شنگھائی تنظیم ۔ رمضان اور دولت کی تقسیم
ہمارے ملک میں اداروں کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ صاحبانِ نصاب انفرادی طور پر بھی لوگوں کا خیال رکھتے ہیں
پاکستان میں اِن دنوں اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی زیادہ توجہ پانامہ لیکس پر ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اس معاملے پر دوسرے سب سیاست دانوں سے زیادہ سرگرم ہیں۔ پانامہ لیکس پر تفتیش یا تحقیق کا جو نتیجہ بھی سامنے آئے فی الوقت تو رائے عامہ کے جائزوں سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ 2018کے انتخابات میں مسلم لیگ نواز کا پلہ بھاری رہے گا۔
70اور 80 کے عشروں میں پاکستان میں ووٹ بینک بھٹو حامی اور بھٹو مخالف میں بٹا ہوا تھا۔ 90کے وسط سے صورتحال تبدیل ہوئی ۔اب ہمارے ملک میں ووٹ بینک نواز شریف ووٹ یا مخالف نواز شریف ووٹ کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف نوازشریف ہیں اور دوسری طرف پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی، اے این پی، جماعتِ اسلامی اور دیگر نواز مخالف جماعتیں ہیں۔ البتہ سندھ کے شہری علاقوں میں ایک استثنیٰ ایم کیو ایم کا ہے۔ چند ماہ میں واضح ہوجائے گا کہ ایم کیو ایم نواز شریف کے ووٹ بینک سے مدد لیتی ہے یا نواز حامی اور نواز مخالف ووٹ بینک سے اپنی راہ الگ رکھتی ہے۔
پانامہ لیکس کے باعث انتہائی اہم کئی معاملات پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ ان میں سر فہرست شنگھائی تعاؤن تنظیمSCO میں پاکستان کی مستقل رکنیت اور دوسرا مشرق وسطیٰ میں قطر کے حوالے سے جاری بحران ہے۔
شنگھائی تعاؤن تنظیم کے حالیہ اجلاس میں پاکستان اور بھارت نے مکمل رکن کی حیثیت سے شرکت کی۔ اس تنظیم کا مقصد رکن ممالک کے درمیان سیاسی، معاشی اوردفاعی شعبوں میں تعاون کو بڑھانا ہے۔ اپریل 1996ء میں قائم ہونے والی اس تنظیم کے موجودہ رکن ممالک چین، روس،قزاقستان،کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان اور بھارت ہیں۔
یہ واحد یوروایشیائی تنظیم ہے جس میں چار ایٹمی ریاستی بشمول تین پڑوسی یعنی چین ، بھارت اور پاکستان ایٹمی ریاستیں شامل ہیں۔ اس تنظیم کے رکن ممالک میں بہت ذیادہ تنوع پایا جاتا ہے۔ چین دنیا کی دوسری معاشی طاقت ہے۔ روس سیاسی لحاظ سے دنیا بھر میں امریکا کے مدمقابل رہا ہے۔ وسطی ایشیائی ریاستیں کئی قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ پاکستان چین کا قابل اعتماد دوست اور پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی اہم محلِ وقوع کی وجہ سے چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے بحر عرب اور خلیج تک مختصر راستہ رکھتا ہے۔ بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے ۔اس تنظیم کے اراکین چین اور پاکستان کے ساتھ بھارت کے دیرینہ تنازعات ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم ان تنازعات کے پُرامن حل کے لیے بھی مؤثر ہوسکتی ہے۔
پہلے یمن اور اب قطرکے حوالے سے رونما ہونے والی صورت حال پاکستانی حکومت اور عوام کو بار بار حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی اپنانے کی تلقین کررہی ہے۔ پاکستان کو امریکا پر انحصار کم سے کم کرنے اور اپنے مشرق اور شمال میں واقع ممالک سے تعلق بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسلامی ملکوںکے ساتھ تو تعلقات کے موضوع کثیر پہلوی غوروخوض کے بعد وقت کے تقاضوں کے مطابق پالیسی کی ضرورت ہے۔ عرب ممالک ہوں یا دنیا کے کسی اور خطے میں واقع کوئی ملک ہو، سب کے ساتھ ہماری خارجہ پالیسی ذاتی مفادات اور شخصی مصلحتوں سے بالاتر ہونی لازمی ہے۔
سیکیورٹی کے لحاظ سے اس وقت دنیا کو سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی اور پراکسی وار سے ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف شاندار اور بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ہم پاکستانی بجا طور پر بہت فخر کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسی کارکردگی کا مظاہرہ دنیا کی کوئی اور فوج نہیں کرسکی۔ شنگھائی تعاؤن تنظیم کے دائرہ عمل میں سیکیورٹی بھی شامل ہے۔ اس شعبے میں پاکستان اس تنظیم میں اگلی صفوں میں رہ کر مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ چین کے ساتھ OBOR منصوبے میں زیادہ سے زیادہ اشتراک ، روس اور چین کے ساتھ معاشی اور دفاعی شعبوں میں اشتراک پاکستان کے مفاد میں ہے۔
مشرق وسطیٰ کے لیے ہمیں اب حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کے پڑوسی تقریباً سب عرب ممالک فلسطین کے بجائے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دے رہے ہیں ۔ اسرائیل کے حوالے سے خلیجی ممالک کی پالیسیاں بھی تبدیل ہورہی ہیں۔ پاکستان کو اس شعبے میں اپنے برادر اسلامی ملک ترکی اور انتہائی قریبی دوست چین کے طرز ہائے عمل کا جائزہ لینا چاہیے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ خلیجی ممالک بھارت سے تعلقات بڑھاتے وقت مسئلہ کشمیر پر پاکستانی مؤقف اور نہتے کشمیری عوام بھارتی حکومت کی زیادتیوں کو بیچ میں نہیں لاتے اور بھارت کے ساتھ معاملہ کرتے وقت صرف اور صرف اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطین کے بارے میں عربوں کے بدلتے ہوئے رویے۔ مصر، شام، لیبیا، یمن ، ایران اور قطر کے ساتھ تعلقات کی نوعیت پر عربوں میں باہمی انتشار، افغانستان پر امریکا کو درپیش چیلنجز، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نپے تلے اقدامات، امریکا اور یورپ کے درمیان شروع ہوتی دوریوں ،خلیجی ممالک کے بھارت سے بڑھتے ہوئے تعلقات سے تشکیل پانے والے منظر نامے میں مستقبل کے خدوخال واضع ہورہے ہیں۔ پاکستان کو اپنی معیشت کو مستحکم بنانے کے ساتھ ساتھ مشرق اور شمال کے ساتھ تعلقات کو توسیع دینا اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو حقیقت پسندانہ بنانا ہوگا۔ وقت کے تقاضوں کے مطابق پالیسیاں اختیارکی جائیں تو شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت پاکستان کے لیے بہت فائدہ مند ہوسکتی ہے۔
رمضان اور دولت کی تقسیم:
اسلام نے اپنے پیروکاروں پر زکوٰۃ فرض کی ہے، اس کے علاوہ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہنا اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے۔ پاکستانی ریاست معاشی مشکلات میں گھری رہتی ہے۔ اس سال امپورٹ ایکسپورٹ میں بہت بڑے فرق اور دیگر کئی اسباب کی وجہ سے ملکی معیشت پر دباؤ بہت شدید ہے۔ شدید معاشی دباؤ میں بھی پاکستانی عوام رفاہی کاموں میں کھلے دل سے خرچ کرتے ہیں۔ رمضان کے بابرکت مہینے میں تو پاکستانیوں کی سخاوت اور دریادلی عروج پر ہوتی ہے۔ ایک غریب ملک ہونے کے باوجود پاکستان کا شمار دنیا کے سب سے بڑے چیریٹی دینے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں صحت ، تعلیم اور دیگر کئی شعبوں میں اپنی مدد آپ کے تحت کئی ادارے بہت بڑے پیمانے پر عوام کی خدمت کررہے ہیں۔
مختلف شعبوں میں عوام کی خدمت کرنے والے اداروں میں چند نمایاں نام یہ ہیں۔ ایدھی ٹرسٹ، SIUT ، انڈس اسپتال، LRBT، شوکت خانم میموریل،امن فاؤنڈیشن، فاطمید فاؤنڈیشن،PAB، افضال میموریل تھیلیسیمیا فاؤنڈیشن، ایم ہاشم میموریل ٹرسٹ، TCFاسکول، چلڈرن کینسر اسپتال، SOS چلڈرن ویلج، دی کڈنی فاؤنڈیشن، میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر، سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ، چھیپا ویلفیئر، الخدمت فاؤنڈیشن، منہاج فاؤنڈیشن، زندگی ٹرسٹ، سہارا ٹرسٹ، الشفاء آئی ٹرسٹ، اخوت ٹرسٹ، ماں اسپتال، فاؤنٹین ہاؤس، المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ، ان کے علاوہ ملک کے ہر صوبے اور ہر چھوٹے بڑے شہر میں قائم لاتعداد ادارے رفاہی کاموں میں عوام کے مالی تعاون سے خدمت خلق کررہے ہیں۔ ایسے اداروں کے ساتھ مالی تعاون کو زیادہ سے زیادہ توسیع دینی چاہیے۔
ہمارے ملک میں اداروں کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ صاحبانِ نصاب انفرادی طور پر بھی لوگوں کا خیال رکھتے ہیں۔ ایسے اکثر لوگوں سے میں ایک گذارش کرتا ہوں کہ ایک بڑی رقم کو کئی افرادمیں تقسیم کرنے کے بجائے اسے چند افراد کو مالی طور پر مستحکم کرنے میں اس طرح خرچ کیا جائے کہ اگلے سال وہ لوگ خود زکوٰۃ ادا کرنے والوں میں شامل ہوجائیں۔ اگر ایک لاکھ خوشحال لوگ دو تین افراد کو بھی مالی طور پر مستحکم کرسکیں تو اس طرح ہر سال دو تین لاکھ گھرانے غربت سے نجات پالیں گے۔
..................
سرفراز اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہرکھلاڑی کا شکریہ
روایتی حریف بھارت کی انتہائی مضبوط ٹیم کو آئی سی سی چمپئنز ٹرافی فائنل کی تاریخ میں بہت بڑے مارجن سے شکست دے کر پاکستانی قوم کو ٹرافی کا تحفہ دینے پر ٹیم کے کپتان سرفراز احمد ، فخر زمان،اظہرعلی، محمد حفیظ، بابراعظم، محمد عامر، حسن علی سمیت ٹیم کے ہرکھلاڑی اور مینجمٹ کے ہر رکن کا شکریہ۔ اس شاندار فتح کے ذریعے یہ پیغام ملا ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو اتحاد واتفاق اور بھرپور جذبوں کے ساتھ استعمال کیا جائے تو مشکلات کے باوجود ہر بڑی سے بڑی منزل سر کی جاسکتی ہے۔