فکری انتشار میں مبتلا معاشرہ

جنرل ضیا کے دور میں کرپشن نے نئی شکلیں بھی اختیار کرلیں

muqtidakhan@hotmail.com

جمعرات 15جون2017 کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے تشکیل کردہ مشترکہ تفتیشی ٹیم (JIT)کے روبرو وزیراعظم پیش ہوئے۔جب کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف ہفتہ 17جون کو پیش ہوئے۔وزیر اعظم نے باہر نکل کر تقریر کی۔ شہباز شریف کا لہجہ بھی خاصا جارحانہ تھا۔ انھوں نے بھی دل کھول کر مشترکہ تفتیشی ٹیم (JIT)کے بارے دل کی بھڑاس نکالی، جب کہ مسلم لیگ(ن) کے دیگر رہنما اسے متنازع بنانے کے لیے روز کوئی نہ کوئی نیا شوشا چھوڑ دیتے ہیں۔

مگر اس صورتحال کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اس مسئلے نے رائے عامہ کو بری طرح منقسم کردیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ادارہ جاتی تصادم کی راہ ہموار ہو رہی ہے جو سیاسی، سماجی اور انتظامی ڈھانچے کو مزید متاثر کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ ملک کی حکمران اشرافیہ کو اندازہ نہیں ہے کہ موجودہ صورتحال انتشارِ مسلسل (Gradual Chaos)کو جنم دے رہی ہے، جو کسی بھی طور پر ملک کے مستقبل کے لیے سود مند نہیں ہے۔

اس معاملے پر ذرایع ابلاغ سے متوشش شہریوں تک اورطبقہ خواص سے عام آدمی تک دو نقطہ ہائے نظرگردش کررہے ہیں۔ پہلا نقطہ نظر یہ ہے کہ وزیر اعظم نے ٹیم کے سامنے پیش ہوکر بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ وہ قانون کے پابند ہیں۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان کی بحیثیت وزیر اعظم پیشی سے اس عہدے کی تکریم میں فرق آیا ہے۔ وہ ضرور پیش ہوں، مگر پیشی سے قبل عارضی طورپر ہی سہی اپنے عہدے سے مستعفی ہوجانا چاہیے۔

ان دو نقطہ ہائے نظر کے علاوہ دو دیگر نقطہ ہائے نظر بھی ہیں۔ اول، کرپشن ایک قومی سطح کا انتظامی معاملہ ہے، جو سیاسی بدانتظامی کے باعث جنم لیتا ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے مناسب قانون سازی اور قانون پر عملدرآمد کے میکنزم کو فعال بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کام جمہوری معاشروں میں پارلیمان کے ذریعے سرانجام دیا جاتا ہے، مگر ہمارے یہاں سیاسی جماعتوں میں سیاسی عزم و بصیرت کی کمی اور کوتاہ بینی کی وجہ سے پارلیمان کو بااختیاریت حاصل نہیں ہے، بلکہ دانستہ ایک مفلوج ادارہ بناکر رکھ دیا ہے۔ اس عمل میں قصور صرف حزب اقتدار ہی کا نہیں، بلکہ حزب اختلاف بھی مساوی طور پر اس کی ذمے دار ہے۔

دوئم، جب معاملہ عدلیہ تک پہنچ گیا یا پہنچا دیا گیا، تواس کی کارروائی پر اثرانداز ہونے کے بجائے اس کے فیصلے کا انتظارکیا جائے۔JIT صرف ایک تفتیشی ٹیم ہے، جو حقائق اکٹھا کر کے عدالت عظمیٰ کے بنچ کو پیش کردے گئی۔ اس کی رپورٹ کی روشنی میں عدلیہ فیصلہ دے گی۔ جس پر نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کا بھی فریقین کو حق حاصل ہوگا۔ لہٰذا عدلیہ اور اس کی تشکیل کردہ ٹیم کو متنازع بنانے کے بجائے عدالتی فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ البتہ اس دوران اپنی شکایات اور تحفظات کو نوٹ کرتے رہنا چاہیے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح اب ازسر نو آئین کی تشکیل ممکن نہیں ہے، کیونکہ نئے عمرانی معاہدے پر مختلف قومیتوں اور کمیونٹیوںکا متفق ہونا بعید از قیاس ہے۔ اسی طرح پرانے ادارے ختم کر کے ان کی جگہ نئے ادارے بنانے کی خواہش تباہی کے سوا کچھ نہیں دے گی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ نے 70برس کی تاریخ میں اپنے غلط فیصلوں اور اقدامات کی وجہ سے اس قدر بدگمانیاں پیدا کردی ہیں کہ ہر قومیت دوسری قومیت کو، ہر صوبہ دوسرے صوبے کو اور ہر کمیونٹی دوسری کمیونٹی کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ایسی صورتحال میں پرانے اداروں کو ختم کر کے نئے ادارے قائم کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔

اصل میں دنیا کے وہ ممالک، جو طویل عرصے تک فوجی آمریتوں کا شکار رہے ہوں ا ور جہاں سیاسی عمل پر فیوڈل اور قبائلی مائنڈ سیٹ حاوی ہو وہاں جمہوریت کے فروغ اور اچھی حکمرانی کے قیام کی راہ میں بہت زیادہ مشکلات پیش آتی ہیں۔ ایسے معاشروں میں تسلسل کے ساتھ خراب حکمرانی کی وجہ سے نااہلی، اقرباپروری اور کرپشن و بدعنوانی جیسی برائیاں جنم لیتی ہیں، جس کے نتیجے میں پورا ریاستی ڈھانچہ کھوکھلا ہوکر رہ جاتا ہے، پاکستان کا معاملہ بھی یہی ہے۔ یہاں ستر برس کی تاریخ میں تقریباً32 برس فوجی آمریتیں برسراقتدار رہی ہیں۔


اس دوران بھارت کے ساتھ ایک نیم رسمی اور دو رسمی جنگیں بھی ہوئیں۔ ملک بھی دولخت ہوا۔ افغانستان کے قضیے میں ٹانگ اڑانے کے نتیجے میں پرائی آگ نے اپنے گھرکو لپیٹ میں لیا، لیکن سویلین حکومتیں کسی بھی دور میں پالیسی سازی میںassertکرنے میں ناکام رہیں۔ ابتدائی گیارہ برس تہذیبی نرگسیت کی نذر ہوگئے۔ سول بیوروکریسی کو فیصلہ سازی پر حاوی کرنے کی ذمے داری مغربی پاکستان کے سیاستدانوں پرعائد ہوتی ہے، جو بنگالی مڈل کلاس سیاسی قیادت سے خائف تھے۔

بھٹو کا ساڑھے چار برس کا دور ایسا ہے جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ ملک کی سیاسی اور اقتصادی سمت کا تعین کرنے کی جانب پراعتماد پیش رفت تھی ، مگر خود بھٹو مرحوم نے بھی فکری نرگسیت کا شکار ہوکر بعض ایسے فیصلے کیے جن کے دور رس نتائج برآمد ہوئے اور انھیں کسی بھی طور جمہوری فیصلے نہیں کہا جاسکتا۔ جس میں دوسری آئینی ترمیم اور افغان مذہبی رہنماؤں کے سردار داؤد کے خلاف امداد وغیرہ۔ ان اقدام کی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں فکری انتشار، مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کو فروغ ملا۔

اب دوسری طرف آئیے۔ ایوب خان کے دور تک انتظامی ڈھانچے میں نااہلی، بدعنوانی اور کرپشن کی شرح بہت معمولی تھی۔ گو کہ اقربا پروری کا سلسلہ قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد ہی شروع ہوگیا تھا۔ سیاستدانوں کو خریدنے اور انھیں مختلف نوعیت کی رشوتوں کے ذریعے اپنے حق میں استعمال کرنے کی بنیاد ایوب خان نے ڈالی تھی۔ یحییٰ کے دور میں اخلاقی کرپشن بھی شامل ہوگئی ۔ اس دور میں کرپشن اتنا بڑا ایشو اس لیے نہیں تھی، کیونکہ مختلف منصوبے تکمیل پذیر تھے اور مکمل ہوتے نظر آرہے تھے۔ گو کہ کک بیکس اورکمیشن کا سلسلہ روز اول ہی سے شرو ع ہوگیا تھا۔ مگر اس کی شرح بہت کم تھی۔اس لیے عام آدمی زیادہ متفکر نہیں تھا۔

جنرل ضیا کے دور میں کرپشن نے نئی شکلیں بھی اختیار کر لیں۔ ان کے دور میں مالیاتی کے علاوہ اخلاقی، سماجی اور فکری کرپشن کا دور بھی شروع ہوا۔ ایوب خان کے مقابلے میں انھوں نے سیاستدانوں کو زیادہ کرپٹ کیا۔ غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے ایک نئی جماعت تشکیل دلوائی، جس کے اراکین کی اکثریت برادری سسٹم اور پیسے کے بل بوتے پر منتخب ہوکر آئی تھی۔ جنھیں ترقیاتی فنڈز کے نام پر بھاری رشوتیں دی گئیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور کسی حکومت میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ اس فنڈ کو روک سکے۔ حالانکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کا بنیادی کام قانون سازی کرنا ہے۔ ترقیاتی منصوبے بلدیاتی نمایندوں کی ذمے داری ہوا کرتے ہیں مگر اب کوئی بھی رکن قومی یا صوبائی اسمبلی اس فنڈ سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں ہے۔

سول اور دیگر ملازمتوں میں میرٹ کا سلسلہ بھٹو دور میں ختم ہوا۔ مگر جنرل ضیا کے دور میں اسے عروج حاصل ہوا۔ من پسند افراد کی آؤٹ آف ٹرن ترقیاں، ٹیکنوکریٹس کے نام پر من پسند افراد کو بھاری مشاہرے پر ملازمتیں بانٹنا وغیرہ۔ اس صورتحال کے نتیجے میں پبلک سیکٹر کے بعض اہم منفعت بخش ادارے تباہی کی طرف گامزن ہونا شروع ہوئے، جن میں قومی ائیر لائن، اسٹیل مل، ، کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ، واپڈا وغیرہ۔ لیکن یہ ادارے مکمل تباہی کا شکار اس گیارہ سالہ دور میں ہوئے، جو نام نہاد سویلین دور کہلاتا ہے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے دونوں ہی نے اپنے اپنے ادوار میں ان اداروں کو اپنے کارکنوں کی بھرتی کے لیے تختہ مشق بنایا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم لیگ (ن) ہو، یا تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ اداروں کی کارکردگی اور ساکھ کو بہتر بنانا اور انھیں آئین کے تابع لانا پارلیمان کی ذمے داری ہے، مگر پارلیمان اسی وقت اپنی آزادانہ اور بااختیار کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتی ہے، جب اس میں بیٹھے اراکین دوراندیش، صاحب الرائے اور اداروں کی اہمیت و افادیت کا واضح ادراک رکھتے ہوں۔ ان کے پیش نظر آج نہیں بلکہ نسلوں کا مستقبل ہو۔

ایک ایسی ریاست جہاں سیاستدان سیاسی عزم سے عاری، ریاستی منتظمہ بدعنوان، کرپٹ اور غلامانہ ذہنیت کی حامل ہو، دانشور کوتاہ بین اور موقع پرست ہوں اور عوام اپنے حقوق اور فرائض سے نابلد ہوں، وہاںمختلف نوعیت کے فکری انتشار پروان چڑھتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آج کی دنیامیں بہتری انقلاب (Revolution ) سے نہیں بلکہ ارتقائی عمل (Evolution)کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس عمل میں پارلیمان کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔
Load Next Story