ہائر ایجوکیشن کمیشن کی خودمختاری پر حملہ
آج کل ڈاکٹر جاوید لغاری کی اسلام آباد کلب کی رکنیت اور 10 لاکھ روپے اس مد میں خرچ کرنے کا ذکر اخبارات میں ہو رہا ہے۔
موجودہ قومی اسمبلی کی تعلیم کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی خود مختاری کے خاتمے کے قانون کے مسودے کی منظوری دے دی۔ اب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کا عہدہ وفاقی وزیر مملکت کے برابر نہیں ہو گا اور چیئرمین کے عہدے کی معیاد بھی پانچ سال سے کم کر کے تین سال کر دی گئی ہے، یوں کمیشن کو وزارت تعلیم اور ٹریننگ کے زیر نگرانی کر دیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی 5 سالہ مدت کا اختتام ہائر ایجوکیشن کمیشن سے تصادم پر کر رہی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر جاوید لغاری پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو شہید کی ہدایت پر 1990ء میں یورپ سے پاکستان آئے تھے۔ انھوں نے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے نام پر قائم ہونے والی یونیورسٹی زیبسٹ کی سربراہی سنبھالی۔ انھیں پیپلز پارٹی نے سندھ سے ٹیکنوکریٹ کی نشست پر سینیٹر منتخب کیا تھا۔
2008ء میں کراچی میں یہ بات عام تھی کہ ڈاکٹر جاوید لغاری پیپلز پارٹی حکومت میں وزیر تعلیم ہوں گے مگر آصف علی زرداری کے صدر بننے کے بعد انھیں سینیٹ سے مستعفی ہونے کی ہدایت کی گئی اور ایچ ای سی کا چیئرمین مقرر کیا گیا، مگر جب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی جعلی ڈگریوں کی چھان بین کا معاملہ آیا تو ڈاکٹر لغاری زیر عتاب آ گئے۔ پیپلز پارٹی والے ان پر اس سازش میں شرکت کا الزام لگاتے ہیں۔ ڈاکٹر لغاری کے ایک بھائی، جو اندرونِ سندھ ایس ڈی ایم تھے، کو ایک نامعلوم مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔ 18 ویں ترمیم پر عملدرآمد کے لیے ایچ ای سی کو تحلیل کرنے اور صوبوں میں ایچ ای سی قائم کرنے کا مسئلہ آیا تو ڈاکٹر جاوید لغاری ایچ ای سی کے سابق سربراہ ڈاکٹر عطاء الرحمن اور پنجاب کے ان سیاسی لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے جو تعلیم کو صوبوں کی تحویل میں دینے کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے۔
آج کل ڈاکٹر جاوید لغاری کی اسلام آباد کلب کی رکنیت اور 10 لاکھ روپے اس مد میں خرچ کرنے کا ذکر اخبارات میں ہو رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے تقرر پر تنازعہ پیدا ہوا۔ ڈاکٹر لغاری نے سہیل نقوی اور حکومت نے سیکریٹری تعلیم کو اس عہدے کے لیے نامزد کیا۔ ایک کمرے میں ایک وقت میں دو ڈائریکٹروں نے بیٹھ کر ایک دوسرے کے خلاف احکامات جاری کیے۔ ایچ ای سی کے مستقل ملازمین نے ڈاکٹر جاوید لغاری کے خلاف مظاہرہ کیا۔ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا، معزز عدالت نے دونوں تقرریوں کو غیر قانونی قرار دے دیا اور کمیشن کے بورڈ کو ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے تقرر کی سفارش کی۔
نئی صدی کے آغاز پر پوری دنیا میں تعلیم کے شعبے میں اہم تبدیلیوں کا آغاز ہوا، اعلیٰ تعلیم کو خصوصی اہمیت حاصل ہوئی۔ بوسٹن گروپ کے دانش وروں کی تجویز پر ایک ٹاسک فورس قائم ہوئی جس نے دنیا بھر میں یونیورسٹیوں کو مالیاتی امداد دینے والے ادارے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (U.G.C) کی جگہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (H.E.C) قائم کرنے کا نظریہ پیش کیا۔ پاکستان میں 17 ماہرین پر مشتمل آغا خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر قاسم لاکھا کی قیادت میں ٹاسک فورس قائم کی گئی، یوں ہائر ایجوکیشن کمیشن کا ادارہ قائم کیا گیا۔ اس قانون کے تحت ایچ ای سی کو مکمل طور پر خود مختار بنایا گیا۔ اس کے چیئرمین کو وفاقی وزیر مملکت کا درجہ دیا گیا۔ ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں کی ہیئت کو تبدیل کرنے اور نئی یونیورسٹیوں کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان میں 2008ء تک صرف سرکاری شعبے میں یونیورسٹیوں کی تعداد 60 سے زیادہ ہو گئی۔ یونیورسٹی اساتذہ کے پے اسکیل اپ گریڈ کر دیے گئے۔ ٹینوئر ٹریک سروس (T.T.S) کے ذریعے اساتذہ کی تنخواہیں 10 لاکھ تک ہو گئیں، بہت سے طالب علموں کو بیرون ممالک پی ایچ ڈی کرنے کے لیے قرضے دیے گئے، ملک میں پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد بڑھ گئی، اس کے ساتھ ہی کچھ بدعنوانیاں بھی ہوئی تھیں، بعض اساتذہ نے دوسروں سے تھیسز اور ریسرچ پیپرز تحریر کرا کے پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ ہائی کمیشن نے فارن فیکلٹی ہائرنگ اسکیم کے تحت بعض ایسے غیر ملکی اساتذہ کا تقرر کیا جو نہ تو انگریزی سے واقف تھے نہ کسی اور مقامی زبان سے، اس طرح ٹی ٹی ایس پر کام کرنے والے بعض اساتذہ میں تحقیق کے بجائے سیاست شروع ہوئی۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے وفاقی وزراء سے زیادہ غیر ملکی دورے کیے۔ کمیشن میں احتساب کا نظام کمزور ہونے سے کچھ بے قاعدگیاں ہوئیں، اسی طرح ڈاکٹر عطاء الرحمن نے یونیورسٹیوں کا انتظام چلانے کے لیے ماڈل یونیورسٹی آرڈیننس تیار کیا، اس آرڈیننس کی کچھ شقیں پاکستانی کلچر سے متعلق نہیں تھیں، بیشتر یونیورسٹیوں نے اس آرڈیننس کو قبول نہیں کیا مگر اس آرڈیننس کے تحت وفاقی اردو یونیورسٹی قائم ہوئی جو اس آرڈیننس کی بعض شقوں کے ذریعے مسائل کا شکار ہوئی۔
جب 18 ویں ترمیم کے تحت ایچ ای سی کی تحلیل اور صوبوں میں ایچ ای سی کے قیام کا معاملہ آیا تو بہت سے ماہرین کو یہ خوف پیدا ہوا کہ حکومت صوبوں میں محکمہ تعلیم کے تحت ادارہ قائم کرے گی، اس طرح اعلیٰ تعلیم کی حیثیت متاثر ہو گئی۔ اس وقت 18 ویں ترمیم پر مکمل عملدرآمد کے حامی بعض ماہرین یہ کہتے تھے کہ صوبوں میں بھی مکمل خود مختار کمیشن قائم ہونے چاہئیں، مگر بعد میں رونما ہونے والے واقعات نے حکومت کے عزائم کو عیاں کر دیا۔ اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے حکومت کا رویہ افسوس ناک ہے۔ وفاقی حکومت نے اپنی مرضی کے افراد کو وائس چانسلر مقرر کرنے کے لیے سرچ کمیٹی کو نظر انداز کر دیا ہے۔ کئی یونیورسٹیوں میں اپنے من پسند افراد کو وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے جو پی ایچ ڈی نہیں ہیں۔
صرف وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے تقرر کا معاملہ 10 ماہ بعد حل ہوا۔ اس طرح ڈائو کالج کراچی اور نیشنل کالج آف آرٹس یونیورسٹی لاہور کے سربراہ کا تقرر بھی گزشتہ 2 برسوں سے نہیں ہو سکا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر جاوید لغاری کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایچ ای سی کی خود مختاری ختم کرنے سے پہلے اس معاملے پر قومی بحث و مباحثہ کرنا چاہیے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس میں شریک کرنا چاہیے۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کی کمیٹی کے اجلاس میں بھی یہی مطالبہ دہرایا گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں یہ پرائیوٹ بل ڈاکٹر نفیسہ شاہ اور یاسیمن رحمن نے پیش کیا ہے۔
نفیسہ شاہ نے دنیا کی ممتاز اور برطانیہ کی قدیم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا ہے جو اداروں کی خود مختاری اور بیوروکریسی کے نظام سے واقف پیپلز پارٹی کی اندرون معاملات سے باخبر ایک صحافی کا کہنا ہے کہ نفیسہ شاہ اور یاسمین رحمن نے محض ڈاکٹر لغاری کو سزا دینے کے لیے یہ بل پیش کیا ہے۔ کسی فرد کی بنا پر ادارے کو نقصان پہنچانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اہلکاروں کے احتساب کے لیے کمیشن کی خود مختاری کو برقرار رکھتے ہوئے اقدامات کرنے کے بجائے اس کی خود مختاری کو ختم کر کے بیوروکریسی کا کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ صورتحال اعلیٰ تعلیم کے لیے نقصان دہ ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کی میعاد ختم ہونے کو ہے، اس کو آخری وقت اداروں کو توڑنے کے بجائے انھیں مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حکومت کو تمام وائس چانسلروں کا تقرر قانون کے مطابق کرنا چاہیے اور ایچ ای سی میں احتساب کے طریقہ کار کو مستحکم کرنے کے لیے تجاویز پیش کرنی چاہئیں۔ صوبوں میں اس طرح کے خود مختار کمیشن قائم ہونے چاہئیں جو وفاق کے کمیشن کے تعاون سے فرائض انجام دیں۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں وائس چانسلر کا عہدہ وفاقی سیکریٹریوں کے برابر کیا گیا تھا، پیپلز پارٹی کی یہ حکومت ایچ ای سی کے چیئرمین کے عہدے کی حیثیت کم کر کے نہ صرف اعلیٰ تعلیم کی حیثیت کم کر رہی ہے بلکہ اپنی اساسی دستاویز سے بھی روگردانی کر رہی ہے۔