اونٹنی کے دودھ کی اہمیت نوعیت اور افادیت حصہ دوم

اونٹنی کے دودھ میں شامل پروٹین اور خامرے بہت سے جرثوموں اور وائرس کے خلاف مؤثر ہوتے ہیں


اونٹنی کا دودھ غذائی اعتبار سے کسی بھی طور پر گائے اور بھینس کے دودھ سے کم نہیں۔ البتہ غذائی اجزاء کی تناسبی مقدار میں فرق نمایاں ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:

دودھ کی غذائیت



اونٹنی کا دودھ غذائی اعتبار سے کسی بھی طور پر گائے اور بھینس کے دودھ سے کم نہیں۔ البتہ غذائی اجزاء کی تناسبی مقدار میں فرق نمایاں ہے۔ اونٹ جس ماحول میں رہتا ہے، وہاں غذا کی شدید قلت ہوتی ہے۔ اِن حالات میں اِس سے بہتر غذا نہیں، پھر اِس کے طبی فوائد اپنی جگہ مسلمہ ہیں۔ انسانی دودھ کے بعد اونٹنی کا دودھ بچوں کے لیے بہترین غذا سمجھا جاتا ہے۔ اب ہم اونٹنی کے دودھ میں شامل اہم غذائی اجزاء پر ایک ایک کرکے طائرانہ نظر ڈالیں گے۔

اونٹنی کے دودھ کی اہمیت، نوعیت اور افادیت (حصہ اول)

 

پانی


پانی غذائی اہمیت کے حوالے سے بذاتِ خود کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے، مگر جسمانی فعلیات کے حوالے سے انتہائی اہم جُز کی حیثیت کا حامل ہے۔ پانی کی وجہ سے گلوکوز اور حیاتین (وٹامن) کی خلیات تک ترسیل ہوتی ہے۔ اسی طرح خلیات سے فاسد مادوں کے اخراج کے لیے بھی پانی اہم ہے۔ غذا کے ہضم ہونے کے لیے پانی کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے غذا میں مناسب پانی کی مقدار ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اونٹ کے حوالے سے پانی کا استعمال بہت دلچسپ ہے۔ اونٹ، پانی کے استعمال میں ماہر حیوان ہے جو نہ تو ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کرتا ہے اور نہ ہی پانی کو ضائع ہونے دیتا ہے۔ دودھ کے معاملے میں اونٹ کا پانی کا استعمال، دیگر حیوانات کے بالکل برعکس ہے۔

اونٹنی کے دودھ میں پانی کی مقدار 86 سے 91 فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ عموماً دودھ میں پانی کی مقدار 87 فیصد ہوتی ہے۔ اِس لحاظ سے اونٹنی کا دودھ، گائے کے دودھ ہی کی طرح گاڑھا ہوتا ہے۔ مگر گرم موسم میں، جب حیوان پانی کی کمی کا شکار ہو تو، اونٹنی کے دودھ میں پانی کی مقدار بڑھتے ہوئے 91 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ اِن حالات میں گائے اور بکری وغیرہ کے دودھ میں پانی کی مقدار بتدریج گھٹتی ہے اور بالآخر دودھ کی پیداوار بند ہوجاتی ہے، جب کہ اِس وقت اونٹنی کے دودھ میں پانی کی مقدار 91 فیصد ہوجاتی ہے۔

دودھ کے ساتھ پانی کا یہ اضافی اخراج اگرچہ اونٹنی کے اپنے جسم میں پانی کی کمی کا باعث بنتا ہے، مگر اونٹنی کے بچے کو پانی کی کمی کا شکار ہونے سے بچاتا ہے۔ پھر یہی دودھ انسان کے لیے اُن خشک حالات میں پانی اور غذا کے حصول کا ذریعہ ہوتا ہے، جو انسان کی بقاء کے لیے نہایت بہترین غذا بھی بن جاتا ہے۔

 

چکنائی


غذائی اعتبار سے چکنائی کی بہت اہمیت ہے۔ جسم کو توانائی کی بڑی مقدار میں فراہمی چکنائی کی صورت میں ہوتی ہے۔ جس کو جسم استعمال کرتا ہے اور اضافی توانائی کو چکنائی کی صورت میں ہی جمع کرتا ہے۔ خلیات کی بیرونی جھلی (جس کی وجہ سے خلیہ اپنی مخصوص شکل برقرار رکھتا ہے) کی ساختی جز اور راحین (ہارمون) کے بنیادی جُز کی حیثیت سے چکنائی کی خاص اہمیت ہے۔ دودھ میں شامل چکنائی میں سب سے اہم دو طرح کے لینولک ایسڈ (Linoleic Acid) ہیں۔ یہ لازمی فیٹی ایسڈ (Fatty Acid) ہیں جن کی تیاری جسم کے اندر نہیں ہوتی ہے۔

اونٹنی کے دودھ میں چکنائی کی مقدار عموماً کم ہوتی ہے۔ اونٹنی کے دودھ میں چکنائی کی مقدار 1.1 سے 6.4 فیصد تک دیکھی گئی ہے۔ اِس کے علاوہ دودھ میں موجود چکنائی انتہائی باریک قطروں کی صورت میں ہوتی ہے۔ یہ گائے کے دودھ کی چکنائی کی طرح سطح پر جمع نہیں ہوتی۔ اونٹنی کے دودھ میں چکنائی کی زیادہ مقدار عموماً بختیاری اونٹنی کے دودھ میں دیکھی گئی ہے۔ اوسطاً اونٹنی کے دودھ میں چکنائی کی مقدار 3.5 فیصد مانی جاتی ہے۔ گائے کے دودھ کی نسبت اونٹنی کے دودھ میں غیر سیر شدہ چربی (Unsaturated Fat) کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جب کہ بکری کے دودھ کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ اِس قسم کی چکنائی جسم کے لیے انتہائی اہم ہے، کیونکہ یہ جسم کے مدافعتی اور اعصابی نظاموں کے لیے ضروری ہوتی ہے۔

پانی کی کمی کا شکار اونٹنی کے دودھ میں چکنائی کی مقدار بھی کم ہوجاتی ہے۔ یہ قابلِ ذکر بات ہے کہ بختیاری اونٹنی کے دودھ میں چکنائی کی مقدار زیادہ دیکھی گئی ہے جبکہ عربی اونٹنی کے دودھ میں چکنائی کی مقدار کم ہوتی ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بختیاری اونٹ کا ماحول خشک اور سرد جبکہ عربی اونٹ کا ماحول خشک اور گرم ہوتا ہے۔ سرد ماحول میں زیادہ توانائی کے لیے چربی انتہائی اہم ہے۔ اِس کے برعکس گرم ماحول میں چربی کی زیادتی، ہاضمے میں مسائل پیدا کرتی ہے۔

اونٹنی کے دودھ میں اگلیوٹینین (Agglutinin) نامی پروٹین نہیں ہوتا (جو کہ دودھ میں شامل چکنائی کے ساتھ مل کر دودھ کے اوپر ملائی کی تہہ بناتی ہے)۔ لہٰذا، اگلیوٹینین کی غیر موجودگی کے باعث، اونٹنی کے دودھ کی چربی، گائے کے دودھ والی چربی کی طرح ایک جگہ جمع نہیں ہوتی اور ہضم میں بھی مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ اونٹنی کے دودھ سے مکھن علیحدہ کرنے کے لیے اُسے 20 سے 25 درجے سینٹی گریڈ پر تیزی سے بلونا پڑتا ہے، جب کہ گائے کے دودھ سے مکھن نکالنے کے لئے اِس سے 8 ڈگری سینٹی گریڈ کم درجہ حرارت درکار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، اونٹ کے دودھ کی چربی پگھلنے کا درجہ حرارت 41.5 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔

 

لحمیات(Proteins)


غذائی اعتبار سے دودھ میں لحمیات (پروٹین) کی بہت اہمیت ہے۔ لحمیات ہی سے جسم کی مختلف بافتین اور عضلات وغیرہ بنتے ہیں۔ لحمیات جسم کی نمو، مرمت، مختلف راحین (Harmones) اور خامروں (Enzymes) کی تیاری کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ لحمیات کے بنیادی اجزاء امائینو ایسڈ کہلاتے ہیں جن سے مل کر کئی قسم کی لحم تیار ہوتی ہے۔ اِن امائینو ایسڈ کی مختلف اقسام ہیں جن میں سے کچھ جسم خود تیار کرسکتا ہے اور کچھ امائینو ایسڈ کو بیرونی ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے۔ دودھ اِن امائینو ایسڈ کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔

دودھ میں موجود پروٹین میں بڑی مقداریں کیسین (Casein) اور وے (whey) اقسام کی ہوتی ہیں۔ گائے کے دودھ میں عام طور پر 70 فیصد سے زائد مقدار کیسین (Casein) کی اور تقریباً 20 فیصد مقدار وے (whey) قسم کی لحمیات پر مشتمل ہوتی ہے۔ وے (whey) قسم کی لحمیات میں نمایاں اقسام میں بیٹا لیکٹوگلوبیولن (Beta lactoglobulin) اور الفا لیکٹو گلوبیولن (Alpha lactoglobulin) جب کہ دیگر امیونو گلوبین (Immunoglobin)، خامرے مثلاً پروٹئیز (Protease)، پیپٹون (Pepton)، لیکٹوفیرن (Lectoferin) اور ٹرانسفیرن (Transferin) شامل ہیں۔

دودھ میں ترشہ (Acid) یا رینن (Renin) خامرے کے زیرِ اثر رسوب بننے والی چیز کیسین (Casein) ہے۔ گائے کے دودھ کے مقابلے میں اونٹنی کے دودھ میں کیسین کی مقدار کم ہوتی ہے جو کُل پروٹین کا 72 سے 76 فیصد ہے۔ اونٹنی کے دودھ میں شامل کیسین گائے کے دودھ میں شامل کیسین سے 60 فیصد مشابہت رکھتی ہے۔ گائے کے دودھ میں 20 اقسام کی لحمیات ایسی ہیں جن سے الرجی ہوتی ہے، اِن میں سب سے اہم بیٹا لیکٹوگلوبیولن (Beta lactoglobulin) لحم ( پروٹین) ہے، مگر وہ لوگ جن کو گائے کے دودھ سے الرجی ہو، وہ اونٹ کا دودھ استعمال کرتے ہیں کیونکہ اونٹنی کے دودھ میں یہ لحم (پروٹین) نہیں ہوتی ہے۔

اونٹنی کے دودھ میں انسانی دودھ کی طرح الفا لیکٹوگلوبیولن (Alpha lactoglobulin) کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ اونٹنی کے دودھ میں موجود ''وے'' (whey) قسم کی لحمیات گائے کی لحمیات سے مختلف ہوتی ہیں۔ اِسی باعث شاید اِن کی مانع تکسید (Antioxidant) اور مانع جراثیم (Antimicrobial) خصوصیات زیادہ ہوتی ہیں۔ اونٹنی کے دودھ میں موجود لحمیات (پروٹین) بہت زیادہ درجہ حرارت برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گائے کے دودھ کو 80 ڈگری سینٹی گریڈ پر آدھے گھنٹے گرم کرنے پر 70 سے 75 فیصد لحمیات (پروٹین) ضائع ہوجاتے ہیں، جبکہ اونٹنی کے دودھ میں اِس درجہ حرارت پر صرف 32 سے 35 فیصد لحمیات (پروٹین) ضائع ہوتیں ہیں۔

 

خامرے (Enzymes)


دودھ کی لحمیات میں اہم ترین چیز خامرے (Enzymes) ہیں، جن کی وجہ سے دودھ کا انہضام اور دودھ کی طبّی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اونٹنی کے دودھ میں شامل خامروں کی بدولت اونٹنی کے دودھ کی افادیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

  • لائسوزائم (Lysozyme)


یہ خامرے بنیادی مدافعتی نظام میں حصہ لیتے ہیں اور بیرونی حملہ آور جرثوموں اور اُن سے مماثل ساختوں کو ہدف بناتے ہیں۔ گائے کے دودھ کے مقابلے میں اونٹنی کے دودھ میں اِس خامرے کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔

  • لیکٹوفیرن (Lactoferrin)


فولاد سے بھرپور لیکٹوفیرن، دودھ کے افراز کے دو ہفتے بعد تیار ہوتے ہیں۔ یہ آنتوں کو بیکٹیریا کی نمو سے محفوظ رکھتے ہیں۔ یہ بھی لائسوزائم کی طرح بنیادی مدافعتی نظام میں مددگار ہوتے ہیں اور بیرونی حملہ آوروں اور جرثوموں سے مماثل ساختوں کو ہدف بناتے ہیں۔ اونٹنی کے دودھ میں دیگر جگالی کرنے والے جانوروں کی نسبت لیکٹوفیرن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ گائے کے دودھ میں 0.2 گرام فی لیٹر، جبکہ انسان کے دودھ میں 6.8 گرام فی لیٹر لیکٹوفیرن ہوتا ہے۔

  • لیکٹوپرآکسیڈیز (Lactoperoxidase)


یہ خامرہ دودھ کے علاوہ آنسو اور تھوک میں بھی ہوتا ہے۔ یہ غیر مامون میزبان کے مدافعتی نظام میں حصہ لیتا ہے اور بیکٹیریا کی فعالیت ختم کرتا ہے؛ خاص کر گرام نگیٹو بیکٹیریا کی۔ یہ نشوونما کو بڑھانے میں مددگار ہونے کے ساتھ ساتھ پھوڑے، سوجن کو ختم کرنے (اینٹی ٹیومر) میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔ اونٹنی کے دودھ میں اِس کی سب سے زیادہ مقدار دیکھی گئی ہے، اور پہلے پہل اِسے اونٹنی ہی کے دودھ میں دریافت کیا گیا تھا۔ اِس کے اثر سے چھاتی کا سرطان نہیں پھیلتا۔ علاوہ ازیں، یہ میزبان کا مدافعتی نظام متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ جراثیم کے خلاف بھی مؤثر ہے۔

  • N acyl glucosaminidase


اِسے عام طور پر NAGase بھی کہتے ہیں۔ یہ خامرہ گائے کے تھن میں سوزش کی ایک وجہ کے طور پر شناخت کیا گیا تھا۔ لہٰذا، جب اِس کی موجودگی کا انکشاف اونٹنی کے تھنوں میں ہوا تو اِس سے ماہرین کو شبہ ہوا کہ شاید یہ اونٹنی کے تھنوں میں بھی سوزش یا جلن کی وجہ بن رہا ہوگا مگر جلد ہی سینکڑوں اونٹوں اور لاما کے دودھ میں اِس کی موجودگی نے تحقیق کے زاویے بدل دیئے۔ مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ این اے گیز (NAGase) دراصل ایک ایسا خامرہ ہے جو بیکٹیریا اور وائرس کا قلع قمع کرنے کی زبردست صلاحیت رکھنے والا ایک سالماتی ہتھیار ہے جو قدرت کی جانب سے اونٹ کو عطا ہوا ہے۔

آج یہی خامرہ اونٹنی کے دودھ کے وائرس اور بیکٹیریا کے خلاف انتہائی مؤثر ہونے کا مظہر ہے۔ این اے گیز کی انسانی دودھ میں موجودگی کے بعد سے اونٹنی کے دودھ کی اہمیت، گائے کے دودھ کے مقابلے میں اور بھی بڑھ گئی ہے۔

  • اے سی ای خامرہ (ACE) یا Angiotension I-converting enzyme


یہ خامرہ فشار خون کو درست رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اونٹنی کے دودھ میں موجود ہوتا ہے۔

اونٹنی کے دودھ میں شامل پروٹین اور خامرے بہت سے جرثوموں اور وائرس کے خلاف مؤثر ہوتے ہیں پھر اِس کے دودھ کی خاص بات اِس میں ہمیشہ ضد اجسام کی موجودگی ہے۔

  • لیکٹوز (Lactose)


لیکٹوز شکر صرف حیوانی دودھ سے حاصل ہوتی ہے۔ اونٹنی کے دودھ کے مقابلے میں گائے بکری کے دودھ میں لیکٹوز کی مقدار کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ اونٹنی کے دودھ میں لیکٹوز کی مقدار 2.40 سے 5.80 فیصد ہوتی ہے۔ دودھ میں لیکٹوز کی گھٹتی بڑھتی مقدار کی وجہ سے دودھ کا ذائقہ کبھی میٹھا اور کبھی نمکین ہوتا ہے۔ لیکٹوز جسم میں مختلف معدنیات کے انجذاب میں مدد دیتے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ حیاتین د (Vitamen D) کے معاون کے طور پر جسم میں کیلشیم کے انجذاب میں مدد دیتے ہیں۔ بچوں میں لیکٹوز بڑی آنت میں لیکٹک ایسڈ بیکٹیریا کی نمو کرتے ہیں جن کی وجہ سے ہضمی نظام کی خرابیاں دور ہوجاتی ہیں اور مضرِ صحت بیکٹیریا کے خلاف موثر ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو دودھ میں شامل لیکٹوز کو ہضم نہیں کر پاتے ہیں اُن لوگوں کو اونٹنی کے دودھ میں شامل لیکٹوز کو ہضم کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی ہے۔

  • راکھ (Ash)


غذائیات کے شعبے میں جب ہم ''راکھ'' کہتے ہیں تو اِس سے مراد دودھ میں شامل دیگر اجزاء ہوتے ہیں جن میں معدنیات، حیاتین اور نمکیات وغیرہ شامل ہیں۔ اونٹنی کے دودھ میں دیگر حیوانات کے دودھ کی طرح معدنیات (Minerals) اور نمکیات (Salt) پائے جاتے ہیں۔ اِن میں کلورائیڈز (Chlorides)، فاسفیٹ (Phosphates)، فولاد، سوڈیم، پوٹاشیم، مگنیشیم اور دیگر اقسام کے معدنیات و نمکیات قابلِ ذکر ہیں۔ اونٹنی کے دودھ میں نمکیات کی مقدار ایک فیصد سے کم ہوتی ہے جن کے اثرات دودھ کے جمنے اور دیگر خصوصیات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اونٹنی کے دودھ میں کلورائیڈز اور فاسفیٹ مرکبات کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جب کہ کیلشیم کی مقدار کم ہوتی ہے۔

  • حیاتین (Vitamins)


حیاتین کے تناظر میں دیکھا جائے تو اونٹنی کے دودھ میں وٹامن اے (A)، بی وَن (B1)، بی ٹو (B2)، ای (E) اور فولک ایسڈ (Folic Acid) کی مقدار، گائے کے دودھ کے مقابلے میں کچھ کم ہوتی ہے، جب کہ وٹامن سی کی مقدار گائے کے دودھ سے تین گنا اور انسانی دودھ سے ڈیڑھ گنا زیادہ پائی جاتی ہے۔ 'وٹامن سی' حیوانات میں ان کے جگر میں تیار ہوتا ہے۔ اونٹ کے ماحول میں سبزہ نہیں ہوتا۔ ایسے ماحول میں 'وٹامن سی' کی بڑی مقدار کا حصول بہت دشوار کام ہوتا ہے جو اِس ماحول میں اونٹنی کے دودھ سے حاصل ہوسکتا ہے۔

'وٹامن سی' کی جسم کے مدافعتی نظام میں خاص اہمیت ہے۔ یہ ایک مانع تکسید (اینٹی آکسیڈنٹ) ہے جو جسم میں پیدا ہونے والے (اور جسمانی خلیات کو نقصان پہنچانے والے) آزاد اصلیوں (فری ریڈیکلز) کی تعدیل (نیوٹرلائزیشن) بھی کرتا ہے۔ 'وٹامن سی' کینسر کے خلاف بھی مؤثر ہے اور بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لیے اہم تصور کیا جاتا ہے۔

 

دودھ کی دیگر خصوصیات


اونٹنی کے دودھ میں دہی بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ یہ اگر دہی بنانے کے لیے رکھا جائے تو سطح پر اور برتن کی تہہ میں کیسین کی پتلی سے تہہ بناتا ہے۔ اونٹ کے دودھ سے دہی بنانے کے لیے اِس میں دیگر اجزاء شامل کئے جاتے ہیں جن کی مدد سے گائے کے دودھ سے بننے والی دہی جیسی (اونٹنی کے دودھ کی) دہی تشکیل پاتی ہے۔ البتہ اونٹنی کے خمیر شدہ دودھ جس کا استعمال عرب میں عام ہے اپنی خاص خصوصیات رکھتا ہے اور اِس کی خاص طبی اہمیت ہے۔

اونٹنی کے دودھ میں دیگر اجزاء ملا کر اب مختلف ذائقوں میں دہی بھی تیار کی جانے لگی ہے۔ مزید برأں، اونٹ کے دودھ میں چکنائی کی مقدار بڑھا کر آئس کریم بھی تیار کی گئی ہے جبکہ اونٹنی کے دودھ سے تیار شدہ سفید نرم پنیر اِس کے علاوہ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں