پی ایس 114 ضمنی الیکشن میں کامیابی سیاسی جماعتوں کیلیے چیلنج بن گئی

 حلقے میں کشمیری، قریشی،گجر، پنجابی ، پختون ، ہزارے وال ،آرائیں، اردو بولنے والے اور دیگر برادریوں کے لوگ آباد ہیں


عامر خان June 21, 2017
مسلم لیگ (ن)کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں،متحدہ قومی موومنٹ نے بھی ماضی میں حلقے سے کامیابی حاصل کی فوٹو: فائل

کراچی میں سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس114 پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنا بڑی سیاسی جماعتوں کیلیے چیلنج بن گیا ہے۔

اس نشت پر کا میابی کیلیے برادری سسٹم کا ووٹ اہمیت کا حامل ہے ،ہر جماعت کامیابی کی دعویدار ہے،9جولائی کو معلوم ہوگا کہ حلقے کے عوام پتنگ ،تیر ،بلا اور شیر میں سے کس کوکتنے ووٹ دیتے ہیںاور کون کامیاب ہوتا ہے؟ ، تفصیلات کے مطابق کراچی میں سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس 114 پر ضمنی انتخاب 9 جولائی کوہو گا، یہ حلقہ محمود آباد ، اعظم بستی ، منظور کالونی ، ٹی پی ٹو ،اختر کالونی ،کراچی ایڈمن سوسائٹی،ڈیفنس ویو ،چینسر گوٹھ اورر مضان کالونی سمیت دیگر علاقوں پر مشتمل ہے، اس حلقے میں تمام زبانیں بولنے لوگ رہتے ہیں اور یہ حلقہ مختلف برادریوں پر مشتمل ہے ، اس حلقے کی 70 فیصد آبادی متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور اس حلقے کی منفرد حیثیت یہ ہے کہ یہاں ملک کی فرنیچر سازی کے سب سے زیادہ کارخانے واقع ہیں اور اس حلقے کی آبادی کا اکثر حصہ فرنیچر سازی کے کام سے منسلک ہے، یہاں پر کشمیری ،قریشی ، گجر ، نیازی ، پنجابی ،پختون ،ہزارے وال ،آرائیں اردو کمیونٹی اور دیگر برادریوں کے لوگ آباد ہیں ۔

اس حلقے میں کرسچن کمیونٹی بھی بڑی تعداد میں مقیم ہے ،اسی لیے اس حلقے میں کسی ایک برادری کو انفرادی حیثیت حاصل نہیں ہے ، اس حلقے میں ماضی زیادہ تر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں لیکن متحدہ قومی موومنٹ نے بھی ماضی میں اس حلقے سے کامیابی حاصل کی ہے، 2008 کے عام انتخابات میں اس نشست پر ایم کیو ایم کے امیدوار رؤف صدیقی کامیاب ہوئے تھے،2002 اور 2013 کے عام انتخابات میں اس نشست پر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار عرفان اللہ مروت نے کامیابی حاصل کی ، تاہم 2013کے عام انتخابات میںمتحدہ کے رؤف صدیقی نے عرفان اللہ مروت کی کامیابی کو الیکشن ٹریبونل میں چیلنج کیا اور ایک طویل عرصے تک یہ کیس عدالتوں میں چلتا رہا ، بآلاخر سپریم کورٹ نے چار سال بعد اس حلقے میں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے ،اس نشست پر کامیابی کیلیے پیپلز پارٹی ،ایم کیو ایم پاکستان، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) ایڑھی چوٹی کا زورلگا رہی ہیں اور ان کے اہم رہنما حلقے کا دورہ بھی کر رہے ہیں، اب یہ دیکھنا ہو گا کہ 9 جولائی کو کس جماعت کا امیدوار کامیابی حاصل کرتا ہے ، سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس نشست پر کامیابی حاصل کرنا ہر سیاسی جماعت کیلیے چیلنج ہے، حلقے میں آج بھی عوام کو پانی کی قلت اور دیگر بلدیاتی مسائل کا سامنا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں