمضان کی آخری راتیں جب اعتکاف کے لیے لوگ تیاریاں کرتے ہیں کیسا روح پرور منظر دکھائی دیتا ہے۔ اس کے لیے مسلمانوں کو کیا عمل اختیار کرنا چاہیے، نیک اور اچھی باتیں کرنا اور درود شریف پڑھنا، قرآن شریف کی تلاوت کرنا، علوم دینیہ کا پڑھنا، وعظ و نصیحت کرنا، نماز پنجگانہ والی مسجد میں اعتکاف کرنا، ان سب باتوں کو اختیار کرنا بظاہر تو مشکل نہیں ہے لیکن عمل کرنے کے لیے بھی جگر چاہیے۔ دس دن کا اعتکاف سنت ہے اور اس سے کم کا نفل ہے۔
اعتکاف اللہ رب العزت سے قربت کا ایک طریقہ ہے کہ جب مسلمان صرف اپنے رب کی عبادت کرے اور اس کے لیے وہ اپنے گھر والوں، عزیز و اقارب سے کٹ کر خلوت میں یہ عمل کرتا ہے ذرا سوچیے کہ یہ کس قدر خالص عبادت ہے کہ جس میں دنیاداری سے کٹ کر پورے خشوع و خضوع سے اپنے رب کی جانب راغب ہو، ہمارے پیارے نبی اکرمؐ نے جس انداز سے اعتکاف کیا وہ مثال ہمارے سامنے ہے لیکن آج کل اعتکاف کو سنت رسولؐ کی طرح کرنے والے کتنے دل والے ہیں۔
وہ رات دو ڈھائی بجے باہر آکر کرکٹ کھیلتے ہیں اس طرح محلے والوں کی نیند خراب ہوتی ہے اور دوسرے اعتکاف والے لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں زور زور سے باتیں کرتے ہیں ان کو ذرا سمجھائیے میں تو سمجھا سمجھا کر رہ گیا پر وہ میری سنتے ہی نہیں۔
اجی حضرت! میں کیا سمجھاؤں، جب وہ آپ کی نہیں سنتے تو میری کیا سنیں گے۔
یہ گفتگو گلی محلے کے لونڈوں لپاڑوں کے لیے نہیں ہو رہی بلکہ ان نوجوان لڑکوں کے لیے ہو رہی ہے جو اعتکاف میں پچھلے برس بیٹھے تھے، ان کے گھر والے بہت خوش تھے کہ بیٹا اس قدر عبادت گزار ہے کہ مسجد میں جاکر اعتکاف میں بیٹھا ہے، لیکن درحقیقت یہ اس کا اعتکاف کم اور پکنک پارٹی زیادہ تھی۔ نمازیوں کی توجہ، گھر والوں کی محبت و شفقت، مزے مزے کے پکوان اور بہت کچھ۔ ذرا بور ہوتے تو خوش گپیوں کا دور اور پھر کرکٹ کا جنون تو سر چڑھ کر بولتا ہے، پورے دس دن لکڑی کے اس بلے اور چھوٹی سی گیند سے دور رہنا اتنا آسان تو نہیں ہے لہٰذا استاد ترکیب تو نکل ہی آتی ہے اور یوں نائٹ میچ بھی چلتا رہتا ہے۔
''آپ نہیں جانتے بھائی جی! وہ اعتکاف میں کیا کچھ کرتے ہیں سب لڑکے جمع ہوکر پچھلے صحن میں بیٹھ جاتے ہیں اور زور زور سے باتیں کرتے ہیں سامنے سے سارے فلیٹ والے دیکھتے ہیں، ایک دوسرے کے جھروکوں میں مداخلت کرنا گویا تفریح ہے بور ہوجاتے ہیں تو موج مستی یاد آتی ہے ایک دوسرے کی برائیاں، چغلی کھانا تو کوئی بات ہی نہیں۔''
ایک بڑی مسجد میں اعتکاف میں بیٹھنے والے ایک نوجوان نے چند برسوں پہلے اپنے ساتھ اعتکاف میں بیٹھنے والوں کا حال اس طرح سنایا تھا لیکن مسجد والے ذرا سمجھ دار تھے انھوں نے خود ہی ان سب کا احتساب کچھ اس طرح سے کیا کہ چھوٹی عمر کے لڑکوں پر پابندی لگادی کہ وہ عبادت سے زیادہ موج مستی پر توجہ دیتے ہیں اور ان کے اس طرح کرنے سے دوسرے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
اپنے گھر میں محلے میں اور مسجد میں ارد گرد دیکھیے کیا کچھ ہو رہا ہے عبادت میں بھی مادیت کے رنگ کو شامل کرنے کے خلاف ہم کیا کر سکتے ہیں اور کچھ نہیں تو دل سے تو احتجاج کرسکتے ہیں ویسے بھی دل میں کیا ہے یہ تو وہی جانتے ہیں کہ جن کی ساری دنیا ہے اور حقیقت تو یہی ہے کہ جس قدر وسعت ان کے معاف کردینے میں ہے، اس کا تصور ہی ہمارے لیے حیران کن ہے کہ ہمیں تو ذرا ذرا سی سرزنش پر دوسروں کی گردنیں پکڑنے کا شوق ہے پر ہم سب کی گردنوں پر کس کا ہاتھ ہے ان کے بارے میں تو غور کریں اور پھر اعتکاف کے عمل کی سوچئے۔