چیمپئنز ٹرافی کی جیت کے بعد کرنے کے کام
ہمیں جیت سےکوئی فائدہ ہوا اور نہ ہارسےنقصان کا اندیشہ تھا، لیکن بھارتی تکبرکو پاش پاش کرنےکیلئےیہ جیت ناگزیر ہوچکی تھی
یعنی جس فتح کی ضرورت شدت سے تھی وہ بالآخر مل گئی۔ سچ پوچھیے تو نہ ہمیں جیت سے کچھ فائدہ نصیب ہوا اور شکست ہوتی تب بھی نقصان کا اندیشہ بالکل نہیں تھا، لیکن بھارتی تکبر کو پاش پاش کرنے کے لیے یہ جیت ناگزیر ہوچکی تھی۔ جب چیمپئنز ٹرافی کا آغاز ہوا تو دو خوف مسلسل قومی ٹیم پر منڈلارہے تھے۔ پہلا خوف یہ تھا کہ کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے کہیں ٹیم بغیر کوئی میچ جیتے ٹورنامنٹ سے باہر نہ ہوجائیں، اور دوسرا خوف یہ تھا کہ اگر ایسا ہوگیا تو کہیں 2019ء کا ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے کوالیفائنگ راونڈ کھیلنے کی نوبت نہ آجائے۔
ایک وقت تھا جب ہم ہاکی، اسکوائش، اسنوکر اور کرکٹ پر راج کیا کرتے تھے۔ ہمارے کھلاڑیوں کے سامنے کوئی کھڑا رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا، مگر بتدریج ہم تمام ہی کھیلوں سے باہر ہوتے رہے۔ لیکن کرکٹ کے میدان میں خراب صورتحال کے باوجود ہمیشہ یہ امید باقی رہتی کہ حالات ضرور بہتر ہونگے۔ اگر ایسے حالات میں ورلڈ کپ میں کوالیفائنگ راونڈ کھیلنے کی نوبت آجاتی تو شاید شائقین کرکٹ اور پوری قوم کو شدید ترین مایوسی ہوتی۔ لیکن الحمداللہ کھلاڑیوں کی بھرپور محنت نے ہمیں اِس بُرے وقت سے بچا لیا اور قومی ٹیم ایک روزہ کرکٹ کی رینکنگ میں آٹھویں پوزیشن سے چھٹی پوزیشن پر آچکی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے لیے کوالیفائنگ راونڈ کھیلنے کا خطرہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔
لیکن گزارش بس اتنی سی ہے چیمپئنز ٹرافی جیتنے کے بعد آزمائش اور جیت کی جستجو مدھم نہیں پڑنی چاہیے، بلکہ نظریں اگلے ورلڈ کپ پر مرکوز ہونی چاہیے۔ لیکن جس صورتحال میں آج ہم ہیں، اِس میں انہونیاں بار بار نہیں ہوسکتیں، بلکہ اگر ہم 1992ء کے بعد ایک اور ورلڈ کپ جیتنا چاہتے ہیں تو ہمیں آج سے ہی کچھ چیزوں کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ اسی لیے ہم اپنے تحت ایسی تجاویز پیش کرنے کی کوشش کریں گے جس کی بدولت قومی ٹیم نہ صرف مستقل بنیادوں پر اچھا کھیل پیش کرسکتی ہے، بلکہ ورلڈ کپ کے لیے بھی مضبوط امیدوار بن کر ابھر سکتی ہے۔
ہمیں ہمیشہ سے ہی یہ خوف رہا ہے کہ نئے لڑکوں کے بل بوتے پر بھلا جیت کس طرح مل سکتی ہے؟ اِس خوف کی وجہ سے قومی ٹیم میں ہمیشہ سے ہی کچھ سینئرز کو شامل کیا جاتا رہا، پھر چاہے وہ اچھا کھیل پیش کریں یا نہیں، اور اِس چیمپئنز ٹرافی میں بھی کچھ یہی ہوا۔ محمد حفیظ اور شعیب ملک کو بطور سینئر کھلاڑی اپنی کارکردگی سے نئے کھلاڑیوں کا حوصلہ بلند کرنا چاہیے تھا، لیکن معاملہ الٹا ہوا، اور دونوں کی خراب کارکردگی کی وجہ سے ٹیم مزید دباو کا شکار رہی۔ اگر شعیب ملک کی بات کی جائے تو انہوں نے چیمپئنز ٹرافی کی چار اننگز میں محض 54 رنز اسکور کیے۔ اگر ان کو بطور پر آل راونڈ کھلایا جاتا تو شاید پھر اُن کی جگہ بنتی تھی، لیکن بھارت کے خلاف پہلے میچ کے سوا انہیں کسی میچ میں گیند بازی نہیں دی گئی۔ دوسری طرف حفیظ کا حال اتنا بُرا تو نہیں رہا لیکن قابل ذکر اور قابل فخر کارکردگی تو حفیظ بھی نہیں دکھا سکے۔ انہوں نے پانچ اننگز میں 148 رنز بنائے جبکہ وہ صرف ایک ہی وکٹ لینے میں کامیاب ہوئے۔
لیکن ان دونوں کے برعکس نئے کھلاڑیوں نے پوری ٹیم کا مورال بلند کیے رکھا اور انہی کی شاندار کارکردگی کی وجہ سے پاکستان یہ اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ فائنل کا بہترین کھلاڑی پہلی بار بھارت کے خلاف کھیلنے والے فخر زمان رہے تو پہلی مرتبہ چیمپئنز ٹرافی کھیلنے والے حسن علی سیریز کے بہترین کھلاڑی اور سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے گیند باز ٹھہرے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر نوجوانوں کو حوصلہ دیا جائے اور اُن کر بھروسہ کیا جائے تو وہ بھی اہم مواقع میں اچھا کھیل پیش کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
اِس لیے سینئر کھلاڑیوں کو کھلانا یا نہ کھلانا مسئلے کا حل نہیں، بلکہ مسئلے کا حل تو یہ ہے کہ کھلاڑیوں کو میرٹ کی بنیاد پر کھلایا جائے۔ اگر وہ اچھی کارکردگی پیش کریں تو ضرور اُن کو ٹیم میں جگہ ملنی چاہیے، لیکن اگر اچھا کھیل پیش نہ کرسکیں تو صرف اِس لیے وہ ٹیم کا حصہ نہیں ہونے چاہیے کہ وہ سینئر ہیں۔
قومی کرکٹ ٹیم کا یہ المیہ شروع سے ہی رہا ہے کہ بڑے ایونٹ کے لیے تیاریوں کا آغاز عین وقت پر ہی کیا جاتا ہے، لیکن چیمپئنز ٹرافی کی جیت نے جو اعتماد بخشا ہے اُس کے بعد ضرورت اِس بات کی ہے کہ آج سے ہی ورلڈ کپ کے لیے تیاریوں کا آغاز کردیا جائے۔ جب ہم ورلڈ کپ کی تیاریوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو یہ ایک وسیع سوچ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یعنی ہمیں آج ہی یہ طے کرلینا چاہیے کہ دو سال بعد کھیلے جانے والے میگا ایونٹ میں قومی ٹیم کے لیے سپہ سالار کون ہونا چاہیے۔ اگر چیمپئنز ٹرافی میں کارکردگی متاثر کن نہ ہوتی تو اِس حوالے سے سوچ و بچار کیا جاسکتا تھا، لیکن سرفراز احمد کی شاندار کپتانی نے اِس فکر سے سب کو ہی فارغ کردیا۔ ٹیم انتظامیہ اور بورڈ کو فوری طور پر سرفراز کو اعتماد میں لینا چاہیے کہ آپ کم از کم اگلے دو سال کے لیے ٹیم کے کپتان ہیں۔ آپ کو مکمل اختیار ہے۔ اپنی ٹیم کا انتخاب کریں، اور بے فکر ہوکر بڑے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کوششوں کا آغاز کریں۔
بہت عرصے بعد قومی ٹیم اِس پوزیشن پر آچکی ہے کہ دو سال پہلے ہی ورلڈ کپ کی تیاری کا آغاز کرسکتی ہے، کیونکہ اِس سے پہلے تو اختلاف کی یہ صورتحال ہوا کرتی تھی کہ آخر تک یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ٹیم کن کھلاڑیوں پر مشتمل ہوگی، اور اِن کھلاڑیوں کی قیادت کون کرے گا۔ لہذا اِس بہترین موقع سے فائدہ اُٹھایا جائے اور ایک بار پھر ناقابل یقین کو قابل یقین بنادیا جائے۔
اہم بات یہ کہ تیاریوں کا تعلق صرف کپتانی تک ہی محدود نہیں بلکہ اگلے دو سال کے لیے کم و بیش 20 کھلاڑیوں کی فہرست بنا لینی چاہیے جنہیں یہ بتانا چاہئیے کہ آپ وہ کھلاڑی ہیں جو اگلے ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی نمائندگی رکھنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں، اِس لیے اپنے اعتماد کو برقرار رکھیں اور مستقل اچھا کھیلنے کے لیے کوششیں کریں۔ اِس اعتماد کا کم از کم فائدہ یہ ہوگا کہ کھلاڑی ٹیم سے باہر نکلنے کے خوف سے بچ جائیں گے اور اپنے لیے کھیلنے کے بجائے ہمیشہ ٹیم کے لیے کھیلا کریں گے۔
قومی ٹیم کے لیے یہ بات بہت ہی مشہور ہے کہ یہ ٹیم غیر معتدل یعنی Unpredictable ہے، جس دن اِس ٹیم کا دن ہو تو یہ کسی کو نہیں چھوڑتی اور چیمپئنز ٹرافی کی کارکردگی اِس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن ذاتی خیال یہ ہے کہ قومی ٹیم کے لیے Unpredictable کا لقب کچھ اچھی بات نہیں، بلکہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ تو مستقبل بنیادوں پر ہونا چاہیے۔ یعنی ہمارے کھلاڑی اتنا اچھا کھیلیں کہ ٹیم میں اترنے سے پہلے ہی مخالفین بھی کہیں کہ اِس ٹیم کو ہرانا نہایت مشکل ہے، بالکل ویسے ہی جیسا آج بھارت، انگلستان اور آسٹریلوی ٹیم کے بارے میں کہا جاتا ہے۔
اِس لیے ضرورت اِس بات کی بھی ہے کہ ہم غیر معتدل یعنی Unpredictable سے غیر متزلزل یعنی Consistency کی جانب تیزی سے سفر کریں، اور ہر ٹیم کو شکست سے دوچار کرنا شروع کردیں۔
1992ء کا عالمی کپ ہو، 2009ء کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہو یا 2017ء کی چیمپئنز ٹرافی ہو، اِن تینوں فتوحات سے پہلے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم فاتح کی صورت سامنے آسکتی ہے۔ اِس پوری صورتحال سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب بھی کھلاڑیوں نے غیر ضروری تکبر اور ہوشیاری کرنے سے گریز کرتے ہوئے میدان میں اچھا کھیل پیش کرنے کی کوشش کی تو کامیابی نے ٹیم کے قدم چومے۔
اِس لیے مستقبل میں بھی غیر ضروری اعتماد سے کام لینے کے بجائے اپنے کھیل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جیت اچھے کھیل سے ہی ملتی ہے، تکبر اور خوش فہمی سے تو ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑتا ہے۔
اگرچہ بظاہر اِس معاملے کا ٹیم کی بہتری سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا، لیکن سچی بات یہ ہے کہ ٹیم کی کارکردگی کو سدھارنے کے لیے یہ انتہائی ناگزیر ہے کہ بورڈ کے معاملات نان پروفیشنل لوگوں سے لیکر اُن لوگوں کے حوالے کیے جائیں جنہیں کرکٹ کے بارے میں معلومات ہوں۔ کیونکہ جن لوگوں کو کرکٹ کی سوجھ بوجھ ہوگی، وہی لوگ ٹیم میں کوئی بھی تبدیلی کرنے سے پہلے ہر ہر حوالے سے سوچیں گے۔
جس طرح اینجیئنئر لوگوں کا علاج نہیں کرسکتا، اور ڈاکٹر کپڑے سینے کا ہنر نہیں جانتا، بالکل اسی طرح کرکٹ کے اصول و ضوابط اور کھیل کی نزاکتوں کو نہ جاننے والا شخص بھی کرکٹ بورڈ کے معاملات کو نہیں جان سکتا، اِس لیے اِس اہم حوالے سے سب کو ہی سوچنے کی ضرورت ہے۔
[poll id="1389"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ایک وقت تھا جب ہم ہاکی، اسکوائش، اسنوکر اور کرکٹ پر راج کیا کرتے تھے۔ ہمارے کھلاڑیوں کے سامنے کوئی کھڑا رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا، مگر بتدریج ہم تمام ہی کھیلوں سے باہر ہوتے رہے۔ لیکن کرکٹ کے میدان میں خراب صورتحال کے باوجود ہمیشہ یہ امید باقی رہتی کہ حالات ضرور بہتر ہونگے۔ اگر ایسے حالات میں ورلڈ کپ میں کوالیفائنگ راونڈ کھیلنے کی نوبت آجاتی تو شاید شائقین کرکٹ اور پوری قوم کو شدید ترین مایوسی ہوتی۔ لیکن الحمداللہ کھلاڑیوں کی بھرپور محنت نے ہمیں اِس بُرے وقت سے بچا لیا اور قومی ٹیم ایک روزہ کرکٹ کی رینکنگ میں آٹھویں پوزیشن سے چھٹی پوزیشن پر آچکی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے لیے کوالیفائنگ راونڈ کھیلنے کا خطرہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔
لیکن گزارش بس اتنی سی ہے چیمپئنز ٹرافی جیتنے کے بعد آزمائش اور جیت کی جستجو مدھم نہیں پڑنی چاہیے، بلکہ نظریں اگلے ورلڈ کپ پر مرکوز ہونی چاہیے۔ لیکن جس صورتحال میں آج ہم ہیں، اِس میں انہونیاں بار بار نہیں ہوسکتیں، بلکہ اگر ہم 1992ء کے بعد ایک اور ورلڈ کپ جیتنا چاہتے ہیں تو ہمیں آج سے ہی کچھ چیزوں کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ اسی لیے ہم اپنے تحت ایسی تجاویز پیش کرنے کی کوشش کریں گے جس کی بدولت قومی ٹیم نہ صرف مستقل بنیادوں پر اچھا کھیل پیش کرسکتی ہے، بلکہ ورلڈ کپ کے لیے بھی مضبوط امیدوار بن کر ابھر سکتی ہے۔
نئے لڑکوں پر بھروسہ کریں
ہمیں ہمیشہ سے ہی یہ خوف رہا ہے کہ نئے لڑکوں کے بل بوتے پر بھلا جیت کس طرح مل سکتی ہے؟ اِس خوف کی وجہ سے قومی ٹیم میں ہمیشہ سے ہی کچھ سینئرز کو شامل کیا جاتا رہا، پھر چاہے وہ اچھا کھیل پیش کریں یا نہیں، اور اِس چیمپئنز ٹرافی میں بھی کچھ یہی ہوا۔ محمد حفیظ اور شعیب ملک کو بطور سینئر کھلاڑی اپنی کارکردگی سے نئے کھلاڑیوں کا حوصلہ بلند کرنا چاہیے تھا، لیکن معاملہ الٹا ہوا، اور دونوں کی خراب کارکردگی کی وجہ سے ٹیم مزید دباو کا شکار رہی۔ اگر شعیب ملک کی بات کی جائے تو انہوں نے چیمپئنز ٹرافی کی چار اننگز میں محض 54 رنز اسکور کیے۔ اگر ان کو بطور پر آل راونڈ کھلایا جاتا تو شاید پھر اُن کی جگہ بنتی تھی، لیکن بھارت کے خلاف پہلے میچ کے سوا انہیں کسی میچ میں گیند بازی نہیں دی گئی۔ دوسری طرف حفیظ کا حال اتنا بُرا تو نہیں رہا لیکن قابل ذکر اور قابل فخر کارکردگی تو حفیظ بھی نہیں دکھا سکے۔ انہوں نے پانچ اننگز میں 148 رنز بنائے جبکہ وہ صرف ایک ہی وکٹ لینے میں کامیاب ہوئے۔
لیکن ان دونوں کے برعکس نئے کھلاڑیوں نے پوری ٹیم کا مورال بلند کیے رکھا اور انہی کی شاندار کارکردگی کی وجہ سے پاکستان یہ اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ فائنل کا بہترین کھلاڑی پہلی بار بھارت کے خلاف کھیلنے والے فخر زمان رہے تو پہلی مرتبہ چیمپئنز ٹرافی کھیلنے والے حسن علی سیریز کے بہترین کھلاڑی اور سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے گیند باز ٹھہرے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر نوجوانوں کو حوصلہ دیا جائے اور اُن کر بھروسہ کیا جائے تو وہ بھی اہم مواقع میں اچھا کھیل پیش کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
اِس لیے سینئر کھلاڑیوں کو کھلانا یا نہ کھلانا مسئلے کا حل نہیں، بلکہ مسئلے کا حل تو یہ ہے کہ کھلاڑیوں کو میرٹ کی بنیاد پر کھلایا جائے۔ اگر وہ اچھی کارکردگی پیش کریں تو ضرور اُن کو ٹیم میں جگہ ملنی چاہیے، لیکن اگر اچھا کھیل پیش نہ کرسکیں تو صرف اِس لیے وہ ٹیم کا حصہ نہیں ہونے چاہیے کہ وہ سینئر ہیں۔
آج سے ہی ورلڈ کپ کے لیے تیاری کریں
قومی کرکٹ ٹیم کا یہ المیہ شروع سے ہی رہا ہے کہ بڑے ایونٹ کے لیے تیاریوں کا آغاز عین وقت پر ہی کیا جاتا ہے، لیکن چیمپئنز ٹرافی کی جیت نے جو اعتماد بخشا ہے اُس کے بعد ضرورت اِس بات کی ہے کہ آج سے ہی ورلڈ کپ کے لیے تیاریوں کا آغاز کردیا جائے۔ جب ہم ورلڈ کپ کی تیاریوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو یہ ایک وسیع سوچ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یعنی ہمیں آج ہی یہ طے کرلینا چاہیے کہ دو سال بعد کھیلے جانے والے میگا ایونٹ میں قومی ٹیم کے لیے سپہ سالار کون ہونا چاہیے۔ اگر چیمپئنز ٹرافی میں کارکردگی متاثر کن نہ ہوتی تو اِس حوالے سے سوچ و بچار کیا جاسکتا تھا، لیکن سرفراز احمد کی شاندار کپتانی نے اِس فکر سے سب کو ہی فارغ کردیا۔ ٹیم انتظامیہ اور بورڈ کو فوری طور پر سرفراز کو اعتماد میں لینا چاہیے کہ آپ کم از کم اگلے دو سال کے لیے ٹیم کے کپتان ہیں۔ آپ کو مکمل اختیار ہے۔ اپنی ٹیم کا انتخاب کریں، اور بے فکر ہوکر بڑے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کوششوں کا آغاز کریں۔
بہت عرصے بعد قومی ٹیم اِس پوزیشن پر آچکی ہے کہ دو سال پہلے ہی ورلڈ کپ کی تیاری کا آغاز کرسکتی ہے، کیونکہ اِس سے پہلے تو اختلاف کی یہ صورتحال ہوا کرتی تھی کہ آخر تک یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ٹیم کن کھلاڑیوں پر مشتمل ہوگی، اور اِن کھلاڑیوں کی قیادت کون کرے گا۔ لہذا اِس بہترین موقع سے فائدہ اُٹھایا جائے اور ایک بار پھر ناقابل یقین کو قابل یقین بنادیا جائے۔
اہم بات یہ کہ تیاریوں کا تعلق صرف کپتانی تک ہی محدود نہیں بلکہ اگلے دو سال کے لیے کم و بیش 20 کھلاڑیوں کی فہرست بنا لینی چاہیے جنہیں یہ بتانا چاہئیے کہ آپ وہ کھلاڑی ہیں جو اگلے ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی نمائندگی رکھنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں، اِس لیے اپنے اعتماد کو برقرار رکھیں اور مستقل اچھا کھیلنے کے لیے کوششیں کریں۔ اِس اعتماد کا کم از کم فائدہ یہ ہوگا کہ کھلاڑی ٹیم سے باہر نکلنے کے خوف سے بچ جائیں گے اور اپنے لیے کھیلنے کے بجائے ہمیشہ ٹیم کے لیے کھیلا کریں گے۔
غیر معتدل سے غیر متزلزل کی جانب سفر
قومی ٹیم کے لیے یہ بات بہت ہی مشہور ہے کہ یہ ٹیم غیر معتدل یعنی Unpredictable ہے، جس دن اِس ٹیم کا دن ہو تو یہ کسی کو نہیں چھوڑتی اور چیمپئنز ٹرافی کی کارکردگی اِس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن ذاتی خیال یہ ہے کہ قومی ٹیم کے لیے Unpredictable کا لقب کچھ اچھی بات نہیں، بلکہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ تو مستقبل بنیادوں پر ہونا چاہیے۔ یعنی ہمارے کھلاڑی اتنا اچھا کھیلیں کہ ٹیم میں اترنے سے پہلے ہی مخالفین بھی کہیں کہ اِس ٹیم کو ہرانا نہایت مشکل ہے، بالکل ویسے ہی جیسا آج بھارت، انگلستان اور آسٹریلوی ٹیم کے بارے میں کہا جاتا ہے۔
اِس لیے ضرورت اِس بات کی بھی ہے کہ ہم غیر معتدل یعنی Unpredictable سے غیر متزلزل یعنی Consistency کی جانب تیزی سے سفر کریں، اور ہر ٹیم کو شکست سے دوچار کرنا شروع کردیں۔
غیر ضروری اعتماد سے بچنے کی کوشش کریں
1992ء کا عالمی کپ ہو، 2009ء کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہو یا 2017ء کی چیمپئنز ٹرافی ہو، اِن تینوں فتوحات سے پہلے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم فاتح کی صورت سامنے آسکتی ہے۔ اِس پوری صورتحال سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب بھی کھلاڑیوں نے غیر ضروری تکبر اور ہوشیاری کرنے سے گریز کرتے ہوئے میدان میں اچھا کھیل پیش کرنے کی کوشش کی تو کامیابی نے ٹیم کے قدم چومے۔
اِس لیے مستقبل میں بھی غیر ضروری اعتماد سے کام لینے کے بجائے اپنے کھیل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جیت اچھے کھیل سے ہی ملتی ہے، تکبر اور خوش فہمی سے تو ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑتا ہے۔
بورڈ کے معاملات پروفیشنل لوگوں کے حوالے کیے جائیں
اگرچہ بظاہر اِس معاملے کا ٹیم کی بہتری سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا، لیکن سچی بات یہ ہے کہ ٹیم کی کارکردگی کو سدھارنے کے لیے یہ انتہائی ناگزیر ہے کہ بورڈ کے معاملات نان پروفیشنل لوگوں سے لیکر اُن لوگوں کے حوالے کیے جائیں جنہیں کرکٹ کے بارے میں معلومات ہوں۔ کیونکہ جن لوگوں کو کرکٹ کی سوجھ بوجھ ہوگی، وہی لوگ ٹیم میں کوئی بھی تبدیلی کرنے سے پہلے ہر ہر حوالے سے سوچیں گے۔
جس طرح اینجیئنئر لوگوں کا علاج نہیں کرسکتا، اور ڈاکٹر کپڑے سینے کا ہنر نہیں جانتا، بالکل اسی طرح کرکٹ کے اصول و ضوابط اور کھیل کی نزاکتوں کو نہ جاننے والا شخص بھی کرکٹ بورڈ کے معاملات کو نہیں جان سکتا، اِس لیے اِس اہم حوالے سے سب کو ہی سوچنے کی ضرورت ہے۔
[poll id="1389"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی