کراچی کی ’عجیب فرقہ واریت‘

ان دس برسوں کی جنگ میں اب ان کا سر اٹھانا باقی لوگوں کے ساتھ ساتھ اقتدار میں موجود افراد کے لیے بھی خطرناک تھا۔

شیخ سعدیؒ کی حکایت ہے کہ ایک شکاری پرندوں کا شکار کرنے تیر کمان لے کر جا رہا تھا لیکن اس کی آنکھیں آنسوئوں سے لبریز تھیں، ایک پرندے نے نہایت دکھ سے اپنے ہمسفر کو مخاطب کیا کہ دیکھو یہ شکاری کتنا رحم دل ہے، یہ صیاد تو ہے لیکن اس کی آنکھوں میں درد کے کتنے آنسو ہیں۔ ہمسفر نے برجستہ جواب دیا، صیاد کی آنکھ کے آنسو نہ دیکھو، اس کے ہاتھ میں موجود تیرکمان کودیکھو۔ المیہ یہ ہے کہ عہد حاضر میں شہر کراچی میں ہمارے مفکرین روز اٹھتی، چیختی، سسکتی آہیں تو سنتے اور عوام الناس کو سنواتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ آوازیں پیدا کس نے کی ہیں۔ امن کا درس دینے والے اور امن کی فاختہ اڑانے والے یہ نہیں دیکھتے کہ فاختہ کس نے اُڑائی ہے، اس کی چونچ سے ٹپکتا لہو کتنے انسانوں کے ارمانوں کا لہو ہے۔

کراچی کا غم ہر شہری کی طرح میں بھی محسوس کرتا ہوں، جب سے ہوش سنبھالا ہے یہ ہی سنا تھا کہ یہاں قتل وغارتگری، جرم سزا، نا انصافی کی وجہ معاشی حالات کا خراب ہونا، لوگوں کا خوف میں مبتلا رہنا سب مسائل کی بڑی وجہ یہاں کی لسانی اور عصبیتی بنیاد پر قائم سیاسی و مذہبی جماعتیں ہیں، اور یقیناً یہ بات مکمل طور پر درست بھی تھی اور آج بھی ہے، لیکن کچھ عرصے سے جاری مفاہمتی عمل کے نتیجے میں لگتا ہے کہ اب ان تمام مسائل کی وجہ کا رخ تبدیل ہوگیا ہے۔ اب بھی وہی سب کچھ ہو رہا ہے بس 'ہاتھوں' کی تبدیلی اورطریقہ کار میں فرق برتا گیا ہے، جہاں کراچی میں لسانی فسادات نے ایک طویل عرصے شہر کا امن و سکون برباد رکھا، وہیں فرقہ وارانہ فسادات نے بھی اس شہر کی رونقیں ضبط کرلی ہیں۔ اس مسئلے پر جب رہنمائوں اور دینی حضرات کا موقف سامنے آتا ہے تو کبھی کبھی وہ بھی بودی سے دلیلوں سے آگے بڑھتے دکھائی نہیں دیتے۔ فرقہ واریت کو 14 سو سال پرانا مسئلہ کہہ کر جس طرح نظر انداز کیا جاتا ہے اس پر افسوس کے سوا اور کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔

تازہ مار دھاڑ کی لہر کی وجہ سمجھنا یقیناً آسان نہیں ہے لیکن ماضی قریب کی تاریخ کے کچھ واقعات مدد اور رہنمائی کی کوشش کرتے ہیں جس کے ذریعے کچھ مدہم سی روشنی نظر آتی ہے جس پر غور کرکے شاید ہزاروں مائوں کی گودوں اور سہاگوں کو بچایا جا سکے۔ آج سے پہلے بھی جب پڑوس میں ایک سپر پاور کو شکست کا سامنا ہوا تھا اس کے بعد جس طرح کے نئے نئے مسائل اس خطۂ ارضی نے بھگتے تھے پہلے کبھی نا دیکھے تھے، ان مسائل پر آج تک بحث و تکرار جاری ہے، لیکن ایک مماثلت جو آج پھر نظر آرہی ہے وہ یہ کہ اس وقت جن لوگوں کو جہاد کے لیے استعمال کیا گیا تھا، سیاسی اور مذہبی، ملکی و غیر ملکی ہر نوع کی اشیاء استعمال کی گئیں، ہزاروں تحاریر تیار ہوئیں، لاکھوں کتابیں چھاپی گئیں، انگنت پروگرام اور لیکچرز دیے گئے، منبر و محراب کو استعمال میں لایا گیا، تجوریوں کے منہ کھولے گئے، غیر ملکی دوروں کے کئی دور ہوئے، نتیجتاً جب کامیابی نے جھنڈے گاڑے اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آئے تو حکم ہوا کہ دکان بند کر دو۔ انسانی جسموں کا استعمال حد سے زیادہ بڑھ گیا تو انتہائی خاموشی اور چالاکی سے ان سے رخصت چاہی گئی، لیکن کیا کیجیے 'ظلم منہ کو ایسا لگا کہ اتنا آسان نہ تھا اس سے جاں چھڑا لے جانا'۔ اس کا آسان حل یہ نکالا گیا ان کو راستے سے چلتا کردیا گیا، وہ نوجوان جو تربیت حاصل کرکے شہروںمیں ہی دادِ شجاعت دے رہے تھے ان کے لیے شہر ہی کو میدان جنگ اور پھر مقتل بنادیا گیا، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نوجوانوں کے خون سے تعلیمی اداروں کو لہو رنگ کیا گیا۔


یہی کچھ امریکا کے افغانستان پر حملے کے بعد ہوا، جانبازوں کی تلاش شروع ہوئی، قرعہ پھر ان ہی کے نام نکلا جو پہلے قربان گاہوں میں سر دے چکے تھے، مگر اس دفعہ 'عقل پرستی' غالب آئی اور معذرت چاہی گئی، دوسرے گھوڑے تیار تھے ان پر زین کسی گئیں اور پھر میدان گرم کر دیے گئے۔ دس سال کے کامیاب کاروبار کے بعد جب بڑوں نے واپسی کا اعلان کیا تو پھر پریشانی کے سائے سروں پر منڈلانے لگائے کہ اب جو تیار ہیں وہ کہاں 'ٹھکانے' لگائے جائیں؟ ماضی والے تو بے چارے ہلکے نکلے، چند 'مار' میں نکل گئے اس دفعہ حالات مختلف نکلے اور انسانوں کی کھیپ سنبھالنا مشکل نظر آیا تو ایک دوسری لڑائی کے لیے تیار کر دیا گیا اور وہ تھی فرقہ واریت۔

اقتدار میں بیٹھے افراد اور انسانوں کے پتلی تماشے کرنے والے افراد کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہی ہوتا ہے اپنے مقاصد کے حصول کے بعد سب سے زیادہ آنکھوں میں وہ ہی افراد کھٹکتے ہیں جن کے ذریعے اپنے اقتدار کو دوام دیا جاتا ہے، جن کی لاشوں پر اپنے تاج محل تیار کیے جاتے ہیں۔ کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ ساتویں صدی میں کسی بادشاہ کو اقتدار حاصل ہوتا ہے تو ایک قریبی ملک کے حکمران نے اس کو اقتدار کے لیے جو سبق دیا وہ انتہائی دلچسپ اور بصیرت افروز ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ آپ اتنے عرصے سے حکومت میں ہیں کس طرح حکومت کو مضبوط کرتے ہیں، وہ گہیوں کے لہلہاتے ہوئے کھیت میں لے گیا، ابھی نظارے سے لطف اندوزی جاری تھی کہ بادشاہ نے نیام سے تلوار نکالی اور ان خوشوں کے سر قلم کر ڈالے جو باقی خوشوں سے سر نکالے ہوئے تھے اور ممتاز تھے۔

کامیاب ہونے والے حضرات یقیناً ممتاز ہوگئے تھے، ان دس برسوں کی جنگ میں اب ان کا سر اٹھانا باقی لوگوں کے ساتھ ساتھ اقتدار میں موجود افراد کے لیے بھی خطرناک تھا تو ان کو ایک بے مقصد لڑائی میں لگا کر دوسرے گروہوں کو یہ سمجھا دیا کہ اگر ان کے پاس طاقت منتقل ہوگی تو تمہارا جینا دشوار ہوجائے گا، اور اس کے ساتھ ہی ایک نہ ختم ہونے والے فرقہ وارانہ تصادم کا آغاز کردیا گیا، جس کی بھینٹ یہ شہر کراچی چڑھ گیا ہے۔ اگر یہ واقعی کوئی حقیقی تصادم ہے تو پھر تمام فرقوں کے درمیان کیوں نہیں ہے؟ صرف دو ہی فرقوں کے درمیان کیوں ہے؟

ہر روز اٹھائے جانے والے درجنوں جنازوں نے اس شہر کا رہا سہا دم بھی نکال دیا ہے، مایوسیوں کا ڈیرہ ہے جس کے باعث آنے والی نسلیں صرف اس خوف میں مبتلا ہیں کہ ہمارا شہر کب عراق یا شام کی صورت اختیار کرتا ہے، سرکار کے عہدوں پر براجمان افراد ایک سے ایک ڈرا دینے والی خبر سناکر، پڑوسی ممالک کی دخل اندازی بتا کر روانہ ہوجاتے ہیں اور میری طرح کراچی والے گھر جانے سے پہلے ان راستوں کا پتا کرتے ہیں جن پر آج کوئی جنازہ نہ اٹھا ہو۔
Load Next Story