ہائے کیسی کیسی عیدی

عیدی کی اقسام اور صورتوں پر تحقیق کرتے چلے جائیے، نئی سے نئی چیز اپنی جزئیات سمیت سامنے آتی جائے گی۔

بچپن میں تو ہم صرف ایک ہی قسم کی عیدی سے واقف تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معلوم ہوا کہ عید کے موقع پر ’’خوشی سے‘‘ ایک دوسرے سے ’’لی اور دی جانے والی‘‘ ہر چیز کو ’’عیدی‘‘ کہا جاتا ہے۔

اپنی زندگی میں ملنے والی پہلی عیدی جو مجھے یاد ہے، وہ ایک روپیہ تھی۔ لیکن تب وہ ایک روپیہ بھی کسی خزانے سے کم نہیں تھا کیونکہ حیات بھائی کی دکان سے چار آنے میں ''کرش کولا'' کی پوری بوتل مل جایا کرتی تھی جبکہ پرانے وقتوں کا پیزا یعنی عثمان آباد کا مشہورِ زمانہ ''الیاس کا انڈا'' (بھولو کے تندور سے دو روٹیوں سمیت) اُن دنوں صرف آٹھ آنے میں آجایا کرتا تھا۔

پھر دھیرے دھیرے عیدی کی مالیت بڑھتی گئی اور قدر کم ہوتی چلی گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ جتنی عیاشی اُن دنوں ایک روپے کے ایک نوٹ میں ہوجاتی تھی، اُتنی تو آج ایک ہزار روپے میں بھی ممکن نہیں۔ اوہ! معاف کیجیے گا قارئین! میرا مقصد بھانت بھانت کی عیدیوں کے بارے میں بتانا تھا لیکن عثمان آباد، لیاری کا یہ ناسٹلجیا نہ جانے کہاں سے کہاں لے گیا۔

بچپن میں تو ہم صرف ایک ہی قسم کی عیدی سے واقف تھے، کرارا کرارا نوٹ۔ لیکن وقت گزرنے، عمر بڑھنے اور دنیا داری کی سمجھ بوجھ میں اضافے کے ساتھ ساتھ معلوم ہوا کہ عید کے موقع پر ''خوشی سے'' ایک دوسرے سے ''لی اور دی جانے والی'' ہر چیز کو ''عیدی'' کہا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عام طور پر یہ خوشی صرف یک طرفہ یعنی وصول کنندہ کے لیے ہی ہوتی ہے اور دینے والا بے چارہ خوش ہونے کی ایکٹنگ ہی کرتا رہ جاتا ہے۔ اب یہ آپ کی خداداد صلاحیتوں پر ہے کہ آپ کتنی اچھی ایکٹنگ کرسکتے ہیں اور دنیا کو کتنے خوش دکھائی دے سکتے ہیں۔

عیدی کی معروف و مقبول شکل کے علاوہ بھی بہت سی صورتیں ہیں جیسے کہ نئی نئی شادی شدہ خواتین کے میکے سے آنے والے جوڑے، چوڑیاں، ابٹن، مہندی اور سویاں وغیرہ بھی مجموعی طور پر ان کی عیدی ہی کہلائی جاتی ہیں۔ بقول شاعرہ (موسیقی کے ساتھ):
میرے میہر سے آج مجھے آیا، میرے میہر سے آج مجھے آیا
یہ پیلا جوڑا، یہ پیلا جوڑا، یہ ہری ہری چوڑیاں

اسی طرح شادی سے پہلے لڑکے والوں کی طرف سے اپنی ''ہونے والی بہو'' کے لیے زرق برق لباس، خوشبو، سینڈل اور مہندی وغیرہ کا خصوصی ڈبہ بھی عیدی ہی کے ذیل میں آتا ہے۔ خواتین سے معذرت لیکن ہم نے تو آج تک ''منگنی یافتہ'' لڑکوں کے لیے ''متوقع سسرال'' سے بھیجی جانے والی عیدی میں ایک عدد سفید بنیان کے سوا کوئی دوسری نمایاں اور قابلِ ذکر چیز نہیں دیکھی۔

ایک عیدی وہ بھی ہوتی ہے جو عید کے دنوں میں گلی محلے کے چھٹے ہوئے چھاکٹے (یعنی غنڈے اور بدمعاش) راہ چلتے ہوؤں سے بزورِ اسلحہ اور برضائے پولیس، دن کی روشنی میں لوٹ لیتے ہیں جب کہ اِس میں نقدی سے لے کر موبائل فون، موٹر سائیکل اور گاڑی تک شامل ہوسکتی ہیں۔ یعنی اس ''عیدی بالجبر'' کا انحصار لوٹنے والے کے پولیس میں اثر و رسوخ اور لٹنے والے کی ''اوقات'' ... اوہ! معاف کیجیے گا... مالی حیثیت پر ہوتا ہے۔

اِس قسم کی عیدی دینے کے بعد ہر شریف شہری کو چاہیے کہ ہرگز تھانے کا رُخ نہ کرے کیونکہ ایسی صورت میں اسے تھانے میں تعینات پولیس اہلکاروں کو بھی درجہ بدرجہ عیدی دینا پڑے گی ورنہ ایف آئی آر درج ہونا تو درکنار، سائل کا اپنا نام ہی کسی کالعدم تنظیم کے انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہوسکتا ہے... سارے ثبوتوں اور گواہوں سمیت۔

تو اے میرے عزیز ہم وطنو! عید کے دنوں میں اگر کوئی غنڈہ بدمعاش تمہیں پستول دکھا کر نقد رقم یا موبائل وغیرہ کا مطالبہ کرے تو اسے خوشی خوشی پورا کردیا کرو کیونکہ چھوٹی بُرائی بہتر ہے بڑی بُرائی سے... بلکہ بہت بڑے وبال سے۔


یوں لگتا ہے کہ عید والے دن ہر کوئی خود کو عیدی کا حقدار سمجھنے لگتا ہے، یا پھر یوں کہیے کہ ہر ایرا غیرا عید والے دن ''حق جتاتے ہوئے'' عیدی وصول کرتا ہے... چاہے وہ حد درجہ ناحق ہی کیوں نہ ہو۔

مثلاً عید کے روز وقفے وقفے سے درجن بھر افراد دروازے پر آن دھمکتے ہیں جن میں سے ہر کوئی دعویدار ہوتا ہے کہ اُسی نے پورے ماہِ رمضان کے دوران سحری میں ڈھول بجا بجا کر آپ کو جگایا تھا اور آپ کے روزے اُسی کی خدمات کے باعث قضا ہونے سے بچ گئے تھے، اِس لیے آپ کا فرض بنتا ہے کہ اُسے اپنی خوشی سے عیدی عنایت کیجیے۔ یہ الگ بات ہے کہ شاید اِن سب میں سے کسی ایک کی شکل بھی آپ نے رمضان کے ماہِ مقدس میں ایک دن بھی نہ دیکھی ہو اور نہ اُن میں سے کسی کی آواز ہی سنی ہو۔

اِسی طرح محلے کا چوکیدار بے شک رات بھر ''جاگتے رہو'' کی صدائیں لگانے کا فریضہ انجام نہ دیتا ہو اور جمعدار سارا سال کچرا اٹھانے کی زحمت گوارہ نہ کرتا ہو لیکن عید کے روز وہ دونوں اپنے ناکردہ اعمال کی ''جزائے نقد بصورت عیدی'' وصول کرنے کے لیے اِس انداز میں آپ کے سر پر سوار ہوجائیں گے جیسے آپ کو ناکردہ گناہوں کی سزا دینے پر مامور من اللہ ہوں۔

ایک زمانہ تھا جب عید کے روز ڈاکیہ بھی عیدی وصولنے آیا کرتا تھا لیکن افسوس کہ ٹیکنالوجی کی ترقی اور اِس سے بھی بڑھ کر محکمہ ڈاک کی اپنی نااہلی اور عاقبت نااندیشی کے نتیجے میں ڈاکیوں کی جگہ کوریئر والوں نے لے لی ہے۔

عید کے دنوں میں اگر اشیائے صرف اور خوردنی سامان کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرنے لگیں تو احتجاج کی ضرورت نہیں کیونکہ اِس ناگہانی اور غیرقانونی مہنگائی کا مقصد صارفین سے عیدی وصول کرنا ہوتا ہے۔ ارے بھئی جب آپ اپنے گھر کے بچوں کو خوشی خوشی عیدی دیتے ہیں تو دکانداروں کا بھی تو حق بنتا ہے کہ آپ سے عیدی لیں۔ بھلا اِس میں بُرا ماننے یا ناراض ہونے کی کیا ضرورت ہے؟

ٹھیک اِسی طرز پر رکشہ اور ٹیکسی والے بھی کرایہ دگنا کردیتے ہیں کیونکہ مسافروں سے عیدی وصول کرنا اُن کا بھی تو حق ہے! یہ الگ بات ہے کہ دگنا کرایہ دے کر رکشہ ٹیکسی میں سفر کرنے والا سفر کے ساتھ ساتھ suffer بھی کررہا ہوتا ہے اور یوں، نہ چاہتے ہوئے بھی، ایک ٹکٹ میں دو مزے لینے پر مجبور ہوتا ہے۔ چنگ چی، بس اور منی بس والے نسبتاً کم خرچ واقع ہوئے ہیں کیونکہ وہ عام طور پر ''ہماری بھی تو عیدی بنتی ہے صاب'' کہتے ہوئے آپ کو چند روپے کا کھُلاّ واپس کرنے سے معذرت کرلیتے ہیں۔ یعنی عیدی وصول کرنے سے وہ بھی باز نہیں آتے۔

غرض کہ 'جتنا چھانو، اُتنا کرکرا' والے محاورے کے مصداق، عیدی کی اقسام اور صورتوں پر تحقیق کرتے چلے جائیے، نئی سے نئی چیز اپنی جزئیات سمیت سامنے آتی جائے گی۔ ممکنہ طور پر یہ مواد کسی پی ایچ ڈی تھیسس سے کچھ کم نہ ہوگا۔

آخر میں اتنا ضرور کہیں گے کہ یہ تحریر صرف تفریحِ طبع کے لیے لکھی گئی ہے اور اِس کے مندرجات کو سنجیدگی سے لینے والا شخص نتائج و عواقب کا خود ذمہ دار ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔
Load Next Story