دکھیاری ماں

تقسیم کے نتیجے میں جس طرح خاندانوں کا بٹوارا ہوا اور لوگوں کو اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا عذاب دل پر پتھر رکھ کر سہنا پڑا

ہربھجن کورکی زندگی کی کہانی کسی فلم سے کم نہیں، جو تقسیم کی تمام تر ہولناکیوں اور عجلت میں کھینچی گئی بین الاقوامی سرحدوں کے نتیجے میں بٹ جانے والے خاندانوں کی بے بسی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ یہ 1946ء کی بات ہے جب کور، جو اس وقت کم سن لڑکی تھی، کی شادی ایک سکھ کے ساتھ کردی گئی۔ اس کے بقول ''میں ایک سردار کے گھر پیدا ہوئی اور ایک سردار ہی کے گھر بیاہ کرگئی'' یوں کور امرتسر کے قریب اپنے آبائی قصبے سانسی سے لاہور منتقل ہوگئی جہاں آئے ہوئے اسے ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ ملک کے تقسیم ہونے کی خبر خاندان پر بجلی بن کرگری۔ وہ اس وقت نقل مکانی کرکے امرتسر جا رہے تھے جب ان کے قافلے پر حملہ ہوا جس میں عورتوں کے سوا سب مارے گئے۔ بچ جانے والی لڑکیوں میں وہ بھی شامل تھی جسے مسلمان کر کے افضل خان نامی آدمی کے ساتھ بیاہ دیا گیا، جو اس سے 16 سال بڑا تھا۔ یوں کور شہناز بیگم بن گئی۔ نکاح کوہاٹ کی ایک مسجد میں پڑھایا گیا جس کے بعد یہ جوڑا کراچی پہنچا اور کوئلہ گودام کے علاقے میں رہائش اختیار کرلی۔ ان کے ہاں چھ بچے حمیدہ، خورشید، زبیدہ، جمیلہ، اقبال اور رضوان پیدا ہوئے، جن میں سے حمیدہ کمسنی ہی میں فوت ہوگئی۔

''ایکسپریس ٹریبیون'' میں کچھ عرصہ قبل شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق بڑی دعاؤں اور منتوں کے بعد اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تھا، لہذا دو سالہ رضوان اپنی ماں کی آنکھ کا تارا تھا۔ 1962ء میں جب حکومت نے بھارت اور پاکستان کے درمیان ویزا پابندیاں نرم کیں، خان نے پیشکش کی کہ اگر وہ چاہے تو وہ اسے اس کے آبائی شہر لے جا کر خاندان سے ملوانے کے لیے تیار ہے۔ مگر جب وہ اپنے باپ سے ملی تو اس نے اس کا مذہب تبدیل کرنا اور شادی کرنا قبول نہیں کیا اور اس کے شوہرکو مجبور کر دیا کہ وہ اسے چھوڑ کر واپس چلا جائے۔ اس نے تب بھی رضوان کو اپنے پاس رکھنا چاہا مگر خان نہیں مانا اور پاکستان چلا گیا۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیر خارجہ تھے۔ خان نے اپنے بھارتی سسرالیوں کے خلاف مقدمہ کردیا لیکن فیصلہ اس کے حق میں نہیں آیا۔ وہ خاموش ہوکر بیٹھ گیا اور کسی دوسری عورت سے شادی کرلی۔ اسی اثناء میں شہناز بیگم ایک بار پھر ہر بھجن کور بن کر ایک سکھ شاعر، گربچن سنگھ کے ساتھ بیاہی جا چکی تھی جس کا پہلی بیوی سے ایک پانچ سالہ بیٹا، رومی تھا۔ دوسری بار تقسیم کا نشانہ بننے والی کورکا اپنے پاکستانی خاندان کے ساتھ کوئی رابطہ نہ رہا اور بھارت ہی کی ہوکر رہ گئی۔ اس نے بتایا '' ہر رات سونے سے پہلے میں اپنے بچوں کے لیے دعا مانگا کرتی تھی اور ان کے نام دہرایا کرتی تھی۔''

1989ء میں اس کا سوتیلا بیٹا رومی امریکا منتقل ہو گیا۔ اس نے بعد میں اپنے والدین کو بھی وہاں اپنے پاس بلوا لیا۔ کور کا دوسرا شوہر 2007ء میں مرگیا تو رومی نے اس کے گمشدہ بچوں کو تلاش کرنے کے لیے پاکستان کے ایک اردو اخبار میں اشتہار دیا۔ کور کی بیٹی جمیلہ نے بتایا کہ وہ اشتہار رضوان کے باس کی نظر سے گزرا۔ وہ فروری 2013ء کی 9 تاریخ تھی، جو اب پورے خاندان کی یاد داشت میں راسخ ہوچکی ہے۔ خاندان نے رومی سے رابطہ کیا اور فروری کی 13 تاریخ کو ان کی اسکائپ کے ذریعے اس کے ساتھ باضابطہ ملاقات ہوئی۔ 4 مارچ کو، کور کی بیٹی، خورشید، جو کینیڈا میں رہتی ہے، اس سے ملنے امریکا پہنچی۔ خاندان کے دوبارہ یکجا ہونے کے بعد وہ اپنے چھوٹے بیٹے سے ملنے کے لیے بیتاب رہنے لگی۔ وہ اپنے اہل خانہ سے فون پر بات کرتے ہوئے کہتی '' میں اسے دیکھے بغیر نہیں مروں گی۔'' اْسی سال اپریل کے آخر تک اس کی یہ خواہش بھی اس وقت پوری ہوگئی جب رومی 51 سال کی طویل مدت کے بعد پہلی مرتبہ اسے اپنے بچوں سے ملانے پاکستان لایا۔ کور آجکل دوسری مرتبہ پاکستان آئی ہوئی ہے اور کراچی میں ہے۔ اس بار خورشید بھی اس کے ساتھ آئی ہے۔


اس کا ویزا 9 اپریل کو ختم ہو چکا ہے لیکن کورکہتی ہے وہ اپنے بچوں کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی۔ اس کے خاندان میں اب 15 پوتوں، پوتیوں اور نواسوں، نواسیوں جب کہ 37 پڑپوتوں، پڑپوتیوں، پڑنواسوں اور پڑنواسیوں کا اضافہ ہوچکا ہے۔ ان میں سے سب سے چھوٹا اپنی پڑ دادی سے بہت مانوس ہو چکا ہے اور توتلا کرکہتا ہے ''ان کے تو پَر ہیں اور یہ اڑ بھی سکتی ہیں'' کور کی بیٹی اقبال کہتی ہے ''ہم ہر شب ان کی باحفاظت واپسی کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔اس کے ساتھ ہی ہم سمجھتے تھے وہ بھارت میں ہیں اور اب تک مر چکی ہوں گی۔ ہم دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ ان کی روح کو سکون بخشے'' بچوں کو یقین نہیں آ رہا کہ وہ پھر اپنی ماں کو پا چکے ہیں۔ زبیدہ کہتی ہے '' ہمیں امید ہے وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی۔'' اور رضوان رندھی ہوئی آواز میں بولا ''ہم ان کا خیال رکھیں گے اور ان کی خدمت کریں گے۔'' ہربھجن کور عرف شہناز بیگم کی کہانی کی گونج پچھلے دنوں ہونے والے 8 ویں کراچی ادبی میلے میں بھی سنائی دی۔ میں سرحدوں اور مذاہب کی ماری ہوئی ہربھجن کور یا شہناز بیگم کے دکھ کو سمجھتا ہوں اور مجھے اس کے ساتھ پوری ہمدردی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کی بھارتی شہریت ایک دکھیاری ماں کو اپنے بچوں سے جدا کرنے کا باعث نہ بنے اور پاکستان کی شہریت دلوانے کے لیے اس کی بھرپور مدد کی جانی چاہیے۔

تقسیم کے نتیجے میں جس طرح خاندانوں کا بٹوارا ہوا اور لوگوں کو اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا عذاب دل پر پتھر رکھ کر سہنا پڑا، اس کا ہرکوئی اندازہ کر سکتا ہے۔ میرے بڑے ابا، ڈاکٹر حشمت علی قریشی نے 1979ء میں یہیں کراچی میں 90 سال سے زیادہ عمر میں وفات پائی۔ میں نے آخری دنوں میں بھی انھیں اپنی اس بہن (میری پھوپی) کی جدائی میں آنسو بہاتے دیکھا تھا جو تقسیم کے نتیجے میں اپنے شوہرکے ساتھ ہجرت کرکے کراچی پہنچی تھیں لیکن پھر لاپتہ ہوگئیں اور ان کا اپنے بھائیوں (میرے ابا اور بڑے ابا) سے کبھی رابطہ نہ ہوسکا۔ میرے والدین تقسیم سے بہت پہلے یہاں آکر اندرون سندھ آباد ہوچکے تھے۔ ایک بڑی بہن کے سوا ہم باقی 6 بہن بھائی بھی یہیں پیدا ہوئے، بڑے ابا اور بھی پہلے سے کراچی میں رہتے تھے، ہم سب بہن بھائیوں میں سے کسی نے بھی دادا، دادی، نانا، نانی، چچاؤں، ماموؤں اور پھوپیوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنا دکھ محسوس توکر سکتے ہیں، بیان نہیں کرسکتے۔ میرے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں جب مجھے دادا اور نانا کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں تو یقین مانیے مجھے ان کی خوش قسمتی پر رشک آتا ہے کہ وہ ہماری طرح احساسِ محرومی کا شکار نہیں ہیں۔ خاندانوں کے بٹوارے کا دوسرا پہلو اس سے بھی زیادہ المناک ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنوں کو اپنا بھی نہیں کہہ سکتے۔

اب جب ہم خود عمر کے آخری حصے میں داخل ہوچکے ہیں، ہمارے پاس یہ سمجھنے اورکہنے کا جواز موجود ہے کہ ہمارے جو بڑے سرحد کے اس پار رہ گئے تھے وہ خود تو وہیں کی مٹی میں مل گئے لیکن ہماری طرح ان کے بچے تو یقینا ہوں گے۔ میرے ایک میرٹھی دوست، مہتاب بھائی، لالو کھیت میں رہتے تھے۔ کوئی بیس پچیس سال پہلے کی بات ہے وہ اپنے بھائی سے ملنے بھارت جانے کو تیار ہوئے۔ ایک بار میرے دل میں آیا کہ ان کے ساتھ چلا جاؤں اور اپنے چچا اور ماموں زاد بھائی بہنوں ہی سے مل آؤں۔ پھر خیال آیا ہم ایک دوسرے کوکیسے پہچانیں گے اور میں انھیں کیسے یقین دلاؤں گا کہ میں ان کے فلاں چچا یا ماموں کا بیٹا ہوں اور میں نے ارادہ بدل دیا۔
Load Next Story