صرف کرکٹ کھیلنے والوں کی قسمت میں ہی کروڑوں کیوں

ٹیم نے کسی پر کوئی احسان نہیں بلکہ اپنا فرض پورا کیا ہے، اور فرض کی ادائیگی پر انعامات کی بارش بھلا کیوں؟


وزیراعظم اور حکومت سے بصدِ احترام ایک درخواست ہے کہ مراعات کا اعلان وہاں اچھا لگتا ہے جہاں اُس کی ضرورت ہو۔ جذبات میں آکرعوام کے ٹیکس کا پیسہ یوں بہانا کہاں کی دانشمندی ہے؟

چیمپئنز ٹرافی 2017ء کا آغاز ہوا تو کرکٹ کے ہر پنڈت، گرو اور مہان تجزیہ نگار کی جانب سے دفاعی چیمپئن بھارت اور ہوم گراؤنڈ پر کھیلنے والی انگلینڈ کی ٹیم کو ایونٹ کے لیے فیورٹ قرار دیا گیا، جبکہ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کی جانب سے بھی اچھے کھیل کی توقع کی جارہی تھی، پھر اِس نظریے کو اُس وقت مزید تقویت ملی جب بھارت نے پہلے ہی میچ میں قومی ٹیم کو آسان شکست سے دو چار کیا، گویا آٹھویں نمبر پر کھیلنے والی قومی ٹیم جیت کے کسی پیمانے پر بھی پوری نہیں اُتر رہی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ قومی ٹیم کو اِن مسلسل ناکامیوں کی بہت سی وجوہات میں سے ایک سینئر کھلاڑیوں کا ٹیم میں نہ ہونا ہے، اور ناتجربہ کار کپتان اور کھلاڑی کو اِس مشکل صورتحال سے نمٹنے کے لیے کچھ وقت دینا چائیے۔ بات تو یہ بہرحال ٹھیک ہی تھی، اور سچ پوچھیے تو اگر قومی ٹیم ایونٹ میں شکست سے دوچار ہو بھی جاتی تب بھی شائقین کرکٹ بہت زیادہ مایوس نہیں ہوتے کیونکہ قومی ٹیم کی حالیہ کارکردگی کو دیکھ کر یہ تصور بھی محال تھا کہ ہم فائنل کھیلیں گے، پھر جیتنا تو بہت دور کی بات تھی۔

لیکن حیران کن طور پر بھارت کی شکست کے بعد قومی ٹیم ایک الگ ہی رنگ میں نظر آئی۔ جنوبی افریقہ کے خلاف فتح کا جو آغاز ہوا، اُس نے پورے ایونٹ میں رکنے کا نام نہیں لیا۔ چیمپئنز ٹرافی کی فتح نے جہاں دنیائے کرکٹ میں پاکستان کا نام روشن کیا وہیں اِس جیت نے عرصہ دراز سے کھیل کے میدان سے بڑی خبر کے انتظار میں بے تاب قوم کو یکجا کرکے اُن کا دامن خوشیوں سے بھر دیا۔

اِس غیر معمولی فتح کے بعد شائقین کرکٹ کا ردِعمل بھی غیر معمولی تھا، کراچی ہو، لاہور یا مردان، ہر جگہ شائقین کرکٹ نے کھلاڑیوں پر محبتوں کے پھول نچھاور کیے، سچ پوچھیے تو ایسے مناظر بہت کم اور بہت طویل مدت بعد دیکھنے کو ملتے ہیں۔

جہاں اِس جیت کے بعد شائقین کرکٹ خوش تھے، وہیں حکومتی ایوانوں سے خبر آئی ہے کہ وزیراعظم نے جیت کی خوشی میں قومی کرکٹ ٹیم کے ہر کھلاڑی کے لیے ایک ایک کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے، اب چونکہ ٹیم 15 کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے، لہذا کم از کم 15 کروڑ روپے تو عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے کھلاڑیوں کو دیئے جائیں گے، اور اگر سپورٹنگ اسٹاف کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ رقم 22 سے 25 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔

وزیراعظم اور حکومت سے بصدِ احترام ایک درخواست ہے کہ مراعات کا اعلان وہاں اچھا لگتا ہے جہاں اُس کی ضرورت ہو۔ جذبات میں آکرعوام کے ٹیکس کا پیسہ یوں بہانا کہاں کی دانشمندی ہے؟ معاملہ یہ ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم چیمپئنز ٹرافی کھیلنے گئی ہی اِس لیے تھی کہ وہ فتحیاب ہوکر واپس آئے، یعنی یہ اِس ٹیم کا بنیادی مقصد تھا، ہاں اگر کھیل اچھا پیش نہ کیا جاسکتا تو مقصد کے حصول میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا، لیکن اِس ٹیم کا اولین فرض تو بہرحال یہی تھا کہ وہ اچھے سے اچھا کھیلنے کی کوشش کرے اور کامیابی سے ہمکنار ہو۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹیم نے کسی پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ اپنا فرض پورا کیا ہے، اور فرض کی ادائیگی پر انعامات کی بارش بھلا کیوں اور کہاں ہوتی ہے؟ اگر حکومتی مشینری ہمیں یہ بتا سکے تو ہم اُن کے ممنون ہوں گے۔

اِس حوالے سے اہم بات یہ بھی ہے کہ ملک کی نمائندگی کرنا کسی بھی کھلاڑی کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ 20 کروڑ کی آبادی میں یہ 25، 20 لڑکے انتہائی خوش نصیب ہیں کہ انہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ دوسری بات یہ کہ اِس اہم ترین کام کے لیے اِن کھلاڑیوں کو لاکھوں روپے ماہوار تنخواہ کے علاوہ فی میچ لاکھوں روپے کی فیس بھی ملتی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کا نام روشن کرنے کے لیے یہ کھلاڑی جتنی جدوجہد اور کوشش کررہے ہیں اُسی اعتبار سے اِن کو بالکل ٹھیک ٹھیک معاوضہ فراہم کیا جارہا ہے۔

ہاں اگر حکومت واقعی اِس جیت پر بہت خوش ہے تو بہتر طریقہ یہ تھا کہ ٹیم کے پُرتپاک استقبال کا اعلان کیا جاتا اور پوری ٹیم کے اعزاز میں حکومتی سطح پر عشائیہ دیا جاتا مگر اس طرح کروڑوں روپے کے اعلانات کسی بھی طرح سے دانشمندی کا ثبوت نہیں ہیں۔

یہاں اہم ترین بات یہ ہے کہ اگر حکومت واقعی کھیلوں کے فروغ کے لیے سنجیدہ ہے تو نوازے ہوؤں کو نوازنے کے بجائے اُن کھیلوں پر پیسہ خرچ کرے جو صرف وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنا دم توڑتے جارہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب ہاکی، اسکواش اور اسنوکر میں ہمارا کوئی مدمقابل نہیں ہوا کرتا تھا، لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ ہم اِن کھیلوں میں کسی کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں۔ اِس لیے دھیان دوسرے کھیلوں کی طرف بھی کریں۔

ہمارے قومی کھیل ہاکی کے ساتھ پچھلے دو عشروں میں جو ظلم اور نا انصافی ہوئی ہے اُسی کا ہی مداوا کر دیجئے۔ حالتِ زار یہ ہے کہ آئے دن ہاکی فیڈریشن فنڈز نہ ہونے کا رونا روتا دکھائی دیتا ہے۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا کہ 2015ء میں بھارتی ہاکی فیڈریشن کی جانب سے پاکستان ہاکی فیڈریشن کو امداد کی پیشکش کی گئی۔ حال یہ ہے کہ جس دن پاکستان کرکٹ کے میدان میں بھارت سے جیتا اُسی دن ہاکی کے میدان میں پاکستان کو بھارت سے 1-7 کی عبرتناک شکست سے دو چار ہونا پڑا۔

وفاق میں ہمارے ہاں کھیلوں کی وزارت تو موجود ہے مگر عملی طور پر اُس کی کارکردگی صفر جمع صفر نظر آتی ہے۔ لہذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ ایسے کھلاڑیوں کے حوصلے کی بھی داد دیجئے جو اپنی جیب سے خرچ کرکے وطن عزیز کا نام روشن کررہے ہیں، اور دوسرے ملکوں سے بھاری معاوضے کی پیشکش کے باوجود اِسی ملک میں رہ کر اِس کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

بحثیت قوم ہمارا اِس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہمارے ہاں گراس روٹ لیول پر تمام ہی کھیل دم توڑتے جارہے ہیں۔ آپ سچ بتائیے کہ آخری مرتبہ آپ نے کب اپنے محلے میں نوجوانوں کو ہاکی، اسکواش، بیڈمنٹن یا مزید دیگر کھیلوں کے میچ اور کھلاڑیوں کو پریکٹس کرتے دیکھا ہے؟

اِن حالات میں اب ہمارے پاس دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو ہم اپنے ملک کو ''Cricket Only'' کا درجہ دے دیں جہاں کرکٹ کے علاوہ کوئی اور کھیل ملکی سطح پر نہیں کھیلا جائے گا، (اس طرح ہم دوسرے کھیلوں کو تباہ اور کھلاڑیوں کو عالمی سطح پر رسوا ہونے سے بچا لیں گے) یا پھر ہم دوسرے کھیلوں پر بھی برابر توجہ دیں۔

چیمپئنزٹرافی جیتنے کے بعد کرکٹ بورڈ کی جانب سے تمام کھلاڑیوں کو انعامات دینے کا اعلان کیا جاچکا ہے اِس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ خود کو کرکٹ تک محدود کرنے کے بجائے تمام کھیلوں اور تمام کھلاڑیوں کا خیال رکھے۔

[poll id="1391"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں