اور پھر گاؤں بچ گیا

جاگیردار نے انھیں خیرات و صدقات دینے سے انکار کر دیا تھا جس پر یہ حضرت بھڑک اٹھے۔


Saad Ulllah Jaan Baraq February 01, 2013
[email protected]

اینکر: ارادہ تو ہمارا یہ تھا کہ اس مرتبہ ''ہیاں سے ہواں تک'' کے ٹاک شو ''چونچ بہ چونچ'' میں ''مارچ'' پر کچھ کہیں گے کیونکہ ملک میں بہت سا مارچ ہو گیا تھا لیکن ہمارے علامہ بریانی عرف برڈ فلو کے گاؤں میں ایک زبردست واقعہ ہو گیا، اس لیے آج اسی پر بات کریں گے۔ ہوا یوں کہ علامہ کی اپنے گاؤں کے ''جاگیردار'' سے ٹھن گئی۔ علامہ نے اپنے مقتدیوں کو لے کر جلوس نکالا پھر اس کے ڈیرے کے سامنے دھرنا دیا، خطرہ تھا کہ ایک بہت بڑی جنگ عظیم برپا ہونے والی ہے لیکن رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گذشت، پھر ''جاگیردار'' اور علامہ میں ''راضی بازی'' ہو گئی اور گاؤں ایک بڑی تباہی سے بچ گیا۔ آج اسی موضوع پر ہم علامہ اور چشم گل چشم ماہر جھگڑیات و تنازعات و صلحہ جات سے بات کر رہے ہیں۔

اینکر: ہاں تو علامہ صاحب ہوا کیا تھا، جھگڑا کیا تھا؟
علامہ: جھگڑا اللہ فی اللہ تھا، جاگیردار کفر کرنے لگا تھا۔
اینکر: مثلاً

علامہ: ایک تو اس کی ناک میں بال تھے جو کفر کی نشانی ہے، پھر اس کا سر بھی کانوں کے بیچ میں تھا، آنکھوں کے عین درمیان میں ناک تھی، اوپر سے عوام کے حقوق غصب کر رہا تھا، اخبار دیکھتا تھا، ریڈیو سنتا تھا اور ٹی وی بھی دیکھتا تھا چونکہ دین کا ٹھیکہ میرے پاس ہے، اس لیے آواز اٹھائی۔

اینکر : کیا یہ سچ ہے جناب چشم گل چشم صاحب
چشم: سراسر جھوٹ بول رہا ہے، جاگیردار نے انھیں خیرات و صدقات دینے سے انکار کر دیا تھا جس پر یہ حضرت بھڑک اٹھے۔
علامہ: دیکھو کندہ ناتراش ایک آنکھ والے دجال، باز آ جائو ورنہ تمہارے خلاف بھی جلوس نکال دوں گا۔
چشم: تو نکال دو، میں جانتا ہوں کہ تمہارے ساتھ جلوس میں کتنے لوگ آتے ہیں
اینکر: آپ دونوں لڑیں نہیں اصل موضوع پر بات کرتے ہیں
چشم: اصل موضوع وہی ہے جو میں نے بتایا

علامہ: غلط جلوس اور دھرنا میں نے صرف دین کی حفاظت کے لیے نکالا تھا
اینکر: آپ ٹھہریئے میری بات سنئے ۔۔۔ علامہ صاحب آپ بتائیں
علامہ: میں نے بتا دیا نا کہ جاگیردار لہو لعب میں پڑ گیا تھا
اینکر: وہ کیسے؟
علامہ: کفر کی باتیں کرنے لگا تھا
اینکر: مثلاً

علامہ: مثلاً یہ کہ زکوٰۃ اور خیرات و صدقات اپنے آدمیوں کو دیتا تھا اور علمائے دین کو دینا بند کر دیا تھا
چشم: دیکھا بلی تھیلے سے باہر آ گئی نا ۔۔۔ جاگیردار نے صرف اتنا کیا تھا کہ علامہ کا حصہ کم کر کے غریبوں کو دیتا تھا اور علامہ کی ضد تھی کہ سب کچھ اسے دیا جائے
علامہ: اب تو تم گئے، ذرا گاؤں پہنچو کافر بنا کر گاؤں سے نہ نکلوایا تو علامہ نام نہیں
چشم: علامہ ویسے بھی آپ کا نام نہیں آپ کا اصل نام تو ملا حلوہ پوری ہے

علامہ: نام مت لو نام مت لو ۔۔۔۔ حلوہ پوری جیسی مقدس چیز اب کہاں، لوگوں نے مسجد میں حلوہ پوری دینا ہی بند کر دیا ہے، آہ وہ بھی کیا نیک لوگ تھے، کہ نماز فجر ادا کرتے تھے تو سلام پھیرتے تھے حلوہ پوری کا دیدار ہو جاتا تھا
چشم: اب نقد جو لینے لگے ہو
اینکر: آپ پھر موضوع سے بھٹک رہے ہیں
علامہ: یہ تو ہے ہی بھٹکا ہوا لعنتی آدمی ۔۔۔ ذرا دیکھو تو کتنا منحوس چہرہ ہے اور اس پر یہ مینڈکی جیسی ناک، چشم گل کچھ کہے بغیر جیب سے آئینہ نکال کر علامہ کے سامنے کرتا ہے، علامہ اس میں دیکھتے ہی چیخ مارتا ہے، ہٹاؤ یہ کس منحوس کی تصویر ہے۔
چشم: یہ آپ ہی کا چہرہ نا مبارک ہے
علامہ: اچھا تب ہی میں کہوں کہ ایسا نورانی چہرہ میں نے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔
اینکر: یہ کوئی نائی کی دکان نہیں ہے، یہ چونچ بہ چونچ پروگرام ہے، آپ موضوع پر آئیں۔
چشم: یہی تو موضوع ہے (علامہ کے چہرے کی طرف اشارہ کرتا ہے)
اینکر: میں اپنے سننے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ جلوس اور دوسرے کا قصہ کیا تھا۔
چشم: وہ بس اتنا تھا کہ نماز بخشوانے گئے تھے اور روزے لے کر آ گئے۔

نشستند و خوردند و برخواستند
علامہ: ہم گاؤں بچانے گئے تھے۔
چشم: کیوں گاؤں پر سیلاب آیا تھا کیا؟
علامہ: ہاں سیلاب، کفر کا سیلاب
اینکر: اچھا آپ ابتدا سے بتائیں کہ کیا ہوا تھا؟
علامہ: میں نے جب دیکھا کہ جاگیر دار سے گاؤں کو خطرہ ہے تو اپنے مریدان خاص اور مقتدیان عام کو لے کر چل پڑا اور خان کے حجرے کے سامنے دھرنا دے دیا۔
چشم: یہ بھی بتائیں کہ جاگیردار نے کیا کیا؟
علامہ: پہلے تو اس نے اپنے ڈیرے پر پہرہ بٹھا دیا لیکن پھر ڈر کے مارے جلوس کے شرکاء کے لیے کھانا بھجوا دیا۔

چشم: اجازت ہو تو میں کچھ بولوں۔
اینکر: ہاں ہاں فرمائیں۔
چشم: نہیں میں بولتا ہوں فرماتے یہ ہیں۔
علامہ: بولتے نہیں بکتے ہو۔
چشم: ایسا تھا کہ جاگیردار پہلے ساری زکوٰۃ اور خیر خیرات علامہ کو دیتا تھا، پھر اس نے کٹوتی کر کے آدھا غریبوں میں بانٹنا شروع کیا اور علامہ سے کہا کہ آپ غنی ہیں، اس لیے آدھے پر صبر کریں۔

علامہ: میں غنی کہاں ہوں۔
چشم: بس منہ نہ کھلوائیں نا۔
علامہ: اپنا بدبو دار منہ کھولو بھی مت۔
اینکر: بیان جاری رکھیں پلیز۔
چشم: اس پر یہ جاگیردار کے خلاف بولنے لگا تھا۔ اس نے پروا نہ کی تو یہ جلوس لے کر دوڑ پڑا
اینکر: کتنے لوگ ہوں گے جلوس میں۔
چشم: سات آٹھ پورے اور تیس چالیس آدھے آدھے۔
اینکر: آدھے آدھے کا کیا مطلب؟
چشم: بچے تھے جو راستے میں ساتھ ہو لیے تھے۔
علامہ: لیکن بڑے بچے تھے۔
چشم: وہاں جاگیردار کے ڈیرے سے کوئی چار سو گز دور بیٹھ گئے۔ جاگیردار نے دیکھا تو زبردست قسم کا کھانا بھجوا دیا۔
علامہ: کوئی خاص نہ تھا، چاولوں میں گوشت تو برائے نام تھا۔
اینکر: پھر کیا ہوا؟
چشم: پھر جاگیردار نے علامہ کو مذاکرات کے لیے بلوایا۔

اینکر: اچھا تو جاگیردار سے بات ہوئی۔
چشم: نہیں اس کے منشی سے مذاکرات ہوئے۔ منشی کے ہاتھ سے علامہ کی جیب میں کچھ رنگ دار کاغذ منتقل ہوئے اور سب کچھ شانت ہوگیا۔
علامہ: نہیں جاگیردار نے ہمارے مطالبات مان لیے۔
اینکر: مثلاً
علامہ: مثلاً کہ وہ اپنی ناک کے بال کاٹے گا، پہلے کانوں کے بیج اس کا سر تھا، اب کان سر کے دائیں بائیں ہوں گے اور ناک بھی آنکھوں کی بیچ نہیں ہو گی بلکہ آنکھیں ناک کے دائیں بائیں ہوں گی۔
اینکر: اور وہ عشر و زکوٰۃ؟
علامہ: اس پر بعد میں بات ہو گی۔
اینکر: بہرحال گاؤں تو بچ گیا۔
چشم: ہاں بالکل بچ گیا ورنہ گاؤں نے تو بوریا بستر باندھ کر یہاں سے جانے کا ارادہ کر لیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں