پاکستان و افغانستان بذریعہ میڈیا قریب آسکتے ہیں
افغانستان کے لیے یہ پاکستان کی طرف سے چاہت، تعاون اور اخوت ہی کا مظاہرہ ہے
ایک محترم اخبار نویس، جو گزشتہ دنوں افغانستان جانے والے پاکستانی صحافیوں کے وفد کا حصہ تھے،نے اپنے آرٹیکل میں شکوہ کیا ہے کہ کابل میں اُن کے ساتھ افغان حکومت اور افغان صحافیوں نے مناسب سلوک نہیں کیا۔ یہ شکوہ بجا ہوسکتا ہے کہ رواں لمحوں میں افغانستان کی مجموعی فضا بوجوہ پاکستان کے لیے موافق نہیں ہے۔ ہمارے دشمنوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے اِسے مسموم بنا دیا ہے۔
پاکستان تو ہمیشہ افغانستان کا بھلا چاہتا رہا ہے اور اب بھی پاکستان کے دل میں افغان بھائیوں کے لیے احترام اور محبت ہی کے جذبات ہیں۔ اِس کا عملی اظہار وزیر اعظم نواز شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے تازہ بیانات سے بھی ہو تا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ پاکستانی اورافغان میڈیا، تمام تر غلط فہمیوں کے باوصف، دونوں برادر و ہمسایہ اسلامی ممالک کو ایک بار پھر قریب بھی لاسکتا ہے اور دونوں کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو پاٹ بھی سکتا ہے۔
پاکستانی صحافیوں کے افغانستان روانہ ہونے سے دو ہفتے قبل افغان صحافیوں کا ایک معتبر وفد پاکستان آیا تھا۔ حکومتِ پاکستان اور ہمارے کئی اہم سرکاری اداروں نے انھیںسر آنکھوں پر بٹھایا ۔یہ علیحدہ بات ہے کہ پاکستانی اخبار نویسوں سے کابل میں مستحسن سلوک نہ کیا گیا۔بہتر مستقبل اور بلند تر مقاصد کی خاطر ہمیں مگر صبر اوراعراض سے کام لینا چاہیے۔
افغانستان کے تیرہ صحافی پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو کئی واقعات شدت سے یاد آنے لگے۔ مجھے پاکستان کے دو صدور اور ایک وزیراعظم کے ساتھ، تین بار، کابل جانے کے مواقع میسر آئے۔ تینوں بار تلخ تجربات اور ناخوشگوار مشاہدات کا سامنا کرنا پڑا۔ پرویز مشرف کے ساتھ تو افغان میڈیا کا رویہ خاصا توہین آمیز تھا، حالانکہ سوال جواب کا یہ پروگرام افغان صدارتی محل میں تھا۔ اس کے باوجود افغان صحافیوں کا اندازِ استفسار مناسب تھا نہ سفارتی پروٹوکول کے مطابق۔ یہ تو جنرل مشرف کی ذہانت اور چوکسی تھی کہ اُنھوں نے معاملے کو بگڑنے نہیں دیا تھا۔
صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی نے جب افغان دارالحکومت کا دورہ کیا تو مجھے کابل سے شایع ہونے والے انگریزی اخبارات (افغانستان ٹائمز وغیرہ) کا بغور مطالعہ کرنے کے بھی مواقع ملے۔ سب کا لہجہ پاکستان کے خلاف جارحانہ اور معاندانہ محسوس ہُوا۔
یہ تو مجھے معلوم تھا کہ افغان میڈیا (ٹی وی، ریڈیو، اخبارات) کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے بھارت سرمایہ کاری کر رہا ہے (جیسا کہ وہ بنگلہ دیش میں کر رہا ہے) لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ افغان میڈیا پاکستان کے خلاف اسقدر مسموم بھی ہو چکا ہے۔ کئی افغان صحافی بھارت سے میڈیا ٹریننگ لے کر بھی آئے ہیں۔ ایک آزاد اور خود مختار ملک ہونے کے ناتے افغانستان اور اُس کے اخبار نویسوں کو پورا پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کے کسی بھی ملک کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم کریں۔ اُنھیں مگر یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ پاکستان کے خلاف ہر وقت شرر فشانیوں پر آمادہ اور پاکستان کے خلاف دریدہ دہنی کے مرتکب ہوتے رہیں۔
چند ہفتے پہلے تیرہ افغان صحافیوں پر مشتمل وفد اسلام آباد اُترا تو ہمیں بھی کئی سابق کہانیاں یاد سی آکر رہ گئیں۔ افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے (آئی ایس پی آر)، پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے (اے پی پی)، پاکستان کے سب سے معتبر تعلیمی ادارے (ایچ ای سی)، نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر (ریٹائرڈ جنرل ناصر جنجوعہ) نے ان افغان صحافیوں کو جس مہمان نوازی، محبت اور وی آئی پی پروٹوکول سے نوازا اور جس طرح اُن کے ناز اُٹھائے، سچی بات یہ ہے کہ مجھے یہ سب مناظر دیکھ کر خوشی بھی ہُوئی اور ان افغان صحافیوں پر رشک بھی آیا۔
یہ اِس بات کا مظاہرہ ہے کہ پاکستان اور پاکستانیوں کے دل تنگ ہیں نہ متعصب۔ آئی ایس پی آر کے سر براہ، میجر جنرل آصف غفور، کے ساتھ ان افغان اخبار نویسوں کی ایک شاندار گروپ فوٹو اخبارات کی زینت بھی بنی۔ آصف غفور صاحب اُنھیں اپنے سرکاری دفتر میں ملے اور سب افغان صحافیوں کو پاک، افغان بارڈر کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں بریف کیا۔
ڈی جی، آئی ایس پی آر نے اُنھیں یہ بھی بتایا کہ پاکستان اب تک برادر افغانوں کی بہبود اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کیا کیا اقدامات کر چکا ہے۔ چند دن پہلے ہی سپہ سالارِ پاکستان، جنرل قمر جاوید باجوہ، لندن میں تھے جہاں اُن کی ملاقات افغان ڈیفنس اتاشی سے بھی ہُوئی تھی۔ میجر جنرل آصف غفور بھی اس ملاقات میں شریک تھے۔ اُنھوں نے دورے پر آئے افغان صحافیوں کو اس ملاقات کا احوال بتاتے ہُوئے جنرل باجوہ کے یہ خوش کُن الفاظ بھی سنائے: '' جنرل باجوہ نے افغان ڈیفنس اتاشی سے ملاقات میں کہا تھا کہ افغانستان کا ہر شہری مجھے اسی طرح پیارا ہے جس طرح پاکستان کا ہر شہری مجھے جاں سے زیادہ عزیز ہے۔ دہشتگردی سے جب کوئی پاکستانی متاثر ہوتا ہے تو میرا دل اُسے طرح تکلیف محسوس کرتا ہے جیسا کہ جب کبھی کوئی افغان شہری دہشتگردوں کے ہاتھوں دکھ اٹھاتا ہے۔ جنرل قمر جاوید باوجوہ نے یہ بھی کہا کہ دہشتگرد ہمارے مشترکہ دشمن ہیں۔''
جنرل باجوہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے افغان صحافیوں سے جو مستحسن سلوک کیا، اِس کی بازگشت افغان میڈیا میں سنائی دی جانی چاہیے تھی۔ افغان صحافیوں کے خدشات میں بھی یقینا کمی آئی ہوگی اور اُنھوں نے پاکستان کے حُسنِ سلوک کو دل میں جگہ بھی دی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے کبھی افغانستان، افغان عوام اور افغان حکمرانوں کا بُرا نہیں چاہا۔ افغانستان کی طرف سے مگر پاکستان کو ٹھنڈی ہوائیں کم کم میسر آسکی ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں پائیدار امن اور باہمی خوشحالی کے لیے بھی ضروری ہے کہ پاک، افغان میڈیا کے روابط باقاعدہ اور مضبوط بنیادوں پر استوار ہوں۔
افغانستان کے لیے یہ پاکستان کی طرف سے چاہت، تعاون اور اخوت ہی کا مظاہرہ ہے کہ جب پاکستان کے دورے پر آئے یہ افغان صحافی ''پاکستان ہائر ایجو کیشن کمیشن'' (HEC) کے چیئرمین جناب ڈاکٹر مختار احمد سے ملاقات کو گئے تو سب افغان صحافیوں کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ HEC نے افغان طلباو طالبات کے لیے تین ہزار وظائف کا بندوبست کر دیا ہے۔
یہ بھاری بھر کم وظائف اُن افغان طلباء کو دیے جائیں گے جو ایم اے، ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی کرنے پاکستان آئیں گے۔ بقول ڈاکٹر مختار احمد صاحب، اِسی ضمن میں کابل میں بروئے کار پاکستانی سفارتخانہ جَلد ہی افغان ہائر ایجوکیشن کمیشن سے مل کر امتحانات کا آغاز کرنے والا ہے۔ اس اقدام سے بھی یقینا پاک، افغان دل مزید قریب آئیں گے اور جو کدورتیں بوجوہ پیدا ہو چکی ہیں، اُن کا خاتمہ ہوگا۔پاکستان کا دورہ کرنے والے افغان صحافی اگر دیانتداری کا مظاہرہ کریں تو وہ اپنے قلم اور زبان سے اپنے ملک میں جاری پاکستان مخالف فضا کو ختم کر سکتے ہیں۔
پاکستان آنے والے افغان صحافیوں کو یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان اس سے قبل بھی افغانستان کے عام طلبا ء کو تین ہزار وظائف دے چکا ہے۔ یہ انکشاف اُن کے لیے بہت حیرت کا باعث تھا کہ یہ حقائق دانستہً اُن کی نظروں سے مخفی رکھے گئے ہیں اور خود بھی افغان اخبار نویسوں نے کبھی پاکستان کی مہربانیوں کا کھوج لگانے کا تکلف گوارا نہیں کیا۔ افغان صحافیوں کا یہ پہلا دورئہ پاکستان نہیں تھا۔ اس سے قبل بھی، مارچ 2017ء میں، آٹھ افغان صحافیوں کا ایک وفد پاکستان کا دورہ کر چکا ہے۔
فہیم دشتی اس وفد کے سربراہ تھے۔ دشتی صاحب افغانستان کی ''نیشنل جرنلسٹس یونین'' کے صدر ہیں۔ کابل پریس کلب کے صدر، عزیز احمد، بھی اس وفد میں شامل تھے۔ پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی، اے پی پی، کے مرکزی دفاتر میں اس وفد کے شایانِ شان استقبال کیا گیا تھا۔ اُنھیں یہ بھی پیشکش کی گئی تھی کہ پاکستان آزمائشی بنیادوں پر چند ماہ کے لیے افغان میڈیا کو مفت سروسز فراہم کر سکتا ہے۔
رواں لمحوں میں افغانستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بہت سے ایسے صحافی ہیں جو پاکستان میں پیدا ہُوئے اور پاکستان ہی سے صحافت کی تعلیم حاصل کی۔ یہ لوگ ہماراشاندار سرمایہ اور اثاثہ ثابت ہو سکتے تھے۔ ہمارے پالیسی سازوں نے مگر اس طرف توجہ دی نہ پروا ہی کی۔
ہماری غفلتوں کا فائدہ بھارت نے اُٹھایا اور اُس نے آگے بڑھ کر افغان صحافیوں کے دلوں، دماغوں، قلم اور زبانوں پر قبضہ کر لیا۔ نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔ کابل میں نامساعد اور مشکل حالات کے باوجود پاکستانی سفارتخانے کو افغان اخبار نویسوں کا اعتبار اور اعتماد حاصل کرنے کی ہر ممکنہ اور مقدور بھر کوشش کرنی چاہیے۔
پاکستان تو ہمیشہ افغانستان کا بھلا چاہتا رہا ہے اور اب بھی پاکستان کے دل میں افغان بھائیوں کے لیے احترام اور محبت ہی کے جذبات ہیں۔ اِس کا عملی اظہار وزیر اعظم نواز شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے تازہ بیانات سے بھی ہو تا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ پاکستانی اورافغان میڈیا، تمام تر غلط فہمیوں کے باوصف، دونوں برادر و ہمسایہ اسلامی ممالک کو ایک بار پھر قریب بھی لاسکتا ہے اور دونوں کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو پاٹ بھی سکتا ہے۔
پاکستانی صحافیوں کے افغانستان روانہ ہونے سے دو ہفتے قبل افغان صحافیوں کا ایک معتبر وفد پاکستان آیا تھا۔ حکومتِ پاکستان اور ہمارے کئی اہم سرکاری اداروں نے انھیںسر آنکھوں پر بٹھایا ۔یہ علیحدہ بات ہے کہ پاکستانی اخبار نویسوں سے کابل میں مستحسن سلوک نہ کیا گیا۔بہتر مستقبل اور بلند تر مقاصد کی خاطر ہمیں مگر صبر اوراعراض سے کام لینا چاہیے۔
افغانستان کے تیرہ صحافی پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو کئی واقعات شدت سے یاد آنے لگے۔ مجھے پاکستان کے دو صدور اور ایک وزیراعظم کے ساتھ، تین بار، کابل جانے کے مواقع میسر آئے۔ تینوں بار تلخ تجربات اور ناخوشگوار مشاہدات کا سامنا کرنا پڑا۔ پرویز مشرف کے ساتھ تو افغان میڈیا کا رویہ خاصا توہین آمیز تھا، حالانکہ سوال جواب کا یہ پروگرام افغان صدارتی محل میں تھا۔ اس کے باوجود افغان صحافیوں کا اندازِ استفسار مناسب تھا نہ سفارتی پروٹوکول کے مطابق۔ یہ تو جنرل مشرف کی ذہانت اور چوکسی تھی کہ اُنھوں نے معاملے کو بگڑنے نہیں دیا تھا۔
صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی نے جب افغان دارالحکومت کا دورہ کیا تو مجھے کابل سے شایع ہونے والے انگریزی اخبارات (افغانستان ٹائمز وغیرہ) کا بغور مطالعہ کرنے کے بھی مواقع ملے۔ سب کا لہجہ پاکستان کے خلاف جارحانہ اور معاندانہ محسوس ہُوا۔
یہ تو مجھے معلوم تھا کہ افغان میڈیا (ٹی وی، ریڈیو، اخبارات) کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے بھارت سرمایہ کاری کر رہا ہے (جیسا کہ وہ بنگلہ دیش میں کر رہا ہے) لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ افغان میڈیا پاکستان کے خلاف اسقدر مسموم بھی ہو چکا ہے۔ کئی افغان صحافی بھارت سے میڈیا ٹریننگ لے کر بھی آئے ہیں۔ ایک آزاد اور خود مختار ملک ہونے کے ناتے افغانستان اور اُس کے اخبار نویسوں کو پورا پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کے کسی بھی ملک کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم کریں۔ اُنھیں مگر یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ پاکستان کے خلاف ہر وقت شرر فشانیوں پر آمادہ اور پاکستان کے خلاف دریدہ دہنی کے مرتکب ہوتے رہیں۔
چند ہفتے پہلے تیرہ افغان صحافیوں پر مشتمل وفد اسلام آباد اُترا تو ہمیں بھی کئی سابق کہانیاں یاد سی آکر رہ گئیں۔ افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے (آئی ایس پی آر)، پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے (اے پی پی)، پاکستان کے سب سے معتبر تعلیمی ادارے (ایچ ای سی)، نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر (ریٹائرڈ جنرل ناصر جنجوعہ) نے ان افغان صحافیوں کو جس مہمان نوازی، محبت اور وی آئی پی پروٹوکول سے نوازا اور جس طرح اُن کے ناز اُٹھائے، سچی بات یہ ہے کہ مجھے یہ سب مناظر دیکھ کر خوشی بھی ہُوئی اور ان افغان صحافیوں پر رشک بھی آیا۔
یہ اِس بات کا مظاہرہ ہے کہ پاکستان اور پاکستانیوں کے دل تنگ ہیں نہ متعصب۔ آئی ایس پی آر کے سر براہ، میجر جنرل آصف غفور، کے ساتھ ان افغان اخبار نویسوں کی ایک شاندار گروپ فوٹو اخبارات کی زینت بھی بنی۔ آصف غفور صاحب اُنھیں اپنے سرکاری دفتر میں ملے اور سب افغان صحافیوں کو پاک، افغان بارڈر کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں بریف کیا۔
ڈی جی، آئی ایس پی آر نے اُنھیں یہ بھی بتایا کہ پاکستان اب تک برادر افغانوں کی بہبود اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کیا کیا اقدامات کر چکا ہے۔ چند دن پہلے ہی سپہ سالارِ پاکستان، جنرل قمر جاوید باجوہ، لندن میں تھے جہاں اُن کی ملاقات افغان ڈیفنس اتاشی سے بھی ہُوئی تھی۔ میجر جنرل آصف غفور بھی اس ملاقات میں شریک تھے۔ اُنھوں نے دورے پر آئے افغان صحافیوں کو اس ملاقات کا احوال بتاتے ہُوئے جنرل باجوہ کے یہ خوش کُن الفاظ بھی سنائے: '' جنرل باجوہ نے افغان ڈیفنس اتاشی سے ملاقات میں کہا تھا کہ افغانستان کا ہر شہری مجھے اسی طرح پیارا ہے جس طرح پاکستان کا ہر شہری مجھے جاں سے زیادہ عزیز ہے۔ دہشتگردی سے جب کوئی پاکستانی متاثر ہوتا ہے تو میرا دل اُسے طرح تکلیف محسوس کرتا ہے جیسا کہ جب کبھی کوئی افغان شہری دہشتگردوں کے ہاتھوں دکھ اٹھاتا ہے۔ جنرل قمر جاوید باوجوہ نے یہ بھی کہا کہ دہشتگرد ہمارے مشترکہ دشمن ہیں۔''
جنرل باجوہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے افغان صحافیوں سے جو مستحسن سلوک کیا، اِس کی بازگشت افغان میڈیا میں سنائی دی جانی چاہیے تھی۔ افغان صحافیوں کے خدشات میں بھی یقینا کمی آئی ہوگی اور اُنھوں نے پاکستان کے حُسنِ سلوک کو دل میں جگہ بھی دی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے کبھی افغانستان، افغان عوام اور افغان حکمرانوں کا بُرا نہیں چاہا۔ افغانستان کی طرف سے مگر پاکستان کو ٹھنڈی ہوائیں کم کم میسر آسکی ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں پائیدار امن اور باہمی خوشحالی کے لیے بھی ضروری ہے کہ پاک، افغان میڈیا کے روابط باقاعدہ اور مضبوط بنیادوں پر استوار ہوں۔
افغانستان کے لیے یہ پاکستان کی طرف سے چاہت، تعاون اور اخوت ہی کا مظاہرہ ہے کہ جب پاکستان کے دورے پر آئے یہ افغان صحافی ''پاکستان ہائر ایجو کیشن کمیشن'' (HEC) کے چیئرمین جناب ڈاکٹر مختار احمد سے ملاقات کو گئے تو سب افغان صحافیوں کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ HEC نے افغان طلباو طالبات کے لیے تین ہزار وظائف کا بندوبست کر دیا ہے۔
یہ بھاری بھر کم وظائف اُن افغان طلباء کو دیے جائیں گے جو ایم اے، ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی کرنے پاکستان آئیں گے۔ بقول ڈاکٹر مختار احمد صاحب، اِسی ضمن میں کابل میں بروئے کار پاکستانی سفارتخانہ جَلد ہی افغان ہائر ایجوکیشن کمیشن سے مل کر امتحانات کا آغاز کرنے والا ہے۔ اس اقدام سے بھی یقینا پاک، افغان دل مزید قریب آئیں گے اور جو کدورتیں بوجوہ پیدا ہو چکی ہیں، اُن کا خاتمہ ہوگا۔پاکستان کا دورہ کرنے والے افغان صحافی اگر دیانتداری کا مظاہرہ کریں تو وہ اپنے قلم اور زبان سے اپنے ملک میں جاری پاکستان مخالف فضا کو ختم کر سکتے ہیں۔
پاکستان آنے والے افغان صحافیوں کو یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان اس سے قبل بھی افغانستان کے عام طلبا ء کو تین ہزار وظائف دے چکا ہے۔ یہ انکشاف اُن کے لیے بہت حیرت کا باعث تھا کہ یہ حقائق دانستہً اُن کی نظروں سے مخفی رکھے گئے ہیں اور خود بھی افغان اخبار نویسوں نے کبھی پاکستان کی مہربانیوں کا کھوج لگانے کا تکلف گوارا نہیں کیا۔ افغان صحافیوں کا یہ پہلا دورئہ پاکستان نہیں تھا۔ اس سے قبل بھی، مارچ 2017ء میں، آٹھ افغان صحافیوں کا ایک وفد پاکستان کا دورہ کر چکا ہے۔
فہیم دشتی اس وفد کے سربراہ تھے۔ دشتی صاحب افغانستان کی ''نیشنل جرنلسٹس یونین'' کے صدر ہیں۔ کابل پریس کلب کے صدر، عزیز احمد، بھی اس وفد میں شامل تھے۔ پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی، اے پی پی، کے مرکزی دفاتر میں اس وفد کے شایانِ شان استقبال کیا گیا تھا۔ اُنھیں یہ بھی پیشکش کی گئی تھی کہ پاکستان آزمائشی بنیادوں پر چند ماہ کے لیے افغان میڈیا کو مفت سروسز فراہم کر سکتا ہے۔
رواں لمحوں میں افغانستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بہت سے ایسے صحافی ہیں جو پاکستان میں پیدا ہُوئے اور پاکستان ہی سے صحافت کی تعلیم حاصل کی۔ یہ لوگ ہماراشاندار سرمایہ اور اثاثہ ثابت ہو سکتے تھے۔ ہمارے پالیسی سازوں نے مگر اس طرف توجہ دی نہ پروا ہی کی۔
ہماری غفلتوں کا فائدہ بھارت نے اُٹھایا اور اُس نے آگے بڑھ کر افغان صحافیوں کے دلوں، دماغوں، قلم اور زبانوں پر قبضہ کر لیا۔ نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔ کابل میں نامساعد اور مشکل حالات کے باوجود پاکستانی سفارتخانے کو افغان اخبار نویسوں کا اعتبار اور اعتماد حاصل کرنے کی ہر ممکنہ اور مقدور بھر کوشش کرنی چاہیے۔