ہائے کتنی اچھی تھیں وہ عیدیں
آج مشینوں کی حکومت نے نئی نسل کو اپنے عزیزوں سے اتنا بیگانہ کردیا ہے کہ اِن کے پاس خود اپنے لئے فرصت نہیں ہے۔
آج عید کا دن ہے، لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں رکھے ہوئے روزوں کا فرض ادا کرنے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرنے کا دن آن پہنچا ہے۔ ہائے کتنے اچھے تھے وہ دن جب آج ہی کے دن 35، 30 سال پہلے آتش جوان تھا۔ گرمی برداشت کرنے کی سکت آج سے کئی گنا زیادہ تھی لیکن لوڈشیڈنگ کا عذاب نہیں تھا اور روزے رکھنے میں گرمی کا احساس نہیں ہوتا تھا کہ پنکھے چلتے رہتے تھے۔ یہ اُس زمانے کی بات کررہا ہوں جب ہم فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی کی ملازمت چھوڑ کر آئے تھے اور ہم نے واپڈا جوائن کیا تھا، یہ وہ واپڈا تھا جہاں بجلی زیادہ پیدا ہوتی تھی اور قیمت اب کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھی۔ ہماری تعیناتی اگرچہ 18 گریڈ میں براہِ راست ہوئی تھی لیکن تنخواہ بس مناسب تھی۔
عید آج کے مقابلے میں زیادہ بہتر تھی، کیونکہ احترامِ بزرگان اُس وقت کی بنیادی خصوصیت تھی۔ محلے کا ہر گھر خالہ، ماموں، چچا، تایا کا گھر ہوتا تھا۔ نماز کے بعد ہر گھر میں سلام کرنے جایا جاتا تھا، یہی حال ہر گھر کے بچوں کا ہوتا تھا، اِس محبت اور احترام میں اپنائیت کا احساس جنم لیتا تھا۔ ہر کوئی ہر کسی کا خیال رکھتا تھا۔
کہتے ہیں خط نصف ملاقات ہوتی تھی، عید کے موقع پرعید کارڈ بھیجنا ایک روایت تھی۔ ایک طویل فہرست ہوتی تھی رشتہ داروں کی جنہیں یہ عید کارڈ پوسٹ کئے جاتے تھے۔ واپڈا میں آنے کے بعد میں نے خود تربیلا، منگلا ڈیم کے اسپل وے کی تصاویر پر مبنی عید کارڈ چھپوا کر رکھے ہوئے تھے جو عزیز و اقارب کو بھجوانے کے ساتھ ساتھ اپنی سرکاری ڈیوٹی کے تعلقات والوں کو بھی بھجوائے جاتے تھے۔ یہ عید کارڈ سالانہ تجدیدِ تعلقات کا ایک ذریعہ تھے بلکہ قربت کا احساس دلاتے تھے۔
بچوں میں مقابلے کا احساس نہیں تھا کہ کس نے کتنے قیمتی کپڑے پہنے ہوئے ہیں، کفایت شعاری کے ساتھ والدین صاف ستھرے کپڑے بنادیا کرتے تھے، اور ہم بچے اِسی میں پھولے نہیں سماتے تھے۔ آمدنیاں کم تھیں لیکن اطمینانِ قلب تھا، مسجدیں شروع سے آخری روزے تک یکساں بھری ہوتی تھیں، وہاں کوئی تخصیص نہیں تھی۔ ہر عمر کے لوگ موجود ہوتے تھے، ہمیں والد صاحب بچپن سے ہی مسجد لے جایا کرتے تھے، والدہ سحری کے وقت باقاعدہ اٹھا دیا کرتی تھیں یہی وجہ ہے کہ بچپن کی عادت ابھی تک برقرار ہے۔ یہ والدین کا احترام اور مذہب سے لگاؤ کا نتیجہ ہے۔ بزرگ بچوں کو ساتھ لے کر جاتے تھے، عید کی نماز میں امام مسجد تو نماز کا طریقہ بتاتے ہی تھے لیکن والدین بھی ساتھ لائے ہوئے بچوں کو یہ طریقہ بتاتے تھے، اِس طرح ساتھ لے جانے اور انہیں تفصیل سے بتانے کے نتیجہ میں نہ صرف والد اور اولاد میں دوستی بڑھتی تھی بلکہ مذہب کے بارے میں اُن کے علم میں بھی اضافہ ہوتا تھا۔
آج 2017ء ہے، مجھے کسی کی طرف سے عید کارڈ ملنے کی توقع نہیں ہے، کیونکہ لوگوں میں ایک تو مروت نہیں رہی، انہیں وقت نہیں ملتا اور سب سے بڑی بات یہ کہ الیکٹرانک میڈیا نے لوگوں سے محنت والے کام ختم کروا دئیے ہیں۔ اب عید کارڈ خریدنا، دوستوں کی فہرست بنانا، عید کارڈ پر کچھ تحریر کرتا حسبِ مراتب پوسٹ، آفس جانا، ٹکٹ خریدنا، پتہ لکھ کر لفافوں پر ٹکٹ چسپاں کرنا اور انہیں سپردِ ڈاک کرنا۔۔۔ اف! اتنا مشقت طلب کام، ہم سے نہیں ہوتا، یہ جواب ملتا ہے آج کی نسل سے۔عید مبارک کہہ دیا تھا نیٹ پر، جواب بھی مل گیا۔ ہمارے پاس اتنی فرصت نہیں ہے کہ عید کارڈ بھیجیں۔ حالانکہ یہ نسل یہ نہیں سمجھتی کہ عید کارڈ بذاتِ خود کوئی چیز نہیں ہے، بلکہ اِس پر لکھی گئی آپ کی تحریر، آپ کے لمس کا جو احساس کارڈ ملنے پر ہوتا ہے، درحقیقت اصل اہمیت اِس کی ہوتی ہے۔ نیٹ پر تو آپ روز ہی لوگوں سے محوِ گفتگو ہوتے ہیں لیکن عید ایک خاص موقع ہے، اِسے ضرور خاص بنائیے۔
آج مشینوں کی حکومت نے نئی نسل کو اپنے عزیزوں سے اتنا بیگانہ کردیا ہے کہ اِن کے پاس خود اپنے لئے فرصت نہیں ہے۔ عید کا دن بھی انہی مشینوں کی نظر ہوجاتا ہے۔ کسی کے گھر جانے، ملنے ملانے کی انہیں فرصت نہیں ہے۔ کسی سے ملنے جانے کے بجائے وہ برگر شاپ پر جانا بہتر سمجھتے ہیں۔
آج عید ہے، بچے اپنے دوستوں کے ساتھ کسی کیفے پر جاچکے ہیں، گھر پر میں اور میری بیوی اِس انتظار میں ہیں کہ بچے واپس آئیں تو کسی سے ملنے جائیں۔ اِسی انتظار میں رات ہونے کو ہے، شاید دوسرے بھی اِسی انتظار میں نہیں آئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ قربتیں کم ہورہی ہیں۔ اِس نئی نسل کو کون احساس دلائے کہ تمہاری آنے والی نسل تم سے زیادہ مشینوں کی غلام ہوگی، اُس وقت تم ہم سے زیادہ تنہا ہوں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
عید آج کے مقابلے میں زیادہ بہتر تھی، کیونکہ احترامِ بزرگان اُس وقت کی بنیادی خصوصیت تھی۔ محلے کا ہر گھر خالہ، ماموں، چچا، تایا کا گھر ہوتا تھا۔ نماز کے بعد ہر گھر میں سلام کرنے جایا جاتا تھا، یہی حال ہر گھر کے بچوں کا ہوتا تھا، اِس محبت اور احترام میں اپنائیت کا احساس جنم لیتا تھا۔ ہر کوئی ہر کسی کا خیال رکھتا تھا۔
کہتے ہیں خط نصف ملاقات ہوتی تھی، عید کے موقع پرعید کارڈ بھیجنا ایک روایت تھی۔ ایک طویل فہرست ہوتی تھی رشتہ داروں کی جنہیں یہ عید کارڈ پوسٹ کئے جاتے تھے۔ واپڈا میں آنے کے بعد میں نے خود تربیلا، منگلا ڈیم کے اسپل وے کی تصاویر پر مبنی عید کارڈ چھپوا کر رکھے ہوئے تھے جو عزیز و اقارب کو بھجوانے کے ساتھ ساتھ اپنی سرکاری ڈیوٹی کے تعلقات والوں کو بھی بھجوائے جاتے تھے۔ یہ عید کارڈ سالانہ تجدیدِ تعلقات کا ایک ذریعہ تھے بلکہ قربت کا احساس دلاتے تھے۔
بچوں میں مقابلے کا احساس نہیں تھا کہ کس نے کتنے قیمتی کپڑے پہنے ہوئے ہیں، کفایت شعاری کے ساتھ والدین صاف ستھرے کپڑے بنادیا کرتے تھے، اور ہم بچے اِسی میں پھولے نہیں سماتے تھے۔ آمدنیاں کم تھیں لیکن اطمینانِ قلب تھا، مسجدیں شروع سے آخری روزے تک یکساں بھری ہوتی تھیں، وہاں کوئی تخصیص نہیں تھی۔ ہر عمر کے لوگ موجود ہوتے تھے، ہمیں والد صاحب بچپن سے ہی مسجد لے جایا کرتے تھے، والدہ سحری کے وقت باقاعدہ اٹھا دیا کرتی تھیں یہی وجہ ہے کہ بچپن کی عادت ابھی تک برقرار ہے۔ یہ والدین کا احترام اور مذہب سے لگاؤ کا نتیجہ ہے۔ بزرگ بچوں کو ساتھ لے کر جاتے تھے، عید کی نماز میں امام مسجد تو نماز کا طریقہ بتاتے ہی تھے لیکن والدین بھی ساتھ لائے ہوئے بچوں کو یہ طریقہ بتاتے تھے، اِس طرح ساتھ لے جانے اور انہیں تفصیل سے بتانے کے نتیجہ میں نہ صرف والد اور اولاد میں دوستی بڑھتی تھی بلکہ مذہب کے بارے میں اُن کے علم میں بھی اضافہ ہوتا تھا۔
آج 2017ء ہے، مجھے کسی کی طرف سے عید کارڈ ملنے کی توقع نہیں ہے، کیونکہ لوگوں میں ایک تو مروت نہیں رہی، انہیں وقت نہیں ملتا اور سب سے بڑی بات یہ کہ الیکٹرانک میڈیا نے لوگوں سے محنت والے کام ختم کروا دئیے ہیں۔ اب عید کارڈ خریدنا، دوستوں کی فہرست بنانا، عید کارڈ پر کچھ تحریر کرتا حسبِ مراتب پوسٹ، آفس جانا، ٹکٹ خریدنا، پتہ لکھ کر لفافوں پر ٹکٹ چسپاں کرنا اور انہیں سپردِ ڈاک کرنا۔۔۔ اف! اتنا مشقت طلب کام، ہم سے نہیں ہوتا، یہ جواب ملتا ہے آج کی نسل سے۔عید مبارک کہہ دیا تھا نیٹ پر، جواب بھی مل گیا۔ ہمارے پاس اتنی فرصت نہیں ہے کہ عید کارڈ بھیجیں۔ حالانکہ یہ نسل یہ نہیں سمجھتی کہ عید کارڈ بذاتِ خود کوئی چیز نہیں ہے، بلکہ اِس پر لکھی گئی آپ کی تحریر، آپ کے لمس کا جو احساس کارڈ ملنے پر ہوتا ہے، درحقیقت اصل اہمیت اِس کی ہوتی ہے۔ نیٹ پر تو آپ روز ہی لوگوں سے محوِ گفتگو ہوتے ہیں لیکن عید ایک خاص موقع ہے، اِسے ضرور خاص بنائیے۔
آج مشینوں کی حکومت نے نئی نسل کو اپنے عزیزوں سے اتنا بیگانہ کردیا ہے کہ اِن کے پاس خود اپنے لئے فرصت نہیں ہے۔ عید کا دن بھی انہی مشینوں کی نظر ہوجاتا ہے۔ کسی کے گھر جانے، ملنے ملانے کی انہیں فرصت نہیں ہے۔ کسی سے ملنے جانے کے بجائے وہ برگر شاپ پر جانا بہتر سمجھتے ہیں۔
آج عید ہے، بچے اپنے دوستوں کے ساتھ کسی کیفے پر جاچکے ہیں، گھر پر میں اور میری بیوی اِس انتظار میں ہیں کہ بچے واپس آئیں تو کسی سے ملنے جائیں۔ اِسی انتظار میں رات ہونے کو ہے، شاید دوسرے بھی اِسی انتظار میں نہیں آئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ قربتیں کم ہورہی ہیں۔ اِس نئی نسل کو کون احساس دلائے کہ تمہاری آنے والی نسل تم سے زیادہ مشینوں کی غلام ہوگی، اُس وقت تم ہم سے زیادہ تنہا ہوں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی