دیوانہ بکار خویش ہشیار
کیا 11 ستمبر کے بعد جارج بش نے جو رویہ اختیارکیا وہ انتہا پسندانہ اور جارحانہ نہ تھا
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مسٹر ٹرمپ ایک غیر متوازن شخصیت کے حامل ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ زیادہ سوچتے نہیں بلکہ جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں۔ مسلم ممالک میں عام خیال یہ ہے کہ وہ اسلام فوبیا یا مسلم فوبیا میں مبتلا ہیں اور اس لیے انھیں مسلمانوں سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔
مگر بات اتنی سادہ نہیں ہے، ہر دین، ہر فلسفہ اور ہر نظریے کے ماننے والوں میں مختلف شیڈزکے لوگ ہوتے ہیں کچھ آزاد خیال، کچھ میانہ رو اورکچھ بنیاد پرست۔ مسلمانوں میں بھی صورتحال یہی ہے۔
مگر امریکا میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔ بڑے بش میانہ رو تھے،کینیڈی آزاد خیالوں میں شمار ہوتے تھے اورکلنٹن بھی میانہ رو تھے مگر جارج بش بنیاد پرست اور متعصب تھے۔ مسٹر ٹرمپ انتہا پسند بنیاد پرست امریکی ہیں اور نام نہاد امریکی جمہوریت کی اصل روح کے نمایندے ہیں ۔
کیا 11 ستمبر کے بعد جارج بش نے جو رویہ اختیارکیا وہ انتہا پسندانہ اور جارحانہ نہ تھا۔ کیا امریکی دھمکیوں نے پاکستان کو دبکانے میں اہم کردار ادا نہیں کیا۔ کیا پاکستان کے دونوں ہاتھ اٹھا دینے سے افغانستان کا ستیاناس نہیں ہوگیا کیا اس طرح پاکستان کی شمالی سرحدیں غیرمحفوظ نہیں ہوگئیں کیا یہ پاکستان کو نشانہ بنانے کاسوچا سمجھامنصوبہ نہ تھا۔ کیا ڈرون حملوں کے بعد پاکستان کی خودمختاری کا راگ بے وقت کی راگنی اور خواہ مخواہ کی گیدڑ بھبکی سے زیادہ کوئی اہمیت رکھتا تھا۔
یہ سارے اقدام مسٹر ٹرمپ نے نہیں کیے تھے۔ یہ امریکی سیاست کی سوچی سمجھی چال ہے۔ صدارت کے منصب پر کسی کو بھی بٹھا دیجیے مقاصد وہی رہیں گے۔ امریکی خواہش عرصے سے پاکستان کو شکار کرنے کی رہی ہے کیونکہ اس وقت پاکستان مسلم امہ کی طاقت کی نشانی بن گیا ہے اور یہ نشانی بنانا بھی امریکا کا کھیل تھا۔ آخر امریکیوں کو عراق میں ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار دکھائی دے گئے تھے اور اس وقت تک دکھائی دیتے رہے جب تک صدام حسین کو پھانسی پر چڑھا کر اسے نشان عبرت نہ بنا دیا گیا اور مسلم دنیا کو یہ واضح پیغام دے دیا گیا کہ خبردار ہمارے آگے سر نہ اٹھانا ورنہ تمہیں صدام حسین بنادیں گے اور انھوں نے معمر قذافی کو بھی صدام حسین سے بدتر بناکر چھوڑا۔ مشرف صاحب کو معلوم تھا کہ زندہ رہنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ
سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے
ورنہ پھر ساری بہادری دھری رہ جاتی ہے۔ اس لیے انھوں نے آقا کو ہر مطلوبہ سہولت فراہم کی۔
اگرچہ ایک زمانے میں مسلمان بھی عالمی طاقت رہے ہیں مگر یہ بہت پرانی بات ہوگئی۔ اب مسلمان حکمرانی بھول کر نوکری کرنے کا فن سیکھ گئے ہیں اور اس میں ماہرانہ چابک دوستی رکھتے ہیں۔
ماضی قریب کی بات ہے۔ روس جب عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے لگا اوراس نے اپنے قرب و جوارکے مسلم ممالک پر قبضہ کرکے انھیں سوویت روس کا حصہ بنانا شروع کیا اور ترکمانستان، کرغزستان اور دیگر مسلم ممالک کو روسی ترکستان میں بدل ڈالا۔ اس وقت برصغیر پر انگریز حکمران تھے۔ ان کا قریب ترین پڑوسی افغانستان تھا۔ وہ چاہتے تھے بلکہ ان کی حکمرانی کی حکمت عملی کا تقاضا تھا کہ ان کے اور روس کے درمیان افغانستان بفر اسٹیٹ رہے اور وہ ایک ہمدرد پڑوسی کی موجودگی میں اطمینان سے اس وقت کے ہندوستان پر حکومت کرتے رہیں۔
چنانچہ انھوں نے چار افراد پر مشتمل ایک جاسوسی مشن ان علاقوں میں روانہ کیا جو روس کے زیر اثر آچکے تھے۔ مشن بظاہر تو تجارتی اور تفریحی تھا مگر اس کا مقصد یقینی طور پر یہ معلوم کرنا تھا کہ روس افغانستان پر تو قبضہ نہیں کرنا چاہتا۔ اس مشن کے تمام افراد فرضی ناموں کے ساتھ گئے تھے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ اس مشن کے ایک فرد مولانا محمد حسین آزاد بھی تھے۔ مشن نے واپسی پر بتایا کہ روس افغانستان تک بڑھنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ برطانوی حکومت نے سکھ کا سانس لیا اور پرامن افغانستان کی دوستی کے ساتھ اطمینان سے برصغیر پر حکومت کرتے رہے۔ ''بھاڑ میں جائیں مسلم ترکستانی ریاستیں'' یہ نکتہ نظر تھا برطانوی حکمرانی کا۔
بتانا یہ مقصود ہے کہ اب جس خطے پر پاکستان کا وجود ہے اس پر حکمرانی کے لیے ہمیں بھی ایک پرامن اور دوست افغانستان درکار ہے اگر یہ میسر نہ ہو تو پاکستان شدید خطرے میں ہے۔
یہ محض اتفاق ہے یا مشیت الٰہی کہ اس وقت ہمارے پڑوس میں اور ہمارے عالمی دوستوں میں ان انتہا پسندوں کی حکمرانی ہے جو اپنی انتہا پسندی کا اخفا بھی نہیں کرتے اور جو ہماری دشمنی کے درپے ہیں۔ ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت نے ناطقہ تنگ کر رکھا ہے مگر نہ ان کی سرحدی خلاف ورزیاں ہمارا کچھ بگاڑ سکتی ہیں نہ وہ کوئی بڑا اقدام کرکے اپنے سر مصیبت مول لے سکتے ہیں وہ اس وقت افغان حکومت کو ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں اور اسے باور کرا رہے ہیں کہ وہ ان کے دوست اور ہم ان کے دشمن ہیں اگر وہ اس میں پوری طرح کامیاب ہوجائیں تو پھر انھیں ہمارے خلاف کچھ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی وہ یہ کہہ کر الگ ہوجائیں گے کہ میں مرد نہیں میرا بھائی مرد ہے۔
ہندوستان کی اس حکمت عملی کو امریکا کی مکمل حمایت حاصل ہے کیونکہ مسٹر ٹرمپ امریکا کے مودی ہیں اور ان کا فلسفہ وہی ہے جو ماضی میں امریکا کا رہا ہے اور جسے ہمارے رہنما بڑے صبر وتحمل اور پیار سے برداشت کرتے آئے ہیں اور اپنے قومی وملی مفادات کو امریکی خوشنودی پر قربان کرتے رہے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ امریکا میں مودی صاحب بیٹھے ہیں۔افغانستان میں مودی صاحب ٹرمپ نہیں غنی کی شکل اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اپنے ملک سے ہم پر ہلکی پھلکی گولہ باری کرتے رہتے ہیں کہ اس کوکوئی اہمیت نہیں دیتا۔
ہم اس خطرے سے گھرے ہیں جسے برطانیہ جیسی عالمی طاقت نے ایک صدی پہلے محسوس کرلیا تھا اور حکمرانی کے جو تقاضے تھے وہ پورے کیے تھے مگر ہمارے لیڈران وہی رویہ اپنائے ہوئے ہیں جو زوال آمادہ قوموں کا مقدر ہوتا ہے۔ ہمیں جے آئی ٹی، نواز شریف، شریف خاندان اور ایک دوسرے کی ٹوپیاں اچھالنے سے فرصت نہیں ہم اسی طرح ٹوپیاں (دوسروں کی) اچھال رہے ہیں جیسے امریکی ڈگری لیتے وقت ہڈ کو اچھالتے ہیں۔ گویا دستار فضیلت کو رسوا کرتے ہیں۔ ہمیں ایک آدھ اینکر تو ان حالات میں پریشان نظر آیا ورنہ پورے میڈیا کو جی آئے ٹی کا ہسٹریا ہوگیا ہے ملک کی کسی کو پرواہ نہیں۔
مگر بات اتنی سادہ نہیں ہے، ہر دین، ہر فلسفہ اور ہر نظریے کے ماننے والوں میں مختلف شیڈزکے لوگ ہوتے ہیں کچھ آزاد خیال، کچھ میانہ رو اورکچھ بنیاد پرست۔ مسلمانوں میں بھی صورتحال یہی ہے۔
مگر امریکا میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔ بڑے بش میانہ رو تھے،کینیڈی آزاد خیالوں میں شمار ہوتے تھے اورکلنٹن بھی میانہ رو تھے مگر جارج بش بنیاد پرست اور متعصب تھے۔ مسٹر ٹرمپ انتہا پسند بنیاد پرست امریکی ہیں اور نام نہاد امریکی جمہوریت کی اصل روح کے نمایندے ہیں ۔
کیا 11 ستمبر کے بعد جارج بش نے جو رویہ اختیارکیا وہ انتہا پسندانہ اور جارحانہ نہ تھا۔ کیا امریکی دھمکیوں نے پاکستان کو دبکانے میں اہم کردار ادا نہیں کیا۔ کیا پاکستان کے دونوں ہاتھ اٹھا دینے سے افغانستان کا ستیاناس نہیں ہوگیا کیا اس طرح پاکستان کی شمالی سرحدیں غیرمحفوظ نہیں ہوگئیں کیا یہ پاکستان کو نشانہ بنانے کاسوچا سمجھامنصوبہ نہ تھا۔ کیا ڈرون حملوں کے بعد پاکستان کی خودمختاری کا راگ بے وقت کی راگنی اور خواہ مخواہ کی گیدڑ بھبکی سے زیادہ کوئی اہمیت رکھتا تھا۔
یہ سارے اقدام مسٹر ٹرمپ نے نہیں کیے تھے۔ یہ امریکی سیاست کی سوچی سمجھی چال ہے۔ صدارت کے منصب پر کسی کو بھی بٹھا دیجیے مقاصد وہی رہیں گے۔ امریکی خواہش عرصے سے پاکستان کو شکار کرنے کی رہی ہے کیونکہ اس وقت پاکستان مسلم امہ کی طاقت کی نشانی بن گیا ہے اور یہ نشانی بنانا بھی امریکا کا کھیل تھا۔ آخر امریکیوں کو عراق میں ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار دکھائی دے گئے تھے اور اس وقت تک دکھائی دیتے رہے جب تک صدام حسین کو پھانسی پر چڑھا کر اسے نشان عبرت نہ بنا دیا گیا اور مسلم دنیا کو یہ واضح پیغام دے دیا گیا کہ خبردار ہمارے آگے سر نہ اٹھانا ورنہ تمہیں صدام حسین بنادیں گے اور انھوں نے معمر قذافی کو بھی صدام حسین سے بدتر بناکر چھوڑا۔ مشرف صاحب کو معلوم تھا کہ زندہ رہنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ
سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے
ورنہ پھر ساری بہادری دھری رہ جاتی ہے۔ اس لیے انھوں نے آقا کو ہر مطلوبہ سہولت فراہم کی۔
اگرچہ ایک زمانے میں مسلمان بھی عالمی طاقت رہے ہیں مگر یہ بہت پرانی بات ہوگئی۔ اب مسلمان حکمرانی بھول کر نوکری کرنے کا فن سیکھ گئے ہیں اور اس میں ماہرانہ چابک دوستی رکھتے ہیں۔
ماضی قریب کی بات ہے۔ روس جب عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے لگا اوراس نے اپنے قرب و جوارکے مسلم ممالک پر قبضہ کرکے انھیں سوویت روس کا حصہ بنانا شروع کیا اور ترکمانستان، کرغزستان اور دیگر مسلم ممالک کو روسی ترکستان میں بدل ڈالا۔ اس وقت برصغیر پر انگریز حکمران تھے۔ ان کا قریب ترین پڑوسی افغانستان تھا۔ وہ چاہتے تھے بلکہ ان کی حکمرانی کی حکمت عملی کا تقاضا تھا کہ ان کے اور روس کے درمیان افغانستان بفر اسٹیٹ رہے اور وہ ایک ہمدرد پڑوسی کی موجودگی میں اطمینان سے اس وقت کے ہندوستان پر حکومت کرتے رہیں۔
چنانچہ انھوں نے چار افراد پر مشتمل ایک جاسوسی مشن ان علاقوں میں روانہ کیا جو روس کے زیر اثر آچکے تھے۔ مشن بظاہر تو تجارتی اور تفریحی تھا مگر اس کا مقصد یقینی طور پر یہ معلوم کرنا تھا کہ روس افغانستان پر تو قبضہ نہیں کرنا چاہتا۔ اس مشن کے تمام افراد فرضی ناموں کے ساتھ گئے تھے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ اس مشن کے ایک فرد مولانا محمد حسین آزاد بھی تھے۔ مشن نے واپسی پر بتایا کہ روس افغانستان تک بڑھنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ برطانوی حکومت نے سکھ کا سانس لیا اور پرامن افغانستان کی دوستی کے ساتھ اطمینان سے برصغیر پر حکومت کرتے رہے۔ ''بھاڑ میں جائیں مسلم ترکستانی ریاستیں'' یہ نکتہ نظر تھا برطانوی حکمرانی کا۔
بتانا یہ مقصود ہے کہ اب جس خطے پر پاکستان کا وجود ہے اس پر حکمرانی کے لیے ہمیں بھی ایک پرامن اور دوست افغانستان درکار ہے اگر یہ میسر نہ ہو تو پاکستان شدید خطرے میں ہے۔
یہ محض اتفاق ہے یا مشیت الٰہی کہ اس وقت ہمارے پڑوس میں اور ہمارے عالمی دوستوں میں ان انتہا پسندوں کی حکمرانی ہے جو اپنی انتہا پسندی کا اخفا بھی نہیں کرتے اور جو ہماری دشمنی کے درپے ہیں۔ ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت نے ناطقہ تنگ کر رکھا ہے مگر نہ ان کی سرحدی خلاف ورزیاں ہمارا کچھ بگاڑ سکتی ہیں نہ وہ کوئی بڑا اقدام کرکے اپنے سر مصیبت مول لے سکتے ہیں وہ اس وقت افغان حکومت کو ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں اور اسے باور کرا رہے ہیں کہ وہ ان کے دوست اور ہم ان کے دشمن ہیں اگر وہ اس میں پوری طرح کامیاب ہوجائیں تو پھر انھیں ہمارے خلاف کچھ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی وہ یہ کہہ کر الگ ہوجائیں گے کہ میں مرد نہیں میرا بھائی مرد ہے۔
ہندوستان کی اس حکمت عملی کو امریکا کی مکمل حمایت حاصل ہے کیونکہ مسٹر ٹرمپ امریکا کے مودی ہیں اور ان کا فلسفہ وہی ہے جو ماضی میں امریکا کا رہا ہے اور جسے ہمارے رہنما بڑے صبر وتحمل اور پیار سے برداشت کرتے آئے ہیں اور اپنے قومی وملی مفادات کو امریکی خوشنودی پر قربان کرتے رہے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ امریکا میں مودی صاحب بیٹھے ہیں۔افغانستان میں مودی صاحب ٹرمپ نہیں غنی کی شکل اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اپنے ملک سے ہم پر ہلکی پھلکی گولہ باری کرتے رہتے ہیں کہ اس کوکوئی اہمیت نہیں دیتا۔
ہم اس خطرے سے گھرے ہیں جسے برطانیہ جیسی عالمی طاقت نے ایک صدی پہلے محسوس کرلیا تھا اور حکمرانی کے جو تقاضے تھے وہ پورے کیے تھے مگر ہمارے لیڈران وہی رویہ اپنائے ہوئے ہیں جو زوال آمادہ قوموں کا مقدر ہوتا ہے۔ ہمیں جے آئی ٹی، نواز شریف، شریف خاندان اور ایک دوسرے کی ٹوپیاں اچھالنے سے فرصت نہیں ہم اسی طرح ٹوپیاں (دوسروں کی) اچھال رہے ہیں جیسے امریکی ڈگری لیتے وقت ہڈ کو اچھالتے ہیں۔ گویا دستار فضیلت کو رسوا کرتے ہیں۔ ہمیں ایک آدھ اینکر تو ان حالات میں پریشان نظر آیا ورنہ پورے میڈیا کو جی آئے ٹی کا ہسٹریا ہوگیا ہے ملک کی کسی کو پرواہ نہیں۔