سچ محاذِ جنگ پر
میں ان چہروں پر نگاہ ڈالتی ہوں اور مجھے ان صحافیوں کا خیال آتا ہے جو اپنی سچی اور کھری لکھت کے سبب اٹھا لیے گئے
پنج ستارہ ہوٹل کا خنک ایوان روشنیوں سے جگ مگ کرتا ہے۔ روزنامہ 'ایکسپریس' اور 'ایکسپریس ٹی وی' کے سلطان لاکھانی ، اعجازالحق اور طاہر نجمی مہمانوں کا استقبال کررہے ہیں۔ 'عبرت' کے قاضی اسد عابد، ڈاکٹر جبار خٹک، تنویر شیخ اور توصیف احمد خان پر نگاہ پڑتی ہے تو میں ان ہی کی میز کی طرف بڑھ جاتی ہوں ۔ بڑے اسکرین پر چیمپئنز ٹرافی کا میچ دکھایا جارہا ہے۔کچھ لوگ اپنی نشستیں چھوڑ کر اسکرین کے قریب جمع ہیں اور میچ دیکھنے میں مصروف ہیں۔ یہ لیکسن ٹوبیکو اور 'ایکسپریس' کی دعوتِ افطار ہے جس میں شہر کے کئی مالکانِ اخبار، صحافی اور کالم نگار موجود ہیں۔
میں ان چہروں پر نگاہ ڈالتی ہوں اور مجھے ان صحافیوں کا خیال آتا ہے جو اپنی سچی اور کھری لکھت کے سبب اٹھا لیے گئے۔ ان میں سے کچھ 'لاپتہ' ہوئے، کچھ کی تشدد زدہ لاشیں ملیں اور کچھ واپس آئے تو اس حال میں کہ پھر انھوں نے 'سچ' کی طرف دیکھنے کی ہمت ہی نہیں کی۔
مجھے یاد آتا ہے کہ چند ہفتوں پہلے 3 مئی گزری ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ساری دنیا میں اقوام متحدہ کی طرف سے پریس کی آزادی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس روز دنیا بھر کے صحافی، آزادیٔ صحافت کا جشن مناتے ہیں۔ آزادی تحریر کے اصولوں پر اصرار کیا جاتا ہے اور صحافی تنظیمیں میڈیا کی آزادی پر ہونے والے حملوں کے خلاف جلسے کرتی ہیں، جلوس نکالتی ہیں۔ ان صحافیوں کو نذرانۂ عقیدت پیش کرتی ہیں جنھوں نے سچ کی تلاش میں اپنی جان دے دی۔ دنیا کے اکابرین اس موقع پر بیانات جاری کرتے ہیں۔ اس مرتبہ اقوام متحدہ کے نئے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ آج کے دن میں اس بات پر اصرار کرتا ہوں کہ صحافیوں کے خلاف تشدد بند کیا جائے اور انھیں ہراساں کرنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ آزاد صحافت سب کے لیے امن اور انصاف کی طلب گار ہوتی ہے۔
آزادی صحافت کی اہمیت کا اندازہ مدبرین اور مفکرین کو اٹھارویں اور انیسویں صدی سے ہوگیا تھا اور انھوں نے آزادیٔ اظہار کی حمایت میں آواز بلند کرنی شروع کردی تھی۔ اس کی ایک مثال بہائی رہنما کا وہ بیان ہے جو انھوں نے آج سے لگ بھگ ڈیڑھ صدی پہلے دیا تھا۔ وہ ایران سے تعلق رکھنے والے ایک مذہبی رہنما تھے اور آزادی ٔ اظہار کے دور رس نتائج سے آگاہ تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ رپورٹر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ اچھے اور برے رپورٹر ۔ وہ جو سچ کے آئینے میں حقائق کو دیکھتے ہیں، وہ سورج کی طرح ہیں جس سے ساری دنیا روشن ہوجاتی ہے۔ وہ اخبارات کو ساری دنیا کا آئینہ کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اخبارات کے آئینے میں تمام دنیا کے ملکوں اور انسانوں کے اعمال دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس برس یونیسکو / گوئیلر مو کانو ایوارڈ اریٹیریا نژاد سوئیڈش صحافی دعوت اسحاق کو دیا گیا۔ دعوت کو ستمبر 2001 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب اریٹیریا میں صحافیوں پر حکومت کا قہر ٹوٹا۔ 2005 سے دعوت کی کوئی خیر خبر نہیں ہے۔ اب اس بات کو 12برس ہوچکے کہ دعوت مفقود الخبر ہے۔گوئیلر موکانو، کولمبیا کا نڈر اور بے باک صحافی تھا۔ اس نے کولمبیا میں منشیات کے خطرناک حد تک طاقتور سرکردہ تاجروں کے بارے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ لکھی اور منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ۔ بگوٹا میں 17 دسمبر 1986 کو اسے اس کے اخبار کے دفتر کے سامنے ہلاک کردیا گیا تھا۔ اسی کے بعد اس کی خدمات کے اعتراف میں یہ انعام جاری کیا گیا۔ کچھ برسوں سے آزاد صحافیوں کی زندگی زہر ہوتی جارہی ہے۔ اس سال ترکی میں صحافیوں نے اپنے 120 ساتھیوں کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ ان میں صحافی، کالم نگار اور کارٹونسٹ سب ہی شامل ہیں۔
یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب 2016 میں موجودہ ترک حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ان گرفتار شدگان میں سے بیشتر نے ٹوئیٹر پر اپنے خیالات کا بے محابا اظہار کیا تھا۔ ان پر 'غداری' کا الزام لگایا گیا ہے۔ ورلڈ پریس فریڈم انڈکس نے اس مرتبہ 180 ملکوں کی فہرست میں ترکی کو 155 واں نمبر دیا ہے۔ اسی طرح 180 ملکوں میں سے امریکا کا نمبر 43 واں ہے۔ ایمنسٹی کی امریکا شاخ نے رپورٹ جاری کی ہے کہ امریکا میں متعدد ایسے صحافی گرفتار کیے گئے ہیں جنھوں نے صدر ٹرمپ کی حلف برداری کے موقع پر واشنگٹن اور دوسرے شہروں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی اور فروری میں متنازعہ 'ڈ کوٹا ایکسس پائپ لائن' کی خبریں شایع کی تھیں۔ ان میں خاتون صحافی بھی شامل ہیں۔
ایک خاتون رپورٹر کا کہنا تھا کہ پولیس نے اسے دیگر 18خواتین کے ساتھ ہتھکڑیاں پہنا کر اور بیڑیاں ڈال کر گھنٹوں بند رکھا۔ یہ 'آزاد صحافت' کا دعویٰ کرنے والے امریکا میں ہوا۔ یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آئیرینا بوکوا نے یہ خبر سنائی کہ 2016 میں ساری دنیا سے 102 صحافی قتل کیے گئے۔ آئیرینا نے یہ بھی کہا کہ اکثر سنسرشپ کا سب سے سہل طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اور وہ ہے صحافی کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا۔ ترکی، مصر، میکسیکو، امریکا اور دنیا کے ایسے تمام ملک جہاں صحافی سچ لکھ کر اپنا فرض ادا کررہے ہیں اور جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں، ان کی حمایت ہر اس فرد پر فرض ہے جو سمجھتا ہے کہ سچ لکھنے والے یہ لوگ کسی ایک ملک کا نہیں، ساری دنیا کا اثاثہ ہیں۔ یہ وہ سپاہی ہیں جن کے بدن پر وردی نہیں لیکن وہ محاذِ جنگ پر کھڑے ہیں۔
اقوام متحدہ نے 3 مئی 1993 کو آزادیٔ اظہار کے عالمی دن کے طور پر نامزد کیا تھا۔ اس نامزدگی میں بڑا ہاتھ براعظم افریقا کے نڈر اور بے باک صحافیوں کی طرف سے ونڈہوک ڈیکلریشن کا اعلان تھا۔ یہ وہ ڈیکلریشن تھا جس نے عالمی صحافت کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کرلی اور صحافیوں کی گرفتاریوں، ان پر تشدد اور ان کے 'لاپتہ' ہونے کے نہایت اہم معاملات پر ساری دنیا میں احتجاج ہونے لگا۔ افریقی صحافیوں نے ای میل الرٹ سسٹم کا آغاز کیا تاکہ صرف افریقا ہی نہیں ساری دنیا کے صحافیوں اور عوام کو صحافیوں پر گزرنے والی داستانِ ستم سے آگاہ کیا جاسکے۔ افریقی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد، راہ کو پُر خار دیکھ کر ایک طرف ہوگئی لیکن کچھ لوگوں نے ہمت نہیں ہاری۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہم جمہوریت اور جمہوری رویوں کی بات کرتے ہیں تو وہ آزاد، کثیر المشرب اور خود مختار پریس کے بغیر قائم نہیں ہوسکتی اور نہ اپنے اپنے ملکوں میں پائیدار اور ہموار بنیادوں پر شرفِ انسانیت اور لکھے ہوئے لفظوں کی توقیر کا سفر آگے بڑھ سکتا ہے۔
یہ بھی افریقی صحافی تھے جنھوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی پر زور ڈالا کہ وہ آنے والے دنوں میں عالمی سطح پر کوئی ایک دن آزادیٔ تحریر کے حوالے سے مخصوص کرے۔ اسی کے بعد ہی 3 مئی 1993 کو آزادیٔ تحریر کے حوالے سے یاد کیا جانے لگا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ 1991 میں نمبیا کے شہر ونڈ ہوک میں ہونے والی پانچ روزہ کانفرنس کے بطن سے آزادی تحریر اور آزادیٔ صحافت کا دن طلوع ہوا۔ یہ کانفرنس افریقی صحافیوں کے مسائل و معاملات کا احاطہ کرنے کے لیے منعقد کی گئی تھی لیکن اس کے مقاصد اتنے عظیم اور انسانی بنیادیں رکھتے تھے کہ صرف ایک برس بعد 1992 میں صحافیوں اور لکھنے والوں کی ایک کانفرنس کرغزستان کے شہر الماآتا میں منعقد ہوئی جس نے ونڈہوک کا نفرنس کے تمام اغراض و مقاصد کی حمایت کی اور یہ حمایت ان صحافیوں کے بہت کام آئی جو مطلق العنان آمروں یا جمہوریت کا مکھوٹا چڑھا کر سامنے آنے والے فاشسٹ حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرتے تھے۔ ان میں سے اکثر 'لاپتہ' ہوجاتے تھے یا ان کی تشدد زدہ لاشیں کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی جاتی تھیں۔ ونڈ ہوک، الماآتا، سان تیاگو، اور یمن کے شہر صنعا میں ہونے والی کانفرنسوں نے ان ملکوں کے صحافیوں کو کم سے کم اخلاقی حمایت بخشی جن کا اس سے پہلے کوئی والی وارث نہ تھا۔
اس روز پنج ستارہ ہوٹل کے خنک ماحول میں ہنستے ہوئے اور پُر امید چہروں والے صحافیوں کو دیکھ کر یہی آرزو ہوئی کہ سچ کے محاذ پر جری اور جاں نثار صحافیوں کو ساری دنیا سے کمک پہنچتی رہے اور ان کا مقدر سلیم شہزاد ایسا نہ ہو، یہ حسرت بھی ہوئی کہ اس کے قاتل اپنے انجام تک پہنچیں اور اسے انصاف ملے۔ اس وقت کامیؤ اور کنگ یاد آئے۔ آزادی تحریر صرف صحافیوں کا نہیں ادیبوں کا بھی مسئلہ ہے اور بعض حالات میں ادیبوں کا زیادہ مسئلہ ہے۔ البرٹ کامیؤ نے تب ہی کہا تھا کہ آزاد پریس اچھا یا برا ہو سکتا ہے لیکن آزادی کے بغیر پریس صرف برا ہو سکتا ہے۔ کامیؤ صحافی تھا، ادیب تھا، اس نے کیا غلط کہا تھا ۔ اس سے بھی کہیں بڑھ کر شہری آزادیوں کے سیاہ فام امریکی رہنما مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا کہ آزادی کبھی بھی آزادی سلب کرنے والے نہیں دے سکتے، یہ ان سے چھیننی پڑتی ہے۔
میں ان چہروں پر نگاہ ڈالتی ہوں اور مجھے ان صحافیوں کا خیال آتا ہے جو اپنی سچی اور کھری لکھت کے سبب اٹھا لیے گئے۔ ان میں سے کچھ 'لاپتہ' ہوئے، کچھ کی تشدد زدہ لاشیں ملیں اور کچھ واپس آئے تو اس حال میں کہ پھر انھوں نے 'سچ' کی طرف دیکھنے کی ہمت ہی نہیں کی۔
مجھے یاد آتا ہے کہ چند ہفتوں پہلے 3 مئی گزری ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ساری دنیا میں اقوام متحدہ کی طرف سے پریس کی آزادی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس روز دنیا بھر کے صحافی، آزادیٔ صحافت کا جشن مناتے ہیں۔ آزادی تحریر کے اصولوں پر اصرار کیا جاتا ہے اور صحافی تنظیمیں میڈیا کی آزادی پر ہونے والے حملوں کے خلاف جلسے کرتی ہیں، جلوس نکالتی ہیں۔ ان صحافیوں کو نذرانۂ عقیدت پیش کرتی ہیں جنھوں نے سچ کی تلاش میں اپنی جان دے دی۔ دنیا کے اکابرین اس موقع پر بیانات جاری کرتے ہیں۔ اس مرتبہ اقوام متحدہ کے نئے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ آج کے دن میں اس بات پر اصرار کرتا ہوں کہ صحافیوں کے خلاف تشدد بند کیا جائے اور انھیں ہراساں کرنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ آزاد صحافت سب کے لیے امن اور انصاف کی طلب گار ہوتی ہے۔
آزادی صحافت کی اہمیت کا اندازہ مدبرین اور مفکرین کو اٹھارویں اور انیسویں صدی سے ہوگیا تھا اور انھوں نے آزادیٔ اظہار کی حمایت میں آواز بلند کرنی شروع کردی تھی۔ اس کی ایک مثال بہائی رہنما کا وہ بیان ہے جو انھوں نے آج سے لگ بھگ ڈیڑھ صدی پہلے دیا تھا۔ وہ ایران سے تعلق رکھنے والے ایک مذہبی رہنما تھے اور آزادی ٔ اظہار کے دور رس نتائج سے آگاہ تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ رپورٹر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ اچھے اور برے رپورٹر ۔ وہ جو سچ کے آئینے میں حقائق کو دیکھتے ہیں، وہ سورج کی طرح ہیں جس سے ساری دنیا روشن ہوجاتی ہے۔ وہ اخبارات کو ساری دنیا کا آئینہ کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اخبارات کے آئینے میں تمام دنیا کے ملکوں اور انسانوں کے اعمال دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس برس یونیسکو / گوئیلر مو کانو ایوارڈ اریٹیریا نژاد سوئیڈش صحافی دعوت اسحاق کو دیا گیا۔ دعوت کو ستمبر 2001 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب اریٹیریا میں صحافیوں پر حکومت کا قہر ٹوٹا۔ 2005 سے دعوت کی کوئی خیر خبر نہیں ہے۔ اب اس بات کو 12برس ہوچکے کہ دعوت مفقود الخبر ہے۔گوئیلر موکانو، کولمبیا کا نڈر اور بے باک صحافی تھا۔ اس نے کولمبیا میں منشیات کے خطرناک حد تک طاقتور سرکردہ تاجروں کے بارے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ لکھی اور منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ۔ بگوٹا میں 17 دسمبر 1986 کو اسے اس کے اخبار کے دفتر کے سامنے ہلاک کردیا گیا تھا۔ اسی کے بعد اس کی خدمات کے اعتراف میں یہ انعام جاری کیا گیا۔ کچھ برسوں سے آزاد صحافیوں کی زندگی زہر ہوتی جارہی ہے۔ اس سال ترکی میں صحافیوں نے اپنے 120 ساتھیوں کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ ان میں صحافی، کالم نگار اور کارٹونسٹ سب ہی شامل ہیں۔
یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب 2016 میں موجودہ ترک حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ان گرفتار شدگان میں سے بیشتر نے ٹوئیٹر پر اپنے خیالات کا بے محابا اظہار کیا تھا۔ ان پر 'غداری' کا الزام لگایا گیا ہے۔ ورلڈ پریس فریڈم انڈکس نے اس مرتبہ 180 ملکوں کی فہرست میں ترکی کو 155 واں نمبر دیا ہے۔ اسی طرح 180 ملکوں میں سے امریکا کا نمبر 43 واں ہے۔ ایمنسٹی کی امریکا شاخ نے رپورٹ جاری کی ہے کہ امریکا میں متعدد ایسے صحافی گرفتار کیے گئے ہیں جنھوں نے صدر ٹرمپ کی حلف برداری کے موقع پر واشنگٹن اور دوسرے شہروں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی اور فروری میں متنازعہ 'ڈ کوٹا ایکسس پائپ لائن' کی خبریں شایع کی تھیں۔ ان میں خاتون صحافی بھی شامل ہیں۔
ایک خاتون رپورٹر کا کہنا تھا کہ پولیس نے اسے دیگر 18خواتین کے ساتھ ہتھکڑیاں پہنا کر اور بیڑیاں ڈال کر گھنٹوں بند رکھا۔ یہ 'آزاد صحافت' کا دعویٰ کرنے والے امریکا میں ہوا۔ یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آئیرینا بوکوا نے یہ خبر سنائی کہ 2016 میں ساری دنیا سے 102 صحافی قتل کیے گئے۔ آئیرینا نے یہ بھی کہا کہ اکثر سنسرشپ کا سب سے سہل طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اور وہ ہے صحافی کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا۔ ترکی، مصر، میکسیکو، امریکا اور دنیا کے ایسے تمام ملک جہاں صحافی سچ لکھ کر اپنا فرض ادا کررہے ہیں اور جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں، ان کی حمایت ہر اس فرد پر فرض ہے جو سمجھتا ہے کہ سچ لکھنے والے یہ لوگ کسی ایک ملک کا نہیں، ساری دنیا کا اثاثہ ہیں۔ یہ وہ سپاہی ہیں جن کے بدن پر وردی نہیں لیکن وہ محاذِ جنگ پر کھڑے ہیں۔
اقوام متحدہ نے 3 مئی 1993 کو آزادیٔ اظہار کے عالمی دن کے طور پر نامزد کیا تھا۔ اس نامزدگی میں بڑا ہاتھ براعظم افریقا کے نڈر اور بے باک صحافیوں کی طرف سے ونڈہوک ڈیکلریشن کا اعلان تھا۔ یہ وہ ڈیکلریشن تھا جس نے عالمی صحافت کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کرلی اور صحافیوں کی گرفتاریوں، ان پر تشدد اور ان کے 'لاپتہ' ہونے کے نہایت اہم معاملات پر ساری دنیا میں احتجاج ہونے لگا۔ افریقی صحافیوں نے ای میل الرٹ سسٹم کا آغاز کیا تاکہ صرف افریقا ہی نہیں ساری دنیا کے صحافیوں اور عوام کو صحافیوں پر گزرنے والی داستانِ ستم سے آگاہ کیا جاسکے۔ افریقی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد، راہ کو پُر خار دیکھ کر ایک طرف ہوگئی لیکن کچھ لوگوں نے ہمت نہیں ہاری۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہم جمہوریت اور جمہوری رویوں کی بات کرتے ہیں تو وہ آزاد، کثیر المشرب اور خود مختار پریس کے بغیر قائم نہیں ہوسکتی اور نہ اپنے اپنے ملکوں میں پائیدار اور ہموار بنیادوں پر شرفِ انسانیت اور لکھے ہوئے لفظوں کی توقیر کا سفر آگے بڑھ سکتا ہے۔
یہ بھی افریقی صحافی تھے جنھوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی پر زور ڈالا کہ وہ آنے والے دنوں میں عالمی سطح پر کوئی ایک دن آزادیٔ تحریر کے حوالے سے مخصوص کرے۔ اسی کے بعد ہی 3 مئی 1993 کو آزادیٔ تحریر کے حوالے سے یاد کیا جانے لگا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ 1991 میں نمبیا کے شہر ونڈ ہوک میں ہونے والی پانچ روزہ کانفرنس کے بطن سے آزادی تحریر اور آزادیٔ صحافت کا دن طلوع ہوا۔ یہ کانفرنس افریقی صحافیوں کے مسائل و معاملات کا احاطہ کرنے کے لیے منعقد کی گئی تھی لیکن اس کے مقاصد اتنے عظیم اور انسانی بنیادیں رکھتے تھے کہ صرف ایک برس بعد 1992 میں صحافیوں اور لکھنے والوں کی ایک کانفرنس کرغزستان کے شہر الماآتا میں منعقد ہوئی جس نے ونڈہوک کا نفرنس کے تمام اغراض و مقاصد کی حمایت کی اور یہ حمایت ان صحافیوں کے بہت کام آئی جو مطلق العنان آمروں یا جمہوریت کا مکھوٹا چڑھا کر سامنے آنے والے فاشسٹ حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرتے تھے۔ ان میں سے اکثر 'لاپتہ' ہوجاتے تھے یا ان کی تشدد زدہ لاشیں کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی جاتی تھیں۔ ونڈ ہوک، الماآتا، سان تیاگو، اور یمن کے شہر صنعا میں ہونے والی کانفرنسوں نے ان ملکوں کے صحافیوں کو کم سے کم اخلاقی حمایت بخشی جن کا اس سے پہلے کوئی والی وارث نہ تھا۔
اس روز پنج ستارہ ہوٹل کے خنک ماحول میں ہنستے ہوئے اور پُر امید چہروں والے صحافیوں کو دیکھ کر یہی آرزو ہوئی کہ سچ کے محاذ پر جری اور جاں نثار صحافیوں کو ساری دنیا سے کمک پہنچتی رہے اور ان کا مقدر سلیم شہزاد ایسا نہ ہو، یہ حسرت بھی ہوئی کہ اس کے قاتل اپنے انجام تک پہنچیں اور اسے انصاف ملے۔ اس وقت کامیؤ اور کنگ یاد آئے۔ آزادی تحریر صرف صحافیوں کا نہیں ادیبوں کا بھی مسئلہ ہے اور بعض حالات میں ادیبوں کا زیادہ مسئلہ ہے۔ البرٹ کامیؤ نے تب ہی کہا تھا کہ آزاد پریس اچھا یا برا ہو سکتا ہے لیکن آزادی کے بغیر پریس صرف برا ہو سکتا ہے۔ کامیؤ صحافی تھا، ادیب تھا، اس نے کیا غلط کہا تھا ۔ اس سے بھی کہیں بڑھ کر شہری آزادیوں کے سیاہ فام امریکی رہنما مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا کہ آزادی کبھی بھی آزادی سلب کرنے والے نہیں دے سکتے، یہ ان سے چھیننی پڑتی ہے۔