بڑھتی آلودگی اور امراض چشم

وفاقی اور صوبائی حکومتیں آنکھوں کے بڑھتے ہوئے امراض کو اہمیت دے رہی ہیں نہ سنجیدگی سے لے رہی ہیں

ISLAMABAD:
ویسے تو انسانی جسم کا ہر حصہ ہی اہم اور اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے مگر آنکھوں کے لیے خاص طور پرکہا جاتا ہے کہ آنکھیں بڑی نعمت ہیں جن کی قدر عام طور پر بہت کم لوگ کرتے ہیں جسے احتیاط بھی کہتے ہیں اور ہر چیز کی قدر و اہمیت کا اندازہ اس کے متاثر ہونے پر ہی ہوتا ہے ۔ آنکھوں کی حقیقی قدر وہی جانتے اور پہچان چکے ہوتے ہیں جو قدرت کی دی ہوئی اس نعمت سے محروم ہیں یا کسی وجہ سے محروم ہوچکے ہوتے ہیں اور بعد میں پچھتاتے ہیں کہ کاش ہم نے اپنی آنکھوں کی قدر پہلے کرلی ہوتی۔

پہلے تاثر تھا کہ آنکھیں بڑھتی عمرکے ساتھ کسی بیماری کا شکار یا متاثر ہوتی ہیں مگر اب کچھ سالوں سے بڑے شہروں میں آنکھوں کی بیماریاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کوکم عمری میں چشمہ لگائے ہوئے دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اب بچوں کو کم عمری میں ہی آنکھوں کی بیماریاں لاحق ہونے لگی ہیں۔ دیہاتوں کی کھلی فضاؤں میں رہنے والوں کے مقابلے میں آلودگی میں مبتلا شہروں میں امراض چشم تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ کراچی، لاہور، فیصل آباد، ملتان جیسے بڑے شہروں میں آلودگی تشویشناک صورتحال اختیارکرچکی ہے جب کہ ہر چھوٹے شہر میں بھی آلودگی کسی نہ کسی حد تک موجود ہے جہاں بڑے شہروں کے مقابلے میں آلودگی کم ہے مگر کم ہونے میں وہاں بھی نہیں آرہی۔بڑے شہروں میں آلودگی بڑھانے میں جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا اہم کردار ہے وہاں صنعتیں بھی آلودگی نہ صرف پیدا کر رہی ہیں بلکہ اضافے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔

حکومتوں نے بس نام کی حد تک آلودگی کو سنجیدگی سے لیا ہوا ہے تاکہ اس کے کسی رہنما کو آلودگی کی وزارت دے کر سیاسی فائدہ پہنچا سکے اس کے علاوہ کسی حکومت نے آج تک آلودگی جیسے بڑھتے ہوئے مسئلے پر توجہ نہیں دی ۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں آصف علی زرداری کو محکمہ آلودگی قائم کرکے اس کا وفاقی وزیر بنایا گیا تھا مگر انھوں نے اپنی صدارت کے پانچ اور سندھ میں پی پی حکومت کے نو سالوں میں ملک اور سندھ اور خاص طور پر کراچی میں بڑھتی ہوئی آلودگی کے سدباب پر توجہ نہیں دی اور یہی حال موجودہ حکمرانوں کا ہے جنھوں نے 9 سالوں میں لاہور کو خوبصورت بنانے پر تو بھرپور توجہ دی مگر لاہور میں تشویش ناک صورتحال اختیارکرلینے والی آلودگی کے خاتمے پر توجہ نہیں دی ، جس کا اعتراف عالمی سطح پر کیا گیا ہے اورکراچی اور لاہور سمیت ملک کے متعدد بڑے شہروں میں آلودگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

آٹھ سال قبل راقم کے ایک عزیز کو ایک بارات میں دو روز کے لیے خان گڑھ پنجاب جانا پڑا تھا اور خان گڑھ شہر سے باہر ایک درختوں سے بھرے ہوئے گھر میں انھیں ٹھہرایا گیا جہاں چند گھنٹوں بعد ہی انھیں اپنی بینائی بڑھ جانے کا احساس ہوا اور کہنے لگے کہ یہاں کی آب و ہوا نے تو میری آنکھوں کی روشنی تیز کردی اور اب بھی وہ کراچی میں خان گڑھ کی آب و ہوا کا ذکر کرتے ہیں۔

راقم کو بھی آنکھوں کے معاملے میں لاپرواہی اور غفلت کا احساس تاخیر سے آنکھ میں موتیا بڑھ جانے کے باعث آپریشن کے وقت ہوا کہ بینائی کیا ہوتی ہے اور اگر بروقت آنکھوں کا علاج نہ کرایا جائے تو ایک آنکھ متاثر ہوجانے پر جب دونوں آنکھوں کی بجائے صرف ایک آنکھ سے دیکھنا پڑے تو دنیا کیسی لگتی ہے جس کا کام ہی لکھنا پڑھنا اور ٹی وی دیکھنا ہو اور جب وہ آنکھ کے آپریشن کے باعث ایک ماہ تک روز مرہ کے معمولات سے دور اور دوسرے کی مدد لینے پر مجبور ہوجائے تو آنکھوں کی قدر بڑھ جاتی ہے کہ اگر پہلے توجہ دے لی ہوتی تو آج ایک ماہ کی یہ نابینگی نہ بھگتنا پڑتی۔


عام زندگی میں ہم مذاق میں کسی کو اندھا یا کانا کہہ جاتے ہیں مگر جب آنکھ کے معاملے میں اگر کبھی خود متاثر ہوجائیں اور ایسا ہی مذاق کوئی ہم سے کرے تو اپنی حرکت کا احساس ہوتا ہے اور ویسے بھی کسی کی کسی بھی قسم کی معذوری کا مذاق اڑانا شرعاً بھی ناجائز ہے۔ دانتوں کے علاج کے تو بے شمار عطائی مل جاتے ہیں جب کہ دانتوں کا علاج دنیا میں سب سے مہنگا تصور کیا جاتا ہے جب کہ دانتوں کے مقابلے میں آنکھوں کا معاملہ بہت زیادہ حساس ہے اور ہماری خود کی غفلت اور بروقت علاج نہ کرانے سے آنکھوں کی بینائی ضایع ہوجانے کے واقعات اکثر پیش آرہے ہیں اور بینائی ضایع ہو جائے تو بعض کا علاج پاکستان میں ممکن ہی نہیں ہے اور بیرون ملک ایسا علاج بہت ہی مہنگا ہے۔

ملک بھر میں آنکھوں کے امراض اس قدر پھیل چکے ہیں کہ سماجی و فلاحی اداروں کو آنکھوں کے مفت علاج اور آپریشن تک کے آئی کیمپ لگا کر متاثرین چشم کی یہ ضرورت پوری کرنا پڑ رہی ہے اور اکثر سرکاری اسپتالوں میں تو آنکھوں کے علاج کا انتظام ہے ہی نہیں اس لیے مریضوں کو پرائیویٹ طور پر اپنا علاج کرانا پڑ رہا ہے۔

بڑھتے ہوئے امراض چشم میں آلودگی کے ساتھ صنعتی دھوئیں، گرد وغبار، صفائی کی بدترین حالت، کچرے کے ڈھیروں، کھلے ہوئے سیوریج نالوں اور مکھی مچھروں کا بھی بہت بڑا کردار اور لوگوں کی خود اپنی غفلت بھی ہے۔ ایک آئی سرجن ڈاکٹر اعجازاحمد انصاری نے بھی ان عوامل کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اشیا خورونوش میں ملاوٹ بھی آنکھوں کی بیماریاں بڑھا رہی ہے اور غیر معیاری خوراک کی وجہ سے بڑے تو بڑے بچے بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ اس لیے لوگوں کو معیاری خوراک پر توجہ دینی چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ آنکھوں کے معاملے میں لاپرواہی نہ صرف نقصان دہ ہے بلکہ بہت زیادہ تاخیر بینائی ضایع ہونے کا سبب بھی بن سکتی ہے لہٰذا معمولی تکلیف خارش، دھندلا پن محسوس ہونے پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اپنی آنکھوں کے معاملے میں لاپرواہی بالکل نہیں برتنی چاہیے اور اپنی آنکھوں پر پانی بھی نہیں مارنا چاہیے اور نارمل طور پر ہی آنکھیں دھولینی چاہئیں۔

ڈاکٹر نے کہا کہ شوگر کا ملک میں مرض بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے، شوگرکے مریضوں کو وقتاً فوقتاً آنکھیں چیک کرانی چاہئیں اور عام لوگوں کو بھی سال میں ایک دو بار آنکھوں کا معائنہ ضرورکرانا چاہیے اور آنکھوں میں موتیے کا خاص معائنہ ضروری ہے اور اگر موتیا ہوجائے تو ڈاکٹری ہدایات پر بروقت آپریشن کرا لینا چاہیے کیونکہ اس معاملے میں تاخیر ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتیں آنکھوں کے بڑھتے ہوئے امراض کو اہمیت دے رہی ہیں نہ سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔ آنکھوں کی بیماری جان لیوا تو نہیں مگر بڑھتی ہوئی آلودگی میں بچے ہوں یا بڑے سب امراض چشم میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ آنکھوں کے علاج اور لینس لگوانا بھی اب سستا نہیں رہا اور مختلف اقسام کے لینس تو دستیاب ہیں مگر سستے لینس نقصان دہ ہوجاتے ہیں جو اکثر تبدیل نہیں کرائے جاتے اور کسی وجہ سے تبدیل ہوں تو شدید تکلیف دہ بن جاتے ہیں جب کہ آنکھوں کے علاج کی دوائیں بھی مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔
Load Next Story