خدمت خلق یا خدمت ذات
دنیا میں ہزاروں خیراتی ادارے اور لاکھوں انسان بیماری، بھوک، بیروزگاری اور بے امنی کے خلاف بر سر پیکار ہیں
پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک مفلس خاتون کی تصویرکا بہت چرچا تھا، جسے کسی تنظیم کی جانب سے راشن کا ایک تھیلا دیا جا رہا تھا۔ خاتون کے آس پاس کھڑے لگ بھگ آٹھ حضرات خیرات کی پوٹلی پر اپنا اپنا ہاتھ رکھ کر یہ جتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس سخاوت میں ہم سب کا حصہ ہے۔ تصویر میں مفلس خاتون نہ جانے غربت سے اپنا منہ چھپا رہی تھے یا خدمت خلق کے ان متوالوں کی دی ہوئی اُس خیرات کی وجہ سے شرمندہ ہورہی تھی جو سوشل میڈیا پر اُسے کروڑوں لوگوں کے سامنے تماشا بنا رہی تھی۔ خیرات کا تصورکوئی نیا نہیں اور نہ ہی اسے کسی مخصوص مذہب، بادشاہ، شخصیت یا عقیدے سے جوڑا جا سکتا ہے۔ ایسا کوئی بھی مذہب نہیں جو بھوکوں کو کھانا کھلانے، مسافروں کو شب بسری کی سہولت پہنچانے، کمزوروں پر ترس اور بوڑھوں کو سہارا دینے کی تلقین نہ کرتا ہو، لیکن کچھ کمزور انسان خدمت خلق کو اپنی ذاتی تشہیر کا ذریعہ بنانے کے لیے بھی خیراتی اور سماجی ادارے بناتے ہیں۔
دنیا میں ہزاروں خیراتی ادارے اور لاکھوں انسان بیماری، بھوک، بیروزگاری اور بے امنی کے خلاف بر سر پیکار ہیں، مگر ان میںزیادہ تر اپنی ذاتی تشہیر اور خود نمائی سے کوسوں دور ہیں۔ یورپ اور امریکا یا دنیا کے دوسرے حصوں کو تو چھوڑیے، برصغیر میںہی مختلف مذاہب اور نظریات سے تعلق رکھنے والے ایسے لاکھوں انسان آباد ہیں جو خدمت خلق کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں اور اپنے مذہبی تہواروں پر ناداراور مفلس افراد کی دل کھول کر امداد کرتے ہیں، لیکن کسی کو اس کی کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔
بدھ مت میں گوشہ نشینوں، سادھوؤں، ناداروں، مسافروں، بے گھروں اور بھکاریوں کی امداد پرخاص زور دیاگیا ہے۔ اس مذہب کے ماننے والوں کی چوکھٹ پر اگرکوئی بھوکا شخص آکر صدا لگائے تو اہل خانہ اُس کو پیٹ بھر کے کھانا کھلانا اپنے لیے سعادت سے سمجھتے ہیں۔ سکھ مذہب میں مفلس اور نادار افراد کے لیے گردواروں میں سورج طلوع ہونے سے قبل شروع ہونے والا دستر خوان رات گئے تک بچھا رہتا ہے جس میں شریک ہونے والے کسی فرد سے یہ سوال نہیں کیا جاتا کہ اُس کا تعلق کس مذہب، فرقے یا قوم سے ہے۔امریکا اور یورپ میں قائم ایسے گردواروں میں ایک دن کے دوران نادار اور بھوکے افراد کو کھانا کھلانے پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں اور جہاں زیادہ لوگ کھانا کھانے کے لیے آئیں اس جگہ کو زیادہ متبرک سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح یہودی اور عیسائی بھی اپنے مذاہب کی تعلیمات کے احترام میں اپنے اپنے انداز سے نادار اور مفلس افراد کی امداد کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
اسلام میں مفلس و نادار افرادکی امداد پر خاص توجہ دی گئی اور اس مذہب میں خیرات کا تصور دوسرے مذاہب سے زیادہ مضبوط اور وسیع ہے۔اس لیے کہ اسلام میں زکوۃ کا نظام رائج ہے جس کے تحت ہر شخص اپنے پاس موجود،اناج، سونے چاندی، روپے پیسے اور بھیڑ بکریوں کے حساب سے نادار افرادکی امداد کا پابند ہے۔ اسلام کے اس رکن پر اگر صحیح طرح سے عمل ہو جائے تو معاشرے میں کوئی ایک فرد بھی ہمیں نادار اور بھوکا دکھائی نہ دے، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ خلق خدا کے نام پر لی جانے والی اس امداد کو انتہائی بے دردی سے ضایع کیا جاتا ہے یا وہ ایسے افراد کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے جواس کی اہمیت سے ہی ناواقف ہوتے ہیں۔
اس بات سے کون انکارکر سکتا ہے کہ ماضی میں دی جانے والی امداد اورخیرات کو غریب اور محتاج افراد کی بہتری کے بجائے دہشتگردی کے لیے استعمال کیا گیا اور اس کے نتیجے میں ہمیں ساری دنیا کے سامنے رسوا ہونا پڑا۔ سرکاری اداروں کی طرف سے مستحق اداروں کو زکوۃ دینے کی ترغیب کے بعد دیہی اور شہری سطح پر دہشتگردی اور جرائم میں کافی حد تک کمی آئی ہے، مگر سماجی اداروں کے کچھ کرتا دھرتا افراد غربت ، بھوک اور بیماری کے نام پر اب بھی انتہائی تجارتی انداز میں خدمات کی طویل فہرست ہاتھوں میںلہرا کر لوگوں سے امداد کی اپیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ غریب اور مستحق افراد کے حق پر ڈاکہ ڈالنا بھی دہشتگردی سے کم جرم نہیں۔ اس لیے کہ اگر کوئی شخص مفلس اور نادا رافراد کی امداد کا بہانہ بنا کر اپنی ذات اور ادارے کی تشہیر کر رہا ہے تو نہ صرف اپنے ساتھ دھوکا کررہاہے بلکہ اس مذہب کی بھی توہین کر رہا ہے جو یہ کہتا ہے کہ اگر کسی کو ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو بھی اس کی خبر نہ ہو۔
عبدالستار ایدھی نے مجھے بتایا تھا کہ ایک دفعہ وہ بھیک مانگنے کی مہم پر نکلے اور عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے قریب انتہائی مہنگے اور پر آسائش علاقے میں جا کر سڑک کے کنارے ڈیرہ ڈال دیا ۔سب لوگ حسب توفیق بھیک دے رہے تھے کہ یکایک ایک شخص آیا اور اس نے میرے ہاتھوں میں کچھ کاغذات اور چابیوں کا گچھا تھما دیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کس چیز کے کاغذات ہیں تو اس نے ایک بہت بڑی اور مہنگی رہائشی عمارت کی طرف اشارہ کر کے مجھے بتایا کہ یہ اس عمارت کے کاغذات ہیں جو میں آپ کو بھیک میں دے رہا ہوں۔ آج کل اس عمارت میں بلقیس ایدھی نے بے سہارا لڑکیوں کی شادی اور جہیزکے انتظامات کر رکھے ہیں جہاںان کی رہائش کا انتظام بھی موجود ہے۔ اس بات سے خوب اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی سماجی یا خیراتی کام کرنے کے لیے آپ چاہے کئی برسوں تک اپنے ادارے اور شخصیت کی تشہیر کرتے رہیں تب تک لوگ آپ پر اعتبار نہیں کریں گے جب تک آپ مدر ٹریسا اور ایدھی کی طرح خود بھی ویسی زندگی بسر نہیںکر تے جیسی ملک کے کروڑوں مفلس و نادارافراد بسر کر رہے ہیں۔
اگر آپ کو اپنے کام سے عقیدت ہے تو آپ کو وہی کھانا کھانا پڑے گا جو آپ بے سہارا اور بھوکے افراد کے لیے تیار کرواتے ہیں، وہی لباس پہننا ہوگا جس پر گاڑیوں کے نیچے کچلے انسانوں کے خون کے دھبے لگنے کا ڈر نہ ہو اورایسی لاوارث لاشوں کو تدفین سے پہلے خود ہی غسل دینا ہو گا جن پر چلتے ہوئے کیڑوں کی وجہ سے کوئی ان کے نزدیک بھی نہ جاتا ہو ۔ یاد رہے کہ جو لوگ خدمت خلق اور اپنی ذات کی خدمت کے فرق سے واقف نہیں ان کے بنائے ہوئے سماجی اور خیراتی ادارے ان کی زندگی میں ہی ختم ہو جاتے ہیں اور جو اس فرق سے واقف ہوتے ہیں ان کے مرنے کے بعد بھی لوگ ان کی خدمات کا احترام و اعتراف کرتے ہیں۔