کون کہتا ہے تاریخ رقم ہوئی
آج حکمران کسی ڈکٹیٹر کے سامنے پیش ہو کر تاریخ رقم نہیں کر رہے،
جاڑے کے دن ہوں ، شاہی قلعہ کی دیواریں ہوں، زندگی گزر نہیں بلکہ گھسٹ رہی ہو، درگت بنانے اور چاروں شانے چت کرنے کے لیے وحشی اہلکار ہوں ، اُلٹا سیدھا ٹانگ کر تشددکیا جا رہا ہو، چارپائی کے ساتھ باندھ کر خوفناک انداز میں انسانیت کی تذلیل کی جاتی ہو، نازک جگہوں پر مرچیں ڈال کر تماشا دیکھا جاتا ہو اورگند سے بھرا ہوا کھانا دیا جاتا ہو... یہ ہے 1982ء کا وہ پرتشدد ماحول جب جنرل ضیاء الحق کی حکومت آچکی تھی اور ہزاروں مخالفین کے بھرکس نکالنے کے لیے اُن سے تفتیش کی جاتی تھی اورحقیقت میں ''تاریخ'' رقم ہو رہی تھی۔ اس کے مقابلے میں آج ٹھنڈے ٹھار کمروں میں تفتیش، گاڑیوںسے نکلتے ہوئے فوٹو سیشنز، لائیو کوریج کے مزے،''فاتحین '' کی طرح ہاتھ ہلاتے اندر داخل ہونا اور پھر ''ڈبل فاتحین''کی طرح باہر آنا ، نعروں کا جواب دینا اور پھر خطاب فرمانا اور پھر روانہ ہوجانا اور اللے تللے، حواریوں کا یہ کہنا کہ آج ہم نے تاریخ رقم کردی، اس سے بڑا مذاق اور ظلم ہو نہیں سکتا! بقول شاعر
دہرائی پھر یزیدوں نے تاریخ کربلا
خونِ ناحق کا یہ نیا باب دیکھنا
آج حکمران کسی ڈکٹیٹر کے سامنے پیش ہو کر تاریخ رقم نہیں کر رہے، نہ ہی کسی انگریز حکومت کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے ہیں، نہ ہی بھارت و اسرائیل نے پاکستان پر حملہ کرنے کی دھمکی دے دی ہے جس پر حکمرانوں نے لڑ کر مرنے کا فیصلہ کیاہے۔ یہ حکمران تو اپنی کرپشن کے سلسلے میں پیش ہو رہے ہیں اس لیے یہ کہنا کہ یہ تاریخی دن ہیں سراسر اس ملک و قوم کے ساتھ زیادتی ہے، حالانکہ یہ دن حکمرانوں کے لیے خود احتسابی کے دن ہیں کیوں کہ اُن سے عوام کے پیسوں کی پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔اُن سے پوچھ گچھ ہو رہی ہے کہ وہ ایک عام سیاستدان سے ملک کے امیر ترین سیاستدان کیسے بن گئے؟
تاریخ دان تو آج یہ لکھ رہے ہیں کہ ایک خاندان کے اتنے افراد کرپشن کے کیس میں پیش ہوئے۔ اور ملزمان پر تفتیش جاری تھی تو وہ اعلیٰ وزارتوں پر براجمان بھی تھے۔ تاریخ میں تو یہ لکھا جا رہا ہے کہ 18ویں سے لے کر 21ویں گریڈ تک کے آفیسرز نے ملک کے سب سے اعلیٰ عہدے رکھنے والوں کی تفتیش کی۔ اصل تاریخ تو اُن قوموں کی لکھی گئی ، جو اپنے اوپر لگے الزامات سن کر ہی یا تو استعفیٰ دے دیتے یا خود کشی کرلیتے... اصل تاریخ تو مالٹا کے وزیراعظم نے رقم کی کہ جس نے پانامالیکس میں اہلیہ کانام آنے پر اقتدار چھوڑ کر قبل ازوقت انتخابات کروادیے ،تاریخ تو آئس لینڈ کے وزیراعظم نے رقم کی کہ جس کی آف شور کمپنی نکلنے پر عوام جب سڑکوں پر آئے تواس نے اقتدار سے علیحدہ ہو کر خود کوتفتیش کے لیے پیش کردیا ،تاریخ تو آسٹریلیا نے رقم کی کہ دوست کو نوازنے پر اپنے وزیر معدنیات کو جیل بھجوا دیا ، تاریخ تو فرانس نے رقم کی کہ ٹیکس فراڈ پر اپنے وزیر بجٹ کو 3سال اور اس کی بیگم کو 2سال کے لیے اندر کر دیا اور تاریخ تو اسپین نے رقم کی کہ ایک کرپشن اسکینڈل میں گواہی کے لیے آنے والے وزیراعظم سے کہا گیا کہ '' وزیراعظم بن کر نہیں ایک عام آدمی کی طرح عدالت میں آنا ''۔
یہاں تاریخ پرتاریخ رقم کرتے اپنے سب سے بڑے اتحادی چین پر بھی ایک نظر ڈالیں ،چین میں ایک عرصے تک چوری کی سزا موت اور چور کے سر پر گولی مار کر لاش تب تک ورثا کے حوالے نہ کی جاتی کہ جب تک ورثاچوری کا مال واپس اور گولی کا معاوضہ نہ دیدیتے۔ تاریخ کیسے رقم ہوتی ہے؟ یہ حکمرانوں کو نہیں علم...جنوبی کوریا کی مثال لیجیے جہاں 16سال تک جنوبی کوریا کے صدر رہنے والے جنرل پارک چنگ کی بیٹی ،انتہائی مقبول سیاسی رہنما اور ملک کی پہلی خاتون صدر پارک گن پر دوست کو سیاسی فائدے پہنچانے اور کرپشن میں مدد دینے کا الزام لگا، اپوزیشن اور میڈیا نے معاملہ عوام تک پہنچایا ،لوگ سٹرکوں پر آئے اورایسے آئے کہ جنوبی کوریا میں 1980ء کی جمہوریت بحالی تحریک کے بعد یہ سب سے بڑے مظاہرے ثابت ہوئے ،عوامی دباؤ بڑھا، تحقیقات شروع ہوئیں ، 31اکتوبر 2016ء کو صدر پارک گن کی 60سالہ دوست چوئی سون سل گرفتار ہوئیں ، کورین پارلیمنٹ نے صدر کے مواخذے کی تحریک منظور کی ،معاملہ سپریم کورٹ میں آیا، 10مارچ 2017ء کو سپریم کورٹ نے صدرکو برطرف کیا۔
31مارچ کی صبح سابق صدر بھی گرفتار ہوئیں ، سیول کے حراستی مرکز میں 14گھنٹے تک پوچھ گچھ ہوئی ،عام قیدیوں کا لباس پہناکر ،ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگا کر اور بازو رسیوں سے باندھ کر تصویریں کھینچیں، تصویریںمیڈیا کودی گئیں اور انھیں جیل بھجوا دیا گیا ، تاریخ رقم ہوتے دیکھئے کہ ان تک سابق صدر اور ان کی دوست خود پر لگے الزامات سے انکاری اور ابھی تک بہت کچھ ثابت کرنا باقی مگر یہ سب کچھ ہو چکا اوروہ بھی صرف 6 ماہ میں ،لیکن وہاں تاریخ رقم تو ہونی ہی تھی کہ جہاں صدارت سے ہٹنے کے بعد ہر صدر کی تحقیقات قانون کا حصہ ، جہاں ابھی چند سال پہلے 2003ء سے 2008ء تک صدر رہنے والے روموہیون پر ایک تاجرسے 6ملین ڈالر رشوت کا الزام لگا تو اس نے خود کشی کر لی اورجہاں 15سال تک صدر رہنے والے کم ڈائے ینگ کے دوبیٹوں پر رشوت خوری کا الزام لگنے پر انھیں گرفتار کر لیا گیا ۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان ملکوں میں جیل جاتے ہوئے کسی نے نہ تو وکٹری کا نشان بنایا، نہ کسی نے عدالتوں کے باہر دکانداری لگائی، نہ کسی کو پروٹوکول ملا اور نہ ہی کسی نے یہ کہا کہ ''سنو میں تو اتنا اہم ہوں کہ مجھ پر الزام لگانے یا مقدمہ چلانے کا مطلب آئین ،جمہوریت اور ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا ہے''نہ ہی کسی نے یہ کہا کہ تم فلاں کا حساب لے رہے ہو، اس کا جواب تمہارے بچوں سے لیا جائے گا'' نہ کسی نے عدالتوں پر تنقید کی ۔ آج کل جے آئی ٹی کی بزم میں آنے والا بڑے عزم کے ساتھ نئی تاریخ رقم کرنے کا دعویدار ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد رقیبوں کے نام لیے بغیر ان پر حملے کیے اور کہا کہ شریف خاندان کا پہلی دفعہ نہیں پانچویں دفعہ احتساب ہورہا ہے۔ ایک طرف نواز شریف کے وزراء اور ان کے صحافتی ہمدردوں کی طرف سے نواز شریف کا ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جارہا ہے۔
کہا جارہا ہے نواز شریف کے خلاف بھی مسعود محمود جیسا کوئی وعدہ معاف گواہ تلاش کیا جارہا ہے، دوسری طرف شہباز شریف بھٹو پر الزام لگارہے ہیں کہ انھوں نے بھی ہمارے خاندان کا احتساب کیا تھا۔ تاریخ تو اُس وقت رقم ہوتی جب سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ منظر عام پر آتی اور ذمے داران کو سزا ملتی، تاریخ اُس وقت رقم ہوتی جب میمو گیٹ سکینڈل کے ذمے داروں کو ملک سے غداری پر تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا، تاریخ تو اُس وقت رقم ہوتی جب سیکڑوں قسم کی دہشت گردی میں مرنے والے معصوم پاکستانیوں کے خون کا بدلہ لیا جاتا۔تاریخ تو اُس وقت رقم ہوتی جب سوئٹزر لینڈ کا پیٹ چاک کرکے کھربوں ڈالر ملک میں واپس لائے جاتے اور تاریخ تو اُس وقت رقم ہوتی جب حکمران اپنے آپ کو استعفیٰ دے کر تفتیش کے لیے پیش کر دیتے۔ ہمارے ملک کی پاک فوج کے انٹرنل سسٹم کی مثال لے لیجیے جہاں کسی پر الزام بھی لگے، یا کسی جوان کے خلاف شکایت بھی آجائے تو اسے داغدار سمجھا جاتا ہے کہ اُس کے خلاف درخواست آئی ہی کیوں؟جب کہ ان حکمرانوں کے خلاف درخواست آئے یا کوئی کرپشن کا کیس سامنے آئے تو یہ وکٹری کا نشان بناتے ہیں۔ اور سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ سے یہ لوگ جب باہر نکلتے ہیں تو شیخیاں بگھار رہے ہوتے ہیں۔ جنھیں اپنا احتساب خود کرنا چاہیے وہی سینہ چوڑا کر کے میڈیا کے سامنے موجود ہوتے ہیں۔
قصائی قصائی کا شور مچانے والوں نے رمضان کے مہینے میں قومی اسمبلی کے منتخب رکن جمشید دستی کو جیل میں ڈال دیا۔ اصل ظالم تو جمشید دستی ہے۔ باقی سب مظلوم ہیں... اور مظلوم بھی ایسے کہ جن کے دن رات نفلی عبادات کرتے گزرتے ہیں۔ بہرکیف یہاں تو ہر روز 20کروڑ عوام تاریخ رقم کر رہی ہیں جو ناقص سسٹم کا سامنا کر رہی ہیں، جو اُن لوگوں سے لڑ رہی ہیں جو اس قدر طاقتور ہو چکے ہیں کہ انھیں گرانے کے لیے کسی جنونی کی ضرورت ہوگی... جو حقیقت میں تاریخ رقم کرے گا اس بے بسی کے عالم میں بقول شاعر
الٰہی ان سماعت مردہ مادر زاد بہروں میں
مجھے شرمندہ ٔ گفتار رکھا جائے گا کب تک