ہماری بنیادی ضرورتیں
ہمارے ملک میں پچیس فیصد لوگ بے گھر ہیں، جب کہ ایسے مکانوں کی تعداد لاکھوں میں ہوگی جو کئی ہزار گز پر مشتمل ہیں۔
ہماری بنیادی ضرورتوں میں آکسیجن، پانی، روٹی، روزگار، دوا، رہائش، تعلیم اور توانائی ہیں۔ اور بھی بہت کچھ ہیں لیکن کم از کم ان کی ضرورتیں سب سے زیادہ ہیں۔ اگر ہمیں شفاف آکسیجن نہ ملے تو ہم نہ صرف ہر وقت بیماریوں سے دوچار رہیں گے، بلکہ زندگی تنگ ہوتی جائے گی۔ ایک انسان کے لیے سات درختوں کا آکسیجن درکار ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کا فیصلہ ہے کہ زمینی رقبے کا کم از کم پچیس فیصد جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ بنگلہ دیش میں سولہ فیصد ہندوستان میں بیس فیصد، امریکا میں چالیس فیصد، برازیل میں اٹھاسی فیصد، یورپ اور جنوبی امریکا کے بیشتر ملکوں میں تیس فیصد جنگلات ہیں، جب کہ پاکستان میں دس سال قبل تین فیصد اور اب دو اعشاریہ پانچ فیصد جنگلات ہیں۔ جس کی وجہ سے نہ صرف آکسیجن کی کمی پیدا ہورہی ہے بلکہ سیلاب، طوفان، برفباری، سردی اور گرمی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ہمارے ہاں 80 فیصد لوگ شفاف پانی سے محروم ہیں۔ پانی دریا کا ہو، تالاب کا ہو، جھیل کا ہو یا زیر زمین، ڈھائی سو سے تین سو فیصد آلودگی پائی جاتی ہے۔ بڑے شہروں میں نکاسی آب کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ دیہی علاقوں میں حالات اور بھی خراب ہیں۔ صرف کراچی میں لاکھوں کروڑوں گیلن گندا پانی روزانہ سمندر میں جاگرتا ہے، جس سے سمندر کے پانی میں روز بروز آلودگی کا اضافہ ہورہا ہے۔ سیوریج واٹر یعنی گندے پانی کو سمندر میں پہنچنے سے قبل ری سائیکلنگ کرکے اس سے ہم میتھائن گیس، کھاد اور پینے کا شفاف پانی حاصل کرسکتے ہیں۔
آپ کہیں گے کہ اس کی مشین بہت مہنگی آتی ہے، ہم یہ بار برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ ہم ایٹم بم اور میزائل بنانے کے اخراجات اگر برداشت کرسکتے ہیں تو شفاف پانی کے لیے کیوں نہیں؟ کہا جاتا ہے کہ وطن کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے، یہ درست ہے، مگر وطن میں جہاں ہزاروں لوگ بیماریوں سے روز مر رہے ہوں، وہاں پہلے بم چاہیے یا صاف پانی؟ جینے کے لیے صاف ہوا اور پانی ضروری ہے، بم نہیں۔ اسی طرح شہروں کے آلودہ پانی کو دریاؤں میں جانے سے روکا جائے اور بارش کے پانی کو محفوظ کیا جائے۔ اگر پاکستان کے ہر شہری کو صاف پانی میسر ہو تو آدھی بیماریاں ہی ختم ہوجائیں گی۔ جھیلوں کو صاف رکھا جائے، سمندری ساحلوں پر کچرا پھینکنے اور آلودہ پانی کو گرنے سے روکا جائے تو آلودگی میں کمی ہوسکتی ہے۔
پنجابی کے معروف انقلابی شاعر بلھے شاہ نے اپنے ایک شعر میں کہا کہ ''پانچ فرائض تو ہیں مگر ایک فرض اور بھی ہے اور وہ ہے (ٹکڑ) یعنی روٹی کا، اگر روٹی نہ ہو تو سارے فرض بیکار ہیں''۔ اگر انسان کو روٹی یعنی کھانا نہ ملے تو وہ ناکارہ، منجمد اور بے بس ہوجائے گا بلکہ موت کے منہ میں چلا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کرۂ ارض پر روزانہ صرف بھوک سے ہزاروں انسان مر رہے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب دنیا کے چند لوگ دنیا کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ اس زبردست طبقاتی خلیج کو کیونکر پاٹا جاسکتا ہے؟ ان سب کا بنیادی مسائل کا مرکزہ روزگار ہے، اگر روزگار ہوگا تو دو کے بجائے ایک روٹی تو کھالے گا۔ اس لیے سائنسی اور ٹیکنیکل ترقی پر اخراجات بڑھانے کے بجائے بھوک کو مٹانے کے لیے سب سے پہلے روزگار کی فراہمی انتہائی ضروری ہے۔
سائنسی ترقی، روبوٹ اور نت نئے آلات کی ایجادات سے کام جلدی تو ہوجاتے ہیں اور آرام دہ بھی ہوتا ہے لیکن چند لوگوں تک محدود رہتا ہے، باقی لوگوں میں بیروزگاری بڑھتی ہے۔ لوگ جب بیروزگار ہوں گے تو کوئی ڈاکا ڈالے گا، کوئی چوری کرے گا، کوئی مایوس ہوکر ہیروئن کی لت میں پھنس جائے گا، یا پھر مجبوری کے تحت بھیک مانگنے لگے گا۔ اس وقت پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے لحاظ سے پچاس لاکھ لوگ ہیروئن کے عادی ہیں۔ پاکستان میں تقریباً ساٹھ لاکھ گداگر ہیں، جس میں صرف کراچی میں ساڑھے چار لاکھ ہیں۔ ہر سال ہزاروں لوگ بیروزگاری اور زندگی سے تنگ آکر خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں تیس فیصد لوگ ایک وقت کی روٹی کھانے پر مجبور ہیں اور ستر فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ملاوٹ کی غذائیں، تیل اور دودھ کھا کر ہم اکثر بیمار رہتے ہیں، اس کے لیے دوا کی ضرورت پڑتی ہے۔ دواؤں کی کمپنیوں نے دوا مہنگی کرکے منافع خوری کی انتہا کردی ہے، بیس روپے کی دوا سو روپے میں دستیاب ہے۔ ہر چند کہ بنگلہ دیش اور ہندوستان میں بھوک، افلاس، غربت اور بیروزگاری پاکستان سے کم نہیں، لیکن دوا کی قیمتیں ہماری دوا سے پچھہتر فیصد کم ہیں، یعنی جو دوا ہم سو روپے میں خریدتے ہیں وہی دوا بنگلہ دیش اور ہندوستان میں پچیس روپے میں مل جاتی ہیں۔ اگر جنرک ناموں سے دوا فروخت کرنے پر پابند کردیا جائے تو یہاں بھی دوا سستی ہوسکتی ہیں۔
ہمارے ملک میں پچیس فیصد لوگ بے گھر ہیں، جب کہ ایسے مکانوں کی تعداد لاکھوں میں ہوگی جو کئی ہزار گز پر مشتمل ہیں۔ اگر کاروں کی درآمدات پر سو فیصد ٹیکس لگا کر ان ہی پیسوں سے لوگوں کو گھر بنا کر دیا جائے تو رہائش کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ اگر ان شاہی محلوں کو فلیٹ میں تبدیل کردیا جائے تو ایک مکان میں کم از کم بیس خاندان رہ سکتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور میں جب ڈاکٹر مبشر حسن وزیر خزانہ تھے تو تعلیم اور صحت کا بجٹ تینتالیس فیصد کیا گیا تھا اور تعلیم خاصی عروج پہ پہنچی۔ لیکن اب تعلیم کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
اتنی فیس ہے کہ جس مزدور کی کل تنخواہ آٹھ یا دس ہزار روپے ہو وہ بچوں کو پڑھانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جہاں تک بجلی کا مسئلہ ہے تو دفاع اور آئی ایم ایف کے بجٹ کو پچاس فیصد کم کر دیا جائے تو شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی حاصل کرکے لوگوں کی ضرورتیں پوری کی جاسکتی ہیں۔ اس طبقاتی نظام میں جہاں ایک جانب دولت کا انبار ہو اور دوسری جانب افلاس زدہ لوگوں کی فوج، دولت چند ہاتھوں میں جمع ہو اور باقی لوگ خواہ بھوک سے مرتے ہی کیوں نہ ہوں، سرمایہ دارانہ نظام کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگر ہوتی تو دنیا کی سب سے مضبوط معیشت جرمنی میں ساٹھ لاکھ افراد، جاپان میں پانچ فیصد یعنی پینسٹھ لاکھ اور چین میں ستائیس کروڑ لوگ بے روزگار نہیں ہوتے۔ ان مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی اور اسٹیٹ لیس سوسائٹی میں ہی ممکن ہے۔
ہمارے ہاں 80 فیصد لوگ شفاف پانی سے محروم ہیں۔ پانی دریا کا ہو، تالاب کا ہو، جھیل کا ہو یا زیر زمین، ڈھائی سو سے تین سو فیصد آلودگی پائی جاتی ہے۔ بڑے شہروں میں نکاسی آب کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ دیہی علاقوں میں حالات اور بھی خراب ہیں۔ صرف کراچی میں لاکھوں کروڑوں گیلن گندا پانی روزانہ سمندر میں جاگرتا ہے، جس سے سمندر کے پانی میں روز بروز آلودگی کا اضافہ ہورہا ہے۔ سیوریج واٹر یعنی گندے پانی کو سمندر میں پہنچنے سے قبل ری سائیکلنگ کرکے اس سے ہم میتھائن گیس، کھاد اور پینے کا شفاف پانی حاصل کرسکتے ہیں۔
آپ کہیں گے کہ اس کی مشین بہت مہنگی آتی ہے، ہم یہ بار برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ ہم ایٹم بم اور میزائل بنانے کے اخراجات اگر برداشت کرسکتے ہیں تو شفاف پانی کے لیے کیوں نہیں؟ کہا جاتا ہے کہ وطن کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے، یہ درست ہے، مگر وطن میں جہاں ہزاروں لوگ بیماریوں سے روز مر رہے ہوں، وہاں پہلے بم چاہیے یا صاف پانی؟ جینے کے لیے صاف ہوا اور پانی ضروری ہے، بم نہیں۔ اسی طرح شہروں کے آلودہ پانی کو دریاؤں میں جانے سے روکا جائے اور بارش کے پانی کو محفوظ کیا جائے۔ اگر پاکستان کے ہر شہری کو صاف پانی میسر ہو تو آدھی بیماریاں ہی ختم ہوجائیں گی۔ جھیلوں کو صاف رکھا جائے، سمندری ساحلوں پر کچرا پھینکنے اور آلودہ پانی کو گرنے سے روکا جائے تو آلودگی میں کمی ہوسکتی ہے۔
پنجابی کے معروف انقلابی شاعر بلھے شاہ نے اپنے ایک شعر میں کہا کہ ''پانچ فرائض تو ہیں مگر ایک فرض اور بھی ہے اور وہ ہے (ٹکڑ) یعنی روٹی کا، اگر روٹی نہ ہو تو سارے فرض بیکار ہیں''۔ اگر انسان کو روٹی یعنی کھانا نہ ملے تو وہ ناکارہ، منجمد اور بے بس ہوجائے گا بلکہ موت کے منہ میں چلا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کرۂ ارض پر روزانہ صرف بھوک سے ہزاروں انسان مر رہے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب دنیا کے چند لوگ دنیا کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ اس زبردست طبقاتی خلیج کو کیونکر پاٹا جاسکتا ہے؟ ان سب کا بنیادی مسائل کا مرکزہ روزگار ہے، اگر روزگار ہوگا تو دو کے بجائے ایک روٹی تو کھالے گا۔ اس لیے سائنسی اور ٹیکنیکل ترقی پر اخراجات بڑھانے کے بجائے بھوک کو مٹانے کے لیے سب سے پہلے روزگار کی فراہمی انتہائی ضروری ہے۔
سائنسی ترقی، روبوٹ اور نت نئے آلات کی ایجادات سے کام جلدی تو ہوجاتے ہیں اور آرام دہ بھی ہوتا ہے لیکن چند لوگوں تک محدود رہتا ہے، باقی لوگوں میں بیروزگاری بڑھتی ہے۔ لوگ جب بیروزگار ہوں گے تو کوئی ڈاکا ڈالے گا، کوئی چوری کرے گا، کوئی مایوس ہوکر ہیروئن کی لت میں پھنس جائے گا، یا پھر مجبوری کے تحت بھیک مانگنے لگے گا۔ اس وقت پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے لحاظ سے پچاس لاکھ لوگ ہیروئن کے عادی ہیں۔ پاکستان میں تقریباً ساٹھ لاکھ گداگر ہیں، جس میں صرف کراچی میں ساڑھے چار لاکھ ہیں۔ ہر سال ہزاروں لوگ بیروزگاری اور زندگی سے تنگ آکر خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں تیس فیصد لوگ ایک وقت کی روٹی کھانے پر مجبور ہیں اور ستر فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ملاوٹ کی غذائیں، تیل اور دودھ کھا کر ہم اکثر بیمار رہتے ہیں، اس کے لیے دوا کی ضرورت پڑتی ہے۔ دواؤں کی کمپنیوں نے دوا مہنگی کرکے منافع خوری کی انتہا کردی ہے، بیس روپے کی دوا سو روپے میں دستیاب ہے۔ ہر چند کہ بنگلہ دیش اور ہندوستان میں بھوک، افلاس، غربت اور بیروزگاری پاکستان سے کم نہیں، لیکن دوا کی قیمتیں ہماری دوا سے پچھہتر فیصد کم ہیں، یعنی جو دوا ہم سو روپے میں خریدتے ہیں وہی دوا بنگلہ دیش اور ہندوستان میں پچیس روپے میں مل جاتی ہیں۔ اگر جنرک ناموں سے دوا فروخت کرنے پر پابند کردیا جائے تو یہاں بھی دوا سستی ہوسکتی ہیں۔
ہمارے ملک میں پچیس فیصد لوگ بے گھر ہیں، جب کہ ایسے مکانوں کی تعداد لاکھوں میں ہوگی جو کئی ہزار گز پر مشتمل ہیں۔ اگر کاروں کی درآمدات پر سو فیصد ٹیکس لگا کر ان ہی پیسوں سے لوگوں کو گھر بنا کر دیا جائے تو رہائش کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ اگر ان شاہی محلوں کو فلیٹ میں تبدیل کردیا جائے تو ایک مکان میں کم از کم بیس خاندان رہ سکتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور میں جب ڈاکٹر مبشر حسن وزیر خزانہ تھے تو تعلیم اور صحت کا بجٹ تینتالیس فیصد کیا گیا تھا اور تعلیم خاصی عروج پہ پہنچی۔ لیکن اب تعلیم کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
اتنی فیس ہے کہ جس مزدور کی کل تنخواہ آٹھ یا دس ہزار روپے ہو وہ بچوں کو پڑھانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جہاں تک بجلی کا مسئلہ ہے تو دفاع اور آئی ایم ایف کے بجٹ کو پچاس فیصد کم کر دیا جائے تو شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی حاصل کرکے لوگوں کی ضرورتیں پوری کی جاسکتی ہیں۔ اس طبقاتی نظام میں جہاں ایک جانب دولت کا انبار ہو اور دوسری جانب افلاس زدہ لوگوں کی فوج، دولت چند ہاتھوں میں جمع ہو اور باقی لوگ خواہ بھوک سے مرتے ہی کیوں نہ ہوں، سرمایہ دارانہ نظام کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگر ہوتی تو دنیا کی سب سے مضبوط معیشت جرمنی میں ساٹھ لاکھ افراد، جاپان میں پانچ فیصد یعنی پینسٹھ لاکھ اور چین میں ستائیس کروڑ لوگ بے روزگار نہیں ہوتے۔ ان مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی اور اسٹیٹ لیس سوسائٹی میں ہی ممکن ہے۔