پاناما کیس
نواز شریف کے بعد شہباز شریف نے بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوکر بلاشبہ جرأت مندی کا مظاہرہ کیا ہے
سب کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں کہ آخر پاناما کیس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، مسلم لیگ ن اور اس کے حامی چاہتے ہیں کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے' مخالفین کی امیدیں ایسے فیصلے کی منتظر ہیں جس میں ''شریف'' خاندان کو قصوروار قرار دیا جائے، عدالت کے فیصلہ کے بارے میں اندازہ لگانا قبل از وقت ہو گا اور مناسب بھی نہیں کہ یہ کہا جا سکے کہ یہ عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کے زمرے میں آتی ہیں، البتہ پاناما کیس کی سماعت سے ملک کی تاریخ میں قانون کی بالادستی کی نئی روایت قائم ہونے جارہی ہے، بشرطیکہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔
وزیراعظم نواز شریف کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوکر بلاشبہ جرأت مندی کا مظاہرہ کیا ہے، وزیراعظم کے بیٹے حسین اور حسن پہلے ہی پیش ہوچکے ہیں، پاناما کا معاملہ کوئی ڈیڑھ سال قبل منظر عام پر آیا تھا، اس وقت سے لے کر آج تک پوری قوم اضطراب سے دوچار ہے، عمران خان سمیت کئی قومی لیڈروں کی درخواست پر سپریم کورٹ نے 4 ماہ تک اس کیس کی سماعت کی اور حتمی فیصلے پر پہنچنے کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے دی جو معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے، حالانکہ 20 اپریل 2016ء کو جب سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا تو لوگوں نے پاناما کیس پر فاتحہ پڑھ لی تھی، کیونکہ پاکستان میں ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے کہ جب کسی معاملے کو ٹالنا مقصود ہو تو اسے کمیشن یا کمیٹی بنا کر سرد خانے کی نذر کر دیا جاتا ہے، لوگوں کی توجہ بھی ہٹ جاتی ہے، کمیشن سست روی سے کام کرتا ہے اور عام طور پر اس کی رپورٹ اول تو مکمل ہی نہیں ہوتی اور اگر مکمل ہو کر متعلقہ حکام تک پہنچا دی جائے تو وہ اسے ''قومی مفاد'' میں دبا کر بیٹھ جاتے ہیں۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے بارے میں حمودالرحمن کمیشن اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے متعلق ایبٹ آباد کمیشن اس کی روشن مثالیں ہیں، جن کی رپورٹیں جاری نہیں کی گئیں، مگر اس بار معاملہ الٹ ثابت ہو رہا ہے، جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی طرف سے مقررہ 60 دن کے اندر اپنا کام مکمل کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے، سب نے ہی اس بات کو خوش آیند قرار دیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو گئے، وہ چاہتے تو اپنا استثنیٰ کا قانونی حق استعمال کر سکتے تھے، مگر جے آئی ٹی میں پیش ہو کر انھوں نے اپنی ساکھ کو بہتر بنایا ہے جو پاناما کیس کی وجہ سے داغدار ہو رہی ہے اور انھیں اس داغ کو دھونے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔
اپنی پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وزیر اعظم نے کہا کہ سب سے بڑی جے آئی ٹی عوام کی ہے جس میں ایک سال کے بعد سب پیش ہوں گے، ان کا اشارہ عام انتخابات کی طرف تھا کہ اس میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا، کاش اس بڑی جے آئی ٹی کا خیال میاں صاحب کو بہت پہلے آ جاتا اور وہ پاناما کیس میں اپنے بچوں کا نام آنے پر اخلاقی اور سیاسی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے مالٹا اور آئس لینڈ کے حکمرانوں کی طرح اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر اللہ کے بعد سب سے بڑی عدالت یعنی عوام کی عدالت میں پیش ہونے کا اعلان کر دیتے، یعنی قبل از وقت الیکشن کروا دیتے تو شاید جے آئی ٹی میں پیشی کی نوبت نہ آتی۔
ممکن ہے وہ مالٹا کے وزیراعظم کی طرح کامیاب و کامران ٹھہرتے، مگر میاں صاحب نے وہ سنہری موقع ضایع کردیا، پاناما لیکس کا غلغلہ اٹھتے ہی یہ کہہ کر الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا جاتا کہ شریف خاندان اللہ کے بعد سب سے بڑی عدالت یعنی عوام کی عدالت میں خود کو پیش کر رہا ہے تو آج صورت حال قطعی مختلف ہوتی۔ شریف خاندان کو جے آئی ٹی میں پیشیاں نہ بھگتنی پڑتیں اور ان کے مخالفین الیکشن کی تیاریوں میں مشغول ہو جاتے۔
بدقسمتی سے اس ملک میں جب بھی احتساب و انصاف کی بالادستی کے لیے کوشش کی جاتی ہے متاثرہ فریق جمہوریت کے خطرے میں پڑنے کا واویلا شروع کر دیتا ہے، وزیراعظم نواز شریف بھی اس سے مبرا نہیں رہے، انھوں نے اپنی پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو میں اشاروں، کنایوں میں کہہ ہی دیا کہ اب کٹھ پتلیوں کے کھیل نہیں کھیلے جا سکتے، وہ زمانہ گزر گیا جب سب کچھ پردوں کے پیچھے رہتا تھا۔ بہتر ہوتا کہ وزیر اعظم پہیلی نہ بجھواتے اور صاف صاف بتا دیتے کہ کٹھ پتلی کون ہے اور کھیل کون کھیل رہا ہے، انھوں نے اپنی بات عوام کی دانش پر چھوڑ دی اور عوام اس بات کا اشارہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سمجھ رہے ہیں، سنجیدہ سیاسی حلقوں میں وزیر اعظم کے ان ریمارکس کو زیادہ نہیں سراہا گیا۔
علاوہ ازیں ن لیگ کی جانب سے جے آئی ٹی کے کام کو متنازع بنانے کی کوششوں کا بھی خیر مقدم نہیں کیا جا رہا، جے آئی ٹی کے ممبران پر اعتراضات، نہال ہاشمی کی شعلہ فشانی، وزیر اعظم کے بیٹے حسین نواز کی تصویر لیک آؤٹ ہونے سمیت دیگر معاملات کو دیکھتے ہوئے عام لوگوں میں یہ تاثر پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ معاملے کو متنازع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جے آئی ٹی کی طرف سے یہ کہنا کہ حکومتی ادارے مطلوبہ دستاویزات میں رد و بدل کر رہے ہیں اور تفتیش کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں خود ن لیگ کے لیے سیاسی لحاظ سے فائدہ مند ثابت نہیں ہو گا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس وقت پوری قوم کی نظریں جے آئی ٹی پر لگی ہوئی ہیں جس کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے پاناما کیس کا حتمی فیصلہ کرنا ہے پاناما لیکس نے قوم میں خاموش انقلاب برپا کر دیا ہے اور اس کیس کی بدولت سسٹم کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی کا راستہ کھل گیا ہے، ایسا موقع قوموں کو شاذ و نادر ہی ملتا ہے، اس مقدمے میں صرف شریف فیملی کا ہی نہیں بلکہ پوری قوم اور ہمارے نظام کا ٹرائل ہو رہا ہے، لہٰذا تمام سیاسی جماعتوں اور ملکی اداروں کو اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے بنائی گئے جے آئی ٹی کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہیے تاکہ اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے اور اس کیس سے احتساب کا جو عمل شروع ہوا ہے وہ جاری و ساری رہے۔
امراء خاندان کے دامن پر لگے کرپشن کے الزامات کو ثابت ہونا چاہیے یا پھر اسے کلین چٹ ملنی چاہیے، احتساب کا دائرہ تمام سیاست دانوں، بیورو کریٹس، ججوں، جرنیلوں، صنعت کاروں غرض کہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے بااثر افراد تک وسیع کیا جانا چاہیے۔