عمران خان آیندہ وزیراعظم بن سکتے ہیں بشرطیکہ …
عمران خان کا مزاج کچھ اس طرح کا ہے کہ وہ اس وقت اپوزیشن میں بھی الگ تھلگ نظر آتے ہیں
سپریم کورٹ کی جے آئی ٹی کی تفتیشی کارروائی اپنے آخری مراحل میں ہے۔ لگتا یہی ہے کہ عید کے بعد پانامہ کیس کا اونٹ کسی نہ کسی کروٹ بیٹھ جائے گا۔ مگر ایک بات ابھی سے واضح ہے کہ آیندہ الیکشن کے لیے پنجاب کی حد تک ن لیگ کے خلاف ایک بڑا انتخابی اتحاد وجود میں آ رہا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ پنجاب میں اپوزیشن کی تمام پارٹیاں اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہیں کہ پنجاب میں ن لیگ کو گرانے کے لیے اپوزیشن کو لازمی طور پر متحد ہونا ہو گا، یعنی '' ایک کے مقابلہ میںایک ''کی انتخابی حکمت عملی اختیار کرنا پڑے گی، بصورت دیگر اپوزیشن کے ووٹ آپس میںہی تقسیم ہو جائیں گے اور ن لیگ ، باوجود اپنی تمام تر کمزوریوں کے ، اس پر حاوی ہو جائے گی۔
اطلاعات یہ ہیں کہ مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت حسین اپوزیشن کے اتحاد کے لیے سرگرم ہو چکے ہیں ، بلکہ گزشتہ دنوں اپنی رہایش گاہ پرافطار ڈنر میں انھوں نے پنجاب میں مستقبل کی اپوزیشن کی ایک ہلکی سی جھلک پیش بھی کر دی تھی ۔ یہ افطار ڈنر اگرچہ بنیادی طور پر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے اعزاز میں تھا ، مگر اس میں مسلم لیگ ق کی اتحادی پارٹیوں پاکستان عوامی تحریک، مجلس وحدت المسلمین، پاکستان سنی اتحادکے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے نمایندہ وفد نے بھی پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر محمودالرشید کی سربراہی میں شرکت کی ۔ باخبر ذرایع کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی پنجاب میں ن لیگ کے خلاف اپوزیشن کو متحد کرنے کے لیے متحرک ہو چکے ہیں ۔
گزشتہ چند ہفتوں میں اس سلسلہ میں چوہدری شجاعت حسین اور سراج الحق کے درمیان تین ملاقاتیں ہوچکی ہیں ۔ پہلے سراج الحق چوہدری ظہورالٰہی روڈ پہنچے، پھر چوہدری شجاعت حسین منصورہ گئے اور اس کے بعد افطار ڈنر پر دونوں رہ نما اکٹھے ہو گئے ۔ منصورہ ملاقات میں مسلم لیگ ق اور جماعت اسلامی کے درمیان مستقبل کا انتخابی لائحہ عمل طے کرنے کے لیے ایک مشترکہ کمیٹی بھی قائم کر دی گئی۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف کے درمیان رابطوں میں بھی تیزی آ گئی ہے ۔یاد رہے کہ پنجاب میں بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے انتخاب میں تین اضلاع گجرات ، بہاولپور اور اٹک میں مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف نے مل کر حصہ لیا ہے ،اور یہ تجربہ دونوں پارٹیوں کے لیے خاصا خوشگواراور کامیاب بھی رہا ہے، کیونکہ اٹک میں یہ اتحاد ن لیگ کے مقابلہ میں کامیاب رہا ، جب کہ گجرات میں بھی ن لیگ اس سے بمشکل ہی جیت سکی ۔ تلہ گنگ کا حالیہ ضمنی الیکشن بھی مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف نے مل کر لڑا ہے۔ تلہ گنگ میں عمران خان کے انتخابی جلسہ کا بندوبست عملی طور پر تلہ گنگ میں چوہدری پرویزالٰہی کے قابل اعتماد ساتھی حافظ عمار یاسر نے ہی کیا تھا ۔
اس جلسہ میں عمران خان نے پنجاب میں پرویز الٰہی دور کی بڑی تحسین کی اور ان کے دور کو شہبازشریف دور کے مقابلہ میں ہرلحاظ سے بہتر قرار دیا ۔ ان کا یہ کہنا ایک بین السطور پیغام بھی تھا کہ آیندہ الیکشن میں تلہ گنگ میں مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف مل کر لڑیں گی۔ یہ بات اپنی جگہ دلچسپ ہے کہ ایک سال پہلے تک عام خیال یہی تھا کہ پنجاب میں جماعت اسلامی اور ن لیگ کے درمیان آیندہ الیکشن میں ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے۔ اس کے کئی اشارے مل بھی چکے تھے مثلاً ، آزاد کشمیرالیکشن میں جماعت اسلامی اور ن لیگ ایک دوسرے کی اتحادی تھیں ۔ جہلم کے ضمنی الیکشن میں بھی دونوں پارٹیاں اکٹھی تھیں۔ اگرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ جماعت اسلامی کے ان دونوں فیصلوں کو خود جماعت اسلامی کے اندر کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس حد تک کہ مرکزی مجلس شوریٰ میں امیر جماعت اسلامی بھی ان دونوں فیصلوں کا دفاع نہ کر سکے ۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں فیصلے کشمیر اور جہلم کی مقامی قیادت نے اپنی صوابدید پر کیے تھے ۔ ظاہراً جماعت اسلامی اور اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں میں موجودہ قربت اس وقت پیدا ہوئی، جب پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد سراج الحق نے بھی عمران خان کی تقلید میں وزیراعظم نوازشریف سے استعفا کا مطالبہ داغ دیا۔جلسے جلوسوںکے ذریعے حکومت مخالف مہم شروع کر دی ۔ سراج الحق کا یہ مطالبہ ن لیگ کو اتنا سخت ناگوار گزرا کہ اس کے ایک رہنما نے امیر جماعت اسلامی کے بارے میں انتہائی سخت ریمارکس دے ڈالے۔ ان ریمارکس نے جلتی پر تیل کا کام کیا، پنجاب جماعت اسلامی میں ن لیگ کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے اصحاب بھی کچھ بولنے کی پوزیشن میں نہ رہے اور جماعت اسلامی گویا کسی پکے ہوئے پھل کی طرح باقی اپوزیشن کی جھولی میں آ گری، جو اس کے لیے بہت بڑا بریک تھرو تھا۔
پنجاب میں اپوزیشن کو متحد کرنے کے لیے چوہدری شجاعت حسین اور سراج الحق ہی نہیں، شیخ رشید احمد بھی پورا زور لگا رہے ہیں۔ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اپوزیشن میں اس وقت وہ واحد رہ نما ہیں ، جن کا تمام اپوزیشن رہ نماؤں سے براہ راست رابطہ ہے۔ شیخ صاحب جتنے عمران خان کے قریب ہیں ، اتنے ہی چوہدری شجاعت حسین کے قریب ہیں ۔ بعینہ سراج الحق اور طاہرالقادری بھی ان پر پورا اعتماد کرتے ہیں ۔ یہ شیخ رشید احمد ہی ہیں، جنھوں نے عمران خان کو دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ آیندہ الیکشن پنجاب میں تحریک انصاف کے لیے تخت یا تختہ کی طرح ہے ، لیکن ن لیگ کے خلاف یہ الیکشن بھرپور طور پر تب ہی لڑا اور جیتا جا سکتا ہے ، جب پنجاب میں اپوزیشن متحد ہو گی اور ہر حلقہ میں ن لیگ کے امیدوار کے مقابلہ میں اپوزیشن کا بھی ایک ہی امیدوار ہو گا۔ شیخ رشید احمد کی اس تجویز پر عمران خان تو کسی حد تک صاد کر چکے ہیں ، لیکن ملتان کے ان تحریکی رہ نماؤں نے اس کی مخالفت کی ہے، جو عمران خان کے آیندہ وزیراعظم بننے کی صورت میں پنجاب میں وزیراعلیٰ بننے کے متمنی ہیں۔
ان کو یہ خوف لاحق ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف اور اپوزیشن کے درمیان اگر انتخابی اتحاد ہو جاتا ہے ، تو اس کی مدد سے مسلم لیگ ق پنجاب میں بہتر انتخابی نتائج دے کر متحدہ اپوزیشن کی جانب سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی امیدوار بن سکتی ہے ، نتیجتاً ان کی وزارت اعلیٰ کا پتا کٹ جائے گا ؛ مگرپارٹی کے اندر ہی دوسری رائے یہ ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ '' کچھ لو ، کچھ دو'' کی بنیاد پر ہی انتخابی سمجھوتا طے پا سکتا ہے، اور یہ کہ تحریک انصاف کا فوکس عمران خان کے وزاعظم بننے پر ہونا چاہیے ، نہ کہ شاہ محمود قریشی یا جہانگیر ترین کے وزیراعلیٰ بننے پر۔پنجاب میں ن لیگ کے خلاف اپوزیشن کو متحد کرنے کی چوہدری شجاعت حسین، سراج الحق اور شیخ رشید احمد کی کوشش اگر کامیاب ہو جاتی ہے اور یہ متحدہ اپوزیشن مل کر پنجاب سے چالیس پنتالیس نشستیں حاصل کر لیتی ہے جو کوئی مشکل ہدف نہیں ہے، تو آیندہ وزیراعظم کی دوڑ میں عمران خان اور نوازشریف برابری کی پوزیشن میں آ جائیں گے۔ اس مرحلہ پر پنجاب میں چوہدری برادران کی جوڑتوڑ کی صلاحیت عمران خان کے لیے ترپ کا پتا ثابت ہو سکتی ہے ۔
عمران خان کا مزاج کچھ اس طرح کا ہے کہ وہ اس وقت اپوزیشن میں بھی الگ تھلگ نظر آتے ہیں، لیکن چوہدری برادران ان کو متحدہ اپوزیشن کے لیے قابل قبول بنا سکتے ہیں؛ بالکل اس طرح جس طرح انھوں نے 80ء کی دھائی میں نوازشریف کو پیپلز پارٹی مخالف اپوزیشن کے لیے قابل قبول بنا دیا تھا۔ اس کے برعکس اگر عمران خان پنجاب میں چوہدری برادران ، سراج الحق اور طاہر القادری سے کھنچے کھنچے رہتے ہیں اور 2013 ء کی طرح تنہا انتخابی پرواز ہی کو ترجیح دیتے ہیں تو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر وہ بھلے بن جائیں، مگر وزیراعظم بننے کا ان کا امکان بہت کم ہو جائیگا۔ پنجاب میں تنہا پرواز کا تجربہ عمران خان کر چکے ہیں اور اس کا نتیجہ بھی بھگت چکے ہیں؛ کہتے ہیں ، آزمودہ را آزمودن کاردانشمنداں نیست ۔ لہٰذا اب ان کے لیے دوسرا آپشن ہی رہ گیا ہے ،اور یہ آپشن اگر انھوں نے صحیح طریقہ سے استعمال کیا تو میری دانست میں وہ پاکستان کے آیندہ وزیراعظم بن سکتے ہیں ۔ شاعر نے کہا تھا۔
جو تھا نہیں ہے ، جو ہے نہ ہوگا ، یہی ہے اک حرف محرمانہ
قریب ترہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ
اطلاعات یہ ہیں کہ مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت حسین اپوزیشن کے اتحاد کے لیے سرگرم ہو چکے ہیں ، بلکہ گزشتہ دنوں اپنی رہایش گاہ پرافطار ڈنر میں انھوں نے پنجاب میں مستقبل کی اپوزیشن کی ایک ہلکی سی جھلک پیش بھی کر دی تھی ۔ یہ افطار ڈنر اگرچہ بنیادی طور پر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے اعزاز میں تھا ، مگر اس میں مسلم لیگ ق کی اتحادی پارٹیوں پاکستان عوامی تحریک، مجلس وحدت المسلمین، پاکستان سنی اتحادکے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے نمایندہ وفد نے بھی پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر محمودالرشید کی سربراہی میں شرکت کی ۔ باخبر ذرایع کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی پنجاب میں ن لیگ کے خلاف اپوزیشن کو متحد کرنے کے لیے متحرک ہو چکے ہیں ۔
گزشتہ چند ہفتوں میں اس سلسلہ میں چوہدری شجاعت حسین اور سراج الحق کے درمیان تین ملاقاتیں ہوچکی ہیں ۔ پہلے سراج الحق چوہدری ظہورالٰہی روڈ پہنچے، پھر چوہدری شجاعت حسین منصورہ گئے اور اس کے بعد افطار ڈنر پر دونوں رہ نما اکٹھے ہو گئے ۔ منصورہ ملاقات میں مسلم لیگ ق اور جماعت اسلامی کے درمیان مستقبل کا انتخابی لائحہ عمل طے کرنے کے لیے ایک مشترکہ کمیٹی بھی قائم کر دی گئی۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف کے درمیان رابطوں میں بھی تیزی آ گئی ہے ۔یاد رہے کہ پنجاب میں بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے انتخاب میں تین اضلاع گجرات ، بہاولپور اور اٹک میں مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف نے مل کر حصہ لیا ہے ،اور یہ تجربہ دونوں پارٹیوں کے لیے خاصا خوشگواراور کامیاب بھی رہا ہے، کیونکہ اٹک میں یہ اتحاد ن لیگ کے مقابلہ میں کامیاب رہا ، جب کہ گجرات میں بھی ن لیگ اس سے بمشکل ہی جیت سکی ۔ تلہ گنگ کا حالیہ ضمنی الیکشن بھی مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف نے مل کر لڑا ہے۔ تلہ گنگ میں عمران خان کے انتخابی جلسہ کا بندوبست عملی طور پر تلہ گنگ میں چوہدری پرویزالٰہی کے قابل اعتماد ساتھی حافظ عمار یاسر نے ہی کیا تھا ۔
اس جلسہ میں عمران خان نے پنجاب میں پرویز الٰہی دور کی بڑی تحسین کی اور ان کے دور کو شہبازشریف دور کے مقابلہ میں ہرلحاظ سے بہتر قرار دیا ۔ ان کا یہ کہنا ایک بین السطور پیغام بھی تھا کہ آیندہ الیکشن میں تلہ گنگ میں مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف مل کر لڑیں گی۔ یہ بات اپنی جگہ دلچسپ ہے کہ ایک سال پہلے تک عام خیال یہی تھا کہ پنجاب میں جماعت اسلامی اور ن لیگ کے درمیان آیندہ الیکشن میں ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے۔ اس کے کئی اشارے مل بھی چکے تھے مثلاً ، آزاد کشمیرالیکشن میں جماعت اسلامی اور ن لیگ ایک دوسرے کی اتحادی تھیں ۔ جہلم کے ضمنی الیکشن میں بھی دونوں پارٹیاں اکٹھی تھیں۔ اگرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ جماعت اسلامی کے ان دونوں فیصلوں کو خود جماعت اسلامی کے اندر کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس حد تک کہ مرکزی مجلس شوریٰ میں امیر جماعت اسلامی بھی ان دونوں فیصلوں کا دفاع نہ کر سکے ۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں فیصلے کشمیر اور جہلم کی مقامی قیادت نے اپنی صوابدید پر کیے تھے ۔ ظاہراً جماعت اسلامی اور اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں میں موجودہ قربت اس وقت پیدا ہوئی، جب پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد سراج الحق نے بھی عمران خان کی تقلید میں وزیراعظم نوازشریف سے استعفا کا مطالبہ داغ دیا۔جلسے جلوسوںکے ذریعے حکومت مخالف مہم شروع کر دی ۔ سراج الحق کا یہ مطالبہ ن لیگ کو اتنا سخت ناگوار گزرا کہ اس کے ایک رہنما نے امیر جماعت اسلامی کے بارے میں انتہائی سخت ریمارکس دے ڈالے۔ ان ریمارکس نے جلتی پر تیل کا کام کیا، پنجاب جماعت اسلامی میں ن لیگ کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے اصحاب بھی کچھ بولنے کی پوزیشن میں نہ رہے اور جماعت اسلامی گویا کسی پکے ہوئے پھل کی طرح باقی اپوزیشن کی جھولی میں آ گری، جو اس کے لیے بہت بڑا بریک تھرو تھا۔
پنجاب میں اپوزیشن کو متحد کرنے کے لیے چوہدری شجاعت حسین اور سراج الحق ہی نہیں، شیخ رشید احمد بھی پورا زور لگا رہے ہیں۔ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اپوزیشن میں اس وقت وہ واحد رہ نما ہیں ، جن کا تمام اپوزیشن رہ نماؤں سے براہ راست رابطہ ہے۔ شیخ صاحب جتنے عمران خان کے قریب ہیں ، اتنے ہی چوہدری شجاعت حسین کے قریب ہیں ۔ بعینہ سراج الحق اور طاہرالقادری بھی ان پر پورا اعتماد کرتے ہیں ۔ یہ شیخ رشید احمد ہی ہیں، جنھوں نے عمران خان کو دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ آیندہ الیکشن پنجاب میں تحریک انصاف کے لیے تخت یا تختہ کی طرح ہے ، لیکن ن لیگ کے خلاف یہ الیکشن بھرپور طور پر تب ہی لڑا اور جیتا جا سکتا ہے ، جب پنجاب میں اپوزیشن متحد ہو گی اور ہر حلقہ میں ن لیگ کے امیدوار کے مقابلہ میں اپوزیشن کا بھی ایک ہی امیدوار ہو گا۔ شیخ رشید احمد کی اس تجویز پر عمران خان تو کسی حد تک صاد کر چکے ہیں ، لیکن ملتان کے ان تحریکی رہ نماؤں نے اس کی مخالفت کی ہے، جو عمران خان کے آیندہ وزیراعظم بننے کی صورت میں پنجاب میں وزیراعلیٰ بننے کے متمنی ہیں۔
ان کو یہ خوف لاحق ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف اور اپوزیشن کے درمیان اگر انتخابی اتحاد ہو جاتا ہے ، تو اس کی مدد سے مسلم لیگ ق پنجاب میں بہتر انتخابی نتائج دے کر متحدہ اپوزیشن کی جانب سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی امیدوار بن سکتی ہے ، نتیجتاً ان کی وزارت اعلیٰ کا پتا کٹ جائے گا ؛ مگرپارٹی کے اندر ہی دوسری رائے یہ ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ '' کچھ لو ، کچھ دو'' کی بنیاد پر ہی انتخابی سمجھوتا طے پا سکتا ہے، اور یہ کہ تحریک انصاف کا فوکس عمران خان کے وزاعظم بننے پر ہونا چاہیے ، نہ کہ شاہ محمود قریشی یا جہانگیر ترین کے وزیراعلیٰ بننے پر۔پنجاب میں ن لیگ کے خلاف اپوزیشن کو متحد کرنے کی چوہدری شجاعت حسین، سراج الحق اور شیخ رشید احمد کی کوشش اگر کامیاب ہو جاتی ہے اور یہ متحدہ اپوزیشن مل کر پنجاب سے چالیس پنتالیس نشستیں حاصل کر لیتی ہے جو کوئی مشکل ہدف نہیں ہے، تو آیندہ وزیراعظم کی دوڑ میں عمران خان اور نوازشریف برابری کی پوزیشن میں آ جائیں گے۔ اس مرحلہ پر پنجاب میں چوہدری برادران کی جوڑتوڑ کی صلاحیت عمران خان کے لیے ترپ کا پتا ثابت ہو سکتی ہے ۔
عمران خان کا مزاج کچھ اس طرح کا ہے کہ وہ اس وقت اپوزیشن میں بھی الگ تھلگ نظر آتے ہیں، لیکن چوہدری برادران ان کو متحدہ اپوزیشن کے لیے قابل قبول بنا سکتے ہیں؛ بالکل اس طرح جس طرح انھوں نے 80ء کی دھائی میں نوازشریف کو پیپلز پارٹی مخالف اپوزیشن کے لیے قابل قبول بنا دیا تھا۔ اس کے برعکس اگر عمران خان پنجاب میں چوہدری برادران ، سراج الحق اور طاہر القادری سے کھنچے کھنچے رہتے ہیں اور 2013 ء کی طرح تنہا انتخابی پرواز ہی کو ترجیح دیتے ہیں تو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر وہ بھلے بن جائیں، مگر وزیراعظم بننے کا ان کا امکان بہت کم ہو جائیگا۔ پنجاب میں تنہا پرواز کا تجربہ عمران خان کر چکے ہیں اور اس کا نتیجہ بھی بھگت چکے ہیں؛ کہتے ہیں ، آزمودہ را آزمودن کاردانشمنداں نیست ۔ لہٰذا اب ان کے لیے دوسرا آپشن ہی رہ گیا ہے ،اور یہ آپشن اگر انھوں نے صحیح طریقہ سے استعمال کیا تو میری دانست میں وہ پاکستان کے آیندہ وزیراعظم بن سکتے ہیں ۔ شاعر نے کہا تھا۔
جو تھا نہیں ہے ، جو ہے نہ ہوگا ، یہی ہے اک حرف محرمانہ
قریب ترہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ