شب قدر
اس مبارک شب کا ہر لمحہ سلامتی ہی سلامتی ہے ہر ساعت رحمت ہی رحمت ہے
طلوع فجر تک بشر کا اللہ رب العزت کی عبادت گزاری، گناہوںپر شرمساری اور صدق دل سے گریہ و زاری میں رات گزاری یا اللہ کی شان کریمی کو آمادۂ نوازگی کے لیے رات گزاری، شب بیداری کی باد بہاری کہلاتی ہے۔ برعکس اس کے ریاکاری، ظاہر داری کاموں میں رات گزاری کرنے والے باطن میں غیر حاضر شمار ہوتے ہیں۔ ان کی شب بیداری، شب بربادی کے مترادف ہے۔
وہ بشر جو رہا عمر بھر، حسن نفس، حسن زر اور حسن زن کے ایرے پھیرے میں ایسے کو یہ خیر بھری رات کیا خاک نظر آئے گی۔
آنکھ والا تیرے جوبن کا تماشا دیکھے
دیدۂ کور کو کیا نظر آئے' کیا دیکھے
قیمتی چیز آسانی سے ہاتھ نہیں آتی، اس کے حصول کے لیے بڑی عرق ریزی اور جان سوزی کرنی پڑتی ہے۔ اس کے باوصف۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
اللہ کریم کی نظر کرم پر نظر خاص جمی رہتی ہے، تب جا کر شب قدر ہاتھ آتی ہے اور قسمت جاگ جاتی ہے۔
اُس کے آنے کا انتظار رہا
تمام عمر موسم بہار رہا
شب قدر کے مخفی ہونے میں مزہ اہل دل عشقی جانتے ہیں۔
حسن شب قدر کی طبیعت میں شوخی ہے۔ کبھی ادھر کبھی ادھر گھومتی پھرتی ہے۔ اس کی آنکھ مچولی میں اور تلاش کرنے میں اہل عشق کو بڑی خوشی ہوتی ہے۔
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
عقل شب قدر کی باتوں کے علم سے لاعلم ہے۔
شیخ محی الدین ابن عربیؒ کا بیان ہے کہ میں نے ایک بار پندرہویں شعبان المعظم میں دیکھا اور دوسری بار شعبان المعظم کی انیسویں شب کو پایا۔ نیز رمضان المبارک کی تیرہویں اور اٹھارہویں شب کو بھی دیکھا۔ اگرچہ زیادہ تر شب قدر کو رمضان شریف میں ہی پایا ہے، تاہم میرا قلب عشق کا مشاہدہ ہے کہ یہ پورے سال گھومتی رہتی ہے۔
امام ابو حنیفہؒ کا قول ہے کہ شب قدر رمضان المبارک کی ستائیسویں شب ہے۔ امام شافعیؒ کے نزدیک اکیسویں شب رمضان، شب قدر ہے۔ حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام حنبلؒ کے نزدیک شب قدر، رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں آتی ہے۔
حضرت شیخ ابوالحسن عراقیؒ کا کہنا ہے کہ میں جب سے بالغ ہوا ہوں الحمد للہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے شب قدر کو نہ دیکھا ہو۔
''جب کبھی اتوار یا بدھ کو پہلا روزہ ہوا تو انتیسویں شب، اگر پیر کا پہلا روزہ ہوا تو اکیسویں شب، اگر پہلا روزہ منگل یا جمعہ کا ہوا تو ستائیسویں شب، اگر پہلا روزہ جمعرات کا ہوا تو پچیسویں شب اور اگر پہلا روزہ ہفتہ کا ہوا تو میں نے ستائیسویں شب میں شب قدر کو پایا۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ شب قدر، رمضان المبارک کی ستائیسویں رات ہی کو آتی ہے۔ اپنے بیان کی تائید کے لیے انھوں نے دو دلائل بیان فرمائے ہیں۔ اولاً یہ کہ لیلۃ القدر کا لفظ نو حروف پر مشتمل ہے اور یہ کلمہ سورۂ قدر میں تین مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ اس طرح اگر 3 کو 9 سے ضرب دیں تو حاصل ضرب 27 آتا ہے جو اس مخفی بات کی طرف اشارہ ہے کہ شب قدر ستائیسویں شب کو ہوتی ہے۔ دوسری دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ اس سورۂ مبارکہ میں تیس کلمات یعنی 30 الفاظ ہیں۔ 27 واں لفظ ''ھی'' ہے جس کا مرکز لیلۃ القدر ہے، گویا اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے نیک لوگوں کے لیے یہ اشارہ ہے کہ اگر شب قدر کا نظارہ دیکھنا ہو تو رمضان شریف کی 27 ویں شب کو دیکھو۔'' (تفسیر عزیزی)
زیادہ تر کی آرا ہے کہ رمضان کی 27 ویں شب، شب قدر ہے۔ اس لیے ایمان اور اسلام کا کم ازکم تقاضا یہ ہے کہ ہم جیسے عاصیان مسلمان کم ازکم ایک ہی رات، توحید و رسالت کے اقرار کے احترام پر قربان کردیں اس سے زیادہ نسخۂ آسان اور کیا ہوسکتا ہے۔ شب قدر کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مقصود و مطلوب ہیں۔ قدر کے معنی تقدیر کے لیے ہیں۔ یعنی یہ وہ رات ہے جس میں افراد، قوموں اور ملکوں کی تقدیروں کے بناؤ اور بگاڑ، بھلائی اور تباہی کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ بخلاف اس کے امام زہریؒ کہتے ہیں کہ قدر کے معنی عظمت و شرف کے ہیں یعنی وہ بڑی عظمت والی رات ہے، اس معنی کی تائید سورۃ کے ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔
شب قدر اللہ تعالیٰ کا خاص الخاص کرم ہے کہ یہ عظیم رات صرف اپنے پیارے حبیب کو اور اس کے صدقے میں آپؐ کی امت کو عطا فرمائی اور اس رات کی عبادت کو ایک ہزار رات کی عبادت سے بھی افضل قرار دیا۔ ایک ہزار مہینوں کے 83 سال چار ماہ ہوتے ہیں یعنی جس نے زندگی میں صرف ایک بار بھی اگر شب قدر کی صدق دل سے قدر کرلی تو گویا اس نے 83 سال 4 مہینے سے بھی زیادہ عرصے کی عبادت کا ثواب حاصل کرلیا۔
بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ ''جس نے اس رات میں ایمان اور اخلاص کے ساتھ شب بیداری کرکے عبادت کی اللہ تعالیٰ اس کے سال بھر کے گناہ بخش دیتا ہے۔''
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ ایک بار ماہ رمضان میں آپؐ نے فرمایا ''تمہارے پاس ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا تمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقتاً محروم ہی ہے۔''
حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ ''شب قدر، رمضان کی آخری دس راتوں میں سے ہے، جو شخص ان کے اجر کی طلب میں عبادت کے لیے کھڑا رہا، اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردے گا۔''
حضرت عمر فاروق اعظمؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا جس نے ماہ رمضان کی 27 ویں شب صبح تک زندہ کی (عبادت کی) تو وہ مجھے رمضان کے قیام سے زیادہ عزیز ہے۔''
حضرت عائشہ صدیقہؓ کی روایت ہے کہ جناب رسالت مآبؐ نے فرمایا ''جس نے لیلۃ القدر کو شب بیداری کی اور اس رات میں وہ رکعت پڑھیں اور اللہ سے بخشش مانگی اللہ تعالیٰ اسے معاف کردے گا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی رحمت میں غوطہ لگالیا۔''
نیز حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہؐ سے عرض کی یا رسول اللہؐ اگر مجھ کو شب قدر معلوم ہوجائے تو میں اس حال میں کیا دعا کروں، آپؐ نے فرمایا یہ کہو:
اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی۔
''اے اللہ آپ معاف فرمانے والے ہیں۔ معاف فرماتے ہیں، پس آپ مجھے معاف فرما دیجیے۔''
احمد و ابن ماجہ اور ترمذی نے اس کو روایت کیا ہے۔ پس مستحب ہے کہ اس رات میں اس دعا کی کثرت کرے یہ نہایت جامع دعا ہے۔ حضرت سفیان ثوریؒ کہتے ہیں کہ اس رات دعا کے ساتھ مشغول ہونا زیادہ بہتر ہے بہ نسبت دوسری عبادات کے۔ ابن رجبؓ کہتے ہیں کہ صرف دعا نہیں بلکہ مختلف عبادات جمع کرنا افضل ہے اور یہی قول زیادہ اقرب ہے۔لیلۃ القدر تمام عمر کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے اور اس رات میں لوگوں کے رزق، عمر، امیری، فقیری، عزت، زندگی، موت اور حج کرنے والوں کی تعداد مقرر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس رات میں بہت زیادہ خیر و برکت عطا فرماتے ہیں۔ یہ رات عفو و رحمت، بخشش و رحمت کی رات ہے۔ عام معافی کا اعلان ہے سوائے چار قسم کے بدنصیب لوگوں کے (1)۔ عادی شرابی۔ (2)۔والدین کا نافرمان۔ (3)۔ رشتے داروں سے رشتہ توڑنے والے اور (4)۔ وہ لوگ جو دل میں بغض و کینہ رکھتے ہیں اور ترک تعلق کرتے ہیں۔ شب قدر جیسی بابرکت رات بھی ان بدنصیبوں کی بخشش نہیں کی جا رہی ہے وہ کس قدر بدنصیب ہے۔ ان لوگوں کو صدق دل سے اپنے ان جرم و گناہ سے توبہ کرنی چاہیے اور حقوق العباد کے لحاظ سے سچا وعدہ کرنا چاہیے تاکہ اللہ اپنے فضل و کرم سے ان کو معاف کردے۔
اس مبارک شب کا ہر لمحہ سلامتی ہی سلامتی ہے۔ ہر ساعت رحمت ہی رحمت ہے۔ جس نے شب قدر میں تین مرتبہ پورا کلمہ طیبہ پڑھا تو پہلی مرتبہ پڑھنے سے اللہ تعالیٰ مغفرت فرما دیتا ہے اور دوسری مرتبہ پڑھنے سے اللہ تعالیٰ جہنم سے آزاد فرما دیتا ہے اور تیسری مرتبہ پڑھنے سے داخل جنت فرما دیتا ہے۔
وہ بشر جو رہا عمر بھر، حسن نفس، حسن زر اور حسن زن کے ایرے پھیرے میں ایسے کو یہ خیر بھری رات کیا خاک نظر آئے گی۔
آنکھ والا تیرے جوبن کا تماشا دیکھے
دیدۂ کور کو کیا نظر آئے' کیا دیکھے
قیمتی چیز آسانی سے ہاتھ نہیں آتی، اس کے حصول کے لیے بڑی عرق ریزی اور جان سوزی کرنی پڑتی ہے۔ اس کے باوصف۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
اللہ کریم کی نظر کرم پر نظر خاص جمی رہتی ہے، تب جا کر شب قدر ہاتھ آتی ہے اور قسمت جاگ جاتی ہے۔
اُس کے آنے کا انتظار رہا
تمام عمر موسم بہار رہا
شب قدر کے مخفی ہونے میں مزہ اہل دل عشقی جانتے ہیں۔
حسن شب قدر کی طبیعت میں شوخی ہے۔ کبھی ادھر کبھی ادھر گھومتی پھرتی ہے۔ اس کی آنکھ مچولی میں اور تلاش کرنے میں اہل عشق کو بڑی خوشی ہوتی ہے۔
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
عقل شب قدر کی باتوں کے علم سے لاعلم ہے۔
شیخ محی الدین ابن عربیؒ کا بیان ہے کہ میں نے ایک بار پندرہویں شعبان المعظم میں دیکھا اور دوسری بار شعبان المعظم کی انیسویں شب کو پایا۔ نیز رمضان المبارک کی تیرہویں اور اٹھارہویں شب کو بھی دیکھا۔ اگرچہ زیادہ تر شب قدر کو رمضان شریف میں ہی پایا ہے، تاہم میرا قلب عشق کا مشاہدہ ہے کہ یہ پورے سال گھومتی رہتی ہے۔
امام ابو حنیفہؒ کا قول ہے کہ شب قدر رمضان المبارک کی ستائیسویں شب ہے۔ امام شافعیؒ کے نزدیک اکیسویں شب رمضان، شب قدر ہے۔ حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام حنبلؒ کے نزدیک شب قدر، رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں آتی ہے۔
حضرت شیخ ابوالحسن عراقیؒ کا کہنا ہے کہ میں جب سے بالغ ہوا ہوں الحمد للہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے شب قدر کو نہ دیکھا ہو۔
''جب کبھی اتوار یا بدھ کو پہلا روزہ ہوا تو انتیسویں شب، اگر پیر کا پہلا روزہ ہوا تو اکیسویں شب، اگر پہلا روزہ منگل یا جمعہ کا ہوا تو ستائیسویں شب، اگر پہلا روزہ جمعرات کا ہوا تو پچیسویں شب اور اگر پہلا روزہ ہفتہ کا ہوا تو میں نے ستائیسویں شب میں شب قدر کو پایا۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ شب قدر، رمضان المبارک کی ستائیسویں رات ہی کو آتی ہے۔ اپنے بیان کی تائید کے لیے انھوں نے دو دلائل بیان فرمائے ہیں۔ اولاً یہ کہ لیلۃ القدر کا لفظ نو حروف پر مشتمل ہے اور یہ کلمہ سورۂ قدر میں تین مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ اس طرح اگر 3 کو 9 سے ضرب دیں تو حاصل ضرب 27 آتا ہے جو اس مخفی بات کی طرف اشارہ ہے کہ شب قدر ستائیسویں شب کو ہوتی ہے۔ دوسری دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ اس سورۂ مبارکہ میں تیس کلمات یعنی 30 الفاظ ہیں۔ 27 واں لفظ ''ھی'' ہے جس کا مرکز لیلۃ القدر ہے، گویا اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے نیک لوگوں کے لیے یہ اشارہ ہے کہ اگر شب قدر کا نظارہ دیکھنا ہو تو رمضان شریف کی 27 ویں شب کو دیکھو۔'' (تفسیر عزیزی)
زیادہ تر کی آرا ہے کہ رمضان کی 27 ویں شب، شب قدر ہے۔ اس لیے ایمان اور اسلام کا کم ازکم تقاضا یہ ہے کہ ہم جیسے عاصیان مسلمان کم ازکم ایک ہی رات، توحید و رسالت کے اقرار کے احترام پر قربان کردیں اس سے زیادہ نسخۂ آسان اور کیا ہوسکتا ہے۔ شب قدر کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مقصود و مطلوب ہیں۔ قدر کے معنی تقدیر کے لیے ہیں۔ یعنی یہ وہ رات ہے جس میں افراد، قوموں اور ملکوں کی تقدیروں کے بناؤ اور بگاڑ، بھلائی اور تباہی کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ بخلاف اس کے امام زہریؒ کہتے ہیں کہ قدر کے معنی عظمت و شرف کے ہیں یعنی وہ بڑی عظمت والی رات ہے، اس معنی کی تائید سورۃ کے ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔
شب قدر اللہ تعالیٰ کا خاص الخاص کرم ہے کہ یہ عظیم رات صرف اپنے پیارے حبیب کو اور اس کے صدقے میں آپؐ کی امت کو عطا فرمائی اور اس رات کی عبادت کو ایک ہزار رات کی عبادت سے بھی افضل قرار دیا۔ ایک ہزار مہینوں کے 83 سال چار ماہ ہوتے ہیں یعنی جس نے زندگی میں صرف ایک بار بھی اگر شب قدر کی صدق دل سے قدر کرلی تو گویا اس نے 83 سال 4 مہینے سے بھی زیادہ عرصے کی عبادت کا ثواب حاصل کرلیا۔
بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ ''جس نے اس رات میں ایمان اور اخلاص کے ساتھ شب بیداری کرکے عبادت کی اللہ تعالیٰ اس کے سال بھر کے گناہ بخش دیتا ہے۔''
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ ایک بار ماہ رمضان میں آپؐ نے فرمایا ''تمہارے پاس ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا تمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقتاً محروم ہی ہے۔''
حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ ''شب قدر، رمضان کی آخری دس راتوں میں سے ہے، جو شخص ان کے اجر کی طلب میں عبادت کے لیے کھڑا رہا، اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردے گا۔''
حضرت عمر فاروق اعظمؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا جس نے ماہ رمضان کی 27 ویں شب صبح تک زندہ کی (عبادت کی) تو وہ مجھے رمضان کے قیام سے زیادہ عزیز ہے۔''
حضرت عائشہ صدیقہؓ کی روایت ہے کہ جناب رسالت مآبؐ نے فرمایا ''جس نے لیلۃ القدر کو شب بیداری کی اور اس رات میں وہ رکعت پڑھیں اور اللہ سے بخشش مانگی اللہ تعالیٰ اسے معاف کردے گا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی رحمت میں غوطہ لگالیا۔''
نیز حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہؐ سے عرض کی یا رسول اللہؐ اگر مجھ کو شب قدر معلوم ہوجائے تو میں اس حال میں کیا دعا کروں، آپؐ نے فرمایا یہ کہو:
اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی۔
''اے اللہ آپ معاف فرمانے والے ہیں۔ معاف فرماتے ہیں، پس آپ مجھے معاف فرما دیجیے۔''
احمد و ابن ماجہ اور ترمذی نے اس کو روایت کیا ہے۔ پس مستحب ہے کہ اس رات میں اس دعا کی کثرت کرے یہ نہایت جامع دعا ہے۔ حضرت سفیان ثوریؒ کہتے ہیں کہ اس رات دعا کے ساتھ مشغول ہونا زیادہ بہتر ہے بہ نسبت دوسری عبادات کے۔ ابن رجبؓ کہتے ہیں کہ صرف دعا نہیں بلکہ مختلف عبادات جمع کرنا افضل ہے اور یہی قول زیادہ اقرب ہے۔لیلۃ القدر تمام عمر کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے اور اس رات میں لوگوں کے رزق، عمر، امیری، فقیری، عزت، زندگی، موت اور حج کرنے والوں کی تعداد مقرر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس رات میں بہت زیادہ خیر و برکت عطا فرماتے ہیں۔ یہ رات عفو و رحمت، بخشش و رحمت کی رات ہے۔ عام معافی کا اعلان ہے سوائے چار قسم کے بدنصیب لوگوں کے (1)۔ عادی شرابی۔ (2)۔والدین کا نافرمان۔ (3)۔ رشتے داروں سے رشتہ توڑنے والے اور (4)۔ وہ لوگ جو دل میں بغض و کینہ رکھتے ہیں اور ترک تعلق کرتے ہیں۔ شب قدر جیسی بابرکت رات بھی ان بدنصیبوں کی بخشش نہیں کی جا رہی ہے وہ کس قدر بدنصیب ہے۔ ان لوگوں کو صدق دل سے اپنے ان جرم و گناہ سے توبہ کرنی چاہیے اور حقوق العباد کے لحاظ سے سچا وعدہ کرنا چاہیے تاکہ اللہ اپنے فضل و کرم سے ان کو معاف کردے۔
اس مبارک شب کا ہر لمحہ سلامتی ہی سلامتی ہے۔ ہر ساعت رحمت ہی رحمت ہے۔ جس نے شب قدر میں تین مرتبہ پورا کلمہ طیبہ پڑھا تو پہلی مرتبہ پڑھنے سے اللہ تعالیٰ مغفرت فرما دیتا ہے اور دوسری مرتبہ پڑھنے سے اللہ تعالیٰ جہنم سے آزاد فرما دیتا ہے اور تیسری مرتبہ پڑھنے سے داخل جنت فرما دیتا ہے۔