پردیسیوں کی عید
ان نعمتوں کی قدر کیجئے جو آپ کے پاس ہیں، ورنہ عیدیں اداس در اداس ہوتی جانے والی ہیں۔
عید آنے والی ہے، عید کے بارے سوچ سوچ کر خوش ہو رہا ہوں، ماں جی میرے پاس آئی ہوئی ہیں، اِن کے آنے سے میری زندگی کے اطوار میں کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی لیکن میری ساری سوچ بدل گئی ہے، مجھے لگ رہا ہے والدین ساتھ ہوں تو دل کے رنگ اور عید کی شوخیاں کچھ اور ہوتی ہیں، لیجئے پہلے پچھلے سال عید پر میرے لکھے ہوئے تاثرات ملاحظہ ہوں۔
یورپ میں بسنے والا میں ایک عام سا پردیسی ہوں جو چند سال پہلے ہی وطن بدر ہوا ہے، جس کے سبھی اپنے ابھی پاکستان میں بستے ہیں اور آج اِس پردیسی کا یوم عید ہے۔ پردیس میں گزرنے والا چھٹا یوم عید۔
ایسی عیدیں جن کی چاند راتیں کام سے واپسی پر راستے میں گزریں، کام سے فرصت ہوئی تو نمازِ عید کے کسی قریبی اجتماع میں چلے گئے اور شام کو پھر کام پر، گھر کے راستوں پر چلتے چلتے اپنے پیاروں کو فون پر عید کی مبارکباد دی اور وصول کرلی۔ اگر موقع ملا تو کسی دوست کی طرف چلے گئے، اِس سے کسی من پسند کھانے کی فرمائش کرلی یا اُس کی پسند کا کچھ بنالیا اور بس، ایسی روکھی، بے رنگ اور بے جان ہوتی ہے پردیس کی عید۔
نہ کسی کے کپڑے زرق برق ہوئے، نہ گلی کے بچوں نے شور مچایا، نہ کسی نے گلی کے موڑ پر ٹھیلا جمایا، نہ کسی اجنبی نے گلے لگایا، نہ آنگنوں میں جھنڈیاں سجیں، بس ایک عام سا دن تھا جو آیا اور مزید اُداس کرکے چلا گیا۔ مجھے خبر نہیں کہ عید کا اداسی سے کیا چکر ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ
مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں دیس میں تھا تب بھی عیدیں اداس ہونے لگیں تھیں۔ جب سے 20 برس سے کچھ اوپر کے ہوئے عیدیں کچھ خاص خوشی نہیں دیتی تھیں۔ بس یہ کہ اُٹھے، نمازِ عید پڑھی، محلے کے لوگوں سے ملے، عیدی وصول کی اور گھر کو آگئے۔ ٹی وی دیکھا، کچھ رنگ برنگا کھانا کھایا، کوئی ملنے چلا آیا، کسی سے ملنے چلے گئے اور بس، لیکن پچھلی بہت سی عیدوں میں سے عید کا دن ڈھونڈنے بیٹھا ہوں تو مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کس برس عید منائی تھی۔
شاید وہ دن جنہیں عید کے دن کہتے تھے میرے بچپن کے دن تھے، جب چاند رات کو ہم بچے چارہ کاٹنے والے چبوترے کے پاس جمع ہوجاتے اور اپنی آنکھوں سے چاند دیکھنے کی کوشش کرتے۔
اُن دنوں ٹی وی تو کیا ہمارے گاؤں میں بجلی کے کھمبے بھی نہ لگے تھے اور سچ پوچھیے تو لوگ بجلی کے لئے پریشان بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔ تب ہم نے عید کا چاند اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، بہت باریک سا، نازک سا بالکل کسی شاعر کے محبوب سا، آج کے دور میں جب سے چاند دیکھنے کی ذمہ داری پوپلزئی اور رویت ہلال کمیٹیوں نے لے لی ہے، لوگ چاند اب بس کھڑکیوں میں ہی تلاش کرتے ہیں،
اگر آپ کی زندگی میں بھی عید کا چاند آپ کی آنکھوں نے دیکھ رکھا ہے تو آپ عید کی خوشی کو باآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ بس یہ کہ کسی بچے بوڑھے کو چاند کی ایک ہلکی سی لکیر دکھائی دیتی اور وہ دور آسماں میں کسی طرف اشارہ کرتا، لوگ اُس کی نگاہوں اور انگلیوں کے تعاقب میں آسمان پر نظریں دوڑاتے اور چاند نظر آجاتا تو سبھی کو لگتا کہ آج تو چاند صرف اُسی کے لئے نکلا ہے۔
مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ بچپن کی ہر عید نئے کپڑوں کے ساتھ ہی گزری ہو۔ یہ بھی یاد نہیں کہ کسی ایک عید پر ہم نے ڈھیروں عیدی اکھٹی کی ہو، لیکن اتنا یاد ہے کہ اُن عیدوں میں ایک خوشی تھی، ایک انجانی خوشی جو میرے بیان سے باہر ہے، وہ کس چیز کی خوشی تھی اب تک اُس کی وجہ ڈھونڈ نہیں پایا۔ گاؤں کا واحد حلوائی جلیبیاں تو سارا سال نکالتا تھا، لیکن عید کے روز کچھ زیادہ، میناری والی دکانیں بھی سارا سال کھلتی تھیں لیکن عید پر کچھ کھلونے زیادہ ہوتے تھے۔
کچھ موسمی سے دکاندار بھی عید بنانے چھوٹے چھوٹے ٹھیلے سے سجا لیتے تھے، لیکن اُس دور میں کہیں نہ کہیں کچھ ایسا ضرور تھا جس جذبے کو خوشی کہا جاسکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے خوشی شاید بے فکری کا نام ہے جو صرف بچپن میں تھی، اِس لئے جوں جوں فکر مندی کی دہلیز پار کی خوشی کم، مزید کم ہوتی چلی گئی۔
اور آج جب عید منانے بیٹھا ہوں تو دل پر ایک بوجھ سا ہے، اپنے دیس سے جدائی کا دُکھ، اپنے دوستوں سے دوری کا دُکھ، زندگی میں بہت آگے نہ بڑھنے کی کسک، اپنی زندگی کی بے مائیگی کا دُکھ، اپنے باپ کے بچھڑ جانے کا زندہ ہوتا احساس، پاکستان کے ابتر ہوتے حالات کا دُکھ، سانحہ پشاور کے ننھے شہیدوں کے اجڑے گھرانوں کا دُکھ، نئے کپڑے نہ ملنے پر زندگی ہار دینے والوں کا دُکھ۔
سچ کہوں تو اِس سال بھی چاند رات کام پر ہی گزرے گی، نہ ہی گلی کے بچے شور مچائیں گے، نہ کسی کے کپڑے زرق برق ہوں گے، لیکن ایک بار بھی بوجھ کا احساس نہیں ہوا کہ پتہ ہے اگلی صبح جو طلوع ہوگی وہ خوشیوں بھری عید ہوگی، اپنے محلے داروں سے دوستوں سے کہہ چکا ہوں کہ مل کر عید کریں گے، موسم اچھا ہوا تو گِرل پارٹی ہوگی، ورنہ کچھ نہ کچھ دیسی پکے گا، جس علاقے میں اب میں رہتا ہوں وہاں پہلے زیادہ پاکستانی نہیں رہ رہے تھے لیکن پچھلے دو چار سالوں میں چھ سات فیملیوں کا اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے سوچا ہے کہ ایک کمیونٹی ہال لے کر اِس کے اندر مل بیٹھنے کا انتظام کریں گے کیونکہ ہم جن فلیٹس میں رہ رہے ہیں اُن میں کوئی بھی اتنا بڑا نہیں کہ بیس پچیس افراد کو سمو سکے۔
پردیس کی عید کا عمومی رنگ وہی ہوتا ہے جو پچھلے بہت سارے سالوں سے چل رہا ہے لیکن اپنوں سے مل بیٹھنے کا موقع مل جائے تو ہر موسم میں عید ہوسکتی ہے اور اگر آپ کہیں اپنے اپنوں کے درمیان موجود ہیں، دیس کی گلیوں میں بستے ہیں، دوستوں کی محفلیں میسر ہیں، والدین کا سایہ سر پر سلامت ہے، بہن بھائی ابھی زندگی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں تو عید منانے کے لئے اِس سے اچھا دن نہیں آنے والا۔ اگر کوئی روٹھا ہے تو اُس کو منالیجئے، کوئی دور ہے تو اُس کو پاس بلا لیجئے۔ زندگی خرابی در خرابی کے راستے پر چل رہی ہے، اِن نعمتوں کی قدر کیجئے جو آپ کے پاس ہیں، ورنہ عیدیں اُداس در اداس ہوتی جانے والی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یورپ میں بسنے والا میں ایک عام سا پردیسی ہوں جو چند سال پہلے ہی وطن بدر ہوا ہے، جس کے سبھی اپنے ابھی پاکستان میں بستے ہیں اور آج اِس پردیسی کا یوم عید ہے۔ پردیس میں گزرنے والا چھٹا یوم عید۔
ایسی عیدیں جن کی چاند راتیں کام سے واپسی پر راستے میں گزریں، کام سے فرصت ہوئی تو نمازِ عید کے کسی قریبی اجتماع میں چلے گئے اور شام کو پھر کام پر، گھر کے راستوں پر چلتے چلتے اپنے پیاروں کو فون پر عید کی مبارکباد دی اور وصول کرلی۔ اگر موقع ملا تو کسی دوست کی طرف چلے گئے، اِس سے کسی من پسند کھانے کی فرمائش کرلی یا اُس کی پسند کا کچھ بنالیا اور بس، ایسی روکھی، بے رنگ اور بے جان ہوتی ہے پردیس کی عید۔
نہ کسی کے کپڑے زرق برق ہوئے، نہ گلی کے بچوں نے شور مچایا، نہ کسی نے گلی کے موڑ پر ٹھیلا جمایا، نہ کسی اجنبی نے گلے لگایا، نہ آنگنوں میں جھنڈیاں سجیں، بس ایک عام سا دن تھا جو آیا اور مزید اُداس کرکے چلا گیا۔ مجھے خبر نہیں کہ عید کا اداسی سے کیا چکر ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ
ہوا ہی ایسی چلی ہے کہ جی بحال نہیں
وگرنہ ہم تو بہت کم اداس ہوتے ہیں
مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں دیس میں تھا تب بھی عیدیں اداس ہونے لگیں تھیں۔ جب سے 20 برس سے کچھ اوپر کے ہوئے عیدیں کچھ خاص خوشی نہیں دیتی تھیں۔ بس یہ کہ اُٹھے، نمازِ عید پڑھی، محلے کے لوگوں سے ملے، عیدی وصول کی اور گھر کو آگئے۔ ٹی وی دیکھا، کچھ رنگ برنگا کھانا کھایا، کوئی ملنے چلا آیا، کسی سے ملنے چلے گئے اور بس، لیکن پچھلی بہت سی عیدوں میں سے عید کا دن ڈھونڈنے بیٹھا ہوں تو مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کس برس عید منائی تھی۔
شاید وہ دن جنہیں عید کے دن کہتے تھے میرے بچپن کے دن تھے، جب چاند رات کو ہم بچے چارہ کاٹنے والے چبوترے کے پاس جمع ہوجاتے اور اپنی آنکھوں سے چاند دیکھنے کی کوشش کرتے۔
اُن دنوں ٹی وی تو کیا ہمارے گاؤں میں بجلی کے کھمبے بھی نہ لگے تھے اور سچ پوچھیے تو لوگ بجلی کے لئے پریشان بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔ تب ہم نے عید کا چاند اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، بہت باریک سا، نازک سا بالکل کسی شاعر کے محبوب سا، آج کے دور میں جب سے چاند دیکھنے کی ذمہ داری پوپلزئی اور رویت ہلال کمیٹیوں نے لے لی ہے، لوگ چاند اب بس کھڑکیوں میں ہی تلاش کرتے ہیں،
کھڑکی کھلے کوئی چہرہ دکھائی دے
اے چاند تو نہیں تو کوئی تجھی سا دکھائی دے
اگر آپ کی زندگی میں بھی عید کا چاند آپ کی آنکھوں نے دیکھ رکھا ہے تو آپ عید کی خوشی کو باآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ بس یہ کہ کسی بچے بوڑھے کو چاند کی ایک ہلکی سی لکیر دکھائی دیتی اور وہ دور آسماں میں کسی طرف اشارہ کرتا، لوگ اُس کی نگاہوں اور انگلیوں کے تعاقب میں آسمان پر نظریں دوڑاتے اور چاند نظر آجاتا تو سبھی کو لگتا کہ آج تو چاند صرف اُسی کے لئے نکلا ہے۔
مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ بچپن کی ہر عید نئے کپڑوں کے ساتھ ہی گزری ہو۔ یہ بھی یاد نہیں کہ کسی ایک عید پر ہم نے ڈھیروں عیدی اکھٹی کی ہو، لیکن اتنا یاد ہے کہ اُن عیدوں میں ایک خوشی تھی، ایک انجانی خوشی جو میرے بیان سے باہر ہے، وہ کس چیز کی خوشی تھی اب تک اُس کی وجہ ڈھونڈ نہیں پایا۔ گاؤں کا واحد حلوائی جلیبیاں تو سارا سال نکالتا تھا، لیکن عید کے روز کچھ زیادہ، میناری والی دکانیں بھی سارا سال کھلتی تھیں لیکن عید پر کچھ کھلونے زیادہ ہوتے تھے۔
کچھ موسمی سے دکاندار بھی عید بنانے چھوٹے چھوٹے ٹھیلے سے سجا لیتے تھے، لیکن اُس دور میں کہیں نہ کہیں کچھ ایسا ضرور تھا جس جذبے کو خوشی کہا جاسکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے خوشی شاید بے فکری کا نام ہے جو صرف بچپن میں تھی، اِس لئے جوں جوں فکر مندی کی دہلیز پار کی خوشی کم، مزید کم ہوتی چلی گئی۔
اور آج جب عید منانے بیٹھا ہوں تو دل پر ایک بوجھ سا ہے، اپنے دیس سے جدائی کا دُکھ، اپنے دوستوں سے دوری کا دُکھ، زندگی میں بہت آگے نہ بڑھنے کی کسک، اپنی زندگی کی بے مائیگی کا دُکھ، اپنے باپ کے بچھڑ جانے کا زندہ ہوتا احساس، پاکستان کے ابتر ہوتے حالات کا دُکھ، سانحہ پشاور کے ننھے شہیدوں کے اجڑے گھرانوں کا دُکھ، نئے کپڑے نہ ملنے پر زندگی ہار دینے والوں کا دُکھ۔
سچ کہوں تو اِس سال بھی چاند رات کام پر ہی گزرے گی، نہ ہی گلی کے بچے شور مچائیں گے، نہ کسی کے کپڑے زرق برق ہوں گے، لیکن ایک بار بھی بوجھ کا احساس نہیں ہوا کہ پتہ ہے اگلی صبح جو طلوع ہوگی وہ خوشیوں بھری عید ہوگی، اپنے محلے داروں سے دوستوں سے کہہ چکا ہوں کہ مل کر عید کریں گے، موسم اچھا ہوا تو گِرل پارٹی ہوگی، ورنہ کچھ نہ کچھ دیسی پکے گا، جس علاقے میں اب میں رہتا ہوں وہاں پہلے زیادہ پاکستانی نہیں رہ رہے تھے لیکن پچھلے دو چار سالوں میں چھ سات فیملیوں کا اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے سوچا ہے کہ ایک کمیونٹی ہال لے کر اِس کے اندر مل بیٹھنے کا انتظام کریں گے کیونکہ ہم جن فلیٹس میں رہ رہے ہیں اُن میں کوئی بھی اتنا بڑا نہیں کہ بیس پچیس افراد کو سمو سکے۔
پردیس کی عید کا عمومی رنگ وہی ہوتا ہے جو پچھلے بہت سارے سالوں سے چل رہا ہے لیکن اپنوں سے مل بیٹھنے کا موقع مل جائے تو ہر موسم میں عید ہوسکتی ہے اور اگر آپ کہیں اپنے اپنوں کے درمیان موجود ہیں، دیس کی گلیوں میں بستے ہیں، دوستوں کی محفلیں میسر ہیں، والدین کا سایہ سر پر سلامت ہے، بہن بھائی ابھی زندگی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں تو عید منانے کے لئے اِس سے اچھا دن نہیں آنے والا۔ اگر کوئی روٹھا ہے تو اُس کو منالیجئے، کوئی دور ہے تو اُس کو پاس بلا لیجئے۔ زندگی خرابی در خرابی کے راستے پر چل رہی ہے، اِن نعمتوں کی قدر کیجئے جو آپ کے پاس ہیں، ورنہ عیدیں اُداس در اداس ہوتی جانے والی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔