شریف خاندان کا اتحاد اور پانامہ کیس
شریف فیملی سیاست کے اس کھیل میں آنے والے نشیب و فراز میں اب تک اکٹھی نظر آئی ہے
یہ سوال اہم نہیں ہے کہ شریف فیملی نے جے آئی ٹے کے سامنے پیش ہو کر تاریخ رقم کی ہے کہ نہیں۔ یہ فیصلہ تو تاریخ ہی کرے گی کہ تاریخ رقم ہوئی کہ نہیں۔ اس لیے اس بحث کی فی الحال کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اگر تاریخ نے اس کو اہمیت نہ دی تو آج دی جانے والی اہمیت بے اثر ہو جائے گی اور اگر تاریخ نے اس کو اہمیت دے دی تو آج کی تنقید بے اثر ہو جائے گی۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ تاریخ کا فیصلہ عوام کی عدالت کے فیصلے سے بھی مشروط ہو گا۔ اگر عوام کی عدالت نے یہ مان لیا کہ تاریخ رقم ہوئی ہے تو پھر تاریخ دان بھی مجبور ہو جائے گا۔ سیاسی مورخ ہمیشہ عوام کی عدالت سے مرعوب رہتا ہے۔ اور عوامی عدالت کے فیصلوں کو ہی اہمیت دیتا ہے۔
لیکن شہباز شریف کے سوالات میں جان ہے کہ ان پر ان کے موجودہ دور اقتدار میں کرپشن کا کوئی کیس نہیں ہے۔ یہ جے آئی ٹی ان کے موجودہ دور کے حوالہ سے کوئی تحقیقات نہیں کر رہی ہے۔یہ درست ہے کہ شہباز شریف نے پنجاب میں بہت بڑے بڑے میگا پراجیکٹ کیے ہیں۔ لیکن ان میگا پراجیکٹ کی افادیت پر تنقید اور اختلاف اپنی جگہ لیکن ان میگا پرجیکٹس میں کرپشن کی کوئی داستان ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔ آج سوشل میڈیا کا دور ہے۔ یہاں کچھ نہیں چھپ سکتا۔ اگر ان منصوبوں میں کرپشن کی کوئی داستان ہوتی تو یقینا زبان زد عام ہوتی۔ اور آج شہباز شریف ان پر جوابدہ ہوتے۔
اس کے مقابلے میں دوسرے صوبوں میں ہونے والے منصوبوں پر کرپشن پر ایک نہیں سیکڑوں انگلیاں اٹھی ہیں۔ سندھ میں تو ان گنت مثالیں ہیں۔ اور وہاں کے وزراء اور بیوروکریٹس ضمانتوں پر نظر آتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی تاریخ کا کرپشن کا سب سے بڑا سکینڈل سامنے آیا جب ایک سنیئر بیوروکریٹ کے گھر سے ایک بڑی رقم نکل آئی ہے۔ کے پی کے کی حکومت تو خود اپنے وزراء کی کرپشن کی داستانیں بتا رہی ہے اور وزراء اپنے وزیر اعلیٰ کی کرپشن کی داستانیں سنا رہے ہیں۔
شہباز شریف کا پانامہ کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے لیے ایک آسان راستہ تو یہی تھا کہ وہ جے آئی ٹی کو کہتے کہ آپ نے مجھے کیوں بلایا ہے۔ بلکہ جانے سے پہلے ہی شور مچا دیتے کہ مجھے کیوں بلایا جا رہا ہے۔ میرا نہ تو ان فلیٹس سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی میرا پانامہ پیپرز میں کوئی ذکر ہے۔ لیکن شہباز شریف نے ایسے نہیں کیا۔ بلکہ شہباز شریف ا ور جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والے باقی افراد کی پالیسی میں ایک واضح فرق بھی نظرآیا ہے۔
شہباز شریف نے باہر نکل کر جے آئی ٹی پر کوئی تنقید نہیں کی۔ جو اس سے پہلے ایک رحجان بن چکا تھا۔ کہ جو بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوتا رہا ہے اس نے جے آئی ٹی کے رویہ اور طریقہ کار پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ لیکن شہباز شریف نے ایسے نہیں کیا۔ شاید یہ فرق اس طرح محسوس نہیں کیا گیا جیسے کیا جانا چاہیے تھا۔
عروج و زوال سیاست کا بنیادی جزو ہیں۔ اونچ نیچ۔ اقتدار کا آنا اور جانا سب سیاست کا حصہ ہے۔ جو آیا ہے اس نے جانا ہے۔ صدا بادشاہی رب کی ہے۔ یہی ہمارا ایمان ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو جس شان سے مقتل گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔ اگر بھٹو نے سیاست میں پھانسی کے پھندے کو گلے لگایا تو وہ شان آج بھی سلامت ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی جرات اور بہادری نے اس شان کو چار چاند لگائے لیکن محترمہ بینظیر بھٹو کے بعد ان کے وارثین کو بینظیر کی شان کی بدولت اقتدار تو ملا لیکن وہ اس کو سنبھال نہیں سکے۔ اور آج پیپلزپارٹی کا ووٹر اور سپورٹر اس سے ناراض نظرآ رہا ہے۔
ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا کہ بینظیر بھٹو اور مرتضی بھٹو کے اختلافات نے بھی پیپلزپارٹی کو کمزور کیا۔ اور یہ افسوس ناک پہلو ہے کہ بھٹو کی عظیم قربانی کے بعد بھٹو کا خاندان اکٹھا نہ رہ سکا۔ سیاست کے کٹھن کھیل میں بھٹو کی اولاد میں ایسے اختلافات پیدا ہو گئے کہ جو آج تک ختم نہیں ہو سکے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو عظیم قائدانہ صلاحیتوں کے باوجود اپنے بھائی مرتضی کے ساتھ جوڑی نہ بنا سکیں۔ اور پاکستان میں ہی دونوں ایک دوسرے کے خلاف سیاست کرتے نظر آئے۔ اور پھر انھی اختلافات کی وجہ سے مرتضیٰ کا بینظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ میں ہی قتل ہو گیا۔
عمران خان کی مثال بھی کوئی اس سے مختلف نہیں۔ عمران خان نے جب سیاست شروع کی تو ن کے قریبی رشتہ دار ان کے ساتھ تھے۔ حتیٰ کے انعام اللہ نیازی نے بھی ن لیگ چھوڑ دی۔ پھر انعام اللہ نیازی کو واپس ن لیگ میں جانا پڑا۔
تا ہم شریف فیملی سیاست کے اس کھیل میں آنے والے نشیب و فراز میں اب تک اکٹھی نظر آئی ہے۔ شریف فیملی پر یہ پہلا امتحان نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو کوئی امتحان ہی نہیں ہے۔ مشرف کا مارشل لا یقینا اس سے بڑا امتحان تھا۔ ایک لمبا امتحان تھا۔ لیکن تب بھی شریف فیملی نے اپنا اتحاد قائم رکھا۔ نواز شریف اور شہباز شریف نے تب بھی مشرف کی جیل بھی اکٹھے کاٹی اور جلا وطنی بھی اکٹھے کاٹی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس کے علاوہ ان کے پاس آپشن کیا تھا۔ لیکن یہ مت بھولیں مشرف نے اس اتحاد کو توڑنے کی بہت کوشش کی۔ لیکن ناکام رہا۔
یہ درست ہے کہ شہباز شریف کا موقف رہا کہ وہ پرویز مشرف کوعہدے سے ہٹانے کے فیصلے میں شامل نہیں تھے۔ ان کے اس موقف کی بعد میں تصدیق بھی ہوئی کہ میاں نواز شریف نے اس ضمن میں ان سے مشاورت نہیں کی تھی۔ لیکن بعد میں شہباز شریف نے نہایت ثابت قدمی کے ساتھ اس فیصلہ پر آمین کہا۔ اور اس فیصلہ کی تمام سختیاں برداشت کیں۔ بلکہ جلا وطنی شہباز شریف کے لیے تواس لیے بھی زیادہ تکلیف دہ تھی کہ شہباز شریف کے دونوں بیٹے پاکستان میں تھے۔
یہ بات بھی عام ہے کہ مشرف نے شہباز شریف کو بہت دفعہ پیشکش کی کہ وہ اپنے بھائی کی سیاست کو چھوڑ کر واپس آنا چاہتے ہیں تو آجائیں۔ لیکن مشرف شریف فیملی کے اتحاد کو نہیں توڑ سکا۔ اور شہباز شریف نے میاں نواز شریف کے ساتھ ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔
اقتدار کے اس کھیل میں بھائی بھائی کے خون کا پیاسا رہتا ہے۔ خون سفید ہونا عام بات ہے۔ آپ کو دوسروں سے نہیں بلکہ اپنوں سے ہی خطرہ رہتا ہے۔ دنیا میں تمام حکمران خاندانوں کو دیکھ لیں۔ ان کے درمیان اختلافات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہیں۔سیاست تو ایسا بے رحم کھیل ہے کہ باپ اور بیٹے کے درمیان بھی اختلاف پیدا کر دیتا ہے۔ اس ضمن میں بلاول اور آصف زرداری کے اختلافات بھی کوئی دور کی بات نہیں ہیں۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ تاریخ کا فیصلہ عوام کی عدالت کے فیصلے سے بھی مشروط ہو گا۔ اگر عوام کی عدالت نے یہ مان لیا کہ تاریخ رقم ہوئی ہے تو پھر تاریخ دان بھی مجبور ہو جائے گا۔ سیاسی مورخ ہمیشہ عوام کی عدالت سے مرعوب رہتا ہے۔ اور عوامی عدالت کے فیصلوں کو ہی اہمیت دیتا ہے۔
لیکن شہباز شریف کے سوالات میں جان ہے کہ ان پر ان کے موجودہ دور اقتدار میں کرپشن کا کوئی کیس نہیں ہے۔ یہ جے آئی ٹی ان کے موجودہ دور کے حوالہ سے کوئی تحقیقات نہیں کر رہی ہے۔یہ درست ہے کہ شہباز شریف نے پنجاب میں بہت بڑے بڑے میگا پراجیکٹ کیے ہیں۔ لیکن ان میگا پراجیکٹ کی افادیت پر تنقید اور اختلاف اپنی جگہ لیکن ان میگا پرجیکٹس میں کرپشن کی کوئی داستان ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔ آج سوشل میڈیا کا دور ہے۔ یہاں کچھ نہیں چھپ سکتا۔ اگر ان منصوبوں میں کرپشن کی کوئی داستان ہوتی تو یقینا زبان زد عام ہوتی۔ اور آج شہباز شریف ان پر جوابدہ ہوتے۔
اس کے مقابلے میں دوسرے صوبوں میں ہونے والے منصوبوں پر کرپشن پر ایک نہیں سیکڑوں انگلیاں اٹھی ہیں۔ سندھ میں تو ان گنت مثالیں ہیں۔ اور وہاں کے وزراء اور بیوروکریٹس ضمانتوں پر نظر آتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی تاریخ کا کرپشن کا سب سے بڑا سکینڈل سامنے آیا جب ایک سنیئر بیوروکریٹ کے گھر سے ایک بڑی رقم نکل آئی ہے۔ کے پی کے کی حکومت تو خود اپنے وزراء کی کرپشن کی داستانیں بتا رہی ہے اور وزراء اپنے وزیر اعلیٰ کی کرپشن کی داستانیں سنا رہے ہیں۔
شہباز شریف کا پانامہ کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے لیے ایک آسان راستہ تو یہی تھا کہ وہ جے آئی ٹی کو کہتے کہ آپ نے مجھے کیوں بلایا ہے۔ بلکہ جانے سے پہلے ہی شور مچا دیتے کہ مجھے کیوں بلایا جا رہا ہے۔ میرا نہ تو ان فلیٹس سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی میرا پانامہ پیپرز میں کوئی ذکر ہے۔ لیکن شہباز شریف نے ایسے نہیں کیا۔ بلکہ شہباز شریف ا ور جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والے باقی افراد کی پالیسی میں ایک واضح فرق بھی نظرآیا ہے۔
شہباز شریف نے باہر نکل کر جے آئی ٹی پر کوئی تنقید نہیں کی۔ جو اس سے پہلے ایک رحجان بن چکا تھا۔ کہ جو بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوتا رہا ہے اس نے جے آئی ٹی کے رویہ اور طریقہ کار پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ لیکن شہباز شریف نے ایسے نہیں کیا۔ شاید یہ فرق اس طرح محسوس نہیں کیا گیا جیسے کیا جانا چاہیے تھا۔
عروج و زوال سیاست کا بنیادی جزو ہیں۔ اونچ نیچ۔ اقتدار کا آنا اور جانا سب سیاست کا حصہ ہے۔ جو آیا ہے اس نے جانا ہے۔ صدا بادشاہی رب کی ہے۔ یہی ہمارا ایمان ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو جس شان سے مقتل گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔ اگر بھٹو نے سیاست میں پھانسی کے پھندے کو گلے لگایا تو وہ شان آج بھی سلامت ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی جرات اور بہادری نے اس شان کو چار چاند لگائے لیکن محترمہ بینظیر بھٹو کے بعد ان کے وارثین کو بینظیر کی شان کی بدولت اقتدار تو ملا لیکن وہ اس کو سنبھال نہیں سکے۔ اور آج پیپلزپارٹی کا ووٹر اور سپورٹر اس سے ناراض نظرآ رہا ہے۔
ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا کہ بینظیر بھٹو اور مرتضی بھٹو کے اختلافات نے بھی پیپلزپارٹی کو کمزور کیا۔ اور یہ افسوس ناک پہلو ہے کہ بھٹو کی عظیم قربانی کے بعد بھٹو کا خاندان اکٹھا نہ رہ سکا۔ سیاست کے کٹھن کھیل میں بھٹو کی اولاد میں ایسے اختلافات پیدا ہو گئے کہ جو آج تک ختم نہیں ہو سکے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو عظیم قائدانہ صلاحیتوں کے باوجود اپنے بھائی مرتضی کے ساتھ جوڑی نہ بنا سکیں۔ اور پاکستان میں ہی دونوں ایک دوسرے کے خلاف سیاست کرتے نظر آئے۔ اور پھر انھی اختلافات کی وجہ سے مرتضیٰ کا بینظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ میں ہی قتل ہو گیا۔
عمران خان کی مثال بھی کوئی اس سے مختلف نہیں۔ عمران خان نے جب سیاست شروع کی تو ن کے قریبی رشتہ دار ان کے ساتھ تھے۔ حتیٰ کے انعام اللہ نیازی نے بھی ن لیگ چھوڑ دی۔ پھر انعام اللہ نیازی کو واپس ن لیگ میں جانا پڑا۔
تا ہم شریف فیملی سیاست کے اس کھیل میں آنے والے نشیب و فراز میں اب تک اکٹھی نظر آئی ہے۔ شریف فیملی پر یہ پہلا امتحان نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو کوئی امتحان ہی نہیں ہے۔ مشرف کا مارشل لا یقینا اس سے بڑا امتحان تھا۔ ایک لمبا امتحان تھا۔ لیکن تب بھی شریف فیملی نے اپنا اتحاد قائم رکھا۔ نواز شریف اور شہباز شریف نے تب بھی مشرف کی جیل بھی اکٹھے کاٹی اور جلا وطنی بھی اکٹھے کاٹی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس کے علاوہ ان کے پاس آپشن کیا تھا۔ لیکن یہ مت بھولیں مشرف نے اس اتحاد کو توڑنے کی بہت کوشش کی۔ لیکن ناکام رہا۔
یہ درست ہے کہ شہباز شریف کا موقف رہا کہ وہ پرویز مشرف کوعہدے سے ہٹانے کے فیصلے میں شامل نہیں تھے۔ ان کے اس موقف کی بعد میں تصدیق بھی ہوئی کہ میاں نواز شریف نے اس ضمن میں ان سے مشاورت نہیں کی تھی۔ لیکن بعد میں شہباز شریف نے نہایت ثابت قدمی کے ساتھ اس فیصلہ پر آمین کہا۔ اور اس فیصلہ کی تمام سختیاں برداشت کیں۔ بلکہ جلا وطنی شہباز شریف کے لیے تواس لیے بھی زیادہ تکلیف دہ تھی کہ شہباز شریف کے دونوں بیٹے پاکستان میں تھے۔
یہ بات بھی عام ہے کہ مشرف نے شہباز شریف کو بہت دفعہ پیشکش کی کہ وہ اپنے بھائی کی سیاست کو چھوڑ کر واپس آنا چاہتے ہیں تو آجائیں۔ لیکن مشرف شریف فیملی کے اتحاد کو نہیں توڑ سکا۔ اور شہباز شریف نے میاں نواز شریف کے ساتھ ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔
اقتدار کے اس کھیل میں بھائی بھائی کے خون کا پیاسا رہتا ہے۔ خون سفید ہونا عام بات ہے۔ آپ کو دوسروں سے نہیں بلکہ اپنوں سے ہی خطرہ رہتا ہے۔ دنیا میں تمام حکمران خاندانوں کو دیکھ لیں۔ ان کے درمیان اختلافات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہیں۔سیاست تو ایسا بے رحم کھیل ہے کہ باپ اور بیٹے کے درمیان بھی اختلاف پیدا کر دیتا ہے۔ اس ضمن میں بلاول اور آصف زرداری کے اختلافات بھی کوئی دور کی بات نہیں ہیں۔