ایمرجنسی کو کبھی نہ بھولیں
ایمرجنسی کے دوران مسز گاندھی اور ان کے بیٹے آنجہانی سنجے گاندھی نے جو زیادتیاں کیں وہ اب تاریخ کا حصہ ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ بھارت کے آیندہ صدر کے انتخاب کے عمل میں قوم نے بیالیس برس قبل عاید کی جانے والی ایمرجنسی کو بھلا دیا ہے، اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ افراد کو بغیر مقدمہ چلائے قید کر لیا گیا تھا۔ میڈیا، جس کا کام تھا کہ وہ اصل صورت حال کو بیان کرے مگر وہ اپنا منہ بند کیے بیٹھا رہا۔ سرکاری ملازمین بڑی تابعداری سے مسز اندراگاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی کی طرف سے موصول ہونے والے احکامات پر عمل کرتے رہے حالانکہ سنجے گاندھی آئین سے ماورا اتھارٹی تھا جو اپنی والدہ کے نام پر ملک پر حکومت چلا رہا تھا۔
عدلیہ نے بھی اپنی گردن بچا لی اور پارلیمنٹ کو بنیادی حقوق معطل کرنے کی اجازت دیدی حالانکہ ملکی آئین میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ حتیٰ کہ ایمرجنسی کے نفاذ کو بھی جائز قرار دیدیا گیا۔ صرف ایک جج، جسٹس ایچ آر کھنہ نے اس فیصلے سے اختلاف کیا لیکن اس محترم جج کو معطل کر دیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت ختم ہونے کے بعد اندرا گاندھی کو ملک نے سزا دی جب انھیں اقتدار سے الگ کر دیا گیا۔ اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی، اندرا کے بیٹے سنجے گاندھی کی قسمت کا بھی یہی انجام ہوا۔
جس بات کی مجھے حیرت ہے، وہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے عدلیہ کے اندر گاندھی کے حق میں فیصلے کے خلاف کوئی قرار داد کیوں پیش نہیں کی اور نہ ہی اعتراضات کا کوئی جواب دیا۔ اس سے عدلیہ کے نام پر ضرور بٹہ لگ گیا ویسے تو اب بھی کچھ خاص دیر نہیں ہوئی، سپریم کورٹ کے بنچ میں لبرل جج حضرات موجود ہیں وہ اب بھی ایک قرار داد منظور کر سکتے ہیں کہ ان کا پیشرو بنچ ایمرجنسی کی تصدیق کرنے میں غلطی کا شکار ہو گیا تھا۔ کم از کم وزیراعظم نریندر مودی کی کابینہ مرکز کی طرف سے ان زیادتیوں کے خلاف معافی مانگ سکتی ہے جو ایمرجنسی کے دوران سرزد ہوئیں۔ اس زمانے کے اٹارنی جنرل نارائن ڈی نے عدالت میں بحث بھی کی تھی کہ ایمرجنجسی کے دوران لوگوں کے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا گیا تھا۔
دہلی کے وکلا میں اس قدر خوف پھیلا ہوا تھا کہ ممبئی کے وکیل سولی سہراب جی اور دہلی کے وکیل وی ایم تھرکنڈے نے میری گرفتاری پر میری بیوی کی طرف سے حبس بے جا کی پٹیشن کے حق میں دلائل دیے مگر اس کے باوجود مجھے تین ماہ جیل میں بسر کرنا پڑے۔ دو ججوں جسٹس سنگھارا جی اور جسٹس آر این اگر وال جنھوں نے میرے حق میں فیصلہ دیا انھیں سزا کا نشانہ بنایا گیا۔ پہلے والے کو گوہاٹی تبدیل کر دیا گیا جہاں پر لوگ آج بھی ان کی غیرجانبداری کی تعریف کرتے ہیں، جب کہ دوسرے جج کی تنزلی کرتے ہوئے انھیں سیشن کورٹ میں بھیج دیا گیا، لیکن اس کے باوجود ان دونوں نے حق اور سچ کا ساتھ نہ چھوڑا اور آزادانہ طور پر اپنی ذمے داریاں نبھاتے رہے۔ غالباً حالیہ برسوں میں جج حضرات پر دباؤ میں کمی آئی ہے کیوں کہ میڈیا اب بہت زیادہ چوکس ہو گیا ہے لیکن بنچوں کی تعیناتی میں آج بھی بڑی دھاندلیاں کی جا رہی ہیں۔
ان کا تقرر حکمرانوں کی مرضی اور خواہشات کے مطابق کیا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ کانگریس کی حکومت میں شروع ہوا تھا جو اب بی جے پی کی حکومت میں بھی بدستور جاری ہے۔ مجھے یاد ہے یہ عمل اس وقت شروع ہوا جب اندرا گاندھی نے تین ججوں پر اپنے پسند کے جج کو فوقیت دے کر اسے چیف جسٹس مقرر کر دیا۔ یہ تین جج تھے: جسٹس جے ایم شیلاٹ' کے ایس ہیج اور اے ایس گروور۔ یہ تینوں سینئر تھے مگر اندرا نے ان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے جسٹس اے این رے کو چیف جسٹس بنا دیا۔ تاہم عدالتی فیصلے کے مطابق مسز گاندھی کوپارلیمنٹ کی نشست سے نااہل قرار دیکر بر طرف کر دیا گیا اور انتخابی دھاندلی کے الزام میں ان پر چھ سال تک انتخاب میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی گئی۔ بجائے اس کے کہ وہ اس عدالتی فیصلے کو احترام کے ساتھ تسلیم کر لیتیں انھوں نے ملک پرایمرجنسی نافذ کر دی اور انتخابی قوانین میں از خود ہی ترمیم کر دی۔
ایمرجنسی کے دوران مسز گاندھی اور ان کے بیٹے آنجہانی سنجے گاندھی نے جو زیادتیاں کیں وہ اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ لیکن جو لوگ اس دوران متاثر ہوئے انھیں اب تک وہ سب یاد ہے سوائے ان کے جنھوں نے ایمرجنسی کی حمایت کی۔ مسز گاندھی کی شکست کے بعد جنتا پارٹی اقتدار میں آئی جس نے آئین میں ایسی ترامیم کر دیں جن کے پیش نظر ملک پر دوبارہ ایمرجنسی کا نفاذ نا ممکن بنا دیا گیا۔ جسٹس کھنہ نے قرار دیا کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں ہر گز تبدیلی نہیں کی جانی چاہییاور نہ ہی کوئی حکمران عدلیہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرسکے۔
یہ بات البتہ طے ہے کہ عدلیہ کی آزادی کا اصل انحصار ججوں کی کوالٹی پر ہے۔ امریکا میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے وہاں پر سپریم کورٹ ری پبلکن اور ڈیموکریٹک ججوں میں منقسم ہے اور چونکہ وہاں سپریم کورٹ کے جج کا تقرر عمر بھر کے لیے کیا جانا ہے لہذا جج حضرات اپنی پارٹی وابستگیاں چھوڑ کر آزاد اور غیرجانبدار ہو جاتے ہیں۔
بھارت میں جب حکومت ججوں کا تقرر کرتی تھی تو ہمارے جج بہترین تھے لیکن اب پارٹی سیاست بیچ میں شامل ہو گئی ہے۔ ہائی کورٹ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پارٹی نے بہترین ججوں کا تقرر نہیں کیا حتی کہ سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی کاملاً غیر جانبدار نہیں کہا جا سکتا البتہ ماضی کے بعض واقعات قابل تحسین ہیں مثلاً سابقہ اٹارنی جنرل گوپال سبرامینئم کی سپریم کورٹ میں تقرری کو مودی حکومت نے روک دیا۔ سبرامینئم کا کہنا تھا کہ ان کی آزاد روی حکومت کو پسند نہیں کیوں کہ وہ آنکھیں بند کر کے حکومت کی پالیسی کی حمایت نہیں کرتے۔ سبرامینئم نے بعد ازاں از خود اپنی امیدواری واپس لے لی۔
حقیقت یہ ہے کہ گجرات پولیس پر سہراب الدین کو جعلی مقابلے میں قتل کرنے کا مقدمہ سبرامینئم نے لے لیا تھا اور انھوں نے اس مقدمہ میں غلط تفتیش پر مقدمہ سی بی آئی کو ریفر کر دیا۔ گجرات پولیس کے خلاف نا حق قتل کا مقدمہ انھی کی کوششوں سے درج کیا گیا۔ اس مقدے کا کلیدی گواہ تلسی رام پر اسرار حالات میں قتلکر دیا گیا اس وجہ سے سبرامنیئم نے مقدمہ سی بی آئی یعنی مرکزی تحقیقاتی ادارے کو ریفر کرایا۔ سبرا منیئم نے تسلیم کیا کہ انھی کی ہدایت پر مقدمے کے ملزم امیت شا کے گجرات میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی گئی جو اب بی جے پی کے صدر ہیں۔
بھارتی میڈیا کا اس دور کا کردار بھی افسوسناک تھا جنھوں نے میری گرفتاری کے خلاف کوئی احتجاج نہ کیا کیوں کہ مسز گاندھی نے صحافیوں کے دل میںبھی خوف بٹھا دیا تھا۔
(ترجمہ:مظہر منہاس)